مصطفی کمال اتاترک… پہلا حصہ
مصطفی کمال پاشا 1881 میں اس وقت کی یورپی ترکی کے ایک قصبہ سالونیکا میں پیدا ہوئے
مصطفی کمال پاشا 1881 میں اس وقت کی یورپی ترکی کے ایک قصبہ سالونیکا میں پیدا ہوئے، ان کی جائے پیدائش یونان کی سرحدوں کے اندر آچکی ہے۔ مصطفی کمال پاشا کا ابتدائی نام صرف مصطفی تھا۔ پاشا تو خیر ایک فوجی خطاب ہے لیکن مصطفی کے ساتھ کمال کے اضافہ کی بھی ایک قابل فخر کہانی ہے، جس کی تفصیل سے پہلے میں مصطفی کمال کے عین بچپن یعنی یہی کوئی سات آٹھ سال کی عمر کے ایک اہم اور فیصلہ کن واقعے کی تفصیل بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔
مصطفی ابھی مشکل سے سات سال ہی کے ہوئے ہوں گے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کی والدہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنے ماموں کے پاس بھیج دیا۔ ماموں نے اپنے بھانجھے کو ایک پرائمری اسکول میں داخل کرایا لیکن اس اسکول میں نوخیز مصطفی کمال کا دل نہ لگا۔
مجبوراً ماموں نے ان کو اسکول سے ہٹالیا اور چونکہ ان کے ماموں چھوٹے سے زمیندار تھے لہٰذا انھیں مویشیوں کی دیکھ بھال اور کھیتوں کی رکھوالی وغیرہ کے کام سونپے گئے۔ اکثر و بیشتر مصطفی کے سپرد اپنے ماموں کے کھیتوں میں پکی ہوئی فصل کو پرندوں سے بچانے کا کام ہوتا تھا۔ قدرت کے کاموں میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں غالباً قدرت یہی چاہتی تھی کہ جس بچے نے جوان ہوکر ترکی ایسے درِ بیمار کے بستر کے ارد گرد یورپی استعمار کی متعدد خونخوار چیلوں اور گدھوں کو دور مار بھگانا تھا، اس بچے کی ایسی تربیت کا کچھ نہ کچھ اہتمام تو بچپن ہی سے ہونا چاہیے تھا۔
ننھے مصطفی کو کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے کئی مہینے گزر گئے لیکن یہاں بھی ان کی طبیعت نے اس ماحول سے سازگاری پیدا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ بات دراصل یہ تھی کہ ان کے پڑوس کا ایک امیر لڑکا جو جونیئر ملٹری کالج سالونیکا کا طالب علم تھا۔ وہ صبح و شام ملٹری کالج آتے جاتے زرق برق فوجی وردی میں ملبوس چاق و چوبند مصطفی کے پاس سے گزرتا تو مصطفی کا تن بدن رشک و شوق اور حسرت و یاس کے پیچ و تاب کا مرقع سا بن جاتا، آخر مصطفی سے نہ رہا گیا، ایک دن چپکے سے کسی کو کچھ بتائے اور کہے بغیر جونیئر ملٹری کالج جا پہنچے۔
وہاں کالج کے دفتر میں ہیڈ کلرک سے ملے اور اپنے داخلے کی خواہش ظاہر کی۔ دفتر کے میر منشی نے مصطفی کمال کے گھر بار اور ضروری معلومات دریافت کرکے جواب دیا کہ چونکہ تم ایک یتیم اور غریب بچے ہو اور یہاں صرف امیر کبیر گھرانوں کے چشم و چراغ ہی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں لہٰذا اس کالج کی بھاری اور مہنگی تعلیم کے اخراجات کا برداشت کرنا آپ کے ماموں کے بس کا روگ نہیں، ہم آپ کو داخل کرنے سے معذور ہیں۔ یہ سن کر مصطفی کے تن بدن میں گو آگ سی لگ گئی اور انھوں نے چمک کر کہا کہ آج یا تو میری لاش یہاں سے گھر جائے گی یا میں اپنے ماموں کو اس کالج میں داخلے کی خوش خبری سناؤں گا۔
تیسری کسی بات کا امکان ہرگز، ہرگز نہیں۔ داخلہ یا گولی! غرضیکہ مصطفی نے جونیئر ملٹری کالج میں اپنے داخلے کے لیے اتنا اصرار کیا اور میر منشی سے اتنی توتو، میں میں کی کہ جس چپقلش کا شور سن کر کالج کے پرنسپل بھی دفتر میں آگئے۔ پرنسپل نے مصطفی کا یہ جوش و خروش دیکھا تو پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیٹھ پر تھپکی دے کر کہا کہ بیٹے میں اپنی ذمے داری پر آپ کو اس کالج میں داخل کرتا ہوں۔
کل سے آپ کو باقاعدہ وردی مل جائے گی اور اب آپ میرے کالج کے طالب علم ہیں۔ اس طرح مصطفی کی زندگی کے عظیم الشان حصے کی ابتدا ہوئی۔ مصطفی نے جب جونیئر ملٹری کالج سالونیکا سے ابتدائی فوجی تربیت کے مراحل نہایت اعلیٰ درجے کی کامیابی سے طے کرلیے تو انھیں ملٹری اکیڈمی بھیج دیا گیا۔ وہاں ان کے ایک ہم نام فوجی استاد تھے۔
اس لیے ضرورت پیش آئی کہ استاد اور شاگرد میں شخصیتوں کے باہمی فرق و امتیاز کے لیے کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ حوالہ کے وقت یہ واضح ہوجائے کہ بات استاد کے بارے میں ہورہی ہے یا شاگرد کے بارے میں چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ چونکہ نوجوان شاگرد مصطفی فوجی تربیت کے عملی مضامین میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ نظری مضامین مثلاً ریاضیات میں بھی اپنے ہم جماعتوں میں کمال کی حد تک آگے تھا اس لیے انھیں مصطفی کمال کا نام دیاگیا۔
