’’یہ‘‘ والی جمہوریت یا ’’وہ‘‘ والی
کوئی جانے یا نہ جانے سارا گلوبل ولیج تو جانے ہے کہ پاکستان میں دو اقسام کی جمہوریتیں رائج ہیں
کوئی جانے یا نہ جانے سارا گلوبل ولیج تو جانے ہے کہ پاکستان میں دو اقسام کی جمہوریتیں رائج ہیں۔ ایک جاگیردارانہ جمہوریت، دوسری جرنیلی جمہوریت۔ درمیان میں عزت مآب مساکین (عوام) کی مقامی حکومتوں کی جمہوریت کا ذکر بھی آتا ہے جس کو جاگیردارانہ جمہوریت ترقیاتی فنڈز ڈکارنے کے لیے جینے نہیں دیتی اور جرنیلی جمہوریت عوام سے براہ راست رابطے کی خاطر مرنے نہیں دیتی۔ بے چاری شہنشاہ اکبر اور شہزادہ سلیم کے درمیان انارکلی بن کر رہ گئی ہے۔
جب جاگیردارانہ جمہوریت آتی ہے پہلے سال کے اختتام پر عوام کی چیخیں نکلنے لگتی ہیں۔ دوسرے سال کے اختتام تک گھگی بندھ جاتی ہے۔ خالی پیٹ سڑکوں پر آکر نعرے لگاتے ہیں تو حلق سے غراروں کی آوازیں نکلتی ہیں جس کا سیاسی پنڈت یہ مطلب نکالتے ہیں کہ عوام جرنیلی جمہوریت کو آواز دے رہے ہیں۔
جواباً جرنیلی جمہوریت لبیک کہتی ہوئی فوراً آجاتی ہے اور اس سال تک آتی ہی چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد عزت مآب مساکین بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کو جاگیرداری جمہوریت کا حسن یاد آنے لگتا ہے یعنی ''من ترا ٹانگیں گھسیٹم، تو مرا ٹانگیں گھسیٹ''۔ 68 سال ہوگئے عزت مآب مساکین یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ان کو کون سی جمہوریت پسند ہے۔ ''یہ'' والی جمہوریت یا ''وہ'' والی؟
سیانے کہتے ہیں جو چیز بھی نمک کی کان میں جاتی ہے نمک بن جاتی ہے۔ اگر نمک نہ بھی بنے نمکین تو ہو ہی جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا کی ہر برائی جب جاگیردارانہ جمہوریت کے جھنڈے تلے آجاتی ہے تو جمہوریت کا حسن بن جاتی ہے۔ اگر حسن نہ بھی بنے خوبی تو بن ہی جاتی ہے مثلاً:
A: جیل یاترا، جاگیردارانہ جمہوریت میں جو سیاستدان جیل نہیں جاتا وہ سیاستدان کہلانے کے لائق نہیں رہتا۔ مثال آزادی ہند کے جید سیاستدانوں کی دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا گاندھی جی کی دبئی جاتی ہوئی ڈالروں سے لوڈ لانچ پکڑی گئی تھی؟ کیا پنڈت نہرو کے گھر سے دو کھرب روپے برآمد ہوئے تھے؟ حسرت موہانی کا سوئس بینک میں خفیہ اکاؤنٹ تھا؟ یا محمد علی جوہر بینکوں سے قرضہ لے کر کھا گئے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک اور قوم کی خاطر لٹنے والے لوگ تھے لٹیرے نہیں۔ یہ وہ لوگ تھے۔
جنھوں نے آزادی ہند کی جنگ عدم تشدد کی پالیسی کے تحت لڑی۔ یعنی خالی ہاتھ بغیر غلیل کے ! اس کو سمجھنے کے لیے ایک دل چسپ واقعہ ملاحظہ کیجیے جس پر فلم بھی بن چکی ہے۔مہاراشٹر میں واقع ریلوے جنکشن کی پٹریوں پر ہزاروں کھدرپوش کانگریس کارکن لیٹے ہوئے تھے۔ سارا ساؤتھ انڈین ریلوے نظام مفلوج ہوچکا تھا، انگریز کمشنر نے الٹی میٹم دیا کہ 15 منٹ میں ریل کی پٹریاں خالی کردی جائیں ورنہ گولی چلانے کا حکم دے دیا جائے گا۔ وقت گزر گیا۔
کارکن لیٹے رہے کسی ایک نے کروٹ تک نہیں بدلی۔ اس کے بعد کمشنر نے انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ پٹریوں پر لیٹے ہوئے کارکنوں کی پرواہ کیے بغیر ان کو کچلتا ہوا اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجائے۔ کان کے پردے پھاڑ دینے والی سیٹی بجاتی، پوری رفتار سے ٹرین دوڑتی آئی اور بڑی مشکل سے فل بریک لگا کر ٹرین پٹری پر لیٹے ہوئے پہلے ورکر کے کندھے کے پاس روک لی۔ کارکن ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آخرکار انگریز کمشنر نے اپنے مددگار کے کان میں کچھ کہا۔ وہ فوراً روانہ ہوگیا۔ کچھ ہی دیر بعد بھنگیوں کا ایک ٹولہ غلاظت کی بالٹیاں اٹھائے نمودار ہوا اور پلیٹ فارم کے کنارے صف باندھ کر کھڑا ہوگیا۔
