وفاق کی علامت
ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایاز صادق دوبارہ قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوگئے۔
ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایاز صادق دوبارہ قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوگئے۔ پی پی پی، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم نے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے اور ایاز صادق کے حق میں ووٹ ڈالے جب کہ پی ٹی آئی کے امیدوار شفقت محمود کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ ایم کیو ایم کراچی آپریشن کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے تاہم حکومت کی جانب سے شکایات ازالہ کمیٹی کے قیام کے بعد ایم کیو ایم نے سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں سے اپنے استعفے واپس لے کر قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا اور پھر اس کے ارکان نے اسپیکر کے انتخاب میں ایاز صادق کی حمایت کرکے حکومت پر اعتماد کا اظہار اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی آپریشن کے حوالے سے اس کی جائز شکایات کے ازالے میں سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کرے گی۔
پیپلز پارٹی کو بھی کراچی میں وفاقی اداروں کی کارروائیوں پر خاصے تحفظات ہیں اور پارٹی قیادت کی جانب سے بارہا اس کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ باوجود اس کے پی پی پی نے بھی جمہوری عمل کو مستحکم رکھنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ایاز صادق کو قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اپنا ووٹ ڈالا، جس سے وفاقی و صوبائی سطح پر سیاسی ہم آہنگی پیدا ہوگی اور جمہوریت کو استحکام ملے گا۔ پی ٹی آئی ایاز صادق کے ضمنی انتخاب میں فتح پر آج بھی کنفیوژ ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان فرماتے ہیں کہ حلقہ این اے 122 میں حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) نے الیکشن اور نادرا کے ساتھ مل کر خفیہ انداز میں بڑے پیمانے پر ووٹر لسٹوں میں رد و بدل کیا اور تقریباً 21 ہزار ووٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیے گئے۔ عمران خان نے این اے 122 کا الیکشن کالعدم قرار دلوانے کے لیے ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن جانے اور ایاز صادق کی وکٹ تیسری مرتبہ اڑانے کا دعویٰ کیا ہے۔
درحقیقت عمران خان اپنے مخصوص سیاسی طرز عمل کے ہاتھوں مجبور ہیں وہ احتجاج کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں انھیں یقین ہے کہ عوام کا ''لہو گرم'' رکھنے کے لیے انھیں کسی نہ کسی ''ایشو'' پر متوجہ کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے لیے صرف وہی بات قابل قبول ہوتی ہے جو ان کے حق میں ہو، تنقید اور مخالفت انھیں قبول نہیں۔ عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان سے علیحدگی کے بعد سخت پریشان اور کنفیوژ ہیں اور تیسری مرتبہ ایاز صادق کی وکٹ اڑانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حالانکہ پنجاب بھر بالخصوص لاہور میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے عمران خان کی بلندی پرواز کو بریک لگا دیا ہے۔ محض ایک دن پہلے ریحام خان سے علیحدگی کے فیصلے کا جلد بازی میں کیا گیا اعلان خان صاحب کی سیاست پر گہرا گھاؤ لگا گیا۔
جس کا شاید انھیں ادراک نہیں محض چند روز پیشتر دو ڈھائی ہزار ووٹ سے ضمنی انتخاب جیتنے والی مسلم لیگ (ن) نے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو بری طرح شکست سے دوچار کیا۔ خان صاحب کے چاہنے والے ''بھابھی''کی طلاق کو برداشت نہ کرسکے اور اپنا غصہ بلدیاتی الیکشن میں نکال دیا۔ جدائی کا صدمہ خود عمران خان کے لیے بھی بلاشبہ گہرے دکھ کا باعث ہے لیکن جس طرح الیکٹرانک میڈیا نے ریحام، عمران طلاق کو ''ہاٹ کیک نیوز'' بنایا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اس نے نہ صرف عمران خان کے دکھ اور کرب کو دوآتشہ کردیا بلکہ انھیں شدید غصے اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا جس کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بھری پریس کانفرنس میں ایک صحافی کو ڈانٹ پلادی جس پر میڈیا نے بھرپور عمل ظاہر کرتے ہوئے خان صاحب کے غصیلے رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ بالآخر انھیں صحافی سے معذرت کرنا پڑی۔
یہ ٹھیک ہے کہ انسان کی ذاتی، نجی اور خاندانی زندگی کے مسائل کو منظر عام پر لاکر غیر مہذبانہ اور ناشائستہ انداز سے تنقید کا نشانہ بنانا اور طنز کے نشتر چلانا اخلاقیات کے دائرہ میں نہیں آتا لیکن عمران خان عام آدمی نہیں ہے وہ آج ملک کا معروف سیاسی لیڈر بن چکا ہے۔ آپ دنیا بھر کے سیاستدانوں کے حالات زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے ذاتی، نجی و خاندانی تنازعات و مسائل کو میڈیا میں زیر بحث لایا جاتا رہا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگار اس پر تبصرے کرتے ہیں۔
