کیا ون ڈے کا الگ کوچ ہونا چاہیے

ہمیں ایسے نوجوان اور حال ہی میں کرکٹ چھوڑے ہوئے کسی پُرجوش کوچ کی ضرورت ہے جو ٹیم میں نئی جان ڈال سکے


سلیم خالق November 11, 2015
ہمیں ایسے نوجوان اور حال ہی میں کرکٹ چھوڑے ہوئے کسی پُرجوش کوچ کی ضرورت ہے جو ٹیم میں نئی جان ڈال سکے. فوٹو: فائل

ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ بات بالکل پسند نہ آئے، شاید آپ بھی سوچ رہے ہوں کہ ٹیم نے ابھی انگلینڈ کو2-0 سے ٹیسٹ سیریز میں ہرایا اور یہ صاحب وقاریونس جیسے عظیم کوچ کی تبدیلی کا کہہ رہے ہیں، مگر میں یاد دلاتا چلوں کہ بات ون ڈے کی کر رہا ہوں ٹیسٹ کی نہیں، ایک طرف ہم پانچ روزہ کرکٹ کی دوسری بہترین ٹیم بن چکے مگر ون ڈے میں نمبر9 یا 8 کے درمیان گھوم رہے ہوتے ہیں، ابھی تو یہ جواز دیا جا سکتا ہے کہ نئے کھلاڑی زیادہ ہیں مگر اسی سال کے اوائل میں تو مصباح الحق اور شاہد آفریدی بھی اسکواڈ کا حصہ تھے تب کیوں پرفارمنس خراب رہی تھی؟

اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جدید ون ڈے کرکٹ کے تقاضوں سے ٹیم ہم آہنگ نہیں ہو سکی، ٹیلنٹ موجود مگر اسے سمت کا اندازہ نہیں، ہمیں ایسے نوجوان اور حال ہی میں کرکٹ چھوڑے ہوئے کسی پُرجوش کوچ کی ضرورت ہے جو ٹیم میں نئی جان ڈال سکے، ٹیسٹ سیریز کی فتح پر بھنگڑے ڈالنے کے ساتھ یہ بات یاد رکھیں کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ون ڈے میں ہماری کارکردگی کیا ہے، ویسے بھی ہم لوگوں کی یادداشت بیحد کمزور ہے اس لیے یاد دلاتا چلوں کہ ایشیا کپ کے بعد جب وقار یونس نے گذشتہ برس دورئہ سری لنکا میں ٹیم کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو ون ڈے سیریز میں1-2 کی شکست ہاتھ آئی۔

یو اے ای کی اپنی پچز پر آسٹریلیا سے تینوں میچز میں ہار مقدر بنی جبکہ نیوزی لینڈ نے2-3 سے زیر کیا، پھر کیویز کے دیس میں دونوں ون ڈے میں فتح کو ترستے رہے، اس کے بعد ورلڈکپ آیا، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز سے شکستوں کے بعد زمبابوے، یو اے ای، جنوبی افریقہ اور آئرلینڈ کو ہرا کر کوارٹر فائنل میں جگہ بنائی جہاں آسٹریلیا نے مات دے کر واپسی کا پروانہ تھمایا، اس میں سے صرف پروٹیز سے فتح ہی قابل فخر رہی، سب سے افسوسناک بات بنگلہ دیش میں 0-3 سے کلین سویپ کی رسوائی تھی، زمبابوے سے ہوم سیریز میں2-0 سے جیت پر اگر کوئی فخر کر رہا ہے تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہوگا، اس کے بعد سری لنکا میں3-2 سے فتح قابل اطمینان رہی مگر ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ میزبان سائیڈ کئی اہم کھلاڑیوں کی خدمات سے محروم تھی، البتہ اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ چیمپئز ٹرافی سے باہر ہونے کا خطرہ ٹل گیا۔

