مرنے والے گنہگار اور بچنے والے پارسا تھے

ہم یہ تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ ہمارے معاشرے میں ظلم کا پیمانہ اب اس حد تک لبریز ہوچکا ہے کہ اس پر زمین چپ نہیں رہ سکتی۔


اویس حفیظ January 08, 2016
جب جب لوگ نا انصافی پر قانون کی زنجیر کھینچنے کے بجائے خدا کا در کھٹکھٹائیں گے، اس کی لاٹھی حرکت میں آتی رہے گی۔ فوٹو :فائل

GILGIT: چائے کا کھوکھا ہو، پبلک ٹرانسپورٹ ہو، حجام کی دکان ہو یا پھر کوئی چوک و چوراہا، ہر جگہ ایک جیسی ہی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ جہاں 4 لوگ اکھٹے ہو کر بیٹھ جائیں وہاں پر تصوف کے مسائل سے لے کر خارجہ پالیسی تک ایسے تبصرہ و تجزیہ کیا جائے گا جیسے ان لوگوں کو ان معاملات کا ذاتی تجربہ ہو، ایسی ہی ایک جگہ پر 2 لوگوں کو زلزلے کے آفٹر شاکس آنے کے بعد بحث کرتے دیکھا تو ہماری دلچسپی بھی کچھ بڑھ سی گئی۔

ویسے تو یہ زلزلہ اس قدر ہلکا تھا کہ ہمیں محسوس ہی نہ ہوا اور ٹی وی پر ٹِکر دیکھنے کے بعد احساس ہوا مگر اس نے فکری و ذہنی سطح پر جو ارتعاش برپا کیا تھا وہ اس قدر شدید تھا کہ 2 واضح گروہ بن گئے جن کے مابین خلیج ہر لمحہ بڑھنے لگی۔ پہلے گروہ کا کہنا یہ تھا کہ یہ زلزلے پاکستان کے فالٹ لائن پر واقع ہونے کے باعث آ رہے ہیں جبکہ دوسرے گروہ کا ماننا تھا کہ یہ ہمارے اعمال ہیں جو زلزلوں کی صورت میں عیاں ہو رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں بحث اتنی بڑی نہیں تھی جتنا کہ اسے طول دیدیا گیا مگر فریقین کو شاید بحث و مباحث کا شوق تھا، جب ہمارا خیال پوچھا گیا تو ہم نے محض یہ کہنے میں ہی عافیت جانی کہ،
زلزلے یونہی بے سبب نہیں آتے
کوئی دیوانہ تہہ خاک تڑپتا ہوگا

لیکن اس مختصر سی بات پر بھی ہمیں طعنہ و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا اور ساتھ ہی ساتھ بحث بھی بڑھتی گئی۔ زلزلے کیوں آتے ہیں، ان کی وجہ کیا ہے؟ کیا کیا چیز ان کا ممکنہ سبب ہوسکتی ہے اور ان کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے۔ سب اپنی رائے جس انداز سے دے رہے تھے اس سے محسوس ہوتا تھا کہ کوئی ماہرِ ارضیات مفتی بن گیا ہو یا کوئی عالم دین ماہرِ ارضیات بھی رہا ہو۔ دونوں طرف سے تابڑ توڑ حملے کئے جا رہے تھے کہ زلزلوں کا سبب فالٹ لائن ہے اور پاکستان جیسے خطے میں کسی بھی وقت زلزلے آسکتے ہیں۔ دوسرے گروہ کا کہنا تھا کہ قرآن میں مذکور ہے کہ خدائے ذوالجلال نے پچھلی اقوام پر جو عذاب نازل کئے تھے ان میں سے ایک عذاب زلزلے بھی تھے اور مُسلم امہ کو جن عذابوں سے ڈرایا گیا ہے ان میں بھی زلزلے سرفہرست ہیں، اس وجہ سے یہ زلزلے ہمارے اعمال کے سبب ہی ہیں۔