معروف سیاستدانوں کی ذاتی زندگی کے حوالے سے معلومات میں عوام بالخصوص ان کے چاہنے والے بھرپور دلچسپی لیتے ہیں اور جب اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں تو لیڈر کی مقبولیت کا گراف اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ سیاستدانوں کی نجی زندگی کے فیصلے ان کی سیاسی زندگی پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح لیڈروں کے سیاسی فیصلے اور ان کے ساتھ اچانک پیش آنیوالے واقعات و سانحات بھی ان کی اور ان کی سیاسی جماعت کے مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سر جھکانے کے بجائے تختہ دار تک جانے کا جو دلیرانہ سیاسی فیصلہ کیا اس نے تاریخ میں انھیں امر کردیا۔
یہی وجہ ہے کہ ''آج بھی بھٹو زندہ ہے'' کا نعرہ بھی امر ہوگیا۔ بھٹو کے تاریخی و جرأت مندانہ فیصلے کے باعث بے نظیر بھٹو دو مرتبہ اقتدار میں آئیں جب بی بی نے موت کے خوف سے ڈرنے کے بجائے عوام اور پاکستان کی خاطر وطن آکر آمر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کا سیاسی گراف بلند ہوگیا اور ان کی شہادت نے پی پی پی کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے بعد جمہوری طریقے سے اقتدار مسلم لیگ (ن) کو منتقل کیا۔ لیکن پارٹی رہنماؤں کے سیاسی فیصلوں کے باعث 2013 کے الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آج پی پی پی اس مقام پر آگئی کہ مبصرین و تجزیہ نگار اس کے خاتمے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں لیکن پی پی پی بلاول بھٹو کی رہنمائی میں ایک مرتبہ بلند مقام حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور ناقدین کے نشتر کو حوصلے کے ساتھ برداشت کر رہی ہے۔
بلدیاتی الیکشن نے پی پی پی کو سندھ تک، مسلم لیگ (ن) کو پنجاب تک اور پی ٹی آئی کو کے پی کے تک محدود کردیا۔ وفاق کی پارٹی کا تصور دھندلا گیا۔ 1970 کے انتخابات میں بھی بڑی سیاسی جماعتیں صوبوں کے اندر محدود ہوگئی تھیں۔ نتیجتاً سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ یہ رجحانات خطرناک ہوسکتے ہیں۔
پی پی پی، پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کو وفاقیت کے تصور کو زندہ رکھنے کے لیے چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے سنجیدگی سے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری اپنی جگہ درست ہے لیکن وفاق کی کمزوری و انہدام سے قومی یکجہتی و استحکام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ماضی میں صرف پیپلز پارٹی کو وفاق کی علامت سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ کیا پی پی پی بلاول بھٹو کی قیادت میں دوبارہ وفاقی جماعت ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کرسکے گی؟ پی پی پی کی قیادت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
پیپلز پارٹی کو بھی کراچی میں وفاقی اداروں کی کارروائیوں پر خاصے تحفظات ہیں اور پارٹی قیادت کی جانب سے بارہا اس کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ باوجود اس کے پی پی پی نے بھی جمہوری عمل کو مستحکم رکھنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ایاز صادق کو قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اپنا ووٹ ڈالا، جس سے وفاقی و صوبائی سطح پر سیاسی ہم آہنگی پیدا ہوگی اور جمہوریت کو استحکام ملے گا۔ پی ٹی آئی ایاز صادق کے ضمنی انتخاب میں فتح پر آج بھی کنفیوژ ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان فرماتے ہیں کہ حلقہ این اے 122 میں حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) نے الیکشن اور نادرا کے ساتھ مل کر خفیہ انداز میں بڑے پیمانے پر ووٹر لسٹوں میں رد و بدل کیا اور تقریباً 21 ہزار ووٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیے گئے۔ عمران خان نے این اے 122 کا الیکشن کالعدم قرار دلوانے کے لیے ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن جانے اور ایاز صادق کی وکٹ تیسری مرتبہ اڑانے کا دعویٰ کیا ہے۔
درحقیقت عمران خان اپنے مخصوص سیاسی طرز عمل کے ہاتھوں مجبور ہیں وہ احتجاج کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں انھیں یقین ہے کہ عوام کا ''لہو گرم'' رکھنے کے لیے انھیں کسی نہ کسی ''ایشو'' پر متوجہ کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے لیے صرف وہی بات قابل قبول ہوتی ہے جو ان کے حق میں ہو، تنقید اور مخالفت انھیں قبول نہیں۔ عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان سے علیحدگی کے بعد سخت پریشان اور کنفیوژ ہیں اور تیسری مرتبہ ایاز صادق کی وکٹ اڑانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حالانکہ پنجاب بھر بالخصوص لاہور میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے عمران خان کی بلندی پرواز کو بریک لگا دیا ہے۔ محض ایک دن پہلے ریحام خان سے علیحدگی کے فیصلے کا جلد بازی میں کیا گیا اعلان خان صاحب کی سیاست پر گہرا گھاؤ لگا گیا۔
