سانحہ سندر اور قاتل نظام دوسرا اور آخری حصہ
یہاں افسوس از حد افسوس کی بات یہ ہے کہ فیکٹریوں کے گرنے جیسے سانحات کو بھی ’’قدرتی سانحہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے
یہاں افسوس از حد افسوس کی بات یہ ہے کہ فیکٹریوں کے گرنے جیسے سانحات کو بھی ''قدرتی سانحہ'' قرار دیا جاتا ہے حالانکہ فیکٹری مالکان فیکٹری گرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔
کبھی کسی فیکٹری میں آگ لگ جاتی ہے، ابھی ایک فیکٹری گرنے یا فیکٹری میں آگ لگنے کی تحقیقات مکمل نہیں ہو پاتی کہ دوسری فیکری گر جاتی ہے یا فیکٹری میں آ گ لگ جاتی ہے، آگ لگنے یا فیکٹری گرنے کی ذمے داری فیکٹری مالکان پر ہی عائد ہوتی ہے، اثرو رسوخ رکھنے کے باعث فیکٹری مالکان قانون کی گرفت سے صاف بچ جاتے ہیں اور پھر نقصان تو غریب محنت کش کا ہی ہوتا ہے، مالکان کا کیا، مالکان تو دوبارہ ایسی ہی فیکٹریاں کھڑی کر دیتے ہیں۔ ہم بطور مالکان بھی اس قدر اخلاقیات سے گر چکے ہیں کہ ہمیں انسانی جانوں کی قدر ہی نہیں ہے بقول شاعر ہمیں اپنے خود کے معیارات کو بھی پرکھنا ہوگا۔
اپنی ذلت کی قسم غیر کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے معیار پرکھنے ہوں گے
حالات یہ ہیں کہ ملک بھر میں لاکھوں چھوٹی بڑی فیکٹریوں میں کسی قسم کا نہ تو ''بلڈنگ کوڈ'' استعمال کیا گیا ہے اور نہ ہی وہاں حفاظتی پیمانوں کو جانچا جاتا ہے اور نہ ہی وہاں کے عملے کو تربیت دی جاتی ہے کہ آگ لگ جانے کی صورت میں کیا کیا جائے؟ آگ کن صورتوں میں بجھتی ہے اور کن صورتوں میں مزید بڑھکتی ہے... وغیرہ۔ میرے خیال میں انتظامیہ کے ذمے داروں کے پاس ایسا کوئی نظام ہی نہیں جو انھیں بتا سکے کہ یہاں فیکٹریوں کی تعداد کتنی ہے؟
اُن میں کتنے مزدور کام کرتے ہیں؟ فیکٹریوں کی عمارات نقشے کے مطابق اور قانونی تقاضے پورے کر کے بنائی گئی تھیں یا نہیں۔ یہاں کوئی بلڈنگ لاز ہیں یا نہیں اگر ہیں تو اُن پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے۔ کوئی ایسا نظام ہے جو یہ بتا سکے کہ ان فیکٹریوں میں حادثاتی انتظامات مکمل ہیں یا نہیں۔ آگ لگنے کی صورت میں یا خدانخواستہ کسی اور آفت کی صورت میں کیا حفاظتی اقدامات یا انتظامات کیے گئے ہیں؟
دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے لیکن ہماری پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ ''بلڈنگ کوڈ'' پر عمل درآمد کروانے کا کسی کو خیال نہیں آرہا، ہمارے پاس عمارتوں کی مضبوطی اور معیار جانچنے کا نظام ہی سرے سے موجود نہیں ہے۔ زلزلوں اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے کوئی موثر حکمت عملی یا پلاننگ ہمارے ارباب اختیار کے پاس نہیں ہے اور یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ملک میں ''کرائسز اور ڈیزاسٹر کمیونیکیشن'' کو بھی ابھی تک نہیں سمجھا جا سکا ہے؟
