خون خاکِ نشیناں

یہ وہ معصوم ہیں جن کی موت پر صرف ان کے ماں باپ یا بہن بھائی اور رشتے دار آنسو بہاتے ہیں۔


Orya Maqbool Jan November 13, 2015
[email protected]

ABU DHABI: یہ وہ معصوم ہیں جن کی موت پر صرف ان کے ماں باپ یا بہن بھائی اور رشتے دار آنسو بہاتے ہیں۔ ان میں اکثر انھیں تقدیر کا لکھا سمجھ کر چپ چاپ ننھی سی قبریں کھود کر ان میں اپنے پیاروں کو دفن کر کے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کوئی زیادہ تلخ ہو تو ڈاکٹروں کا گریبان تھام لیتا ہے۔ لیکن کسے خبر ہے کہ یہ آفت کے مارے کون ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے۔

ہر سال کتنے لوگ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ اگر اس ملک کے میڈیا میں تھوڑی سی حمیت اور شرم ہوتی اور اسے اس ملک کے مفلس و نادار لوگوں پر بیتنے والی قیامتوں کا ادراک ہوتا تو آج اس ملک کا ہر چینل اور ہر اخبار چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہوتا کہ ہمارے بچے مر رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔ ہمیں ان اموات کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ اے پی سی بلائی جائے، نیشنل پلان آف ایکشن ترتیب دیا جائے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اور فوج ایک صفحے پر آ جائیں۔ یہ قومی المیہ ہے۔

لیکن رکئیے! سوچیے! یہ ہمارا قومی المیہ نہیں ہے کہ صرف گزشتہ سال یعنی سال 2014ء میں ایک لاکھ چوالیس ہزار بچے صرف نمونیا اور اسہال کے مرض سے ہلاک ہوئے جن میں 91 ہزار بچے نمونیا سے اور 53 ہزار بچے اسہال کے مرض سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ یعنی روزانہ 395، ہر گھنٹے میں 33 اور ہر دو منٹ میں ایک بچہ صرف ان دو بیماریوں کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا گیا۔ نمونیا سے مرنے والے بچوں کی تعداد کے حساب سے ہم دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں، بھارت پہلے نمبر پر ہے جہاں گزشتہ سال 1,74,000 بچے نمونیا سے ہلاک ہوئے۔

بھارت کی آبادی ہم سے چھ گنا زیادہ ہے، لیکن اموات صرف دوگنا زیادہ ہیں۔ اس لیے دراصل یہ تاج ہمارے ہی سروں پر سجنا چاہیے کہ ہم سب سے زیادہ اپنے بچوں کو موت کا ذائقہ چکھانے والے ہیں۔ ہم وہ بدقسمت معاشرہ ہیں جو دنیا بھر کے پسماندہ ترین ممالک سے بھی زیادہ اپنے بچوں سے لاپروا اور ان پر ظلم کرنے والے ہیں۔ وہ ممالک جو قحط زدہ ہیں، غربت و افلاس کا شکار ہیں۔ ہمارے مقابلے میں ایتھوپیا میں ہر سال 35ہزار، انگولا 26 ہزار، کینیا 18 ہزار، سوڈان 17 ہزار، یوگینڈا 16 ہزار، نائیجریا 15 ہزار، تنزانیہ 14 ہزاراور ہمارے پڑوسی ملک افغانستان جو گزشتہ تین دہائیوں سے حالتِ جنگ میں ہے، اس میں 20 ہزار بچے 2014ء میں نمونیا سے ہلاک ہوئے۔

دنیا کے تمام طبّی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کے نمونیا سے مرنے کی بنیادی وجہ قصبوں اور گاؤں کی سطح پر طبّی سہولتوں کا فقدان ہے۔ دنیا کے جس ملک میں طبّی سہولیات فراہم کرنے میں ترجیح بڑے اسپتالوں کے بجائے قصبوں اور دیہاتوں تک اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو پہنچانے پر دی جائے گی، وہاں بچوں کی اموات کی شرح کو کم کیا جا سکے گا۔

بلکہ دیگر تمام بیماریوں کی بھی آسانی سے روک تھام ہو گی۔ پاکستان میں بچوں کی یہ اموات کسی بھی آفت، بیماری، دہشت گردی سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ لیکن چونکہ نہ ان اموات کے بارے میں گفتگو کرنے سے عالمی ایجنڈا پورا ہوتا ہے اور نہ ہی ان بچوں کو زندہ رکھنے کی جدوجہد میں ہمیں ووٹ ملتے ہیں اس لیے ان پر گفتگو کرنا نہ ہمارے میڈیا کا موضوع ہے اور نہ ہی ہمارے سیاستدانوں کا مشغلہ۔ ہم اپنی دھن میں مست ہیں۔

ہماری دھن کیا ہے۔ ہماری دھن وہی ہے جس سے ہماری مقبولیت میں اضافہ ہو اور ہم اس کے ذریعے سرمایہ کما سکیں۔ میڈیا اور سیاست دونوں ان مقاصد میں اکھٹے ہیں۔ میڈیا ایسے موضوعات چھیڑتا ہے جن سے ریٹنگ میں اضافہ ہو اور پھر اسے اشتہارات ملیں اور وہ مالامال ہو۔ سیاست دان ان ہتھکنڈوں کو اختیار کرتے ہیں جن سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو، وہ دوبارہ، سہ بارہ منتخب ہوں اور جس کے نتیجے میں ان کے ذاتی کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکیں، وہ لکھ پتی سے کروڑ پتی اور پھر ارب پتی بنتے چلے جائیں۔

