کیا انسان آزاد پیدا ہوا ہے آخری حصہ

انسان قدرتی سسٹم کے تحت اپنی نسل کو آگے منتقل کرتا ہے۔

k_goraya@yahoo.com

BAGHDAD:
انسان قدرتی سسٹم کے تحت اپنی نسل کو آگے منتقل کرتا ہے۔ اس لیے عہد قدیم کے انسان کا علم اتنا وسیع اور تجربوں سے بھرا ہوا نہیں تھا جیسے ارسطو اور رومن کیتھولک چرچ کے نظریات سے یہ بات گلیلیو نے تجربات سے ثابت کر دکھائی کہ ارسطو کے نظریات غلط تھے۔ رومن کیتھولک چرچ نے ارسطو کے نظریات کو اپنا لیا۔

لیکن آخر کار 366 سال 6 ماہ بعد مارچ 2008 ان ہی لوگوں نے گلیلیو کو تسلیم کر لیا۔ لیکن آج تیسری دنیا کے ملکوں کے عوام کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہیں۔ پاکستان میں 90 فیصد گھرانے علی الصباح اٹھ کر اپنے اپنے معصوم بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں۔ کیا یہ سب کے سب تعلیم مکمل کر پاتے ہیں، اگر متوسط اور غریب گھرانے کے بچے کسی نہ کسی طرح تکلیفیں برداشت کر کے پڑھ جاتے ہیں تو کیا ان سب کو ملازمتیں مل جاتی ہیں؟

کیا قدرت کی بنائی زمین پر سب انسانوں کو ان کی محنت کے برابر حصہ ملتا ہے؟ تیسری دنیا کے ملکوں کے عوام کو وہ وسائل دستیاب نہیں ہیں جو ان کا قدرتی حق ہے؟ فلسفی روسو سے اختلاف کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہر جاندار کو جنم دینے سے پہلے اس کے زندہ رہنے کا سامان مہیا کرتا ہے۔

لیکن اگر انسان صرف یہی کہے کہ اس کی قسمت میں غربت اللہ تعالیٰ نے لکھی ہے تو یہ اس شخص کی کم عقلی اور کم علمی ہے۔ انسان اپنے ماحول کا تجزیہ کر کے دیکھے اس کو غربت کی دلدل میں دھکیلنے کی وجوہات کیا ہیں؟ وجوہات کو جاننے کے بعد کوشش کر کے ان وجوہات کے خاتمے کے لیے کوشش کریں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے کامیابی کے لیے دعا مانگتا رہے۔

آج مسلم دنیا یعنی 57 ملکوں میں عوام جس ذلت آمیز حالات میں زندہ ہیں، یہ عوام ہی جانتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو بے انتہا مشکلات کا سامنا ہے۔ امریکا کی پیدا کردہ دہشت گردی، امریکا کے ایجنٹ حکمرانوں نے ساری معاشی پالیسیاں بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر بنائی ہوئی ہیں۔ 1951کے بعد سے پاکستان کی خارجہ پالیسیاں امریکی سامراج کے تابع کر دی گئیں۔


ملک میں اللہ نے بے پناہ وسائل دیے ہیں لیکن عوام سے کوئی پارٹی مخلص نہیں ہے۔ میں نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں آپ اپنے قیمتی وقت کو صحیح استعمال کریں۔ محلوں، گاؤں، شہروں میں آپ چند مل کر ''عوامی تھنکرز فورم'' قائم کریں، ان کا کسی سیاسی یا کسی تنظیم سے تعلق نہ رکھیں۔ اس فورم پر ایک جگہ بیٹھک مقرر کر کے ایک ماہ میں یا پندرہ روز کے بعد یا ایک ہفتے کے بعد سب اکٹھے ہو کر ایک سوال اٹھائیں۔ جیسے صحت کے لیے صاف پانی کا ہونا کیسے ممکن ہے؟

تعلیم حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟ اللہ تعالیٰ کی بنائی کائنات کی حقیقت کیا ہے۔ کس سائنسدان نے کیا نظریہ دیا، کیا ایجاد کیا؟ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟ دنیا کو بدلنے کے لیے کیا ضروری ہے؟ اس ملک کے غریب عوام کو جب تک حقائق کا علم نہیں ہو گا اس وقت تک اس ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اب نوجوان نسل کی ذمے داری ہے کہ وہ تبدیلی لانے کے لیے خود اس راہ پر چل پڑیں۔ کوئی سیاستدان ایسا نہیں کرے گا۔

تاہم حکومت سے درخواست ہے کہ ''عوامی تھنکرز فورم'' بنانے کے لیے ہر جگہ سرپرستی کرے۔ ہر سطح پر لائبریریاں قائم کرے، سائنسی علوم و دیگر علوم کے تراجم کیے جائیں جس ملک کے عوام میں جاننے، پرکھنے کا جذبہ اور تحریک جتنی زیادہ ہوتی ہے، وہ معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ تھامس ایڈیسن نے کئی ہزار تجربوں کے بعد بلب ایجاد کیا تھا۔ جو معاشرے 2 ہزار قبل کے دور میں تصوری، خیالی طور پر رہ رہے ہیں وہ موجودہ دور کے تقاضوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

اس لیے بہتر ہے کہ خیالی تصوراتی دنیا سے اٹھ کر حقائق کی دنیا میں حالات کا سامنا اور مقابلہ کیا جائے۔ کائنات کا ہمہ گیر قانون اس کا ہی ساتھ دیتا ہے جو قانون کائنات کو جان کر اس کے مطابق دنیا کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ انسان گود در گود چلتا ہوا آج 2015 میں موجود ہے اور جن معاشروں نے اپنے داخلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خارجی دنیا میں عملاً تبدیلیاں یا ایجادات کیں وہ ترقی یافتہ بنتے گئے۔ کائنات اسی کی ہے جو اسے تابع کرتا ہے۔

یعنی کائناتی اصولوں کو جان کر ان کے مطابق ایجادات اور تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی نظریہ ہمیشہ اپنی اصل شکل کے ساتھ موجود نہیں ہے جو اس نظریے کی تخلیق کے وقت تھی اس لیے نظریاتی تبدیلی کے ساتھ نظریات میں ترامیم سے نظریہ لوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ صحیح معاشرہ بروقت تبدیلیوں کے ساتھ مثبت انداز میں نظریاتی تبدیلیوں کے ساتھ اپنے آپ کو بدلتا ہے وہ ہی کامیاب معاشرہ ہے۔
Load Next Story