اگر یہ آفات نہ ہوتیں

لیکن پھر اسپتال میں تو نہیں لیکن زندگی کے عقوبت خانے میں ہم نے سیکھ لیا کہ جو ہونا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq November 14, 2015
[email protected]

کسی کی یہ بات تو آپ نے سنی ہی ہو گی کہ ... میں پہلے بڑا خوب صورت تھا لیکن پھر اسپتال میں کسی کے ساتھ بدل گیا، ہم بھی ایک زمانے میں زبردست قسم کے قنوطی ہوا کرتے تھے عین عید کے دن لوگ عید منا رہے ہوتے اور ہم اس دکھ میں مبتلا ہو جاتے کہ ''روزوں'' کو صرف گیارہ مہینے پھر رہ گئے یعنی

ہر خوشی میں کوئی غم یاد دلا دیتا ہے
دل کا یہ رخ میری آنکھوں سے نہاں تھا پہلے

لیکن پھر اسپتال میں تو نہیں لیکن زندگی کے عقوبت خانے میں ہم نے سیکھ لیا کہ جو ہونا ہے وہ تو ہو کر رہے گا یعنی جب جب جو جو ہوتا ہے تب تب سو سو ہوتا ہے تو پھر جس چیز پر ''بس'' نہ چلے اس پر خواہ مخواہ ٹسوے بہانا کیا؟ تب سے ہم نے قنوطیت کی جگہ رجائیت سے ناطہ جوڑ لیا اور چاہے قیامت ہی برپا نہ ہو رہی ہو ہم اس میں بھی کہیں نہ کہیں سے اپنے لیے ''ہنسنے'' کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں اندازہ اس سے لگائیں کہ جب ہم پر عمر قید کی سزا شادی کی صورت میں چڑھی اور قاضی صاحب نے نکاح خوانی کی صورت میں ہمارا ''بلیک'' وارنٹ جاری کیا تب بھی ہم چپ رہے ہم ہنس دیے، دراصل ہم نے گمراہوں کے رہنماء کا دامن تھام لیا تھا ... جن کا کہنا ہے

''زہ رحمان د گمراہانو رہنما یم''
یعنی میں رحمان گمراہوں کا رہنماء ہوں اور ہماری رہنمائی انھوں نے یوں کی کہ

کہ قسمت دے د زمری پہ خولہ کے ورکا
د بلا پہ خولہ کے خیر غواڑہ لہ خدایہ

یعنی قسمت اگر تمہیں شیر کے منہ میں بھی ڈالے تو اس بلا کے منہ میں بھی خدا سے خیر مانگ، اور یہی ہم آج کل کر رہے ہیں چنانچہ تازہ ترین زلزلہ اگرچہ ہر لحاظ سے ایک دکھ بھرا واقعہ ہے لیکن اس میں بھی ہم نے ''خیر'' کا ایک پہلو تلاش کر ہی لیا ہے، چند برس پہلے کے سیلابوں اور اس سے بھی پہلے والے زلزلے کو بھی ہم نے اسی تکنیک سے برداشت کر لیا تھا، مثلاً ہم نے یہ نہیں سوچا کہ کتنے لوگ برباد ہوئے اور اس لیے نہیں سوچا کہ وہ تو ہو چکا تھا اسے رو رو کر ہم بدل تو نہیں سکتے تھے لیکن جو ہونے والا تھا اس پر تو خوش ہو سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا واقعی ہم کافی خورسند ہوئے کہ ان آفات کے لیے آنے والی امداد سے ''زدگان'' کا نہ سہی ''زادگان'' کا تو اچھا خاصا ''بھلا'' ہو گیا تھا۔

سرکاری اور رفاہی اداروں کے بہت سارے کارکنوں کے کاج سنور گئے اور گھر بھر گئے، زلزلہ ''زدگان'' تو ان کا بھلا اگر خدا کو منظور ہوتا تو زدگان کیوں بنتے، آفات کے ایسے مواقع پر جو امدادیں ادھر ادھر سے آتی ہیں ان کے سرکاری تقسیم کنندگان میں سے ایک کے ساتھ گپ شپ ہوئی تو اس نے نہایت ہی شرح وبسط کے ساتھ ہمیں سمجھا دیا کہ وہ کتنا نیک کام کر رہے ہیں ان امدادوں کو ہڑپ کر کے خدا کی منشا پوری کر رہے ہیں۔

اس نے کہا خدا جب لوگوں پر آفات بھیجتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ان لوگوں کو آفات سے بچانے والے، یہ تو سراسر خدا کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے مترادف ہے کہ وہ آفات میں مبتلا کرے اور ہم بچائیں یہی وجہ ہے کہ یہاں وہاں سے جو امدادیں ان لوگوں کے لیے بھیجتے ہیں وہ تو نادان ہیں لیکن ہم تو نادان نہیں اس لیے خدا کے بھیجے ہوئے آفات کے مقابل ایسی امدادیں آگے نہیں جانے دیتے اور خود ہی بحق ''خود'' قبول کر لیتے ہیں یہ بھی خوش وہ بھی خوش خدا بھی خوش اور ہم بھی خوش، لیکن آفتاب سماوی و ارضی و سرکاری و سیاسی کا ایک اور بھی بڑا ''خیر الخیر'' پہلو ہے۔

