مارشل لاء کب نہیں لگتا
مملکت پاکستان کی قدیم روایت کے عین مطابق ان دنوں پھر سے فوج اور سول کا ٹاکرہ شروع ہے۔
SUKKUR:
مملکت پاکستان کی قدیم روایت کے عین مطابق ان دنوں پھر سے فوج اور سول کا ٹاکرہ شروع ہے۔ ابھی بالکل ابتدا ہے اس لیے اسے ابتداء ہی سمجھیں اور یہ سب حالات حاضرہ سمجھ کر اس پر غور کریں۔ فوج اگر مارشل لاء لگانا چاہے تو اسے کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنی کسی پرانی فائل کو کھول کر اس کا کچھ حصہ نقل کر کے سویلین حکومت اور عوام کی خدمت میں بلاتکلف پیش کر سکتی ہے جسے لازماً حسب سابق شرف قبولیت ملے گا اور کوئی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔
اس لیے فوج اگر ابھی تک صرف اظہار خیال تک محدود ہے تو یہ اس کی مہربانی یا اس کا اپنا پرابلم ہے۔ ہم سویلین کی طرف سے چند اختلافی بیانات یا معروضات تو پیش کی جا سکتی ہیں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمارے نامور لیڈر اگر بہت اونچے ہیں تو مارشل لاء کی زیرلب حمایت کریں گے اگر دوسرے تیسرے درجے کے ہیں تو اس نئے مارشل لاء میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہمارے ایک سیاسی کارکن کے بقول یہ سب فوجی گملے کی پنیری ہیں اور موقع ملے تو اپنے جنم گھر میں خوش رہتے ہیں۔
بہر کیف ان دنوں فوج نے ہماری حکومت کی نااہلی یا سستی سے تنگ آ کر چند ناراضگیاں ظاہر کی ہیں جن کے بعد ملک کی سیاسی دنیا نے اس نئے موضوع پر قومی بحث شروع کر دی ہے۔ ادھر بھارتی وزیراعظم برطانوی دورے پر ہیں اور ہم خوش ہیں کہ ان کو لندن میں مخالفانہ بلوہ اور نعروں کا سامنا کرنا پڑا مگر انھوں نے اربوں نہیں کھربوں کی مالیت کے کاروباری معاہدے کر لیے ہیں لیکن ہم بھارتی وزیراعظم کے مخالفانہ استقبال کی خوشی منا رہے ہیں۔
یہ سلسلہ جاری ہے اور ہماری سول سیاسی قیادت اس پر مسلسل غور کر رہی ہے اور گھبرا کر کہتی ہے کہ مارشل لاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مارشل لاء کا سوال کبھی پیدا نہیں ہوا ہر بار خود ہم سویلین نے فوج کو یاد دلایا ہے کہ وہ کہاں سو گئی ہے جاگے اور ہمیں بھی خدمت کا موقع دے۔ فوجی حکومت ہماری پاکستانی تاریخ کا بار بار دہرایا جانے والا واقعہ ہے۔ ہمارے ہاں فوج اپنی تحریک کو بار بار دہراتی ہے اور مراد پاتی ہے۔ اگر ہم اپنی اسلامی تاریخ کا ذرا گہرا مطالعہ کریں تو فوجی حکومت کی گنجائش یا مثال نہیں ملتی۔ ایک حیرت انگیز واقعہ یاد آ رہا ہے۔
