نظام تعلیم اور جدید تقاضے
گزشتہ دنوں ایک خبر پر توجہ مرکوز ہوکر رہ گئی، خبر تھی کہ ’’اساتذہ طلبا کی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں
KARACHI:
گزشتہ دنوں ایک خبر پر توجہ مرکوز ہوکر رہ گئی، خبر تھی کہ ''اساتذہ طلبا کی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں'' اندرون سندھ کے اساتذہ کے تعارفی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے مزید فرمایا کہ محکمہ تعلیم کے افسران کو اپنے فرائض ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دینا چاہئیں تاکہ مستقبل کے معمار زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر ملک و قوم کی بہتر خدمت کرسکیں۔
بات تو قابل غور ہے اور اساتذہ کے وقار وتقدس کے مطابق بھی۔ مگر خبر پڑھ کر ہم نے سوچا کہ اچھی اور معیاری تعلیم کے لیے اچھے اساتذہ تو یقیناً اہم ہیں، فی زمانہ یوں بھی اساتذہ کی کارکردگی میں مقابلے کے باعث بہتری آئی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے باعث اساتذہ کی قدر و قیمت اور اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مگر محض اساتذہ کا اچھا اور مخلص ہونا ہی کافی نہیں، اصل چیز مستقبل کے اچھے معمار بنانے کے لیے نظام تعلیم اور نصاب کا جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہے۔
جب برسوں نصاب میں موجودہ حالات و ضروریات کے مطابق کوئی تبدیلی یا اضافہ نہ ہو اور نظام تعلیم کو بدلتے حالات کے مطابق نہ ڈھالا جائے بلکہ طویل عرصے سے تمام نظام جوں کا توں چل رہا ہو تو اچھے اساتذہ بھی بہتر معاشرہ تشکیل دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ تجربہ کار اور دور اندیش اساتذہ اپنا طریقہ تدریس خود اختیار کرتے ہیں، اپنے طلبا کی ذہنی استطاعت کے مطابق روز نت نئے انداز اور طریقے سے طلبا کو آگاہی فراہم کرنے کا فرض ادا کرتے ہیں، مگر ایک ہی نصاب برسوں سے پڑھاتے رہنے سے خود ان کی تدریسی دلچسپی بھی برقرار نہیں رہتی۔
پاکستان کے نظام تعلیم میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں جو مضامین اور شاعری (اردو اور انگریزی میں) خود میں نے پڑھے تھے وہی میری بیٹی کے نصاب میں شامل تھے جب کہ کیمبرج نظام میں تقریباً ہر دو سال بعد اگر پورا نصاب نہیں تو اس کے کچھ حصے ضرور تبدیل ہوجاتے ہیں۔ نئے موضوعات پڑھانے کے لیے اساتذہ کو بھی ازسر نو مطالعہ کرنا پڑتا ہے تو تدریس میں ان کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ بہرحال اساتذہ اپنے فرائض سے مخلص بھی ہیں اور کچھ غیر مخلص بھی۔
ضرورت دراصل نظام تعلیم کو درست اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی ہے۔ ڈگری یافتہ جاہل پیدا کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ ابتدائی تعلیم کے معیار پر پوری توجہ دی جائے، ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت فراہم کی جائے، نصاب مختصر اور مضامین کم رکھے جائیں یعنی اردو، انگریزی اور ریاضی سے واقفیت کے بعد مختلف ہنر کے ماہرین (ہنرمند) کی حوصلہ افزائی کی جائے، کیونکہ کوئی بھی معاشرہ صرف ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر یا بابوؤں پر قائم نہیں رہ سکتا، ہر معاشرے میں درزی، موچی، الیکٹریشن، پلمبر، بڑھئی، نائی، قصائی، گٹر اور نالے صاف کرنیوالوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
پیشہ کوئی بھی ہو، دیانتداری سے انجام دینے کی قدر و قیمت ہونی چاہیے۔ اگر ڈاکٹر غلط تشخیص کرکے اور جعلی دوا دے کر کما رہا ہے تو اس کی نسبت سڑک پر جھاڑو لگانے والا اگر اپنا کام پورے خلوص سے کر رہا ہے تو معزز اس کو ہونا چاہیے نہ کہ بے ایمان ڈاکٹر کو۔ بہرحال اگر ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کو معاشرے کا معزز فرد سمجھا جائے تو بے روزگاری اور ساتھ ہی غربت سے نجات بڑی حد تک ممکن ہے۔