پھر زمبابوے جا کر کمزور ٹیم سے بھی ایک میچ ہار گئے البتہ سیریز میں 2-1 سے فتح مل گئی، اب اس کارکردگی کے بعد اگر ہم آٹھویں رینک ٹیم ہیں تو اسے بھی غنیمت ہی کہا جا سکتا ہے، اظہر علی کے قیادت سنبھالنے سے تھوڑی بہتری تو آئی مگر سلیکٹرز نے یونس خان کو واپس بلا کر مصباح الحق کی کمی پوری کر دی، وہ اپنے انداز کی کرکٹ کھیلیں گے اور ٹیم کا اسکور موجودہ دور کے تقاضوں سے خاصا پیچھے رہ جائے گا،ان تمام معاملات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ کوچنگ سے بھی خاصا فرق پڑ رہا ہے، ہم پرانے دور والی کرکٹ کھیل رہے ہیں جبکہ اب300 رنز بھی عام سی بات ہیں، یقیناً وقار یونس کوشش ضرور کرتے ہوں گے مگر اب تک کامیاب ثابت نہیں ہو سکے۔

پھر ان کے ساتھ انا کا بھی بڑا مسئلہ ہے، کسی سے ناراض ہوں تو نشان عبرت بنا دیتے ہیں، پچھلے دور میں شاہد آفریدی زیرعتاب آئے تو قیادت چھوڑنا پڑی، پھر سرفراز احمد کے ساتھ ورلڈکپ میں جو کچھ ہوا وہ سب کو یاد ہی ہو گا،حالیہ ٹیسٹ سیریز میں احمد شہزاد کو تینوں میچز ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر دیکھنا پڑے، ان کے کوچ سے سابقہ اختلافات کی باتیں بھی کچھ عرصے قبل ہی منظر عام پر آئی ہیں، ٹیسٹ کرکٹ بالکل مختلف کھیل ہے، یو اے ای میں پسند کی وکٹیں بنوا کر حریفوں کو پریشان کیا جا سکتا ہے، ون ڈے میں آپ کو نت نئی حکمت عملی تشکیل دینا پڑتی ہے اور یہاں وقار یونس پیچھے نظر آتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارا بورڈ کچھ سوچ ہی نہیں رہا، شہریارخان نے تو گذشتہ دنوں اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کوچنگ اسٹاف کو کئی ''خوشخبریاں'' سنانے کا بھی عندیہ دے دیا، ٹیسٹ سیریز کی فتح کا کچھ خمار اترے تو اندازہ ہو کہ ون ڈے میں ٹیم کس حال پر پہنچ چکی، ورلڈکپ کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کی رسوائی کا بھی خدشہ موجود ہے، آسٹریلیا سمیت دنیا کے بعض ممالک2 کوچز کا تجربہ کر چکے،بھارت نے بھی گذشتہ عرصے اس پر غور کیا تھا تو پاکستان اس آپشن پر کیوں نہیں سوچ سکتا؟ ہمارے ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں الگ کپتان ہیں۔

ہم ٹیسٹ میں پرفارمنس کی بنیاد پر کھلاڑی کو ون ڈے اسکواڈ میں لے آتے ہیں چلیں ٹھیک ہے ایک پلیئر تو برداشت کیا جا سکتا ہے مگر کوچ تو پوری ٹیم کی جان ہوتا ہے،وقار یونس نے ٹیسٹ میں ٹیم کو فتوحات دلائیں اس طرزمیں انھیں برقرار رکھیں مگر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں تبدیلی ناگزیر ہے، پاکستان میں کوئی کوچ نہیں ملتا تو باہر سے بلوا لیں، نجم سیٹھی نے پی ایس ایل کے نام پر بورڈ کے اربوں روپے پھونک دیے اگر غیرملکی کوچ کو چند لاکھ روپے دے دیں تو کیا فرق پڑے گا، وقار یونس16لاکھ روپے ماہانہ وصول کرتے ہیں یہی رقم ڈیوواٹمور بھی لیتے تھے۔

بورڈ ویسے ہی شاہ خرچیوں کیلیے مشہور ہے، حالیہ سیریز میں تمام افسران کو یو اے ای کی سیر کرانے پر بھی لاکھوں بلکہ اب تو کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہوں گے، یہ پیسہ کھلاڑیوں کی وجہ سے ہی آتا ہے اگر ان کا کھیل بہتر بنانے پر صرف کیا جائے تو کوئی قباحت نہیں ہو گی، ہمیں ایک سیریز کی فتح پر خوش ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے، طویل المدتی منصوبہ بندی کریں تو شاید اگلے ورلڈکپ تک ایک مضبوط اسکواڈ تشکیل دیا جا سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