انسانی تاریخ کے ایک سب سے کامیاب اور مقبول عام حکمران کا نام تھا عمر بن خطابؓ، دنیا آج تک اس شخص کو بہترین حکمران تسلیم کرتی ہے۔ ان کی حکمرانی کی تعریف میں کچھ کہنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس حکمران کے دور میں ایک فوجی جرنیل تھا خالد بن ولید جسے دربار نبوت سے اللہ کی تلوار کا لقب ملا تھا۔ دونوں ہم عمر بھی تھے اور ہم شہر بھی۔ ایک سویلین حکومت کا ذمے دار تھا دوسرا فوج کا سربراہ۔ دونوں کا اپنی اپنی جگہ کوئی جواب نہیں تھا۔ تاریخ ان دونوں کے ذکر پر چپ ہو جاتی ہے۔ کسی وجہ سے ان دونوں میں سخت اختلاف پیدا ہو گیا۔ آج کے مطابق مارشل لاء یقینی ہو گیا تھا۔
خلیفہ عمر نے اپنے کمانڈر انچیف کو ملازمت اور عہدے سے برطرف کر دیا۔ عجیب اس تاریخی فیصلے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ بہرکیف خلیفہ کے حکم پر عمل ہوا اور حکم بھی ایسا کہ خلیفہ نے اپنے جس قابل اعتماد محترم کو خالد کی برطرفی کے حکم کی تعمیل پر متعین کیا وہ ایک نہایت ہی غیرمتنازعہ شخصیت تھے۔
وہ خلیفہ کا حکم لے کر دمشق پہنچے۔ تاریخ کے اس سخت ترین حکم کے مطابق حضرت عبیدہ بن جراح نے فوج کے سامنے اس کے سپہ سالار کو طلب کیا اور ایک اونچی جگہ پر کھڑا کر دیا اور پھر ان الزامات کو دہرایا جو زیادہ ترانتظامی نوعیت کے تھے مثلاً فلاں شاعر کو کہاں سے انعام دیا۔ یہ سوالات پیش کرتے ہوئے کمانڈر انچیف کو اس حال میں کھڑا کیا گیا کہ ان کے ہاتھ ان کی اپنی دستار سے پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے اور پورے لشکر کے سامنے ان کے سپہ سالار سے سوال و جواب ہو رہے تھے۔ وہ فوج جو اپنے سپہ سالار کو ہر جنگ میں فتح کی علامت سمجھتی تھی۔
خالد بن ولید اپنی اس معزولی کے بعد واپس مدینہ روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک جگہ انھوں نے شب بسری کے لیے سفر موخر کیا تو اس عام گزر گاہ پر سے ایک اور سپاہی بھی دمشق سے مدینہ منورہ جا رہا تھا۔ خالد کو اپنی برطرفی پر سخت رنج تھا انھوں نے عام گفتگو میں بھی اس کا ذکر کیا اور اپنی برطرفی کا شکوہ کیا اس پر اس سپاہی نے عرض کیا کہ سپہ سالار محترم آپ کی باتوں سے بغاوت کی بو آتی ہے، اس پر حضرت خالدؓ بن ولید نے ذرا بلند آواز میں جواب دیا کہ جب تک عمر ہے بغاوت نہیں ہو سکتی۔
دوسرے الفاظ میں حضرت عمرؓ کی حکومت اس قدر انصاف اور عدل کی حکومت تھی کہ اس کے خلاف بغاوت کا تصور بھی مشکل تھا خواہ وہ خالد بن ولید ہی کیوں نہ ہو۔ آج ہم فوج کی ذرا ذرا سی بات پر چونک جاتے ہیں اور ہمارے دل گھبرا جاتے ہیں کہ ہم تو گئے اگر ہم اپنی تاریخ پڑھتے تو ہمیں کم از کم اتنا ضرور معلوم ہوتا کہ ہم اگر انصاف اور مساوات کی حکومت قائم کریں گے تو کسی کی جرات نہیں ہو گی کہ اسے چھیڑ سکے لیکن ہمیں خود ہی اپنی حکمرانی مشکوک دکھائی دے گی تو پھر پاکستانی تاریخ میں فوج کی آمدورفت تو ایک معمول ہے۔ ایک بار پھر سہی۔
ہمارے حکمرانوں کو فوج کی کسی کارروائی یا بات کی نہیں اپنی حکمرانی کے انداز کی فکر ہونی چاہیے۔ خالد بن ولید نے یونہی نہیں کہہ دیا تھا کہ جب تک عمر ہے اس کے خلاف بغاوت نہیں ہو سکتی۔