جب کہ اعلیٰ اور مہنگی تعلیم کا عالم یہ ہے کہ تمام تر سہولیات کے باوجود آج کا طالب علم شامل نصاب ابواب کے علاوہ کتاب کے وہ ابواب جو نصاب میں شامل نہیں پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتا۔ آج کے طلبا اپنے مضامین کو صرف اچھے گریڈ لانے کے لیے رٹ رہے ہیں، سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے، کیونکہ ان کا مقصد حصول علم کے بجائے ڈگری اور اچھی ملازمت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جن مضامین کا وہ انتخاب کرتے ہیں ان کی بنیادی معلومات تک سے لاعلم ہیں۔
جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ نصاب اور طرز تعلیم کسی واقعی پڑھے لکھے یعنی ماہر تعلیم کا ترتیب دیا ہوا ہے ہی نہیں۔ ہر تعلیمی ادارہ اپنی مرضی اور مطلب کا نصاب رائج کرنے میں آزاد ہے۔ نصاب جدید تقاضوں کے مطابق ہے کہ نہیں اس کے بجائے ان تعلیمی اداروں کا زور اس بات پر ہے کہ کتابوں اور کاپیوں پر پلاسٹک کور چڑھا ہوا ہے یا نہیں۔ کاپی کھول کر دیکھیں تو نہ کسی کام پر موضوع کی نشاندہی کی گئی ہے، نہ تاریخ درج ہے اور نہ عنوان لکھا گیا ہے، نہ اردو انگریزی کا خط (رائٹنگ) درست ہے، نہ استاد نے بچے کی اغلاط درست کی ہیں، بلکہ محض غلطیوں کو خط کشید کرکے نشاندہی کردی گئی ہے۔
نچلی جماعتوں کے بچے بلکہ سیکنڈری تک طلبا یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر غلطی کیا ہے، کیونکہ درست لفظ تو استاد نے لکھ کر دیا ہی نہیں۔ نظام تعلیم کی خامی کے باعث اساتذہ بھی سمجھانے کے بجائے طلبا کو سوالات کے جواب اس طرح بتا دیتے ہیں کہ پہلے سوال کا جواب اس پیراگراف میں ہے، دوسرے کا اس پیراگراف میں اور طلبا پورا پورا پیراگراف کتاب سے من و عن نقل کرکے لے آتے ہیں، یوں آہستہ آہستہ طلبا اپنا دماغ استعمال کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے البتہ اساتذہ کا کام بے حد آسان ہوجاتا ہے کیونکہ بالکل ہی لاپروا قسم کے ہی طلبا نقل کرتے ہوئے بھی کچھ غلطیاں کرتے ہوں گے۔
استاد ایک دو جگہ سرخ پین سے کہیں نقطے لگا کر یا ان میں اضافہ کرکے کام کی جانچ کا فریضہ ادا کردیتے ہیں۔ بعض تعلیمی اداروں میں عمدہ کارکردگی کے اظہار کے لیے پرنسپل کچھ ماہ بعد طلبا کی کاپیاں اپنے دفتر میں طلب کرتے ہیں۔ اساتذہ کی کارکردگی انھیں بے حد متاثر کرتی ہے کہ کتنی محنت سے پڑھایا گیا ہے کہ پوری جماعت میں صرف چند طلبا کی معمولی سی اغلاط ہیں اور یہ استاد ہی کا کمال ہے لہٰذا وہ اساتذہ کی ذاتی رپورٹ میں اچھے تاثرات رقم کرکے ان کو سراہتے ہیں۔
رہ گئے والدین وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے کا کام چیک ہوچکا ہے اور کچھ زیادہ خراب بھی نہیں ہے بلکہ استاد اس کے کام سے مطمئن ہے جب ہی تو گڈ، ویری گڈ اور ویل ڈن کے ریمارکس دیے ہیں۔ میرے تدریسی مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بعض اساتذہ اسکول/کالج کے ماہنامہ یا ششماہی امتحان بہترین نتائج سے انتظامیہ اور پرنسپل کو مرعوب کرکے سال کی بہترین ٹیچر کا اعزاز تو حاصل کرلیتی ہیں مگر بورڈ یا یونیورسٹی (کیمبرج، آکسفورڈ) میں ان کے طلبا اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہ جاتے ہیں اور اگر وہ واقعی اچھے گریڈ میں پاس ہوتے ہیں تو اس میں اسکول/کالج کے اساتذہ کے بجائے ٹیوشن کا کمال ہوتا ہے۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں میں اردو کو بے حد کم درجہ دیا جاتا ہے اور اردو اساتذہ کا مشاہرہ بھی دیگر مضامین کے اساتذہ سے کم ہوتا ہے۔ جن طلبا کو کوئی مضمون مشکل لگتا ہے وہ اس کو چھوڑ کر اردو لے لیتے ہیں۔ آج ہم جو شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں اردو کا معیار گرتا جا رہا ہے اس کی وجہ انگریزی ذریعہ تعلیم سے زیادہ غیر ملکی نظام بھی ہے کہ انھوں نے محض بظاہر اردو کی اہمیت کو تسلیم کرکے اپنے اختیاری مضامین میں شامل کرلیا ہے مگر اصل مقصد اردو کا معیار بڑھانا ہرگز نہیں۔ وہ طلبا جو اردو میں اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے وہ کیمبرج کے امتحان میں ''اے گریڈ'' لے آتے ہیں ۔
جن کے لیے واقعی اردو شناس اساتذہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ شاید ہی پاس ہوسکیں گے وہ ''اے اور اے اسٹار'' لے آتے ہیں۔ او لیول میں اردو، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات پاکستان میں لازمی مضامین ہیں۔ جو طلبا ان مضامین میں او لیول میں ''اے گریڈ'' لاتے ہیں اے لیول میں آکر نہ انھیں تحریک پاکستان، نہ اسلام کے بنیادی اصول اور نہ اردو میں اپنا نام درست لکھنا آتا ہے۔ ہم پاکستان کے نظام تعلیم پر تنقید کرتے ہیں مگر بیرونی یونیورسٹیوں کا بھی حال یہ ہے۔
مگر اس میں ان کی بجائے قصور زیادہ مقامی اساتذہ کا ہے خاص کر ''بچاری اردو'' کا حشر تو محض اردو بازار کے تیار شدہ نوٹس پڑھ کر ایم اے اردو کرنیوالوں کے علاوہ اردو میں ہم نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں کا فقدان ہے ( لائیو میلاد شریف بھی انگریزی میں ہوتے ہیں) ہفتہ طلبا میں مباحثے، مذاکرے، ذہنی آزمائش کے مقابلے، مشاعرے اور بیت بازی بھی اردو بہتر کرنے کے بہترین ذرایع تھے۔ آج کے طلبا جانتے ہی نہیں کہ مباحثے، مشاعرے اور بیت بازی ہے کس چڑیا کا نام۔ صرف نصابی کتب پڑھنے سے تو ایسی ہی ادب ناشناس نسل تیار ہوسکتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک خبر پر توجہ مرکوز ہوکر رہ گئی، خبر تھی کہ ''اساتذہ طلبا کی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں'' اندرون سندھ کے اساتذہ کے تعارفی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے مزید فرمایا کہ محکمہ تعلیم کے افسران کو اپنے فرائض ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دینا چاہئیں تاکہ مستقبل کے معمار زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر ملک و قوم کی بہتر خدمت کرسکیں۔
بات تو قابل غور ہے اور اساتذہ کے وقار وتقدس کے مطابق بھی۔ مگر خبر پڑھ کر ہم نے سوچا کہ اچھی اور معیاری تعلیم کے لیے اچھے اساتذہ تو یقیناً اہم ہیں، فی زمانہ یوں بھی اساتذہ کی کارکردگی میں مقابلے کے باعث بہتری آئی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے باعث اساتذہ کی قدر و قیمت اور اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مگر محض اساتذہ کا اچھا اور مخلص ہونا ہی کافی نہیں، اصل چیز مستقبل کے اچھے معمار بنانے کے لیے نظام تعلیم اور نصاب کا جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہے۔
جب برسوں نصاب میں موجودہ حالات و ضروریات کے مطابق کوئی تبدیلی یا اضافہ نہ ہو اور نظام تعلیم کو بدلتے حالات کے مطابق نہ ڈھالا جائے بلکہ طویل عرصے سے تمام نظام جوں کا توں چل رہا ہو تو اچھے اساتذہ بھی بہتر معاشرہ تشکیل دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ تجربہ کار اور دور اندیش اساتذہ اپنا طریقہ تدریس خود اختیار کرتے ہیں، اپنے طلبا کی ذہنی استطاعت کے مطابق روز نت نئے انداز اور طریقے سے طلبا کو آگاہی فراہم کرنے کا فرض ادا کرتے ہیں، مگر ایک ہی نصاب برسوں سے پڑھاتے رہنے سے خود ان کی تدریسی دلچسپی بھی برقرار نہیں رہتی۔