ہر طرف بدبو پھیل گئی۔ کمشنر نے آخری وارننگ دی کہ دس تک گنتی ختم ہونے سے پہلے پٹریاں خالی کردی جائیں ورنہ۔۔۔۔۔۔ جواباً گنتی شروع ہونے سے پہلے ہی کانگریسی کارکنوں کی وہ بھگدڑ مچی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ریل کی پٹریاں خالی ہوگئیں اور ٹرینیں روانہ ہوگئیں۔B: مانا کہ جمہوریت کی خرابیاں جمہوریت کے تسلسل سے ہی صحیح ہوسکتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آمریت کی خرابیاں آمریت کے تسلسل سے کیوں صحیح نہیں ہوسکتیں؟ دہشت گردی کی وارداتیں دہشت گردی کے تسلسل سے اور کرپشن کی کارروائیاں کرپشن کے تسلسل سے کیوں ختم نہیں ہوسکتیں؟
بھلا جب کرپشن کے تسلسل سے قومی خزانہ ہی خالی ہوجائے گا تو کرپشن جاری کیسے رہ سکتی ہے؟C: صالحین جمہوریت کا خیال یہ ہے کہ اگر برائی قبول کرنا مجبوری بن جائے تو چھوٹی برائی قبول کی جاسکتی ہے۔ بینک میں ڈاکہ ڈالنا بڑی برائی ہے کیونکہ بینک کا جلاد نما گارڈ کلاشنکوف تانے ہر وقت چوکنا رہتا ہے۔
اس کے مقابلے میں پستول دکھا کر موبائل اور پرس چھیننا چھوٹی برائی ہے۔ اللہ غفور الرحیم ہے۔ لیکن اگر بینک کا گارڈ ملا ہوا ہے تو بینک میں ڈاکہ ڈالنا چھوٹی برائی بن جائے گا۔ البتہ معاوضہ لے کر کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنا بڑی برائی کہلائے گا۔ اللہ ہر مسلمان کو گناہ کبیرہ سے محفوظ رکھے آمین۔اس کے علاوہ بھی جاگیردارانہ جمہوریت میں بے شمار ملٹی کلر خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
مثلاً (1) مفاہمت کی سیاست۔ یعنی جب ایک پارٹی اپنی باری پر لوٹ مار میں مصروف ہے تو دوسری پارٹی ملک اور قوم کے مفاد میں اس کو تحفظ فراہم کرے۔ (2) آج کے دوست (مطلب نکلنے کے بعد) کل کے دشمن اور کل کے دشمن (اپنا مطلب نکالنے کے لیے) آج دوست ہوسکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔جمہوری استحکام جمہوری روایات کا تابع ہوتا ہے، جو جمہوری رویے قائم کرتے ہیں پارلیمنٹری نظام کے تعلق سے برطانیہ ہمارا رول ماڈل ہے حالانکہ وہاں ''شاہی جمہوریت'' رائج ہے۔اول: بکھنگھم پیلس میں ملکہ الزبتھ رہائش پذیر ہیں جن کو برطانوی پارلیمنٹ برطرف کرنے کا مکمل اختیار ہے۔
لیکن آج تک انھوں نے اپنا یہ حق استعمال نہیں کیا کیونکہ یہ اقدام عوامی مفاد کے خلاف ہے یعنی وہ عوامی سوچ کی حامل ہیں حالانکہ ملکہ برطانیہ ہیں۔دوم: برطانوی وزیر اعظم آئیرن لیڈی مارگریٹ تھیچر ڈاؤننگ اسٹریٹ کے مکان (وزیر اعظم ہاؤس) میں مقیم تھیں۔ جو بیرونی وفود سے بات چیت کے دوران باورچی خانے کے چکر بھی لگاتی رہتی تھیں کہ کہیں چولہے پر چڑھی ہنڈیا جل نہ جائے۔سوم: برطانیہ میں تحریری آئین ہی نہیں ہے۔ منہ زبانی کام چلاتے ہیں لیکن آج تک آئینی بحران پیدا نہیں ہوا۔
چہارم: نتیجتاً ایک سیٹ کی برتری رکھنے والی حکومت بھی اپنی میعاد اتنے ہی سکون اور اطمینان سے پوری کرتی ہے جتنی کہ دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کے 20 کروڑ عزت مآب مساکین کب طے کریں گے کہ پاکستان کے لیے کس قسم کی جمہوریت موزوں رہے گی؟
جہاں تک میرا سوال ہے مجھے تو ''وہ'' والی جمہوریت پسند ہے جو جمہوریت کی نرسری میں پنپتی ہو، اور منتخب نمایندوں پر غیر منتخب بیورو کریسی کے تسلط سے پاک، مقامی حکومتوں کے نظام میں جلوہ دکھاتی ہو۔ چاہے وہ جرنیلی جمہوریت کے توسط سے آئے یا شاہی جمہوریت کے توسط سے۔ میری اس بات سے بناسپتی جمہوریت پسندوں کے (بقول پنجابی شاعر) اگر گھٹنوں میں درد جگر اٹھتا ہے تو اٹھے۔ مجھے اس سے کیا؟سانوں کی۔