یونس خان آپ تو ایسے نہ تھے
آپ مشورہ دے رہےتھےکہ یونس کوکپتان بنا دیں، دیکھیں یہ ان کا حال ہے، پہلے ون ڈے کے موقع پر ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔
''آپ مشورہ دے رہے تھے کہ یونس خان کو کپتان بنا دیں، دیکھیں یہ ان کا حال ہے، پہلے ون ڈے کے موقع پر ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا، یہ پاکستان کی ٹیم ہے یا گلی محلے کی کوئی سائیڈ جہاں اپنی انا کو تسکین پہنچانے کیلیے عجیب و غریب فیصلے کیے جائیں''
سینئر بیٹسمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب ایک اعلیٰ بورڈ آفیشل سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے طنز بھرے لہجے میں یہ جملے کہے اور وہ غلط بھی نہیں تھے، یونس کے اس اعلان نے پی سی بی، سلیکٹرز اور ٹیم سب ہی کو مشکل میں ڈال دیا، شاید اسی قسم کے اقدامات کی وجہ سے انھیں ملکی کرکٹ میں وہ مقام نہ ملا جس کے وہ حقدار ہیں، کپتان بنے تو عہدہ چھوڑ دیا، پھر رویے کا مسئلہ آیا تو ساتھیوں نے بغاوت کردی، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتے تو عمران خان بننے کی سوچ دل میں سمائی اور ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔
چند دن پہلے سے ہی یہ خبریں زیرگردش تھیں کہ یونس انگلینڈ سے سیریز کھیل کر ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے، ایسا ہونا غلط بھی نہ تھا، چار میچز میں انھیں صلاحیتوں کے اظہارکا موقع بھی مل جاتا اور باعزت انداز سے کھیل کو الوداع کہتے، مگر پہلے میچ سے قبل ایسا دھماکا کرنا کسی صورت مناسب نہ تھا، سب جانتے ہیں کہ انھوں نے ون ڈے کرکٹ میں واپسی کیلیے کتنی کوششیں کیں،میڈیا میں متواتر بیانات دے کر بورڈ اور سلیکٹرز پر دباؤ بڑھایا، کوچ وقار یونس شمولیت کے حق میں نہ تھے مگر شہریارخان اور ہارون رشید نے ان کی مخالفت مول لے کر یونس خان کو اسکواڈ کا حصہ بنایا۔
اگر ان کے ذہن میں ریٹائرمنٹ کی بات پہلے ہی موجود تھی تو اعلیٰ حکام کو بتا دیتے،16کے بجائے 17 کھلاڑیوں کا انتخاب کر لیا جاتا، پہلے میچ کے بعد شایان شان تقریب کا انعقاد کر کے انھیں رخصت کرتے، مگر انھوں نے سب کو اندھیرے میں رکھا، سب کو علم تھاکہ وہ اپنی ضد پوری کرنے کیلیے ون ڈے کھیلنا چاہتے تھے، یونس خود کئی بار کہہ چکے کہ ڈراپ ہو کر نہیں بلکہ خود ریٹائر ہونے کی خواہش ہے مگر اس کیلیے اختیار کردہ طریقہ کار درست نہ تھا، سب سے زیادہ تنقید کی زد میں چیف سلیکٹر ہارون رشید آئیں گے کہ انھوں نے کیوں ایسے کھلاڑی کو منتخب کیا جو ملک کا نہیں سوچ رہا بلکہ اپنے لیے ایک میچ کھیل کر ریٹائر ہونا چاہتا تھا۔
میں نے اس حوالے سے ہارون رشید سے بات کی، وہ بھی اس اعلان پر پریشان نظر آئے، وہ کہتے ہیں سینئر بیٹسمین نے کبھی کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا کہ وہ پہلا میچ کھیل کر ہی ریٹائر ہو جائیں گے، بورڈ کے دیگر ذرائع سے بات ہوئی تو سب کا یہی کہنا تھا کہ یونس کا یہ فیصلہ اچانک سامنے آیا، انھوں نے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا،خود شہریارخان نے اعتراف کیا کہ ریٹائرمنٹ کا اندازہ تو تھا مگر پہلے میچ کے بعد ہی ایسا ہو گا یہ نہیں سوچا تھا، ٹیسٹ کرکٹ میں صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں مگر بدقسمتی سے ون ڈے میں یونس خان کی کارکردگی گذشتہ چند برس میں شایان شان نہیں رہی،اسی لیے اسکواڈ سے باہر تھے۔
