مونچھ تیرے لئے مظہر الفت ہی سہی

اگرآپ کی جمہوریت اتنی ہی غیر پائیدارہے کہ جھوٹ کےبغیر کھڑی بھی نہ ہوسکےتو اس جمہوریت کا ہماری قوم اوروطن کو کیا فائدہ؟


زبیر ترک November 12, 2015
اگر ہمارے یہاں بھی کسی وعدے کی خلاف ورزی پر مونچھ کٹوانے کا کہا جاتا تو پھر نہ تو کسی رہنما کے منہ پہ مونچھ ہوتی اور اچھے خاصے با شرع نورانی داڑھی والے بھی ٹنڈ منڈ دکھائی دیتے۔

وینزویلا کے صدر کا بیان آیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں ''اگر سال کے آخر تک 10 لاکھ گھر بنانے کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا نہ کرسکا تو مونچھیں کٹوا دوں گا تا کہ عوام کو پتہ چل سکے کہ صدر اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا ہے''۔

ماشااللہ کیا بات کی ہے اگر صدر صاحب ہمارے وطن میں ہوتے اور وطن عزیز اپنی موجودہ ڈگر پر چل رہا ہو تو ذرا تصور کیجیے کہ آنے والے انتخابات کے دنوں میں ہمارے موجودہ برسر اقتدار راہنما اپنی ہیئت کذائی میں کسی بدھ بھکشو سے مماثلت رکھتے۔ کہ نہ تو منہ پہ مونچھ اور اچھے خاصے با شرع نورانی داڑھی والے بھی ٹنڈ منڈ دکھائی دیں۔ لیکن چونکے وہ ہمارے حکمراں ہیں تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ کہیں وہ سب تو صرف ایک وعدہ تھا اور وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو سکے۔ مونچھ تیرے لئے مظہر الفت ہی سہی تجھ کو اس نشانی رنگیں سے عقیدت ہی سہی میرے محبوب کچھ اور مانگا کر مجھ سے اگر یہی شرط رہی وصل لیلٰی تو ہم باز آئے محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا وغیرہ وغیرہ۔

دعوے تو انتخابی عمل کا حصہ ہیں اور بقول کسی کے، بڑھکیں، جھوٹے وعدے، اپنی فرشتہ صفتی اور مخالف کا مجسم شیطان ہونے کا دعوی اور بہت ساری انہونیوں کے ثبوت، بند فائلوں، اور خفیہ سازشوں کے اسرار کا ذکر یہ سب تو جمہوریت کا حسن ہے۔ اگر آپ کی جمہوریت اتنی ہی بے ڈھنگی، بھدی اور غیر پائیدار ہے کہ جھوٹ کی لاٹھی کے بغیر کھڑی بھی نہ ہوسکے تو اس جمہوریت کے کارٹون کا ہماری قوم اور ہمارے وطن کا کیا فائدہ؟

جب ہم کبھی سفید عمامہ جبہ اور کتاب میں تو کبھی ڈنڈے میں اپنی فلاح تلاش کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ بڑی بڑی عمارتیں عوام کی ہیں اور جب سلطانی جمہور کا زمانہ آئیگا تو ان میں علم کے متلاشی اپنی علم کی پیاس بجھایا کریں گے۔ سڑکوں پر گھوں گھوں کرتے سائرن صرف ایمبولینسوں کے ہوں گے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیئں گے اور خلق خدا راج کرے گی۔ لیکن یہ سب 35 پنکچروں کی تشریح کی طرح سیاسی بیان قرار پائے گا۔ ایک اور انتخاب آئے گا اور پھر وہی دشت اور مجنوں کا چاک گریباں ہوگا۔

پچھلے زمانوں کے مقابلہ میں ہمارے یہاں جھوٹ اور وہ بھی دھڑلے سے بلا جھجک بولنے کا رجحان اور تناسب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کسی بندے سے یہ پوچھا گیا کہ اگر سارے سچے سفید براق اور سارے جھوٹے سیاہ ہوجائیں تو آپ کا رنگ کیا ہوگا؟ انہوں نے بلا توقف جواب دیا ''دھاری دار''۔ لیکن جناب اب تو بش ڈاکٹرائین کے بعد اس دو رنگی کی بھی گنجائش نہیں رہی کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن کے ساتھ، ورنہ آپ کو پتھر کے دور میں بھیج دیا جائیے گا۔ اگر آج آپ کو اس طرح کی کال آدھی رات کو آئے تو بلا توقف فرمائیے ''آپ کو اس معاملہ میں تکلیف کرنے کی ضرورت بالکل نہیں، یہ ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کا ''ذاتی معاملہ'' ہے اور ماشاءاللہ وہ بڑی تندہی سے اپنے کام کو سرانجام دے رہے ہیں''۔ ہماری دوراندیش حکومت تو اب اس زمانے کی مروج و معروف ذرائع نقل و حمل کی افزائش کا بندوبست ہمارے دوست ملک کے سرمایہ کاروں کی مدد سے کر رہی ہے۔ ہم تو صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ ہی ہمارا حامی وناصر ہو۔

[poll id="759"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں