بجلی کی سیاست
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اٹھارہ کروڑانسان نہیں بلکہ اسی تعدادکے برابرشناختی کارڈ رہتے ہیں
ملکی سیاست مشکل سے مشکل ترہوتی جارہی ہے۔ بے شماروجوہات ہیں مگراَناپرستی،کرپشن اورہرقیمت پر اقتدارمیں رہنے کی خواہش نے سیاسی میدان کوتکلیف دہ بنا دیا ہے۔ سیاست دانوں نے نہ صرف ایک دوسرے کے لیے ناقابل بیان مشکلات کھڑی کردی ہیں بلکہ نتیجہ میں عام آدمی تماشا سا بن کررہ گیا ہے۔ درد ناک مجمع کاحصہ،جسکی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اٹھارہ کروڑانسان نہیں بلکہ اسی تعدادکے برابرشناختی کارڈ رہتے ہیں۔پلاسٹک کا شناختی کارڈ شائد ان سے بہترہے،کیونکہ اس کے ساتھ کوئی انسانی ضرورت جڑی ہوئی نہیں ہے۔مگرسانس لینے پر مجبور پلاسٹک کے یہ کارڈ اپنی بنیادی ضرورتوں سے محروم آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شائدکوئی معجزہ ہوجائے۔مگر ان حالات میں معجزہ بھی ممکن نہیں۔آج کی دنیا معجزوں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔
ویسے توہرطرف دھوکا ہی دھوکا اورشعبدہ بازی کے ادنیٰ تماشے ہیں مگربجلی کا میدان وہ اکھاڑہ بن چکا ہے جس میں دیوہیکل پہلوان نعرے لگا رہے ہیں۔ انھوںنے ڈالروں کے لنگوٹ پہن رکھے ہیں۔یہ دعوؤں،بڑھکوں سے وہ شور پیدا کر رہے ہیں کہ ہرجانب خاموشی پیداہوچکی ہے۔پہلوان،ایک دوسرے سے ہرگز نہیں لڑتے بلکہ اکھاڑے کی نرم مٹی ایک دوسرے پر پھینکنے کے بجائے لوگوں کی آنکھوں میں پھینک رہے ہیں۔
مقصدصرف یہ کہ جو ہو رہاہے وہ کسی کونظرنہ آئے اورجو وہ کررہے ہیں وہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ہاںلوگوں میں یہ احساس بدستور رہے کہ اکھاڑے میں زبردست محنت ہورہی ہے۔مگرحقیقت میں وہاں توکچھ بھی نہیں ہورہا۔پاکستان بجلی کے بحران کے اس حصے میں داخل ہوچکا ہے کہ اب یہ کوئی سادہ سی بات نہیں رہی۔یہ ہماری بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔اس شعبہ سے ہر حکومت کے عمائدین نے ذاتی فائدے حاصل کیے ہیں۔ اس میں کوئی بھی استثناء نہیں۔یہ معاملہ نہ پہلے رکا تھا اور نہ اب رکے گا۔
البتہ بجلی کا ادارہ ہر دورِحکومت میں زور زور سے قسمیں اٹھاتاہے کہ ہمارے سارے معاملات بالکل شفاف ہیں۔کرپشن یاغیرممالک میں رشوت وصول کرنا توہم سے پہلے نااہل حکومتوں کاطرہ امتیاز تھا۔ہم توبالکل صاف اورشفاف ہیں۔مگران کے ان بلندوبانگ اعلانات پرکوئی ذی شعور یقین کرنے کے لیے تیارنہیں، نہ پہلے اورنہ اب۔ اس کا ایک سادہ سا ٹیسٹ ہے۔تیس سال سے کسی بھی حکومت میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ انرجی کے شعبہ میں ایک بین الاقوامی ساکھ والے ادارے کودعوت دے۔
ایک ایساادارہ جس پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔جیسے سویڈن، ڈنمارک، ناروے، سنگاپور یا آئس لینڈکاکوئی مستند ادارہ۔اس ادارہ کاکام صرف یہ ہو کہ وہ بجلی کے شعبہ میں کسی بھی وقت کی حکومت کے اعلانات اورکارکردگی میں فرق کی جانچ پڑتال کرکے حقیقت لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ کہنے کامقصدیہ ہے کہ توانائی کے شعبہ میں جوکچھ ہواہے یاہورہاہے اسے ایک آزاد اور غیرجانبدار طریقے سے پرکھاجاسکے۔
مگریہ کبھی بھی نہیں ہوگا۔کیونکہ اس سے وہ مسائل پیداہوجائینگے کہ مقتدرطبقے کی اکثریت کاملک میں رہناناممکن ہوجائیگا۔ہاں،آپ کسی پاکستانی یاچینی کمپنی سے معاملات طے کرنے کے بعد اپنے پاورسیکٹر کا حساب کتاب کروالیجیے،نتیجہ ہمیشہ مثبت اورموافق آئے گا۔صاحبان زیست! ہر چیز خریدی جا چکی ہے۔ بجلی کے شعبہ میں پیسہ اتناہے کہ کوئی بھی شخص صحیح بات کرنے کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
نگران حکومت کے ایک سابق بجلی وپانی کے وزیر ایک دن ترنگ میں آکرکہنے لگے کہ جیسے ہی انھوں نے چارچھ ماہ کے لیے وزارت کاحلف اٹھایا ٹھیک اسی شام ان کے پاس ایک انتہائی معتبرشخص گھر حاضر ہوا۔ کہنے لگا کہ ہم آپ کوسوکروڑ روپے ماہانہ دیناچاہتے ہیں۔ نگران وزیر حیران رہ گیا۔پوچھنے لگاکہ اس کے عوض مجھے کیا کرنا ہوگا۔جواب ملاکہ آپ جتنا عرصے اس شعبہ کے وزیر رہیں،آپ کوکچھ نہیں کرنا ہوگا۔
معاملات آپ سے پہلے جیسے چل رہے تھے آپکے دورانیہ میں بھی بالکل ویسے ہی چلتے رہنے چاہیے۔نگران وزیرکے بقول انھوں نے اس شخص کاشکریہ اداکیااوربقول ان کے پیسے لینے سے انکار کردیا۔یہ بات وزیرموصوف نے کئی حضرات کے سامنے کی تھی۔آپ اندازہ کیجیے کام نہ کرنے کی ماہانہ فیس صرف اورصرف سوکروڑ روپے۔ یہ ہے پاورسیکٹرکے کھیل کی ایک ادنیٰ سی مثال۔یہ صرف پاکستان میں نہیں،دنیاکے ہراس کمزورملک میں ہو رہا ہے جہاں پاورسیکٹرکوکھیل تماشابنا دیا گیا ہے۔ پیسے کاکھیل تماشہ۔
بھارت کی مثال لیجیے۔کیجریوال جب پہلی باردہلی کے وزیراعلیٰ بنے توانکاایک بہت مقبول نعرہ تھا، الیکشن میں '' عام آدمی پارٹی''نے اعلان کررکھاتھاکہ وہ حکومت میں آتے ہی دہلی کوبجلی مہیاکرنے والے نجی اداروں (I.P.P) کابے لاگ اورمنصفانہ آڈٹ کروائیں گے۔ الیکشن کی مہم کا ایک بھرپور مطالبہ بن چکاتھا۔بجلی پیداکرنے والے نجی کارخانوں کاآڈٹ کرواناتودورکی بات کیجریوال کی حکومت اعتمادکاووٹ تک حاصل نہیں کرسکی۔
چنددنوں میں وزیراعلیٰ کو منصب کوچھوڑنا پڑا۔ناکامی کی کئی وجوہات میںایک وجہ یہ بھی تھی کہ ناتجربہ کاراورجذباتی سیاستدان نے پاورسیکٹرکے خداؤں سے ٹکرلینے کی جرات کی تھی۔اس جرات کانتیجہ محض چنددن کی حکومت تھی۔اب کیجریوال صاحب کی دوبارہ حکومت ہے۔ان کے کیاخیالات ہیںمیں نہیں جانتا۔مگرلگتاہے کہ کافی حدتک معاملہ فہمی غالب آچکی ہے۔پیسے کی طاقت بدقسمتی سے اس وقت سب سے بڑی قوت ہے۔پاکستان اورہندوستان کے معاملات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
کیایہ نااہلی اوربدقسمتی کی بھرپورمثال نہیں کہ گزشتہ تین سے چاردہائیوں میں ہمارے ملک میں ایک بھی ڈیم نہیں بن سکا۔کیاصرف اس ایک بنیادپرہمارے مقتدرطبقے سے پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے کہ بالٓاخر وہ کون سی وجوہات تھیں کہ دس سے بارہ ہزارمیگاواٹ کے دویا تین ڈیم کیوں نہیں بنائے گئے۔ضیاء الحق سے لے کرآج تک معاملہ میں کتنی سنجیدگی آئی ہے۔آپ تمام لوگ مجھ سے بہترجانتے ہیں۔کالاباغ ڈیم چھوڑدیجیے،کہ اس میں خیبرپختونخوا کی ایک سیاسی پارٹی نے معاملے کواتناجذباتی بنادیاکہ ایسے لگاکہ اگریہ ڈیم بن گیا تو خدانخواستہ دوتین شہرپانی میں ڈوب جائینگے۔
یہ پروپیگنڈا وقت کی عدالت میں غلط ثابت ہوا۔کچھ اس طرح کی بھی خبریںمختلف اخبارات کی زینت بنیں کہ اس سیاسی پارٹی کے چند لیڈران بیرونی طاقتوں کے دسترخوان کے خوشہ چیں تھے۔ یہ الزام ہے یاحقیقت اس کے متعلق کچھ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔کالاباغ رہنے دیجیے۔اس کے علاوہ،ہمارے ماہرین نے دس بارہ ایسے مقامات منتخب کررکھے ہیں جہاں پانی کے بڑے بڑے ڈیم بن سکتے ہیں۔مگرگزشتہ تیس چالیس سال میں ایک ڈیم تک مکمل نہ ہوسکا۔کیایہ غفلت ہے قومی جرم ہے ظلم ہے یابازارِمصرہے؟فیصلہ آپ نے خودکرناہے۔
پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی دنیا کی سستی ترین بجلی ہے۔ایک یونٹ کی قیمت ایک روپے سے بھی کم ہے۔اس بات کوسمجھنے کے لیے کسی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ مگرنہیںہم ہروہ کام کرینگے جوہمیں بربادکرکے رکھ دیگا۔ پاکستان کے معرضِ وجودمیں آتے وقت ہماری آبادی صرف تین کروڑتھی اورہم ساٹھ میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے تھے۔
اس وقت بھی فرنس آئل سے بجلی کاکچھ فیصد ضرورپیداکررہے تھے۔ واپڈاکوبنانے کے بعداس شعبے میں ایک انقلاب آیا۔یہ1959کی بات ہے۔ دس بارہ سال کی قلیل مدت میں پاکستان نے دوعظیم ڈیم تعمیر کر ڈالے۔ منگلا اور تربیلا۔ مگر 1980 کے بعد،ہم نے آبی ذخائر کونظراندازکرتے ہوئے بجلی کاپنتیس فیصد حصہ درآمدی تیل پرچلنے والے بجلی گھرں سے بنانا شروع کردیا۔کیایہ ایک متنازعہ فیصلہ نہیں تھا۔آج صورتحال یہ ہے کہ ہم42فیصد بجلی تیل سے بنارہے ہیں۔
ہم وہ ملک ہیں جوصرف بجلی بنانے کے لیے 84فیصد تیل،دوسرے ملکوں سے منگوانے پر مجبور ہیں۔ گیس کابھی یہی حال ہے۔ہمارے گیس کے ذخائرختم ہو رہے ہیں۔گیس کا 28فیصدحصہ،بجلی بنانے کے کارخانوں کو مہیا کیا جارہا ہے۔ہم تیل کی طرح گیس کو بھی بیرونی ممالک سے خریدنے پرمجبورہیں۔یہ سب کیسے ہواکیوں ہوا۔یہ کرپشن،ظلم اوربے حسی کی ایک داستان ہے جس کو لفظوں میں بیان کرناناممکن ہے۔
صرف پانچ ہزارمیگاواٹ کی کمی کی بدولت ہمارا سب کچھ داؤپرلگ چکاہے۔یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت اس کمی کوپوراکرنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے مگرابھی اس کوشش کانتیجہ آنے میں چندسال لگیں گے۔ایک ملک جو صرف پانی سے ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی بناسکتاہے وہ چالیس سال سے فقیروں کی طرح دوسرے ملکوں اوراداروں کی ٹھوکروںمیں ہے۔یہ ذلت کاسفر کب تک جاری رہیگاکسی کو معلوم نہیں۔مگریہ اب سب کے سامنے عیاں ہے کہ ہماری تمام سیاست، صرف اورصرف بجلی پرہوگی؟
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اٹھارہ کروڑانسان نہیں بلکہ اسی تعدادکے برابرشناختی کارڈ رہتے ہیں۔پلاسٹک کا شناختی کارڈ شائد ان سے بہترہے،کیونکہ اس کے ساتھ کوئی انسانی ضرورت جڑی ہوئی نہیں ہے۔مگرسانس لینے پر مجبور پلاسٹک کے یہ کارڈ اپنی بنیادی ضرورتوں سے محروم آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شائدکوئی معجزہ ہوجائے۔مگر ان حالات میں معجزہ بھی ممکن نہیں۔آج کی دنیا معجزوں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔
ویسے توہرطرف دھوکا ہی دھوکا اورشعبدہ بازی کے ادنیٰ تماشے ہیں مگربجلی کا میدان وہ اکھاڑہ بن چکا ہے جس میں دیوہیکل پہلوان نعرے لگا رہے ہیں۔ انھوںنے ڈالروں کے لنگوٹ پہن رکھے ہیں۔یہ دعوؤں،بڑھکوں سے وہ شور پیدا کر رہے ہیں کہ ہرجانب خاموشی پیداہوچکی ہے۔پہلوان،ایک دوسرے سے ہرگز نہیں لڑتے بلکہ اکھاڑے کی نرم مٹی ایک دوسرے پر پھینکنے کے بجائے لوگوں کی آنکھوں میں پھینک رہے ہیں۔
مقصدصرف یہ کہ جو ہو رہاہے وہ کسی کونظرنہ آئے اورجو وہ کررہے ہیں وہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ہاںلوگوں میں یہ احساس بدستور رہے کہ اکھاڑے میں زبردست محنت ہورہی ہے۔مگرحقیقت میں وہاں توکچھ بھی نہیں ہورہا۔پاکستان بجلی کے بحران کے اس حصے میں داخل ہوچکا ہے کہ اب یہ کوئی سادہ سی بات نہیں رہی۔یہ ہماری بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔اس شعبہ سے ہر حکومت کے عمائدین نے ذاتی فائدے حاصل کیے ہیں۔ اس میں کوئی بھی استثناء نہیں۔یہ معاملہ نہ پہلے رکا تھا اور نہ اب رکے گا۔
البتہ بجلی کا ادارہ ہر دورِحکومت میں زور زور سے قسمیں اٹھاتاہے کہ ہمارے سارے معاملات بالکل شفاف ہیں۔کرپشن یاغیرممالک میں رشوت وصول کرنا توہم سے پہلے نااہل حکومتوں کاطرہ امتیاز تھا۔ہم توبالکل صاف اورشفاف ہیں۔مگران کے ان بلندوبانگ اعلانات پرکوئی ذی شعور یقین کرنے کے لیے تیارنہیں، نہ پہلے اورنہ اب۔ اس کا ایک سادہ سا ٹیسٹ ہے۔تیس سال سے کسی بھی حکومت میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ انرجی کے شعبہ میں ایک بین الاقوامی ساکھ والے ادارے کودعوت دے۔
ایک ایساادارہ جس پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔جیسے سویڈن، ڈنمارک، ناروے، سنگاپور یا آئس لینڈکاکوئی مستند ادارہ۔اس ادارہ کاکام صرف یہ ہو کہ وہ بجلی کے شعبہ میں کسی بھی وقت کی حکومت کے اعلانات اورکارکردگی میں فرق کی جانچ پڑتال کرکے حقیقت لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ کہنے کامقصدیہ ہے کہ توانائی کے شعبہ میں جوکچھ ہواہے یاہورہاہے اسے ایک آزاد اور غیرجانبدار طریقے سے پرکھاجاسکے۔
مگریہ کبھی بھی نہیں ہوگا۔کیونکہ اس سے وہ مسائل پیداہوجائینگے کہ مقتدرطبقے کی اکثریت کاملک میں رہناناممکن ہوجائیگا۔ہاں،آپ کسی پاکستانی یاچینی کمپنی سے معاملات طے کرنے کے بعد اپنے پاورسیکٹر کا حساب کتاب کروالیجیے،نتیجہ ہمیشہ مثبت اورموافق آئے گا۔صاحبان زیست! ہر چیز خریدی جا چکی ہے۔ بجلی کے شعبہ میں پیسہ اتناہے کہ کوئی بھی شخص صحیح بات کرنے کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
نگران حکومت کے ایک سابق بجلی وپانی کے وزیر ایک دن ترنگ میں آکرکہنے لگے کہ جیسے ہی انھوں نے چارچھ ماہ کے لیے وزارت کاحلف اٹھایا ٹھیک اسی شام ان کے پاس ایک انتہائی معتبرشخص گھر حاضر ہوا۔ کہنے لگا کہ ہم آپ کوسوکروڑ روپے ماہانہ دیناچاہتے ہیں۔ نگران وزیر حیران رہ گیا۔پوچھنے لگاکہ اس کے عوض مجھے کیا کرنا ہوگا۔جواب ملاکہ آپ جتنا عرصے اس شعبہ کے وزیر رہیں،آپ کوکچھ نہیں کرنا ہوگا۔
معاملات آپ سے پہلے جیسے چل رہے تھے آپکے دورانیہ میں بھی بالکل ویسے ہی چلتے رہنے چاہیے۔نگران وزیرکے بقول انھوں نے اس شخص کاشکریہ اداکیااوربقول ان کے پیسے لینے سے انکار کردیا۔یہ بات وزیرموصوف نے کئی حضرات کے سامنے کی تھی۔آپ اندازہ کیجیے کام نہ کرنے کی ماہانہ فیس صرف اورصرف سوکروڑ روپے۔ یہ ہے پاورسیکٹرکے کھیل کی ایک ادنیٰ سی مثال۔یہ صرف پاکستان میں نہیں،دنیاکے ہراس کمزورملک میں ہو رہا ہے جہاں پاورسیکٹرکوکھیل تماشابنا دیا گیا ہے۔ پیسے کاکھیل تماشہ۔
بھارت کی مثال لیجیے۔کیجریوال جب پہلی باردہلی کے وزیراعلیٰ بنے توانکاایک بہت مقبول نعرہ تھا، الیکشن میں '' عام آدمی پارٹی''نے اعلان کررکھاتھاکہ وہ حکومت میں آتے ہی دہلی کوبجلی مہیاکرنے والے نجی اداروں (I.P.P) کابے لاگ اورمنصفانہ آڈٹ کروائیں گے۔ الیکشن کی مہم کا ایک بھرپور مطالبہ بن چکاتھا۔بجلی پیداکرنے والے نجی کارخانوں کاآڈٹ کرواناتودورکی بات کیجریوال کی حکومت اعتمادکاووٹ تک حاصل نہیں کرسکی۔
چنددنوں میں وزیراعلیٰ کو منصب کوچھوڑنا پڑا۔ناکامی کی کئی وجوہات میںایک وجہ یہ بھی تھی کہ ناتجربہ کاراورجذباتی سیاستدان نے پاورسیکٹرکے خداؤں سے ٹکرلینے کی جرات کی تھی۔اس جرات کانتیجہ محض چنددن کی حکومت تھی۔اب کیجریوال صاحب کی دوبارہ حکومت ہے۔ان کے کیاخیالات ہیںمیں نہیں جانتا۔مگرلگتاہے کہ کافی حدتک معاملہ فہمی غالب آچکی ہے۔پیسے کی طاقت بدقسمتی سے اس وقت سب سے بڑی قوت ہے۔پاکستان اورہندوستان کے معاملات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
کیایہ نااہلی اوربدقسمتی کی بھرپورمثال نہیں کہ گزشتہ تین سے چاردہائیوں میں ہمارے ملک میں ایک بھی ڈیم نہیں بن سکا۔کیاصرف اس ایک بنیادپرہمارے مقتدرطبقے سے پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے کہ بالٓاخر وہ کون سی وجوہات تھیں کہ دس سے بارہ ہزارمیگاواٹ کے دویا تین ڈیم کیوں نہیں بنائے گئے۔ضیاء الحق سے لے کرآج تک معاملہ میں کتنی سنجیدگی آئی ہے۔آپ تمام لوگ مجھ سے بہترجانتے ہیں۔کالاباغ ڈیم چھوڑدیجیے،کہ اس میں خیبرپختونخوا کی ایک سیاسی پارٹی نے معاملے کواتناجذباتی بنادیاکہ ایسے لگاکہ اگریہ ڈیم بن گیا تو خدانخواستہ دوتین شہرپانی میں ڈوب جائینگے۔
یہ پروپیگنڈا وقت کی عدالت میں غلط ثابت ہوا۔کچھ اس طرح کی بھی خبریںمختلف اخبارات کی زینت بنیں کہ اس سیاسی پارٹی کے چند لیڈران بیرونی طاقتوں کے دسترخوان کے خوشہ چیں تھے۔ یہ الزام ہے یاحقیقت اس کے متعلق کچھ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔کالاباغ رہنے دیجیے۔اس کے علاوہ،ہمارے ماہرین نے دس بارہ ایسے مقامات منتخب کررکھے ہیں جہاں پانی کے بڑے بڑے ڈیم بن سکتے ہیں۔مگرگزشتہ تیس چالیس سال میں ایک ڈیم تک مکمل نہ ہوسکا۔کیایہ غفلت ہے قومی جرم ہے ظلم ہے یابازارِمصرہے؟فیصلہ آپ نے خودکرناہے۔
پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی دنیا کی سستی ترین بجلی ہے۔ایک یونٹ کی قیمت ایک روپے سے بھی کم ہے۔اس بات کوسمجھنے کے لیے کسی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ مگرنہیںہم ہروہ کام کرینگے جوہمیں بربادکرکے رکھ دیگا۔ پاکستان کے معرضِ وجودمیں آتے وقت ہماری آبادی صرف تین کروڑتھی اورہم ساٹھ میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے تھے۔
اس وقت بھی فرنس آئل سے بجلی کاکچھ فیصد ضرورپیداکررہے تھے۔ واپڈاکوبنانے کے بعداس شعبے میں ایک انقلاب آیا۔یہ1959کی بات ہے۔ دس بارہ سال کی قلیل مدت میں پاکستان نے دوعظیم ڈیم تعمیر کر ڈالے۔ منگلا اور تربیلا۔ مگر 1980 کے بعد،ہم نے آبی ذخائر کونظراندازکرتے ہوئے بجلی کاپنتیس فیصد حصہ درآمدی تیل پرچلنے والے بجلی گھرں سے بنانا شروع کردیا۔کیایہ ایک متنازعہ فیصلہ نہیں تھا۔آج صورتحال یہ ہے کہ ہم42فیصد بجلی تیل سے بنارہے ہیں۔
ہم وہ ملک ہیں جوصرف بجلی بنانے کے لیے 84فیصد تیل،دوسرے ملکوں سے منگوانے پر مجبور ہیں۔ گیس کابھی یہی حال ہے۔ہمارے گیس کے ذخائرختم ہو رہے ہیں۔گیس کا 28فیصدحصہ،بجلی بنانے کے کارخانوں کو مہیا کیا جارہا ہے۔ہم تیل کی طرح گیس کو بھی بیرونی ممالک سے خریدنے پرمجبورہیں۔یہ سب کیسے ہواکیوں ہوا۔یہ کرپشن،ظلم اوربے حسی کی ایک داستان ہے جس کو لفظوں میں بیان کرناناممکن ہے۔
صرف پانچ ہزارمیگاواٹ کی کمی کی بدولت ہمارا سب کچھ داؤپرلگ چکاہے۔یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت اس کمی کوپوراکرنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے مگرابھی اس کوشش کانتیجہ آنے میں چندسال لگیں گے۔ایک ملک جو صرف پانی سے ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی بناسکتاہے وہ چالیس سال سے فقیروں کی طرح دوسرے ملکوں اوراداروں کی ٹھوکروںمیں ہے۔یہ ذلت کاسفر کب تک جاری رہیگاکسی کو معلوم نہیں۔مگریہ اب سب کے سامنے عیاں ہے کہ ہماری تمام سیاست، صرف اورصرف بجلی پرہوگی؟