پرائمری سیاست کا شاہکار بلدیاتی انتخابات
ہمارا قومی مزاج ہے مذہبی تہوار اور قومی ایام بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں،
ہمارا قومی مزاج ہے مذہبی تہوار اور قومی ایام بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں، کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑتے۔ یوں کہہ لیجیے کہ ہر طرح کا موسم آنا اس بات کی نوید ہے کہ اب ہلہ گلہ کرنا ہے۔ ہم نے سوچا بلدیاتی انتخابات کا بھرپور موسم اپنے جوبن پر ہے۔ بلدیاتی، مقامی اور شہری حکومتوں کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کر لی جائے جب کہ ہمارا ملکی سیاست کے معاملات سے قطعا کوئی تعلق نہیں ہے۔
آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 140/A میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر صوبہ قانون کے مطابق ایک مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی، مالیاتی ذمے داری اور اختیار مقامی حکومت کے منتخب نمایندوں کو منتقل کرے گا۔'' جب ہم بلدیات کے موضوع پر بات کرتے ہیں تو ہمارے لیے اس لفظ کا مفہوم، اس کا پس منظر اور ملکی سیاست اور جمہوریت میں اس کی اہمیت سے متعلق جانکاری بھی ضروری ہے ۔ بلدیہ عربی زبان کے لفظ ''بلد'' سے اخذ ہوا ہے جس کے معنی شہر کے ہیں۔
اسی مناسبت سے بلدیہ منتخب عوامی نمایندوں کی وہ جماعت ہے جس کا براہ راست رابطہ فلاح و بہبود کی مد میں عوامی خدمات سے ہو۔ عوامی خدمات میں شہر کی سڑکوں کی تعمیر، صفائی کا انتظام ، صحت و علاج معالجے کے لیے اسپتال کا قیام، سیوریج کا نظام، صاف اور میٹھے پانی کی فراہمی کا نظام وغیرہ وغیرہ شاملِ امور ہیں۔ شہری ادارے کو انگریزی میں ''میونسپیلیٹی'' بھی کہا جاتا ہے جو یونانی لفظ ''میونسپس'' کا مرکب ہے۔
میونس کے معنی ''خدمت '' کے ہیں اور ''سپس'' حصہ لینے کو کہتے ہیں اسی طرح میونسپنس کا مطلب ہے ''خدمت میں شریک ہونا''۔ یاد رہے کہ یونانیوں کے ہاں میونسپس کا لفظ ان اداروں کے لیے استعمال ہوا کرتا تھا جو عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے جاتے تھے۔ یہ نچلی سطح پر جمہوریت کی پرائمری اور نر سری مشق ہے۔ یہ سیاسی تعلیم و تربیت اور شعور اجاگر کرنے کا ایک آسان ترین طریقہ ہے۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے عوام کی طاقت کو مقامی سطح پر زیادہ سے زیادہ فعال بنانے اور ترقی کے حصول میں تیزی پیدا کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہے۔
المختصر ایک ایسے تحفظ کا احساس جو ایک ریاست، مقامی حکومت یا کسی حکومتی ادارے کی طرف سے عنایت کیا گیا ہو۔ بلدیاتی یا مقامی اداروں کا عالمگیر نظام قدیم دور ہی سے مختلف شکلوں میں رائج چلا آ رہا ہے۔ سیاسی اور حکومتی سطح پر اس کا استعمال 1925ء میں ہوا ہاں البتہ 1947ء اور 1958ء کے درمیانی عرصے میں قومی سطح پر ملک میں براہ راست انتخابات نہ ہو سکے۔
عالمگیریت کے اعتبار سے مقامی، بلدیاتی شہری حکومتوں کا طرزِ انتظام یونان، ہندوستان، مصر، عراق، ایران، جاپان اور چین کے علاوہ برطانیہ، امریکا اور فرانس وغیرہ میں بھی مقامی حکومت کے ادارے قدیمی ہیں جب کہ عصرِ حاضر کے بیشتر ممالک میں بلدیاتی ادارے اپنی افادیت کی وجہ سے قائم ہیں اور ممتاز حیثیت کے مالک ہیں۔ مقامی حکومت میں میونسپیلیٹی، ڈسٹرک بورڈ اور پنچایت کی اصطلاح کا درست اور سائنسی استعمال زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز استنبول کے میئر کی حیثیت سے کیا تھا۔ اس شہر کی مثالی عالمگیر سطح پر ترقی ان کی شخصیت ہی کی مرہونِ منت ہے۔
قیامِ پاکستان کا پہلا عشرہ مقامی، بلدیاتی اور شہری اداروں کی ترقی و ترویج کے لیے مایوس کن رہا۔ گیارہ سالہ دورِ ایوبی یعنی اپریل 1960ء کو میونسپل ایڈمنسٹریشن کا نفاذ ممکن ہو سکا جس کا بنیادی مقصد مروجہ اور نافذ العمل بلدیاتی نظام میں ترمیم اور اس کا استحکام تھا۔ دورِ ایوبی کے خاتمے کے بعد یعنی 1972ء میں صحیح معنوں میں عوامی جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو کی زیرِ قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں دیکھنے کو آئی جس نے 22جنوری1972ء کو مقامی نظام کو مسترد کرتے ہوئے نئے مقامی نظام پیپلز لوکل گورنمنٹ سسٹم کا نفاذ کیا، مگر افسوس اس پورے نظام کو بلدیاتی انتخابات کے بعد نافذ کیا جانا تھا جو 1971-1977ء کے دوران نہ ہو سکا، لہٰذا اطلاق نہ ہو سکا۔1979 ء کے دورِ ضیاء میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء پاس ہوا جس میں کنٹونمنٹ ایکٹ 1924ء کو بھی برقرار رکھا گیا۔