جس کا شاید انھیں ادراک نہیں محض چند روز پیشتر دو ڈھائی ہزار ووٹ سے ضمنی انتخاب جیتنے والی مسلم لیگ (ن) نے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو بری طرح شکست سے دوچار کیا۔ خان صاحب کے چاہنے والے ''بھابھی''کی طلاق کو برداشت نہ کرسکے اور اپنا غصہ بلدیاتی الیکشن میں نکال دیا۔ جدائی کا صدمہ خود عمران خان کے لیے بھی بلاشبہ گہرے دکھ کا باعث ہے لیکن جس طرح الیکٹرانک میڈیا نے ریحام، عمران طلاق کو ''ہاٹ کیک نیوز'' بنایا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اس نے نہ صرف عمران خان کے دکھ اور کرب کو دوآتشہ کردیا بلکہ انھیں شدید غصے اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا جس کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بھری پریس کانفرنس میں ایک صحافی کو ڈانٹ پلادی جس پر میڈیا نے بھرپور عمل ظاہر کرتے ہوئے خان صاحب کے غصیلے رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ بالآخر انھیں صحافی سے معذرت کرنا پڑی۔
یہ ٹھیک ہے کہ انسان کی ذاتی، نجی اور خاندانی زندگی کے مسائل کو منظر عام پر لاکر غیر مہذبانہ اور ناشائستہ انداز سے تنقید کا نشانہ بنانا اور طنز کے نشتر چلانا اخلاقیات کے دائرہ میں نہیں آتا لیکن عمران خان عام آدمی نہیں ہے وہ آج ملک کا معروف سیاسی لیڈر بن چکا ہے۔ آپ دنیا بھر کے سیاستدانوں کے حالات زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے ذاتی، نجی و خاندانی تنازعات و مسائل کو میڈیا میں زیر بحث لایا جاتا رہا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگار اس پر تبصرے کرتے ہیں۔
معروف سیاستدانوں کی ذاتی زندگی کے حوالے سے معلومات میں عوام بالخصوص ان کے چاہنے والے بھرپور دلچسپی لیتے ہیں اور جب اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں تو لیڈر کی مقبولیت کا گراف اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ سیاستدانوں کی نجی زندگی کے فیصلے ان کی سیاسی زندگی پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح لیڈروں کے سیاسی فیصلے اور ان کے ساتھ اچانک پیش آنیوالے واقعات و سانحات بھی ان کی اور ان کی سیاسی جماعت کے مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سر جھکانے کے بجائے تختہ دار تک جانے کا جو دلیرانہ سیاسی فیصلہ کیا اس نے تاریخ میں انھیں امر کردیا۔
یہی وجہ ہے کہ ''آج بھی بھٹو زندہ ہے'' کا نعرہ بھی امر ہوگیا۔ بھٹو کے تاریخی و جرأت مندانہ فیصلے کے باعث بے نظیر بھٹو دو مرتبہ اقتدار میں آئیں جب بی بی نے موت کے خوف سے ڈرنے کے بجائے عوام اور پاکستان کی خاطر وطن آکر آمر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کا سیاسی گراف بلند ہوگیا اور ان کی شہادت نے پی پی پی کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے بعد جمہوری طریقے سے اقتدار مسلم لیگ (ن) کو منتقل کیا۔ لیکن پارٹی رہنماؤں کے سیاسی فیصلوں کے باعث 2013 کے الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آج پی پی پی اس مقام پر آگئی کہ مبصرین و تجزیہ نگار اس کے خاتمے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں لیکن پی پی پی بلاول بھٹو کی رہنمائی میں ایک مرتبہ بلند مقام حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور ناقدین کے نشتر کو حوصلے کے ساتھ برداشت کر رہی ہے۔
بلدیاتی الیکشن نے پی پی پی کو سندھ تک، مسلم لیگ (ن) کو پنجاب تک اور پی ٹی آئی کو کے پی کے تک محدود کردیا۔ وفاق کی پارٹی کا تصور دھندلا گیا۔ 1970 کے انتخابات میں بھی بڑی سیاسی جماعتیں صوبوں کے اندر محدود ہوگئی تھیں۔ نتیجتاً سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ یہ رجحانات خطرناک ہوسکتے ہیں۔
پی پی پی، پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کو وفاقیت کے تصور کو زندہ رکھنے کے لیے چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے سنجیدگی سے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری اپنی جگہ درست ہے لیکن وفاق کی کمزوری و انہدام سے قومی یکجہتی و استحکام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ماضی میں صرف پیپلز پارٹی کو وفاق کی علامت سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ کیا پی پی پی بلاول بھٹو کی قیادت میں دوبارہ وفاقی جماعت ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کرسکے گی؟ پی پی پی کی قیادت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