پھر پہلا گروہ اچانک دور کی کوڑی لایا کہ یورپ کا فلاں شہر جہاں سب سے زیادہ عیاشی کے اڈے ہیں، یا فلاں شہر جہاں سب سے زیادہ سود کا کاروبار ہوتا ہے، یا فلاں شہر جہاں سب سے زیادہ جام و بادہ چلتا ہے وہاں یہ زلزلے کیوں نہیں آتے؟ جب بات حد سے بڑھنے لگی تو ہمیں مداخلت کرنا پڑی۔ عرض کی، کہ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ اگر ایک پتہ بھی ہلتا ہے تو وہ خدا کے حکم کا محتاج ہوتا ہے تو پھر ہم یہ کیوں نہیں تسلیم کرلیتے کہ یہ زلزلے فالٹ لائن اور پلیٹوں کے ہلنے کے سبب آئے اور ان پلیٹوں کو جنبش کا حکم خدائے تعالیٰ نے دیا۔ سب لوگ اچانک چُپ ہوگئے ان کا خیال تھا کہ میں شاید مزید لب کشائی کروں مگر میرا یہ موضوع نہیں تھا اور ویسے بھی مجھے علم تھا کہ میں جس نظریے کا بار ڈھو رہا ہو وہ بانٹنے کیلئے مجھے کوئی ہمنوا نہیں ملے گا۔

تو جناب! آپ ان زلزلوں اور آفٹر شاکس کو کیا سمجھتے ہیں؟ میرے سے پھر سوال کیا گیا تو مجھے مجبوراً بولنا ہی پڑا، سب سے پہلے تو میں آپ سب سے معذرت کر لوں کہ ان سے متعلق جو میرا خیال ہے، یقینًا آپ سب اس سے اختلاف کریں گے لیکن برائے مہربانی مجھے میری رائے رکھنے کا حق دیں، جی جی فرمائیے۔

شہہ پا کر ہمارا سینہ تھوڑا اور چوڑا ہو گیا اور پھر جو بولنا شروع کیا گیا تو خیال تھا کہ کسی اور کو بولنے کا موقع نہیں دینا مگر وہ بھی کہاں رکنے والے تھے، بار بار ٹوکتے رہے۔

خاکم بدہن! یہ زلزلے جنہیں ہم آفٹر شاکس سمجھ رہے ہیں میرے خیال میں یہ ''پری شاکس'' ہیں۔

پری شاکس؟ کیا مطلب؟

مطلب یہ کہ یہ اصلی زلزلوں کا ٹریلر ہیں۔ زلزلے تو ابھی آنے ہیں ایسے زلزلے کہ بقول فراز،
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی

قیامت خیز زلزلے ہمیں تلاش کر رہے ہیں اور عنقریب بن بلائے مہمانوں کی طرح نازل ہوں گے، کیونکہ ہم تو اپنی منڈیر پر کب سے کوؤں کو بولتا دیکھ رہے ہیں۔

کیوں آئیں گے زلزلے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ زلزلے آئیں؟

آپ ہی بتائیے کہ کیا وجہ ہے کہ زلزلے ہمارا مقدر نہ بنیں۔ ہم جیسوں کی قسمت میں زلزلے تو اُسی وقت لکھ دئیے جاتے ہیں جب مظلوم اور ظالم کے مابین کوئی آئین اور کوئی قانون حائل نہیں ہوتا، جب سالہا سال تک عدالتوں کے چکر لگا کر مایوس ہونے والا سائل قبر کی راہ لیتا ہے، جب لاچار کے پاس خود سوزی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا، جب بوڑھا پنشنر لائن میں کھڑے کھڑے اپنی آخری سانسیں لیتا ہے، جب متقی و پرہیزگار بھی اپنے جائز کام کیلئے راشی کا کردار ادا کرتا ہے اور جب سرکاری محکموں کے ستائے لوگ آبدیدہ نگاہوں سے آسمان کی طرف نظریں اُٹھا اُٹھا کر دیکھتے ہیں۔

کیا ان سب کی خدا کے حضور مناجاتیں یونہی اکارت جائیں گیں؟ کیا وہ سب سجدے میں پڑے سر، ظالم کی پکڑ کیلئے دعا میں لرزتے ہاتھ اور جنبش زدہ ہونٹ رائیگاں جائیں گے؟ اگر مظلوم کی بددعاعرشِ الٰہی کو ہلا سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ چند ثانیوں کیلئے زمین کوجنبش میں نہ لاسکے۔