اب دیکھئے زلزلہ آیا تو کتنے لوگوں کو خیر پہنچی، ٹھیک ہے کچھ لوگ زد میں آئے کچھ مر گئے کچھ لٹ پٹ گئے گھر وغیرہ بھی اجڑ گئے، مطلب یہ کہ نقصان ہوا لیکن اس کے مقابل میں جو ''فوائد'' نکلے وہ بہت زیادہ ہیں، تقسیم کنندگان کے ساتھ ساتھ سیاسی دکانیں، ریڑھے اور چھابڑیاں بھی خوب خوب چلیں، ایسے ایسے لیڈر جن کی ''سیاسی قدر'' خود اپنے ''قد'' سے بھی کم تھیں زدگان کی عیادت، ان کے بارے میں بیانات اور تصاویر کے ذریعے اچھے خاصے خوش قامت ہو گئے خاص طور پر وہ مشہور عالم رسوائے زمانہ اور جھوٹوں کا سردار فقرہ تو سب نے بیچا کہ ہم زلزلہ زدگان کے ساتھ ہیں۔

اب اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ لاہور اسلام آباد، کراچی ، پشاور اور لندن، دبئی کے لگژری محلوں میں رہنے والے زلزلہ زدگان کے ''کیسے'' ساتھ ہیں تو یہ معرفت کی باتیں ہیں جو ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں، صرف راہ سلوک کے مسافر ہی ان باریکیوں کی فہم رکھتے ہیں کہ یہ لوگ کس شکل میں زلزلہ زدگان، سیلاب زدگان اور لیڈر زدگان کے ساتھ ہوتے ہیں

ساتھ دونوں کو اسی راہ پہ چلنا ہو گا
عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے

صرف ساتھ ہی نہیں بلکہ ان کے غم میں برابر شریک بھی ہوتے ہیں ، کچھ لوگ تو اتنے ''باکرامت'' ہوتے ہیں کہ اپنے محل کے صوفے میں ہی ان زدگان کے ساتھ ''کھڑے'' ہوتے ہیں، ان حالات میں آپ کو ماننا ہی پڑے گا کہ آفات ارضی و سماوی و سیاسی و لیڈری میں بڑے بڑے فوائد بھی پوشیدہ ہوتے ہیں صرف ان کو دیکھ کر ان ''مواقع'' سے فوائد اٹھانے میں ''مہارت'' حاصل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ مرے تو کیا، مرنا تو برحق ہے جو زندہ ہے اسے مرنا تو ضرور ہے اور پھر جس قسم کی زندگی وہ جی رہے ہوتے ہیں اس کی واحد راہ نجات ہی یہ ہوتی ہے کہ اس عقوبت گاہ سے جتنی جلدی ہو سکے ''فرار'' ہونے میں کامیاب ہو جائیں

اس گزرگاہ سے پہنچیں تو سہی منزل تک
جو بھی گزرے گی گزاریں گے گزرنے والے

کچھ گھر وغیرہ گر جاتے ہیں تو اگر پرانے گھر نہ گریں تو نئے کیسے بنیں گے مطلب یہ کہ جو بظاہر زدگان ہوتے ہیں وہ بھی دراصل زدگان نہیں بلکہ ''یافتگان'' ہوتے ہیں، چلیے اگر اسے نقصان بھی سمجھ لیں تو اس معمولی نقصان کے بدلے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں انھیں دوسرے پلڑے میں ڈالا جائے تو نقصان کا پلڑا آسمان کو چھوئے گا اور فوائد کا پلڑا زمین میں دھنس جائے گا بلکہ فوائد کی جگہ اگر ہم ایک اور لفظ استعمال کریں جو پاکستان میں خاص طور پر سیاسی و سرکاری دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہے وہ ہے ''مواقع''، کیا لفظ ہے نا جانے کتنے الفاظ کی روحیں اس ایک لفظ ''مواقع'' کے اندر بسی ہوئی ہیں۔ خدا ہمارے لیڈروں حکومتوں اور ان کے سرپرست اعلیٰ آئی ایم ایف کو کروٹ کروٹ کرپٹ کرپٹ دولت نصیب کرے کہ اس لفظ کی تلاش، دریافت اور مروج کرنے میں انھوں نے کتنی محنت کی ہو گی

نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے سر شک آلود ہونا تیری مژگاں کا

مطلب یہ کہ اوپر نیچے آگے پیچھے دائیں بائیں جس بھی طرف سے دیکھئے یہ آفات سماوی نقصان کم فائدہ کی فہرست میں آتے ہیں خاص طور پر سیاست کا بازار تو اسی آفات کے دم قدم سے گرم ہے۔ مرحوم قلندر مومند نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ ...مجھے فکر ہے کہ حسینان جہاں بے چارے پھر کیا کریں گے اگر خدانخواستہ قلندر مومند کی بے وقت وفات ہو گئی،

د جہان خکلی بہ خدائے خبر چہ سہ کا
قلندر مومند کہ بے وختہ وفات شی

پیر و مرشد حضرت غالب اسد اللہ خان عرف مرزا نوشہ کو بھی اپنی فکر اتنی نہ تھی جتنی عشق کی لاحق تھی بے چارے کو عمر بھر یہ بات پریشان کرتی رہی کہ یہ جو عشق کا سیلاب بلا ہے بے چارا آخر میرے بعد کہاں جائے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر دنیا سے آفات سماوی و ارضی و سیاسی و انسانی ختم ہو گئیں تو یہ بے چارے درد کے مارے جو ان کے سہارے اپنے دھندے چلا رہے ہیں آخر پھر کس چیز کا سہارا لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