پاکستان کے نظام تعلیم میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں جو مضامین اور شاعری (اردو اور انگریزی میں) خود میں نے پڑھے تھے وہی میری بیٹی کے نصاب میں شامل تھے جب کہ کیمبرج نظام میں تقریباً ہر دو سال بعد اگر پورا نصاب نہیں تو اس کے کچھ حصے ضرور تبدیل ہوجاتے ہیں۔ نئے موضوعات پڑھانے کے لیے اساتذہ کو بھی ازسر نو مطالعہ کرنا پڑتا ہے تو تدریس میں ان کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ بہرحال اساتذہ اپنے فرائض سے مخلص بھی ہیں اور کچھ غیر مخلص بھی۔
ضرورت دراصل نظام تعلیم کو درست اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی ہے۔ ڈگری یافتہ جاہل پیدا کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ ابتدائی تعلیم کے معیار پر پوری توجہ دی جائے، ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت فراہم کی جائے، نصاب مختصر اور مضامین کم رکھے جائیں یعنی اردو، انگریزی اور ریاضی سے واقفیت کے بعد مختلف ہنر کے ماہرین (ہنرمند) کی حوصلہ افزائی کی جائے، کیونکہ کوئی بھی معاشرہ صرف ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر یا بابوؤں پر قائم نہیں رہ سکتا، ہر معاشرے میں درزی، موچی، الیکٹریشن، پلمبر، بڑھئی، نائی، قصائی، گٹر اور نالے صاف کرنیوالوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
پیشہ کوئی بھی ہو، دیانتداری سے انجام دینے کی قدر و قیمت ہونی چاہیے۔ اگر ڈاکٹر غلط تشخیص کرکے اور جعلی دوا دے کر کما رہا ہے تو اس کی نسبت سڑک پر جھاڑو لگانے والا اگر اپنا کام پورے خلوص سے کر رہا ہے تو معزز اس کو ہونا چاہیے نہ کہ بے ایمان ڈاکٹر کو۔ بہرحال اگر ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کو معاشرے کا معزز فرد سمجھا جائے تو بے روزگاری اور ساتھ ہی غربت سے نجات بڑی حد تک ممکن ہے۔
جب کہ اعلیٰ اور مہنگی تعلیم کا عالم یہ ہے کہ تمام تر سہولیات کے باوجود آج کا طالب علم شامل نصاب ابواب کے علاوہ کتاب کے وہ ابواب جو نصاب میں شامل نہیں پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتا۔ آج کے طلبا اپنے مضامین کو صرف اچھے گریڈ لانے کے لیے رٹ رہے ہیں، سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے، کیونکہ ان کا مقصد حصول علم کے بجائے ڈگری اور اچھی ملازمت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جن مضامین کا وہ انتخاب کرتے ہیں ان کی بنیادی معلومات تک سے لاعلم ہیں۔
جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ نصاب اور طرز تعلیم کسی واقعی پڑھے لکھے یعنی ماہر تعلیم کا ترتیب دیا ہوا ہے ہی نہیں۔ ہر تعلیمی ادارہ اپنی مرضی اور مطلب کا نصاب رائج کرنے میں آزاد ہے۔ نصاب جدید تقاضوں کے مطابق ہے کہ نہیں اس کے بجائے ان تعلیمی اداروں کا زور اس بات پر ہے کہ کتابوں اور کاپیوں پر پلاسٹک کور چڑھا ہوا ہے یا نہیں۔ کاپی کھول کر دیکھیں تو نہ کسی کام پر موضوع کی نشاندہی کی گئی ہے، نہ تاریخ درج ہے اور نہ عنوان لکھا گیا ہے، نہ اردو انگریزی کا خط (رائٹنگ) درست ہے، نہ استاد نے بچے کی اغلاط درست کی ہیں، بلکہ محض غلطیوں کو خط کشید کرکے نشاندہی کردی گئی ہے۔
نچلی جماعتوں کے بچے بلکہ سیکنڈری تک طلبا یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر غلطی کیا ہے، کیونکہ درست لفظ تو استاد نے لکھ کر دیا ہی نہیں۔ نظام تعلیم کی خامی کے باعث اساتذہ بھی سمجھانے کے بجائے طلبا کو سوالات کے جواب اس طرح بتا دیتے ہیں کہ پہلے سوال کا جواب اس پیراگراف میں ہے، دوسرے کا اس پیراگراف میں اور طلبا پورا پورا پیراگراف کتاب سے من و عن نقل کرکے لے آتے ہیں، یوں آہستہ آہستہ طلبا اپنا دماغ استعمال کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے البتہ اساتذہ کا کام بے حد آسان ہوجاتا ہے کیونکہ بالکل ہی لاپروا قسم کے ہی طلبا نقل کرتے ہوئے بھی کچھ غلطیاں کرتے ہوں گے۔