پاکستان کے میڈیا پر گزشتہ پندرہ سالوں میں جس بات پر سب سے زیادہ گفتگو ہوئی، جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا وہ دہشت گردی ہے۔ ان پندرہ سالوں میں دہشت گردی سے اندازاً پچاس ہزار لوگ لقمہء اجل بنے۔ جس کا مطلب ہے ہر سال تقریباً تین ہزار تین سو تینتیس افراد موت کی آغوش میں گئے۔ یہ نمونیا اور اسہال سے مرنے والے بچوں کا صرف 2 فیصد ہیں۔ یعنی اگر سال میں 2 لوگ دہشت گردی سے ہلاک ہوئے تو صرف نمونیا اور اسہال سے 98 بچے مارے گئے۔

میں یہاں دیگر بیماریوں سے مرنے والے بچوں کا ذکر نہیں کر رہا۔ لیکن آپ گزشتہ پندرہ سالوں کا میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو ان لاوارث اور بے یارومددگار بچوں کے مرنے اور اتنی تعداد میں مرنے کے بارے میں شاید ہی کوئی پروگرام مل سکے یا کسی عظیم کالم نگار کا کالم نظر آئے۔ جب کہ دہثت گردی کے بارے میں آپ کو ہر طرف خوف کے سائے پھیلاتے اور پوری دنیا کو متحد کرتے میڈیا کے عظیم جگادری نظر آئیں گے۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں اب تک تقریبا ًپچاس لاکھ لوگ پوری دنیا خصوصاً مسلم دنیا میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ سب دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں مارے گئے۔

یعنی ان پندرہ سالوں میں دنیا بھر میں ہر سال تین لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا تا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس جنگ میں تقریباً دو ہزار ارب ڈالر جھونکے گئے تا کہ لوگوں کو دہشت گردی کی موت سے بچایا جا سکے۔ لیکن جب ہم اس گولہ و بارود کا کھیل کھیل رہے تھے تو دینا میں صرف نمونیا سے 94 لاکھ بچے ہر سال مر رہے تھے۔

یعنی ان پندرہ سالوں میں چودہ کروڑ بچے صرف نمونیا سے ہلاک ہو گئے اور ان اموات کو روکنے کے لیے نہ کوئی نیٹو آگے بڑھا اور نہ ہی کسی عالمی طاقت کے ضمیر کو دھچکا لگا۔ ہم بھی عالمی برادری کا حصہ ہیں، ان کے کاسہ لیس اور ذہنی غلام ہیں۔ ہم بھی اسی طرح بے حس، بے شرم اور لاپرواہ ہیں۔ ہم بھی اس عالمی برادری کا سودا بیچتے ہیں اور اپنے بچوں کو موت کی آغوش میں چپ چاپ جاتا دیکھتے چلے جاتے ہیں۔

ہماری بے حسی، لاپرواہی اور بے شرمی علاقائی بھی ہے۔ کیا کبھی کسی نے ٹھنڈے دل سے غور کیا ہے کہ جب اس ملک کے بڑے شہروں لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بچھائی جا رہی تھی تو اس کی تعمیر میں لگنے والی ایک ایک اینٹ، ایک ایک انسانی جان کی قیمت پر لگائی جا رہی تھی۔ ان دونوں عظیم منصوبوں میں لگائی جانے والی ایک اینٹ سے راجن پور، لیّہ، دیپال پور، قصور، تلہ گنگ جیسے علاقوں کے دور دراز کے دیہات میں نمونیہ سے تڑپتے ہوئے بچے تک دوا پہنچائی جا سکتی تھی۔

ان کی زندگی بچا کر ان کے والدین کو خوشیاں لوٹائی جا سکتی تھیں۔ ان اٹھارہ کروڑ عوام کو زندگی چاہیے اور پھر اس بلا سے بچ نکلیں جسے موت کہتے ہیں تو پھر انھیں تعلیم بھی چاہیے اور باقی ضروریاتِ زندگی بھی۔ موت کے بھیانک پنجے سے نکلیں گے تو میٹرو پر سفر کر سکیں گے۔ لیکن ہمیں تو عالمی معیار کی سواری چاہیے جسے رواں رکھنے کی کوشش پر ہر سال 94 ہزار بچے نمونیا اور اسہال سے اسے کے تیز رفتار پہیوں تلے چیختے چلاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔

کیا ان حکمرانوں کو اس خوبصورت سرخ رنگ کی ایر کنڈیشنڈ میٹرو کے پہیے تلے دم توڑتے بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ کیا ان بڑے بڑے میٹرو اسٹیشن کی راہداریوں میں ان معصوم بچوں کی ارواح کا بین نظر نہیں آتا جو پکار رہی ہیں کہ تمہاری اس خوبصورت میٹرو کی قیمت ہم نے اپنی زندگیاں دے کر چکائی ہے۔ تم اس سرمائے سے ہمارے گاؤں کے آس پاس ایک ڈسپنسری بنا سکتے تھے۔

جہاں میرے ماں باپ مجھے اٹھا کر لے جاتے، مجھے دوا مل جاتی اور میں بھی آپ کے بچوں کی طرح زندگی گزار رہا ہوتا۔ لیکن شاید ہمارے کسی حکمران کا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، یا نواسی، نواسا کبھی صرف دوائی نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر نہیں مرا، کسی ممبر پارلیمنٹ، کسی بیوروکریٹ یا کسی جرنیل کی اولاد نمونیا کا شکار نہیں ہوئی ہے اور دوا نہ ملنے کی صورت میں موت کی آغوش میں نہیں چلی گئی۔ اگر ان سیاست دانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور میڈیا کے عظیم دانشوروں کے ساتھ یہ بیت جاتی تو انھیں یہ ساری ترقی زہر لگتی، انھیں میٹرو کے پہیوں تلے اپنے بچے کی لاش پڑی نظر آتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں