پیرس میں دہشتگردی کی ہولناک واردات
رواں ماہ جنوری کے بعد فرانس کے شہر پیرس میں ہولناک خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا یہ دوسرا واقعہ ہے
فرانس کے دارالحکومت پیرس کے کنسرٹ ہال میں فائرنگ اور فٹبال میچ کے قریب دھماکوں سے120 افراد ہلاک' 200 سے زائد زخمی ہو گئے جس میں 80 کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے جب کہ 60 افراد کو دہشتگردوں نے یرغمال بنا لیا۔ داعش نے حملہ آوروں کو مبارکباد دی ۔ رواں ماہ جنوری کے بعد فرانس کے شہر پیرس میں ہولناک خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا یہ دوسرا واقعہ ہے جسے فرانسیسی میڈیا نے طبل جنگ بجنے سے تعبیر کیا ہے۔
صدر فرانکوس ہولاندے نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے اور سرحدوں کی کڑی نگرانی کا حکم دیا ہے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ تمام کے تمام 8 دہشتگرد مارے جا چکے ہیں تاہم اس خطرہ کی نشاندہی کی گئی کہ ان کے کارندے اور مزید ساتھی دوبارہ حملہ کر سکتے ہیں۔ واضح رہے فرانس کے اینٹی ٹیرر اداروں کے ماہرین نے دہشتگردوں کی طرف سے مربوط اور وحشیانہ حملوں کے خطرہ سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا جب کہ ایجنسیز کئی ماہ سے انسدادی کوششوں میں الرٹ تھیں تاہم ان کا اعتراف سامنے آیا ہے کہ ان حملوں کو روکنا ممکن نہیں۔
عالمی سطح پر اس قتل عام کی صدر اوباما سمیت دنیا کے مختلف سربراہان مملکت، وزرائے اعظم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور امن پسند حلقوں نے شدید مذمت کی اور فرانسیسی عوام سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے، بتایا جاتا ہے کہ پیرس کے مشہور اسٹیٹ ڈی فرانس اسٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کی فٹ بال ٹیموں کے مابین دوستانہ میچ ہو رہا تھا جس میں فرانس کے صدر فرانکوس ہولاندے اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ اسٹیڈیم میں میچ دیکھ رہے تھے کہ اسٹیڈیم کے باہر دھماکا ہو گیا۔ اس موقع پر بھگدڑ مچ گئی جس کے دوران متعدد افراد ہلاک اور کئی پیروں تلے روندے گئے۔
سیکیورٹی اہلکاروں نے اسٹیڈیم سے صدر فرانکوس اور ان کی کابینہ کے ارکان کو بحفاظت نکال کر وزارت داخلہ کی عمارت میں بحفاظت پہنچا دیا۔ ادھر اسٹیڈیم کے باہر دھماکے کے بعد حملہ آور مسلح افراد نے قریب موجود بار ''پیٹٹ کمبوج'' (جس نے جرمن ٹیم کی میزبانی بھی کی) وہاں پہلے دھماکا کیا پھر فائرنگ کر دی، زیادہ تر ہلاکتیں ایک تھیٹر میں ہوئیں جہاں امریکن بینڈ نغمہ سرائی کر رہا تھا۔
میڈیا کے مطابق ایک حملہ آور نے چیخ کر کہا کہ یہ سب کچھ تمہارے صدر ہولاندے کے عمل کے باعث ہوا ہے تاہم فرانس میں دہشتگردی کی یہ دوسری بڑی اور درد انگیز واردات ایک بزدلانہ فعل ہے، نہتے شہریوں کو مارنے کی اسلام نے کہاں اجازت دی ہے اور ان یورپی ملکوں کو ٹارگٹ کرنا جو لاکھوں تارکین وطن اور شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولے ہوئے ہیں۔ عالم اسلام اور عرب دنیا کو اس سانحہ کے ہولناک نتائج پر غور کرنا چاہیے۔ دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے مزید عالمگیر اقدامات کی ضرورت ہے۔
صدر فرانکوس ہولاندے نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے اور سرحدوں کی کڑی نگرانی کا حکم دیا ہے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ تمام کے تمام 8 دہشتگرد مارے جا چکے ہیں تاہم اس خطرہ کی نشاندہی کی گئی کہ ان کے کارندے اور مزید ساتھی دوبارہ حملہ کر سکتے ہیں۔ واضح رہے فرانس کے اینٹی ٹیرر اداروں کے ماہرین نے دہشتگردوں کی طرف سے مربوط اور وحشیانہ حملوں کے خطرہ سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا جب کہ ایجنسیز کئی ماہ سے انسدادی کوششوں میں الرٹ تھیں تاہم ان کا اعتراف سامنے آیا ہے کہ ان حملوں کو روکنا ممکن نہیں۔
عالمی سطح پر اس قتل عام کی صدر اوباما سمیت دنیا کے مختلف سربراہان مملکت، وزرائے اعظم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور امن پسند حلقوں نے شدید مذمت کی اور فرانسیسی عوام سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے، بتایا جاتا ہے کہ پیرس کے مشہور اسٹیٹ ڈی فرانس اسٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کی فٹ بال ٹیموں کے مابین دوستانہ میچ ہو رہا تھا جس میں فرانس کے صدر فرانکوس ہولاندے اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ اسٹیڈیم میں میچ دیکھ رہے تھے کہ اسٹیڈیم کے باہر دھماکا ہو گیا۔ اس موقع پر بھگدڑ مچ گئی جس کے دوران متعدد افراد ہلاک اور کئی پیروں تلے روندے گئے۔
سیکیورٹی اہلکاروں نے اسٹیڈیم سے صدر فرانکوس اور ان کی کابینہ کے ارکان کو بحفاظت نکال کر وزارت داخلہ کی عمارت میں بحفاظت پہنچا دیا۔ ادھر اسٹیڈیم کے باہر دھماکے کے بعد حملہ آور مسلح افراد نے قریب موجود بار ''پیٹٹ کمبوج'' (جس نے جرمن ٹیم کی میزبانی بھی کی) وہاں پہلے دھماکا کیا پھر فائرنگ کر دی، زیادہ تر ہلاکتیں ایک تھیٹر میں ہوئیں جہاں امریکن بینڈ نغمہ سرائی کر رہا تھا۔
میڈیا کے مطابق ایک حملہ آور نے چیخ کر کہا کہ یہ سب کچھ تمہارے صدر ہولاندے کے عمل کے باعث ہوا ہے تاہم فرانس میں دہشتگردی کی یہ دوسری بڑی اور درد انگیز واردات ایک بزدلانہ فعل ہے، نہتے شہریوں کو مارنے کی اسلام نے کہاں اجازت دی ہے اور ان یورپی ملکوں کو ٹارگٹ کرنا جو لاکھوں تارکین وطن اور شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولے ہوئے ہیں۔ عالم اسلام اور عرب دنیا کو اس سانحہ کے ہولناک نتائج پر غور کرنا چاہیے۔ دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے مزید عالمگیر اقدامات کی ضرورت ہے۔