1973ء کا آئین پاکستان بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے رہنمائی تو ضرور کرتا ہے مگر عام انتخابات کی طرح اس کو لازمی نہیں سمجھتا اور نہ ہی یہ مخصوص مقررہ مدت میں کوئی نشاندہی کرتا ہے۔ مشرف دور کے بلدیاتی ادارے 2009ء میں پیپلز پارٹی کے دور میں معطل کر دیے گئے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت (مسلم لیگ (ن) کو ڈھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے وہ سابقہ حکومتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنا 5 سال کا ہدف (tenure) پورا کرنا چاہتی ہے۔
وہ تو ملک و قوم کی خوش قسمتی کہہ لیجیے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے آئین کے آرٹیکل 32، 140/A اور 219 کے تحت بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا سنگین نوٹس لے لیا جس فیصلے کی رو سے وفاق نے باقی دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں ان انتخابات کے انعقاد کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پہلے ہی یہ ادارے کام کر رہے ہیں۔ ضرورت ہے پنجاب اور سندھ میں بھی لوکل باڈیز کو عوامی سطح پر فعال بنایا جائے۔ یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ پرویز مشرف کے دور میں ضلع و مقامی سطح پر ناظموں کو وسیع اختیارات حاصل تھے بلکہ ضلع ناظم کو تو بیوروکریسی پر بھی برتری حاصل تھی۔ موجودہ انتخابی Scenario)) میں ناظم کا کردار بدل کر چئیرمین کر دیا گیا ہے جس کے اختیارات برائے نام ہیں۔
گنجان آبادی پر مشتمل عالمی شناخت کا حامل میٹرو پولیٹن سٹی کراچی جس کو سمندر، ملکی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی اور جغرافیائی وسعت کے اعتبار سے منی پاکستان کا درجہ دیا گیا ہے جو زبوں حالی کا شکار ہے۔ بے تحاشہ مسائل کی وجہ سے یہ اپنی شان و شوکت کھوتا جا رہا ہے۔ ان مسائل میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ یہاں کا ٹرانسپورٹیشن سسٹم ہے جس سے سڑکوں پر ٹریفک کا بے ہنگم شور اور گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک جام کا سلسلہ ہنوز جاری رہتا ہے جب کہ ٹریفک کی روانی کے سلسلے میں سابق شہری حکومت نے شب و روز نگرانی سے پورے شہر میں سگنل فری فلائی آور ز تعمیر کروائے جس سے کسی حد تک ٹریفک کی مشکلات میں کمی تو آئی مگر وہ مناسب ٹرانسپورٹیشن سسٹم کے نہ ہونے سے مزید مسائل کے بھنور میں پھنس گئی۔
گورنر سندھ عشرت العباد نے کراچی سرکلر ٹرین کی دوبارہ بحالی کا عندیا دیا تھا جو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اس میگا سٹی میں بھی لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد کی طرز پر میٹرو بس پروجیکٹ کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ دوسرا اہم مسئلہ جس سے شہر کا عام آدمی بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے وہ ہے قلت آب۔ کراچی واٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ اگر کراچی الیکٹر ک اپنا قبلہ درست کرے تو پانی کے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ان تمام مسائل کا حل ایک مضبوط، فعال، بااختیار مقامی حکومت کا قیام ہے جس کے تحت بلدیاتی ادارے بھی مضبوط ہو سکتے ہیں۔
شہر ی اداروں کو مستحکم بنیاد فراہم کرنا ملک کی وفاق اور صوبائی حکومتوں کی اولین ذمے داری ہے نہ کہ ملک کی اعلیٰ عدالتیں۔ سیاست کی نرسری میں رہتے ہوئے فلاح و بہبود کے تحت عوام کی براہ راست خدمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جتنا زیادہ منتخب شہری نمایندگان کا عوام سے رابطہ ہو گا، اتنا ہی جمہوریت کا پودا تناور درخت بنے گا۔ اسی قسم کے تناور درخت ہی اس ملک کی پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگانے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب وفاق فراغ دلی اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو اختیارات تفویض کرنے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی فنڈز کی مد میں ترجیحی بنیادوں پر خطیر رقوم مختص کریں۔ اسی میں جمہوریت کی بقا ء ہے۔