کتوں کے ترجمان کی انسانی خبر کی تردید
شاید آپ کو یقین نہ آئے، ایک بیان ہم تک ایک ایسے ایکسپرٹ کی طرف سے پہنچا ہے
شاید آپ کو یقین نہ آئے، ایک بیان ہم تک ایک ایسے ایکسپرٹ کی طرف سے پہنچا ہے جو کتوں کی زبان سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بہت عرصے سے کتوں کے مترجم بھی رہے ہیں۔ اس بیان میں بقول ان کے کتوں کے ایک ترجمان نے سختی سے اس بات کی تردید کی ہے کہ عمران خان اور ریحام خان کی علیحدگی میں کتوں کا کوئی کردار رہا ہے، بقول ان کے کتے بنیادی طور پر انسانوں کے دوست اور خیر خواہ واقع ہوتے ہیں اور اس قسم کا منفی کردار ادا کرنے کا تصور تک نہیں کر سکتے۔
پہلے تو سچی بات ہے ہمیں یقین نہیں آیا کہ یہ واقعی کتوں کا جینوئن بیان ہو سکتا ہے مگر پھر کتوں کی زبان سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے ایکسپرٹ نے ہمیں اپنی اس ''کوالیفکیشن'' کے کچھ ثبوت اور ریفرنسز پیش کیے تو ہمیں یہ بیان کچھ کچھ سچ محسوس ہونے لگا اور ہم سوچنے لگے کہ اس بیان کو برسر عام اور شایع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اگر ہم نے اسے شایع نہیں کیا تو کتوں کے بارے میں یہ بد گمانی اور غلط پرسیپشن کبھی دور نہیں ہو سکے گا۔
ہم نے اس سلسلے میں کتوں کے INTERPRETOR کو خاصا کُریدا، ان کا کہنا تھا کہ کتوں کی زبان بس تھوڑی سی مختلف ہوتی ہے اور ان کی ''بھونک'' کو ذرا پورا دھیان لگا کر سنا جائے تو ان کا مافی الضمیر سمجھا جا سکتا ہے، پھر ہم نے ان ڈُوگ ایکسپرٹ کے پس منظر کے بارے میں ریسرچ کروائی تو معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنی زندگی کا خاصا حصہ کتوں میں گزارا ہے اور وہ واقعی کتوں کے جذبات کو سمجھنے کے خاصے ماہر ہیں۔
موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک ایسی کمیونٹی کا جو انھیں کوئی معاوضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے بیان گھڑنے میں ان کا کیا لالچ اور مقصد ہو سکتا ہے۔
اب آیے زیر بحث بیان کی طرف جو خاصا چونکا دینے والا ہے۔
کتوں کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جو کتا بھی کسی اہم شخصیت کے ساتھ وی آئی پی ڈیوٹی میں ہوتے ہیں، ان کو اپنے مالک کی مجبوریوں اور مصروفیات کا پورا پورا علم ہوتا ہے اور وہ پورے پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے اپنے مالک کی اجازت اور سگنل ملنے پر ہی ان کے بیڈ روم میں جاتے ہیں۔ عمران خان سے بھی کتوں کی وابستگی اسی اصول پر مبنی رہی ہے، ہم اسی وقت عمران خان صاحب کے پاس جاتے تھے جب وہ فرصت میں ہوتے اور ہمیں بلاتے تھے، ان کے گھر کے ملازم بھی اس بات کے شاہد ہیں اور ہماری اس بات کی سچائی کی گواہی دیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جو لوگ بھی ہماری نفسیات سے واقف ہیں انھیں یہ بھی پتہ ہو گا کہ مالک کے جو لوگ بھی دوست ہوتے ہیں وہ ہمارے دوست بھی بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارے اس خاتون کے دشمن ہو جانے یا ان کے ہمیں ناپسند کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان کے پالتو کتے بھی بہت کم عرصے میں ان کے دوست بن گئے تھے اور ان دونوں کی علیحدگی میں ان کتوں کا دور دور تک کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ صحیح ہے کہ کتوں کی نہ بہت زیادہ دوستی اچھی ہوتی ہے اور نہ دشمنی، لیکن خاتون کے بطور مالکہ گھر میں آ جانے کے بعد ہم تھوڑے سے ریزرو بھی ہو گئے تھے اور ہم نے باہمی مراسم کو ورکنگ ریلیشن شپ تک محدود کر لیا تھا۔
