آج کے دور کا ہٹلر
برطانیہ اور دنیا کی بڑی کاروباری شخصیات مالی فائدے کے لئے ’’آج کے دور کے ہٹلر‘‘ کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم کی برطانیہ آمد پر ہونے والے احتجاج میں یقیناً احمد بھی شامل ہوگا۔ احمد جس نے بدقسمتی سے ہندوستانی گجرات میں آنکھ کھولی اور اس کی ساری زندگی ''ہندوتوا'' کی نذر ہوگئی۔ 6 سال کی عمر میں والدین نے بہتر مستقبل اور تعلیم کی خاطر ممبئی میں چچا کے پاس بھیج دیا لیکن احمد کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے فسادات میں، جن میں آر-ایس-ایس اور شیو سینا کے دہشت گردوں کو پولیس کا مکمل تعاون حاصل تھا۔ 900 مسلمانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے، ان 900 افراد میں احمد کے چچا اور چچی بھی شامل تھے۔ جب شیو سینا کے غنڈے اُنھیں ذبح کر رہے تھے تو معصوم احمد پلنگ کے نیچے چُھپا سارا منظر دیکھ رہا تھا۔
اچھے مستقبل کے خواب آنکھوں میں بسا کر آنے والا احمد خونی منظر کی یادیں لے کر واپس گجرات چلا گیا۔ ابھی وہ ممبئی کی یادوں سے چھٹکارا بھی نہیں حاصل کر پایا تھا کہ اُس کے سر پر ایک اور قیامت آن پڑی۔ 2002 میں گجرات میں ہندو مسلم فسادات میں 2 ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے۔ احمد اپنی جان بچا کر بھاگا اور برطانیہ چلا گیا۔ 2002 سے آج تک احمد اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہا ہے، اُس کی مستقل سکونت کی کئی درخواستیں ٹھکرائی جا چکی ہیں۔ مستقل سکونت نہ ہونے کی وجہ سے احمد کوئی ملازمت بھی نہیں کرسکتا اس لئے اُس کے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ بھی نہیں، سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں اُس کا ٹھکانہ لندن کی بسیں اور اچھے موسم میں پارک اُس کی پناہ گاہ ہیں۔ وہ آج بھی اپنے والدین، جن کے جنازے میں بھی وہ شرکت نہ کرسکا، کو یاد کر کے روتا ہے۔
احمد کی زندگی کی یہ المناک اور کربناک داستان بی بی سی نے اپنی ایک ڈاکیومنٹری میں دکھائی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آج احمد کس کرب سے گزر رہا ہوگا؟ جب اُس نے اپنی زندگی کے ''ولن''، ہزاروں مسلمانوں کے ''قاتل'' اور ''دورِ حاضر کے ہٹلر'' کو برطانیہ کی افواج سے سلامی لیتے ہوئے دیکھا ہوگا۔
نریندر مودی نے 8 سال ہی کی عمر میں آر- ایس- ایس میں شمولیت اختیار کرلی۔ جہاں اُسے ''بال سویم سیوک'' (جونیئر کیڈٹ) کا خطاب ملا۔ آر ایس ایس 1925 میں وجود میں آئی اور اس کا مقصد ہندو قوم پرستی یا ''ہندوتوا'' کا فروغ دینا تھا۔ یہ اٹلی کے مسولینی سے متاثر ہوکر بنائی گئی اور انسانیت کا ولن ''ہٹلر'' ان کا ہیرو ہے جس کی وہ سرِعام تعریف کرتے ہیں۔ یہ اُس دن کو منحوس مانتے ہیں جب مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا اور ہٹلر کی ''جرمن قوم پرستی'' سے سبق حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ یعنی جس طرح ہٹلر نے یہودیوں کا قتلِ عام کرکے اُنہیں جرمنی سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا، اُسی طرح ہندوستان میں اقلیتوں کو رہنے کا کوئی حق نہیں اور اگر پھر بھی کوئی رہنا چاہے تو اُس کے کوئی حقوق نہیں۔ آزادی کے بعد اس تنظیم کا پہلا شکار کوئی اور نہیں بلکہ گاندھی تھے جسے آر ایس ایس کے ایک سابق اہلکار نتھو رام نے اِس لیے قتل کیا کیونکہ گاندھی برداشت اور برابری کی بات کرتے تھے جو آر ایس ایس کے ایجنڈے کے خلاف تھی۔
