
اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں گریجویٹ اسکول آف ایجوکیشن کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہےکہ اسکول تاخیر سے بھیجنے کے مثبت اثرات وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتے اور اسکول بھیجنے میں صرف ایک سال کی تاخیر بچوں کی اگلی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔
تحقیق کے لیے ڈنمارک میں 7 سے 11 سال تک کے بچوں اور ان کی ذہنی کیفیات کا بھی جائزہ لیا گیا اور والدین سے ان کے متعلق سوالات کیے گئے جن میں 35 ہزار سے زائد والدین نے سروے کے جوابات دیئے اور اس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ جو بچے بڑی عمر میں اسکول میں داخل کیے گئے ان میں 11 برس تک پہنچتے پہنچتے بھی توجہ کا ارتکاز بہتر تھا اور ان کی تعلیمی کارکردگی بہتر تھی۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہےکہ بچوں کو اسکول نہ بھیجا جائے تو وہ گھر میں ہی اپنے کھیل وضع کرکے اپنی تسلی کرتے ہیں اور اس سے ان کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے جب کہ اسکول میں بچوں کی وہ آزادی چھن جاتی ہے جو ان کی دماغی نشوونما کےلیے ضروری ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں توجہ کی کمی اور شدید سرگرمی یا اضطراب کو اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیوٹی ڈس آرڈر یا ( اے ڈی ایس ڈی) کہا جاتا ہے جس کے شکار بچے کسی بات پر ٹھیک سے توجہ دینے کی بجائے اچھل کود کرتے رہتے ہیں، اس کیفیت میں ان کی تعلیمی کارکردگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور اگر بچوں کو ابتدائی عمر سے اسکول تاخیر سے بھیجا جائے تو اس کیفیت میں کمی کی جاسکتی ہے۔
فن لینڈ اور جرمنی جیسے ممالک بچوں کو چھوٹی عمر میں اسکول بھیجنے کی بجائے انہیں مناسب عمرمیں اسکول میں داخل کراتے ہیں اور عالمی سطح پر ان ممالک کے 15 سالہ بچے بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