زلزلہ موثر حفاظتی اقدامات پھر ندارد
متاثرین زلزلہ کی اطمینان بخش آباد کاری بھی ایک سوالیہ نشان بن رہی،
8 اکتوبر 2005ء کے ہولناک زلزلے کو بیتے 10 سال 18 دن ہوئے تھے کہ 26 اکتوبر 2015ء کی دوپہر کوہ ہندوکش سلسلہ میں210 کلو میٹر کی گہرائی میں آنے والے خوفناک زلزلے کے سبب زمین دیگر ممالک سمیت وطن عزیز میں کراچی تا خیبر ریکٹر اسکیل پر 8.1 کی شدت سے ہیبت ناک ہچکولے کھانے لگے، سب کچھ لرزنے لگا پھر اﷲ نے کرم فرمایا، چند ایک نیک لوگوں کی کچھ نیکیاں کام آ گئیں اور بہت کچھ بچ گیا۔
ورنہ 8.1 کی شدت سے اﷲ کی پناہ خدانخواستہ ہمارے آثار بھی موئن جو دڑو، ہڑپہ اور دیگر تباہ شدہ اقوام کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے، بلا شبہ یہ ہمارے لیے اﷲ کی جانب سے ایک اور مہلت ہے، لیکن اﷲ کی سنت ہے کہ وہ مہلت بھی بار بار نہیں دیا کرتا۔ 2005ء میں اگرچہ زلزلے کی شدت 7.6 تھی، جس میں 80 ہزار کے لگ بھگ افراد لقمہ اجل بن گئے اور لاکھوں گھر تباہ ہو گئے، بستیاں اجڑ گئیں، ہزاروں افراد کو زخموں کے علاج معالجے اور پر مشقت زندگی کی سختیوں اور دیگر مصائب نے نڈھال کیے رکھا، دس سال قبل تباہ شدہ بعض شہر آج بھی اپنی تباہی پر نوحہ کناں ہیں، مکمل تعمیر نو آج تک ممکن نہ ہوسکی۔
متاثرین زلزلہ کی اطمینان بخش آباد کاری بھی ایک سوالیہ نشان بن رہی، دنیا بھر سے بھاری امداد ہمیں ملی، ملک بھر سے مخیر حضرات اور صاحب ثروت لوگوں نے بھی دل کھول کر عطیات دیے، اربوں کھوبوں روپے جمع ہوئے لیکن متاثرین زلزلہ کا مکمل مداوا پھر بھی نہ ہوسکا، نیا بالا کوٹ آج 10 برس بعد بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، اس حق تلفی کا ذمے دار کون ہے؟8اکتوبر 2005ء سے 26 اکتوبر 2015ء کے درمیان ہمارا ملک مختلف مدتوں میں سیلاب کی زد میں بھی رہا، ان کے متاثرین الگ بے چارے اپنی قسمت کو کوستے نظر آتے ہیں، ان تمام متاثرین قدرتی آفات کا والی وارث اور حقیقی ترجمان کون ہے؟
حکومتیں اپنی مکمل ذمے داریاں ادا کرتی نظر نہیں آئیں، کہیں پیشگی انتظامات کا فقدان نظر آیا تو کہیں بعد از آفات انتظامی امور کی انجام دہی میں خامیاں اور کوتاہیاں نظر آئیں، مقام شکر ہے کہ حالیہ زلزلے کا مرکز 210 کلو میٹر گہرا تھا، جس کی وجہ سے 8.1 کی شدت کے باوجود زلزلے سے وہ تباہی و بربادی اور نقصان نہ ہوا جو 2005ء میں ہوا تھا۔
2005ء میں آنے والے خوفناک زلزلے کا مرکز سطح زمین سے صرف 15 کلو میٹر نیچے تھا لہٰذا جو ہولناک تباہی ہوئی اس کے آثار آج تک نشان عبرت ہیں، اﷲ ہمیں اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے تو ہم سب یکا یک اﷲ کو یاد کرنے لگتے ہیں، وہ بھی جو کبھی اﷲ کو یاد نہیں کرتے ان کے لب بھی ان آزمائش کے لمحات میں جنبش کرتے دکھائی دینے لگتے ہیں اور جب اﷲ ہمیں بچا لیتا ہے تو ہم اﷲ کو ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کبھی اﷲ سے واسطہ ہی نہیں پڑا تھا۔