رہی بات کہ فلاں شہر میں کیوں زلزلے نہیں آتے، یا فلاں ملک کیا پارساؤں کا گڑھ ہے، یا یہ کہ فلاں علاقہ کو زمین میں کیوں نہیں دھنسایا جاتا تو آپ ہی بتائیے کہ کیا وہاں پر کتے، گدھے اور دیگر مردار جانوروں کا گوشت یوں حلال گوشت کے نام پر فروخت کیا جاتا ہے؟ کیا وہاں دودھ کے نام پر پانی بیچا جاتا ہے؟ (بلکہ اب تو بات پانی سے بھی کہیں آگے نکل چکی ہے اور دودھ کے نام پر زہر فروخت کر کے اپنے لئے ہلاکت آفرینی کا تمام تر سامان اکٹھا کیا جا رہا ہے) کیا وہاں پر آنتوں کو ابال کر ''گھی'' تیار کیا جاتا ہے یا وہاں اینٹوں کے بُرادے کو سرخ مرچوں کے نام پر فروخت کیا جاتا ہے؟ جھوٹ، فریب، مکر و ریا، دغا و دجل جیسی اخلاقی برائیاں جن معاشروں کا سرورق بن جائیں وہاں زلزے نہیں آئیں گے تو اور کیا ہوگا؟

جب مغرب ان تمام تر اخلاقی برائیوں سے مبرا ہے تو پھر کیوں اسے ان اخلاقی جرائم کی سزا دی جائے؟ افراد سے انفرادی حیثیت میں سرزد ہونے والے گناہوں کا دفتر یومِ حساب کو کُھلے گا مگر جب گناہ قوموں سے سرزد ہوں تو پھر قدرت اپنے خود کار طریق سے خود کو متوازن کرتی ہے، وہ انسان کو ایک مخصوص مدت تک کیلئے مہلت دیتی ہے پھر اُس کا جزا و سزا کا قانون حرکت میں آتا ہے، کیونکہ اس نظام ِ قدرت میں قوموں کیلئے کوئی یوم ِ حساب نہیں ہے، جو قوم جو کچھ بوتی ہے، وہ وہی کچھ کاٹتی ہے۔ کوئی بھی ملت ظلم کے بیج بو کرعدل، امن اور انصاف کی فصل نہیں کاٹ سکتی۔ جب جب مظلوم کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھتی رہیں گی، زمین رقصاں رہے گی، جب جب لوگ نا انصافی پر قانون کی زنجیر کھینچنے کے بجائے خدا کا در کھٹکھٹائیں گے، اس کی لاٹھی حرکت میں آتی رہے گی، جب تک قانون کے دہرے معیار قائم رہیں گے، قدرت اپنے طریقے سے میزان برابر رکھے گی۔

جب تک ہم مسائل، ظلم و جبر، اختیارات کے حصول کی دوڑ، مفاد پرستی، حرص و ہوس، موم کی ناک والے دہرے قانون، آئین کی بے ضابطگیوں، تکبر، غرور، سنگدلی، بھوک، بے بسی، بے حسی، بے چارگی، اضطراب، بے چینی اور عدل کی کمیابی کے بیج بوتے رہیں گے تب تک ہم طوفان، سیلاب اور زلزلوں کی فصل ہی کاٹیں گے۔

رہی بات کہ کیا سب مرنے والے گنہگار اور سب بچنے والے پارسا تھے تو حضوروالا! جب آفاتِ سماوی کسی کا گھر دیکھتی ہیں تو پھر وہ قصووار اور بے قصور کی تخصیص نہیں کرتیں، وہ ظالموں میں سے مظلوموں کو منہا نہیں کرتیں۔

ہم کیوں خود کو لایعنی مباحث میں الجھانے کے بجائے یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارے معاشرے میں ظلم کا پیمانہ اب اس حد تک لبریز ہوچکا ہے کہ اس پر زمین چپ نہیں رہ سکتی، غریب کی آہیں اب عرش کے ساتھ ساتھ فرش کو بھی ہلا کر رہیں گی۔ کب تک ہم یوں سائنسی وضاحتوں میں پڑے رہیں گے؟ ایک چھوٹا سا پرندہ بھی جان لیتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے مگر انسان کی ساری عقل، سارا علم سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے، اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں مادی اسباب بھی اختیار کرنے ہیں مگر ان کی آڑ میں روحانی اسباب سے انکار کیوں؟

ان ''پری شاکس'' کو سمجھیں اور جلد از جلد فیصلہ کریں کیونکہ منڈیر پر بولنے والے کوؤں کی کائیں کائیں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

[poll id="878"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