انسان جو سوچتا ہے وہ ہوتا نہیں، آخری میچ میں یونس صرف 9 رنز پر آؤٹ ہو گئے لہذاکیسے وہ اسے کیریئر کا یادگار اختتام قرار دیں گے؟ اگر سب کو آخری میچ کھیل کر عزت سے ریٹائر ہونے کا حق دینا چاہیے تو بیچارے سعید اجمل نے کیا قصور کیا جسے مطلب نکلنے کے بعد دودھ میں مکھی سمجھ کر باہر پھینک دیا گیا، اب فرسٹریشن کا شکار ہو کر وہ میڈیا میں تلخ مگر سچی باتیں کر رہے ہیں تو بورڈ نے ان کا سینٹرل کنٹریکٹ ہی معطل کر دیا، ایک ایسا کھلاڑی جس نے اپنے کئی برس پاکستان کرکٹ کو دیے اس کے ساتھ ایسا سلوک مناسب نہیں، سعید کو بھی انگلینڈ سے ایک میچ کھلا دیتے، شعیب اختر روتا رہ گیا ورلڈکپ میں الوداعی میچ کھلا دیں مگرنہیں کھلایا گیا۔
انھیں بھی اب چانس دیں، اسی طرح سیریز مکمل ہو جائے گی،میں جس یونس خان کو جانتا ہوں وہ ایسا نہ تھا اب نجانے انھیں کیا ہو گیا ہے، ریکارڈز،پیسہ، ضد کبھی ان کی ترجیحات نہیں تھے مگر اب وہ بدل چکے ہیں،اس طرح کے اقدامات ان کی ٹیسٹ پوزیشن کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
ان دنوں بورڈ کی اپنی ملازمین اور کھلاڑیوں پر گرفت خاصی کمزور ہے، کئی سو صفحات پر مشتمل سینٹرل کنٹریکٹ میں کھلاڑی صرف پیسے کتنے ملیں گے یہ پڑھ کر دستخط کر دیتے ہیں، چیئرمین پی سی بی نے بھی شاید پورا معاہدہ نہیں پڑھا اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ یونس نے ڈسپلن کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، میں انھیں یاد دلاتا چلوں کہ کنٹریکٹ کی ایک شق کے مطابق دوران سیریزکوئی بھی کھلاڑی ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کر سکتا، بصورت دیگر بھاری جرمانہ و دیگر سزائیں منتظر ہوں گی،مگر حالیہ سیریزمیں شعیب ملک کے بعد اب دوسرے کھلاڑی نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، شعیب نے تو خیرپوری ٹیسٹ سیریز میں حصہ لیا یونس تو ایک میچ کے بعد ہی ہمت ہار گئے، اسی طرح سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہے۔
مگر اب تو میچ والے دن بھی کھلاڑی ٹویٹ کر رہے ہوتے ہیں، عمر اکمل کے واقعے کو بھی چند روز گزر چکے مگر بورڈ کو حال ہی میں کسی نے بتایا تو ان کیخلاف کارروائی ہوئی،اپنے کسی آفیشل نے رپورٹ کرنا مناسب نہ سمجھا،اس وقت بورڈ حکام بالکل ڈھیلے پڑے ہوئے ہیں،آدھے لوگ یو اے ای میں ''پیڈ ہولیڈیز'' سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، شہریارخان اور نجم سیٹھی کی سمت بالکل الگ ہے، سپرلیگ کے مسائل نے سیٹھی صاحب کو خوب پریشان کیا ہوا ہے، شہریارصاحب محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش میں کنٹرول کھو بیٹھے،ایسے میں اگر کھلاڑی من مانیاں کر رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا، یونس خان والے معاملے کے بعد اس وقت سب سے زیادہ خوش وقار یونس ہوں گے، وہ سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ 'دیکھا میں درست کہہ رہا تھا ناں''۔