خوش آیند بات ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں مزید تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریاست کے تمام وسائل متاثرین کی مدد پر صرف کرنے کا اعلان کیا، متاثرین سے دلی ہمدردی اور ان کی مکمل بحالی کا عزم ظاہر کیا، مکانات کی تعمیر نو اور کوتاہی نہ کرنے کا بھی وعدہ کیا لیکن ان سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم اپنے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو حقیقی معنوں میں تمام تر سہولیات اور ضروریات سے مزین اور دور جدید سے ہم آہنگ کر کے پیشگی طور پر فعال اور متحرک بنائیں لیکن افسوس! صد افسوس مسلسل قدرتی آفات سے دوچار ہونے کے باوجود آج تک ہمارے ملک کا ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل محض دکھاوے کا ادارہ ہے۔
ضرورت اس امر کی کہیں بڑھ کر محسوس کی جاتی ہے کہ ہم ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کو از سر نو منظم و متحرک کریں اور اس کی ہمہ وقت فعالیت کو یقینی بنائیں نیز اس میں پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل اہلکاروں کو ذمے داریاں سونپی جائیں۔ ملک پر جب کبھی کوئی آزمائش آئی تو حکومتی اداروں کی اصل حقیقت آشکار ہو گئی، ہمیشہ پاک فوج کے جوانوں نے آگے بڑھ کر ملک کو سنبھالا دیا، اگر فوج آگے بڑھ کر ذمے داریاں نہ سنبھالتی تو عوام کو ریلیف مہیا ہونا تو دور کی بات ریلیف کا تصور تک محال ہوتا لیکن ہر ذمے داری فوج ہی کو سونپ دینا مناسب نہیں، حکومتوں کو خود بھی اپنے وجود کا ثبوت دینا چاہیے اور وزیر اعظم کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور ایرا سمیت ریسکیو ٹیموں، سول ڈیفنس اور دیگر اداروں کو متحرک کرنے اور نتیجہ خیز منصوبہ بندی کا پابند بنانے میں بھی پرجوش کردار ادا کرنا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق آیندہ قریبی سالوں میں مزید شدید زلزلے آ سکتے ہیں، پورا پاکستان زلزلوں کی زد میں ہے، ہمیں ان غیر معمولی خطرات سے ہمہ وقت نمٹنے کے لیے موثر ترین اقدامات کی ضرورت ہے جن سے فی الوقت ہم محروم ہیں، ہمارا خطہ جن ارضیاتی اور موسمیاتی تغیرات کی زد میں ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم جلد از جلد اس ضمن میں جزوقتی، کل وقتی نیز طویل المدتی منصوبے ترتیب دیں اور انھیں ہر حال میں پایہ تکمیل تک بھی پہنچائیں، ہمارے اکثر منصوبے زور و شو سے اعلان ہونے کے باوجود ادھورے پڑے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں، اکثر کرپشن کی نذر ہو گئے جن پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں یہ روایت اچھی نہیں اور ملکی تعمیر و ترقی میں حقیقی رکاوٹ بھی ہے اسے دور ہونا چاہیے۔
بد عنوانی کا مکمل سدباب ضروری ہے، پہاڑ ہیں جن کے پھٹنے سے آنے والے زلزلے کی شدت زیادہ نہیں ہوتی، زیادہ تر تباہی دوسری قسم کے زلزلے سے آتی ہے، ہم جس زمین پر آباد ہیں اس کی اندرونی ساخت میں بہت سی پرتیں ہیں جن میں نرم اور سخت پتھریلی پرتیں بھی موجود ہیں۔ زیر زمین پتھریلی چٹانوں کی معمولی حرکت سے بھی زمین کی اوپری سطح تہہ و بالا ہو جاتی ہے، حالیہ زلزلہ بھی زیر زمین چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ سے اس وقت وقوع پذیر ہوا جب بھارتی اور یوریشین پلیٹیں باہم ٹکرائیں، زلزلے اگرچہ قدرتی قوانین کے تحت ہی آتے ہیں تاہم یہ قدرتی قوانین اﷲ ہی کے حکم کے تابع ہیں۔