نریندر مودی جو آر۔ ایس۔ ایس کی 'ہندوتوا' کا علمبردار ہے اور جس کے دورِ حکومت میں گجرات کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، اب بدقسمتی دیکھیے کہ وہی مودی اب ہندوستان کا وزیراعظم ہے۔ سا ری دنیا اُسے قاتل مانتی ہے اور اسی وجہ سے گجرات فسادات کے بعد امریکا نے اسے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا، لیکن انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کی بے حسی یا مجبوری ملاحظہ ہوکہ آج وہ اُسی مودی کو سلامی دینے اور خوش آمدید کہنے پر مجبور ہیں۔ جس شخص کی حکومت میں ایک مسلمان کو صرف شک کی بنیاد پر جلا دیا جائے اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو کتے سے تشبیہہ دی جائے اور اُس شخص کے منہ سے مذمت کا ایک لفظ نہ نکلے وہ آج دنیا میں سب سے مہذب کہلائے جانے والے ملک کی پارلیمنٹ سے خطاب کر رہا ہے اور وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ''مالی فائدہ''۔
دنیا مودی کے مظالم کو نہیں بلکہ انڈیا کی اربوں ڈالر کی تجارتی منڈی کو دیکھ رہی ہے۔ اُنہیں گجرات کے ایک لاکھ بے گھر لوگ، گجرات کے ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کی ہاتھ پاؤں کٹی لاش اور دہلی کے اخلاق احمد اور نچلی ذات کے ہندو بچوں کی جلی لاشیں تو نہیں نظر آرہی ہیں لیکن ہندوستانی منڈیوں میں چھپے اربوں ڈالر ضرور نظر آرہے ہیں۔ آج دنیا کی کیفیت فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کی ذہنی کیفیت سے میل کھاتی نظر آتی ہے جو اپنی کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے مودی سے ہاتھ ملانے کے بعد اُسے کوٹ سے صاف کرتا نظر آتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کوٹ سے رگڑنے یا صابن سے دھونے سے یہ ہاتھ صاف ہوجائیں گے؟ امریکا، برطانیہ اور دنیا کی بڑی کاروباری شخصیات جو مالی فائدے کے لئے ''آج کے دور کے ہٹلر'' کے ساتھ ہاتھ ملا رہے وہ اصل میں ایک ظالم کا ہاتھ تھام رہے ہیں اور ہندوستان کے ہزاروں مظلوموں کے لئے وہ بھی مودی، آر۔ ایس۔ ایس، بجرنگ دل اور شیو سینا ہی کی ایک صورت ہیں۔
[poll id="763"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
اچھے مستقبل کے خواب آنکھوں میں بسا کر آنے والا احمد خونی منظر کی یادیں لے کر واپس گجرات چلا گیا۔ ابھی وہ ممبئی کی یادوں سے چھٹکارا بھی نہیں حاصل کر پایا تھا کہ اُس کے سر پر ایک اور قیامت آن پڑی۔ 2002 میں گجرات میں ہندو مسلم فسادات میں 2 ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے۔ احمد اپنی جان بچا کر بھاگا اور برطانیہ چلا گیا۔ 2002 سے آج تک احمد اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہا ہے، اُس کی مستقل سکونت کی کئی درخواستیں ٹھکرائی جا چکی ہیں۔ مستقل سکونت نہ ہونے کی وجہ سے احمد کوئی ملازمت بھی نہیں کرسکتا اس لئے اُس کے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ بھی نہیں، سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں اُس کا ٹھکانہ لندن کی بسیں اور اچھے موسم میں پارک اُس کی پناہ گاہ ہیں۔ وہ آج بھی اپنے والدین، جن کے جنازے میں بھی وہ شرکت نہ کرسکا، کو یاد کر کے روتا ہے۔
احمد کی زندگی کی یہ المناک اور کربناک داستان بی بی سی نے اپنی ایک ڈاکیومنٹری میں دکھائی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آج احمد کس کرب سے گزر رہا ہوگا؟ جب اُس نے اپنی زندگی کے ''ولن''، ہزاروں مسلمانوں کے ''قاتل'' اور ''دورِ حاضر کے ہٹلر'' کو برطانیہ کی افواج سے سلامی لیتے ہوئے دیکھا ہوگا۔