سینئر بیٹسمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب ایک اعلیٰ بورڈ آفیشل سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے طنز بھرے لہجے میں یہ جملے کہے اور وہ غلط بھی نہیں تھے، یونس کے اس اعلان نے پی سی بی، سلیکٹرز اور ٹیم سب ہی کو مشکل میں ڈال دیا، شاید اسی قسم کے اقدامات کی وجہ سے انھیں ملکی کرکٹ میں وہ مقام نہ ملا جس کے وہ حقدار ہیں، کپتان بنے تو عہدہ چھوڑ دیا، پھر رویے کا مسئلہ آیا تو ساتھیوں نے بغاوت کردی، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتے تو عمران خان بننے کی سوچ دل میں سمائی اور ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔
چند دن پہلے سے ہی یہ خبریں زیرگردش تھیں کہ یونس انگلینڈ سے سیریز کھیل کر ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے، ایسا ہونا غلط بھی نہ تھا، چار میچز میں انھیں صلاحیتوں کے اظہارکا موقع بھی مل جاتا اور باعزت انداز سے کھیل کو الوداع کہتے، مگر پہلے میچ سے قبل ایسا دھماکا کرنا کسی صورت مناسب نہ تھا، سب جانتے ہیں کہ انھوں نے ون ڈے کرکٹ میں واپسی کیلیے کتنی کوششیں کیں،میڈیا میں متواتر بیانات دے کر بورڈ اور سلیکٹرز پر دباؤ بڑھایا، کوچ وقار یونس شمولیت کے حق میں نہ تھے مگر شہریارخان اور ہارون رشید نے ان کی مخالفت مول لے کر یونس خان کو اسکواڈ کا حصہ بنایا۔
اگر ان کے ذہن میں ریٹائرمنٹ کی بات پہلے ہی موجود تھی تو اعلیٰ حکام کو بتا دیتے،16کے بجائے 17 کھلاڑیوں کا انتخاب کر لیا جاتا، پہلے میچ کے بعد شایان شان تقریب کا انعقاد کر کے انھیں رخصت کرتے، مگر انھوں نے سب کو اندھیرے میں رکھا، سب کو علم تھاکہ وہ اپنی ضد پوری کرنے کیلیے ون ڈے کھیلنا چاہتے تھے، یونس خود کئی بار کہہ چکے کہ ڈراپ ہو کر نہیں بلکہ خود ریٹائر ہونے کی خواہش ہے مگر اس کیلیے اختیار کردہ طریقہ کار درست نہ تھا، سب سے زیادہ تنقید کی زد میں چیف سلیکٹر ہارون رشید آئیں گے کہ انھوں نے کیوں ایسے کھلاڑی کو منتخب کیا جو ملک کا نہیں سوچ رہا بلکہ اپنے لیے ایک میچ کھیل کر ریٹائر ہونا چاہتا تھا۔
میں نے اس حوالے سے ہارون رشید سے بات کی، وہ بھی اس اعلان پر پریشان نظر آئے، وہ کہتے ہیں سینئر بیٹسمین نے کبھی کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا کہ وہ پہلا میچ کھیل کر ہی ریٹائر ہو جائیں گے، بورڈ کے دیگر ذرائع سے بات ہوئی تو سب کا یہی کہنا تھا کہ یونس کا یہ فیصلہ اچانک سامنے آیا، انھوں نے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا،خود شہریارخان نے اعتراف کیا کہ ریٹائرمنٹ کا اندازہ تو تھا مگر پہلے میچ کے بعد ہی ایسا ہو گا یہ نہیں سوچا تھا، ٹیسٹ کرکٹ میں صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں مگر بدقسمتی سے ون ڈے میں یونس خان کی کارکردگی گذشتہ چند برس میں شایان شان نہیں رہی،اسی لیے اسکواڈ سے باہر تھے۔