اگر ہمارے ان سے تعلقات خراب ہوتے تو ہم انھیں کم از کم حملہ کر کے زخمی کر سکتے تھے لیکن میڈیا کو جو پوری ٹوہ میں رہتا ہے اچھی طرح پتہ ہو گا کہ اس پورے عرصے میں ہماری طرف سے خاتون کا بال بیکا تک نہیں ہوا۔
اس کے ساتھ ہی کتوں کے ترجمان نے میڈیا خاص طور پر ایک برطانوی اخبار میں کتوں کی کردار کشی پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔ بقول ان کے اس رویے کی خاص طور پر ایک ایسے ملک کے اخبار سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی جو کتوں کے حقوق کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جہاں ایک معصوم اور فرینڈلی جانور ہونے کی وجہ سے کتوں کا بے حد احترام کیا جاتا ہے اور اتنی محبت اور اپنائیت کی جاتی ہے کہ اکثر برطانوی کتے دم ہلاتے ہلاتے تھک جاتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق اس قسم کی خبروں کی اشاعت پاکستان میں تو سمجھ آتی ہے جہاں یہ خبریں بعض اخبارات میں ایک قومی رہنما کی کردار کشی اور انھیں بدنام کرنے کے لیے شایع کی جا رہی ہیں مگر ایک برطانوی اخبار بھی محض سرکولیشن بڑھانے اور عمران خان جیسے لیڈر کی کردار کشی کی مہم میں شریک ہو جائے گا اس کی ہرگز توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
اپنے بیان کے آخری میں کتوں کے ترجمان نے تقریباً دھمکی آمیز لہجے میں کہا اگرچہ انھیں اس معاملے میں انصاف کی بالکل توقع نہیں ہے پھر بھی وہ عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور اگر اخبار والے بھاری ہرجانہ ادا کرنے سے بچنا چاہتے ہیں تو انھیں اتنے ہی نمایاں انداز میں کتوں کی امن پسند کمیونٹی سے معافی نامہ شایع کرنا ہو گا اور ہم چوں کہ خاصے فراخدل اور انسان دوست واقع ہوئے ہیں اس لیے انھیں معاف بھی کر دیں گے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈوگ ایکسپرٹ نے جو کتوں کی زبان سمجھنے کا دعویٰ کر رہے تھے ہمیں یہ پیغام بھی پہنچایا کہ اگر شہر کراچی میں کتے پالنے کا رواج عام کر دیا جائے تو ڈکیتیوں اور چوریوں کی وارداتوں میں خاصی کمی آ سکتی ہے۔ اس مقصد سے کتے پالنے کا مشغلہ محض ''ایلیٹ کلاس'' تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ متوسط طبقے کو بھی کتے پالنے میں پہل کرنی چاہیے یہ کام اگر انفرادی طور پر ہی نہیں اجتماعی طور پر ''کمیونٹی ڈوگز'' کی صورت میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ہمارے مذہب میں کتے پالنا ناپسندیدہ فعل ضرور سہی مگر بالکل ہی ممنوع نہیں ہے۔ کتے کو ذاتی حفاظت کے لیے پالا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اس بات سے ضرور اتفاق کیا کہ کتے پالنا کوئی آسان نہیں بلکہ ایک مہنگا، صبر آزما اور مشکل مشغلہ ہے اور عمران خان اور پرویز مشرف جیسے صاحب حیثیت افراد ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔ یہ ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہے۔
ہاں یہ امید ضرور کی جا سکتی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آ جائے تو وہ ملک سے جرائم کے خاتمے کے منصوبے کے تحت نجی اور سرکاری سطح پر کتے پالنے کی ترغیب دے اور اگر ہو سکے تو اس مشغلے کو سرکار کی طرف سے سبسیڈائز کر دے۔ کیونکہ ہمارے غریب عوام زندگی کی جن دوسری نعمتوں اور اچھی چیزوں سے محروم ہیں ان میں سے ایک کتے پالنا بھی ہے تاہم فی الحال پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنا اتنا ہی مشکل نظر آ رہا ہے جتنا کہ کتوں کا پالنا ہے۔