ترقی یافتہ ممالک میں ایسے اداروں کی تنظیم نو کی جاتی ہے اور ان سے وابستہ اہلکاروں اور ٹیکنیشنز کی تربیت کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں ان چیزوں کو کسی کھیت کی مولی نہیں سمجھا جاتا۔ دنیا بھر میں انڈسٹریل اسٹیٹ کو آبادیوں سے باہر بنانے کے مقاصد ہی یہ ہوتے ہیں کہ انھیں کھلی جگہ پر بنایا جائے اور انھیں وافر جگہ دی جائے تاکہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جائے، دو چار دن کی بات ہے پھر دیکھیے گا کہ سب کچھ بھلا دیا جائے گا بلکہ حقیقتاً ایسا ہوگا کہ سب کچھ کرپٹ ترین ''روٹین'' میں واپس آجائے گا۔
بہرکیف حکومت کی ذمے داری ہے کہ جو فیکٹریاں خستہ حال ہیں، انھیں خالی کرا کے بلڈوز کیا جائے، اگر کوئی فیکٹری مالکان خستہ حال فیکٹری چلاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے اور کرپشن کو اداروں سے ختم کیا جائے جو افسر اس میں ملوث پایا جائے اس کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب کوئی فائر بریگیڈ کو آگ بجھانے کے لیے کال کرے گا تو عملہ اس سے ریٹ طے کر رہا ہو گا کہ ''کتنے والی آگ بھجوانی ہے؟'' ''بندے بچانے ہیں یا مال؟'' ''یا دونوں؟'' ''بندے بچانے کا یہ ریٹ۔ مال بچانے کا یہ۔'' ''اتنا پیسہ ایڈوانس دے دو'' وغیرہ آپ اس چیز کا تصور کرکے ہی اپنے قاتل نظام کے ہاتھوں پاگل ہونے کا اندیشہ ظاہر کر بیٹھتے ہیں اور اگر سچ میں ایسا ہو گیا تو کیا ہم سب یا ہمارا یہ ملک رہے گا؟ پہلے ہی اس ملک میں بہت سے گھس بیٹھیے موجود ہیں جن سے جان چھڑانا عظیم مسئلہ بن چکا ہے۔
خدارا ان سانحات سے نمٹنے کا ہمارے پاس مکمل نظام موجود ہونا چاہیے بلکہ یہ معاملہ اب صوبوں سے نکل کر اضلاع کی طرف جانا چاہیے ، ہر ضلعے کے پاس ایک ایسا نظام یا ٹیم ہونی چاہیے کہ لوگوں کو کم از کم ملبے سے تو نکالا جا سکے۔ اگر ہم نے اس کے اوپر توجہ نہیں دی تو قیمتی جانیں جو بچ سکتی ہیں وہ ضایع ہوتی رہیں گی۔
اس حادثے کے بعد دوبارہ سے ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ اگر ہم نے بلڈنگ کوڈز ، چاہے وہ کمرشل بلڈنگ ہوں یا گھریلو بلڈنگز ہوں ، تو اس قسم کے حادثات کے اندر بری طرح جانیں جاتیں رہیں گی ، وہ جانیں جو خدا کی مرضی سے نہیں بلکہ ہماری غفلت سے جائیں گی تو اس کی ذمے داری ہم پر لاگو ہو گی ، تو ہمیں ان حادثات سے سیکھنا چاہیے۔
بھلے ہی اس سانحہ میں فیکٹری مالک دب کر جاں بحق ہوگیا ہے، مگر جن خاندانوں کے چراغ گل ہوئے ان کا ذمے دار کون ہے؟ ان کے بچوں کا ذمے دار کون ہے؟ 5لاکھ روپے؟ جو ان خاندانوں کے لواحقین نے افسوس کرنے والوں کی آؤ بھگت میں ہی خرچ کر دینے ہیں، ان مزدوروں کے بچوں کا کیا مستقبل ہے جن کا سب کچھ ختم ہو گیا۔
اب اگر مالک مر چکا ہے تو کیا یہ کیس بھی دفن ہوجائے گا؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے نشے میں دھت ٹرک ڈرائیور، جس کے پاس لائسنس نہیں ،ہیڈلائٹس اس کی خراب ہیں،ون وے کی وہ خلاف ورزی کر رہا ہے ، اوروہ چارپانچ راہ گیروں کو کچل دیتا ہے تو وہ بیچارے تو واصل بحق ہوں گے لیکن اس ڈرائیورکی تادیب بھی کسی قاعدے قانون کے تحت ہوگی یا نہیں؟ یا اس ڈرائیور کو ''لائسنس ٹو کِل'' دے دیا جائے کہ وہ خود بھی مرے اور لوگوں کو بھی مارتا پھرے!!!