انسان جو سوچتا ہے وہ ہوتا نہیں، آخری میچ میں یونس صرف 9 رنز پر آؤٹ ہو گئے لہذاکیسے وہ اسے کیریئر کا یادگار اختتام قرار دیں گے؟ اگر سب کو آخری میچ کھیل کر عزت سے ریٹائر ہونے کا حق دینا چاہیے تو بیچارے سعید اجمل نے کیا قصور کیا جسے مطلب نکلنے کے بعد دودھ میں مکھی سمجھ کر باہر پھینک دیا گیا، اب فرسٹریشن کا شکار ہو کر وہ میڈیا میں تلخ مگر سچی باتیں کر رہے ہیں تو بورڈ نے ان کا سینٹرل کنٹریکٹ ہی معطل کر دیا، ایک ایسا کھلاڑی جس نے اپنے کئی برس پاکستان کرکٹ کو دیے اس کے ساتھ ایسا سلوک مناسب نہیں، سعید کو بھی انگلینڈ سے ایک میچ کھلا دیتے، شعیب اختر روتا رہ گیا ورلڈکپ میں الوداعی میچ کھلا دیں مگرنہیں کھلایا گیا۔
انھیں بھی اب چانس دیں، اسی طرح سیریز مکمل ہو جائے گی،میں جس یونس خان کو جانتا ہوں وہ ایسا نہ تھا اب نجانے انھیں کیا ہو گیا ہے، ریکارڈز،پیسہ، ضد کبھی ان کی ترجیحات نہیں تھے مگر اب وہ بدل چکے ہیں،اس طرح کے اقدامات ان کی ٹیسٹ پوزیشن کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
ان دنوں بورڈ کی اپنی ملازمین اور کھلاڑیوں پر گرفت خاصی کمزور ہے، کئی سو صفحات پر مشتمل سینٹرل کنٹریکٹ میں کھلاڑی صرف پیسے کتنے ملیں گے یہ پڑھ کر دستخط کر دیتے ہیں، چیئرمین پی سی بی نے بھی شاید پورا معاہدہ نہیں پڑھا اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ یونس نے ڈسپلن کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، میں انھیں یاد دلاتا چلوں کہ کنٹریکٹ کی ایک شق کے مطابق دوران سیریزکوئی بھی کھلاڑی ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کر سکتا، بصورت دیگر بھاری جرمانہ و دیگر سزائیں منتظر ہوں گی،مگر حالیہ سیریزمیں شعیب ملک کے بعد اب دوسرے کھلاڑی نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، شعیب نے تو خیرپوری ٹیسٹ سیریز میں حصہ لیا یونس تو ایک میچ کے بعد ہی ہمت ہار گئے، اسی طرح سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہے۔
مگر اب تو میچ والے دن بھی کھلاڑی ٹویٹ کر رہے ہوتے ہیں، عمر اکمل کے واقعے کو بھی چند روز گزر چکے مگر بورڈ کو حال ہی میں کسی نے بتایا تو ان کیخلاف کارروائی ہوئی،اپنے کسی آفیشل نے رپورٹ کرنا مناسب نہ سمجھا،اس وقت بورڈ حکام بالکل ڈھیلے پڑے ہوئے ہیں،آدھے لوگ یو اے ای میں ''پیڈ ہولیڈیز'' سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، شہریارخان اور نجم سیٹھی کی سمت بالکل الگ ہے، سپرلیگ کے مسائل نے سیٹھی صاحب کو خوب پریشان کیا ہوا ہے، شہریارصاحب محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش میں کنٹرول کھو بیٹھے،ایسے میں اگر کھلاڑی من مانیاں کر رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا، یونس خان والے معاملے کے بعد اس وقت سب سے زیادہ خوش وقار یونس ہوں گے، وہ سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ 'دیکھا میں درست کہہ رہا تھا ناں''۔