اﷲ کو جب کوئی کام کرنا مقصود ہوتا ہے تو وہ فرماتا ہے کہ ''ہوجا'' تو وہ کام ہو جاتا ہے، جب کوئی قوم بد اعمالیوں اور مسلسل سرکشیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے تو پھر بالآخر وہ اﷲ کی جانب سے مختلف النوع عذابوں میں بھی مبتلا ہو جاتی ہے جن میں سے ایک زلزلہ ہے، جو رب نظام ہستی چلا رہا ہے اس کی معمولی تدبیر کے آگے اکیسویں صدی جیسی جدید سائنسی ترقی کے دور کا انسان بھی بے بس ہے، ہم اپنی تمام تر ترقی کے باوجود اس ناگہانی آفت کی بروقت پیش گوئی کرنے والا کوئی نظام تک دریافت کرنے سے تا حال قاصر ہیں، زلزلہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہے جو احساس دلاتا ہے کہ انسان اتنا بھی آزاد نہیں جتنا وہ گمان کر بیٹھتا ہے۔
ہمارے ملک کی کئی عمارتوں کی حالت عرصہ دراز سے مخدوش ہے کچھ کی تعمیرات نقشے پاس کیے بغیر ہی عمل میں آ گئی اور انھوں نے دو منزلہ کا نقشہ پاس کرانے کے بعد مزید دو منزلہ بغیر اجازت اپنی مرضی سے بنا ڈالی ہیں کچھ عمارات کی تعمیرات میں ناقص میٹریل استعمال کیا گیا اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔
کئی عمارتیں ایسی ہیں جن میں حالیہ زلزلے سے خطرناک حد تک دراڑیں پڑ گئیں ہیں۔ تاہم عوام وسائل نہ ہونے کے سبب بحالت مجبوری آج بھی ان میں رہائش پذیر ہیں جس کا اچانک انہدام کبھی بھی واقعہ ہو سکتا ہے، لاہور میں سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں فیکٹری کی 4 منزلہ عمارت کا اچانک منہدم ہونا اس ہی کی ایک عبرتناک مثال ہے اور یہ ایک ایسی سبق آموز الارمنگ صورتحال ہے جس سے غریب عوام حکومتی امداد، توجہ اور سرپرستی کے بغیر نبرد آزما قطعی نہیں ہو سکتے، حکومت کو ایسی عمارتوں کی تعمیر نو کی جانب فوری توجہ دینی چاہیے۔
انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں، حکومت کی جانب سے ہمیشہ کی طرح جاں بحق ہونے والوں کے لیے رقم کا اعلان حسب معمول کوئی وقعت، کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کرنا ہی ہے تو قیمتی جانوں کے ضیاع کے امکانات کا حد درجہ خاتمے کے لیے موثر ترین اقدامات ہونے چاہئیں اور پھر اس کے نتائج بھی نظر آنے چاہیے مگر ہم عجیب لوگ ہیں مصیبت اور آزمائش کی گھڑی میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، بڑے بڑے اعلان کرتے ہیں، بڑے بڑے منصوبے اس سادہ عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر رفتہ رفتہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ ''رات گئی بات گئی'' اگلی آفت پر پھر ہمیں بہت کچھ یاد آ جاتا ہے اس گورکھ دھندے میں وطن عزیز کے 68 برس بیت گئے۔ آہ! نامعلوم مزید اور کتنے برس ایسے ہی بیتنے ہیں۔