استاد ایک دو جگہ سرخ پین سے کہیں نقطے لگا کر یا ان میں اضافہ کرکے کام کی جانچ کا فریضہ ادا کردیتے ہیں۔ بعض تعلیمی اداروں میں عمدہ کارکردگی کے اظہار کے لیے پرنسپل کچھ ماہ بعد طلبا کی کاپیاں اپنے دفتر میں طلب کرتے ہیں۔ اساتذہ کی کارکردگی انھیں بے حد متاثر کرتی ہے کہ کتنی محنت سے پڑھایا گیا ہے کہ پوری جماعت میں صرف چند طلبا کی معمولی سی اغلاط ہیں اور یہ استاد ہی کا کمال ہے لہٰذا وہ اساتذہ کی ذاتی رپورٹ میں اچھے تاثرات رقم کرکے ان کو سراہتے ہیں۔
رہ گئے والدین وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے کا کام چیک ہوچکا ہے اور کچھ زیادہ خراب بھی نہیں ہے بلکہ استاد اس کے کام سے مطمئن ہے جب ہی تو گڈ، ویری گڈ اور ویل ڈن کے ریمارکس دیے ہیں۔ میرے تدریسی مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بعض اساتذہ اسکول/کالج کے ماہنامہ یا ششماہی امتحان بہترین نتائج سے انتظامیہ اور پرنسپل کو مرعوب کرکے سال کی بہترین ٹیچر کا اعزاز تو حاصل کرلیتی ہیں مگر بورڈ یا یونیورسٹی (کیمبرج، آکسفورڈ) میں ان کے طلبا اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہ جاتے ہیں اور اگر وہ واقعی اچھے گریڈ میں پاس ہوتے ہیں تو اس میں اسکول/کالج کے اساتذہ کے بجائے ٹیوشن کا کمال ہوتا ہے۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں میں اردو کو بے حد کم درجہ دیا جاتا ہے اور اردو اساتذہ کا مشاہرہ بھی دیگر مضامین کے اساتذہ سے کم ہوتا ہے۔ جن طلبا کو کوئی مضمون مشکل لگتا ہے وہ اس کو چھوڑ کر اردو لے لیتے ہیں۔ آج ہم جو شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں اردو کا معیار گرتا جا رہا ہے اس کی وجہ انگریزی ذریعہ تعلیم سے زیادہ غیر ملکی نظام بھی ہے کہ انھوں نے محض بظاہر اردو کی اہمیت کو تسلیم کرکے اپنے اختیاری مضامین میں شامل کرلیا ہے مگر اصل مقصد اردو کا معیار بڑھانا ہرگز نہیں۔ وہ طلبا جو اردو میں اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے وہ کیمبرج کے امتحان میں ''اے گریڈ'' لے آتے ہیں ۔
جن کے لیے واقعی اردو شناس اساتذہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ شاید ہی پاس ہوسکیں گے وہ ''اے اور اے اسٹار'' لے آتے ہیں۔ او لیول میں اردو، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات پاکستان میں لازمی مضامین ہیں۔ جو طلبا ان مضامین میں او لیول میں ''اے گریڈ'' لاتے ہیں اے لیول میں آکر نہ انھیں تحریک پاکستان، نہ اسلام کے بنیادی اصول اور نہ اردو میں اپنا نام درست لکھنا آتا ہے۔ ہم پاکستان کے نظام تعلیم پر تنقید کرتے ہیں مگر بیرونی یونیورسٹیوں کا بھی حال یہ ہے۔
مگر اس میں ان کی بجائے قصور زیادہ مقامی اساتذہ کا ہے خاص کر ''بچاری اردو'' کا حشر تو محض اردو بازار کے تیار شدہ نوٹس پڑھ کر ایم اے اردو کرنیوالوں کے علاوہ اردو میں ہم نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں کا فقدان ہے ( لائیو میلاد شریف بھی انگریزی میں ہوتے ہیں) ہفتہ طلبا میں مباحثے، مذاکرے، ذہنی آزمائش کے مقابلے، مشاعرے اور بیت بازی بھی اردو بہتر کرنے کے بہترین ذرایع تھے۔ آج کے طلبا جانتے ہی نہیں کہ مباحثے، مشاعرے اور بیت بازی ہے کس چڑیا کا نام۔ صرف نصابی کتب پڑھنے سے تو ایسی ہی ادب ناشناس نسل تیار ہوسکتی ہے۔