نریندر مودی نے 8 سال ہی کی عمر میں آر- ایس- ایس میں شمولیت اختیار کرلی۔ جہاں اُسے ''بال سویم سیوک'' (جونیئر کیڈٹ) کا خطاب ملا۔ آر ایس ایس 1925 میں وجود میں آئی اور اس کا مقصد ہندو قوم پرستی یا ''ہندوتوا'' کا فروغ دینا تھا۔ یہ اٹلی کے مسولینی سے متاثر ہوکر بنائی گئی اور انسانیت کا ولن ''ہٹلر'' ان کا ہیرو ہے جس کی وہ سرِعام تعریف کرتے ہیں۔ یہ اُس دن کو منحوس مانتے ہیں جب مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا اور ہٹلر کی ''جرمن قوم پرستی'' سے سبق حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ یعنی جس طرح ہٹلر نے یہودیوں کا قتلِ عام کرکے اُنہیں جرمنی سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا، اُسی طرح ہندوستان میں اقلیتوں کو رہنے کا کوئی حق نہیں اور اگر پھر بھی کوئی رہنا چاہے تو اُس کے کوئی حقوق نہیں۔ آزادی کے بعد اس تنظیم کا پہلا شکار کوئی اور نہیں بلکہ گاندھی تھے جسے آر ایس ایس کے ایک سابق اہلکار نتھو رام نے اِس لیے قتل کیا کیونکہ گاندھی برداشت اور برابری کی بات کرتے تھے جو آر ایس ایس کے ایجنڈے کے خلاف تھی۔
نریندر مودی جو آر۔ ایس۔ ایس کی 'ہندوتوا' کا علمبردار ہے اور جس کے دورِ حکومت میں گجرات کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، اب بدقسمتی دیکھیے کہ وہی مودی اب ہندوستان کا وزیراعظم ہے۔ سا ری دنیا اُسے قاتل مانتی ہے اور اسی وجہ سے گجرات فسادات کے بعد امریکا نے اسے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا، لیکن انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کی بے حسی یا مجبوری ملاحظہ ہوکہ آج وہ اُسی مودی کو سلامی دینے اور خوش آمدید کہنے پر مجبور ہیں۔ جس شخص کی حکومت میں ایک مسلمان کو صرف شک کی بنیاد پر جلا دیا جائے اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو کتے سے تشبیہہ دی جائے اور اُس شخص کے منہ سے مذمت کا ایک لفظ نہ نکلے وہ آج دنیا میں سب سے مہذب کہلائے جانے والے ملک کی پارلیمنٹ سے خطاب کر رہا ہے اور وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ''مالی فائدہ''۔
دنیا مودی کے مظالم کو نہیں بلکہ انڈیا کی اربوں ڈالر کی تجارتی منڈی کو دیکھ رہی ہے۔ اُنہیں گجرات کے ایک لاکھ بے گھر لوگ، گجرات کے ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کی ہاتھ پاؤں کٹی لاش اور دہلی کے اخلاق احمد اور نچلی ذات کے ہندو بچوں کی جلی لاشیں تو نہیں نظر آرہی ہیں لیکن ہندوستانی منڈیوں میں چھپے اربوں ڈالر ضرور نظر آرہے ہیں۔ آج دنیا کی کیفیت فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کی ذہنی کیفیت سے میل کھاتی نظر آتی ہے جو اپنی کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے مودی سے ہاتھ ملانے کے بعد اُسے کوٹ سے صاف کرتا نظر آتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کوٹ سے رگڑنے یا صابن سے دھونے سے یہ ہاتھ صاف ہوجائیں گے؟ امریکا، برطانیہ اور دنیا کی بڑی کاروباری شخصیات جو مالی فائدے کے لئے ''آج کے دور کے ہٹلر'' کے ساتھ ہاتھ ملا رہے وہ اصل میں ایک ظالم کا ہاتھ تھام رہے ہیں اور ہندوستان کے ہزاروں مظلوموں کے لئے وہ بھی مودی، آر۔ ایس۔ ایس، بجرنگ دل اور شیو سینا ہی کی ایک صورت ہیں۔
[poll id="763"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