تاریخ اسلام کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے دل پر غازی صلاح الدین ایوبی اور جلال الدین خوارزم شاہ ؒ دونوں کی عظمت کا سکہ تو پہلے سے جم چکا تھا۔ غازی مصطفی کمال کی ایک کتاب میں ایک خاص قسم کی تصویر دیکھ کر میرے دل میں مصطفی کمال کے لیے بھی ایسی ہی عظمت آفریں عقیدت کے کئی اعلیٰ مقام پیدا ہوگئے۔ غازی صلاح الدین ایوبیؒ جو صلیبی جنگوں کے اسلامی محاذ کے ایک زندہ جاوید زعیم اور بطل اعظم ہیں۔ قسمیہ طور پر پورے پانچ سال تک ایک لمحہ بھر کے لیے بھی بستر پر دراز نہ ہوسکے۔
پورے پانچ سال تک گھوڑے کی پیٹھ ہی ان کا بستر بنا رہا۔ اسی طرح ہلاکو خان کی یلغار کے سامنے جو اس وقت کے مسلمان بادشاہ نسبتاً سب سے زیادہ ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے وہ جلال الدین خوارزم شاہ تھے۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ وہ جب متواتر کئی کئی دن رات تک لڑتے لڑتے تھک جاتے تو چند منٹوں کی فرصت کو غنیمت جان کر ذرا کمر سیدھی کرنے کے لیے پہاڑوں کے نوکیلے اور سخت کھردرے پتھروں ہی پر سوجاتے۔ چنانچہ اسی طرح جب میں نے مصطفی کمال کو بھی ایک تصویر میں سردیوں کی گرم فوجی وردی میں ملبوس ایک پہاڑی کے پہلو میں برف پر سوتے دیکھا تو مصطفی کمال کے لیے بھی بے پناہ اکرام و احترام اور عظمت و زعیمت پیدا ہوئی۔
پہلی جنگ عظیم کے مختلف ترکی محاذوں کے ضمن میں ایک محاذ فلسطین کا بھی تھا۔ برطانوی فوجیں عربوں کی بغاوت کی وجہ سے فلسطین پر قابض ہونے کے بعد شام میں بہتر پوزیشن کی وجہ سے برابر بڑھ رہی تھیں اور ترک فوجیں ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت محفوظ پوزیشنوں کی کوشش میں منظم طریقے سے پیچھے ہٹ رہی تھیں۔
ایک دفعہ ترک فوجوں کی پسپائی اتنی بے تحاشا تھی کہ اس محاذ پر مقرر فوجی جرنیل کی حماقت پر مصطفی کمال کو بے حد غصہ آیا چنانچہ مصطفی کمال نے خود آگے بڑھ کر اپنی چھڑی سے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور کہاکہ اس لکیر سے پیچھے اب فوج ہٹی تو میں اس کے تمام کمانڈروں کو گولی ماردینے کا حکم دوںگا۔ کہتے ہیں کہ اس لکیر کے کھینچنے کے بعد فوج وہاں سے بالکل نہ ہٹ سکی اور پھر وہی لکیر جدید ترکی اور جدید شام کی درمیانی سرحد قرار پائی۔محاذ پر فوجی جرنیل حملہ کرنے سے پہلے لڑائی کا نقشہ ایسی خفیہ جگہ سے بناتے ہیں جسے کنٹرول روم کہا جائے تو غلط نہیں۔
اس مقام پر مختلف قسم کے تفصیلی نقشے مختلف میزوں پر پھیلے پڑے ہوتے ہیں اور جرنیل ان نقشوں پر مختلف قسم کی رنگ دار پنسلوں سے حملے کے منصوبے بناتے ہیں اور اپنے ماتحت افسروں کو انھی منصوبوں کے مطابق آگے بڑھنے یا دائیں بائیں حرکت یا پیچھے ہٹنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ الغرض! ایک مکمل فوج ایک تیار فوج اور ہر طرح سے لیس فوج کے پاس کنٹرول روم میں استعمال ہونے والی اشیا کی قلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا لیکن مصطفی کمال نے اناطولیہ میں یونانیوں پر ترکوں کے پہلے حملے سے ایک رات پہلے ایک ترکی کیمپ میں جس بے سروسامانی کی حالت میں حملے کا منصوبہ بنایا۔
اس بے سروسامانی کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ ایک تو پنسلوں کا پیکٹ تک مکمل نہ تھا دوسرے کیمپ کے اندر خاطر خواہ روشنی کے لیے کوئی پیٹرومیکس لیمپ تک نہیں تھا۔ ایک ٹمٹماتی لالٹین کی مدھم سی روشنی میں مصطفی کمال نے سادہ سی عام پنسلوں سے کام لے کر حملے کا منصوبہ بنایا اور صبح تک یونانیوں میں بھگدڑ مچی وہ افراتفری، گھبراہٹ اور خوف و ہراس کے عالم میں اپنا بے شمار اسلحہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔
چار دن کے اندر اندر ترک فوجیں کئی مربع میل کا علاقہ یونانیوں سے خالی کرانے کے علاوہ تقریباً چار ہزار میدانی توپیں یونانیوں سے چھین چکی تھیں اور اس طرح قدرت نے ترکوں کی بے سروسامانی کا علاج دشمن ہی کے اسلحے کے انباروں سے کردیا۔ (جاری ہے)