پیرس میں کرفیو

میں کسی نہ کسی بہانے پیرس جاتا رہا ہوں اور وہاں چند دن قیام کی لذت بھی اٹھائی یا اس کی فراوانی کو برداشت کیا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

PESHAWAR:
جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے اپنے خوبصورت شہر پیرس کو فرانسیسیوں نے حملہ آور ہٹلر کی منت سماجت کر کے اسے بچا لیا تھا لیکن آج یہ شہر اپنے کن باسیوں کو آواز دے کہ وہ اسے دہشت گردوں سے بچا لیں جو اس شہر کی خوبصورت فرش والی سڑکوں پر بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پیرس میں داخلے کے راستے بند ہیں اور شہر میں کرفیو نافذ ہے۔ پیرس میں داخلے کے راستے بند اور شہر میں کرفیو شاید اس صدی کی سب سے بڑی خبر ہو گی۔

میں کسی نہ کسی بہانے پیرس جاتا رہا ہوں اور وہاں چند دن قیام کی لذت بھی اٹھائی یا اس کی فراوانی کو برداشت کیا ہے۔ فرانسیسیوں کا یہ شہر کرفیو کے لیے نہیں بے حجاب حسن کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس شہر کو کرفیو وغیرہ سے کیسے بند کیا جا سکتا ہے یہ آج کوئی اس شہر کے باشندوں سے پوچھے جن کے بڑوں نے بے رحم ہٹلر سے اپنے شہر کو گولہ بارود کی جنگ سے بچا لیا تھا اور اس کی ایک خوبصورت اینٹ بھی مجروح نہیں ہوئی تھی۔

میں جب پہلی بار پیرس گیا تو میری نگاہیں اس شہر کی گزرگاہوں کے فرش سے نہیں اٹھتی تھیں جن میں کوئلہ بجری نہیں اینٹیں لگائی گئی تھیں۔ میں نے ایک بار اپنے سینئر ہم سفر جناب سلمان فاروقی سے پوچھا کہ کیا ہم اپنے شہروں میں یہ اینٹیں نہیں لگا سکتے۔ ان کا جواب تھا بالکل، لیکن اس کے لیے ہمیں افریقہ کی دولت پر سامراجی حکمرانی کی ضرورت پڑے گی چند صدیوں کی۔ فرانس کی اس کی سڑکوں اور گلیوں میں بچھی ہوئی یہ دولت افریقہ کی حکمرانی کی لوٹ کھسوٹ کی ہے جو ہمیں میسر نہیں۔

میں پہلی بار پیرس میں کسی وزیر اعظم کے قافلے میں گیا تھا، اس کے بعد میں نے طے کیا کہ اب میں آزادانہ اس شہر میں گھوموں پھروں گا چنانچہ میں ایک بار لندن جاتے ہوئے پیرس میں اتر گیا۔ ہوائی اڈے پر مجھے ایک پاکستانی سفارت کار جناب شہریار نے پاکستانی سمجھ کر پوچھا کہ کہاں جانا ہے، یہاں ٹرانسپورٹ بہت مہنگی ہے میں لے جاؤں گا۔

ن م راشد کے صاحبزادے کسی قریبی ملک میں سفارت کار تھے اور پیرس سے اپنے کسی مہمان کو لینے آئے تھے۔ وہ مجھے پیرس کے اس علاقے میں چھوڑ گئے جہاں اوسط کرائے کے ہوٹل تھے۔ میں جس ہوٹل میں ٹھہرا اس کی منیجر صرف اشاروں کنایوں میں بات کرتی تھی اور خوبصورت تھی۔ میں کوئی ہفتہ بھر پیرس میں گھومتا رہا۔ اس شہر میں کہیں بھی کوئی چیز ایسی نہیں تھی جس میں آرٹ کی کوئی جھلک نہ ہو خواہ وہ کسی واش روم کا دروازہ ہی کیوں نہ ہو یا کسی سڑک کا موڑ۔

لیکن یہاں کی بہت ہی مشہور ایک سڑک شانزے لیزے ہے۔ فرانسیسی پروپیگنڈا اپنی جگہ لیکن یہ سڑک ہماری لاہور کی مال روڈ کے مقابلے میں بھی نہیں ہے۔ وہی سڑک کے دونوں طرف درخت اور ساتھ ساتھ دکانیں۔ مال روڈ والا نقشہ، البتہ یہاں گھومتا پھرتا یورپ کا گورا چٹا بے نقاب حسن الگ بات ہے۔ پیرس کا حسن اس کی عمارتوں میں ہے جو بڑے قرینے اور ذوق کے ساتھ تعمیر کی گئی ہیں۔ کئی عمارتیں اور تعمیرات تو بس یونہی یونہی سی ہیں۔ پیرس کا مشہور ٹاور بجلی کا ایک کھمبا ہے۔


یہ بنا بھی کھمبا تھا لیکن مکمل نہ ہو سکا اور فرانسیسیوں نے اسے آرٹ بنا لیا۔ البتہ کوئی سڑک ہو یا چاردیواری، اسے کسی آرٹ کے پردے میں بنایا گیا ہے۔ یونہی تعمیر نہیں کر دیا گیا۔ میں جس عام سے ہوٹل میں مقیم تھا اس کے بالکل قریب پیرس کی مشہور یونیورسٹی ساربون تھی اور سامنے عجائب گھر۔ یہ عجائب گھر یوں بہت قیمتی تھا کہ فرانس کی مصر پر بھی حکومت رہی اور مصری عجائبات کے کئی نمونے یہاں موجود تھے مثلاً مونا لیزا، سوائے فرعون موسیٰ کے جو قاہرہ کے عجائب گھر میں انسانوں کی عبرت کے لیے محفوظ کر دیا گیا تھا جب کہ خود قرآن میں اس کا ذکر ہے۔

پیرس میں زبان کی الجھن اپنی جگہ بہت ستاتی ہے لیکن مجھے جس کی تلاش تھی وہ ایک پاکستانی کے ذریعے مل گئی اور مل ہی کیا گئی، یہ پاکستانی میری انگلی پکڑ کر مجھے اس سیڑھی کے دروازے کے پاس چھوڑ گیا جس کی دوسری تیسری منزل پہ وہ عظیم المرتبت شخصیت مقیم تھی جس کی تلاش میں تھا اور مایوس ہو چکا تھا۔

یہ تھے ڈاکٹر عبداللہ۔ وہ دوسری منزل کے ایک کمرے میں مقیم تھے اور کھانا پکانا خود ہی کرتے تھے۔ بس کتابیں تھیں اور پروفیسر صاحب۔ مجھے انھوں نے چائے پلائی۔ میں نے بہت معذرت کی مگر انھوں نے کہا کہ میں چائے ضرور پلایا کرتا ہوں۔ ان کی تنہائی اور یہ کام کا بوجھ دیکھ کر ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک بار ان سے کہا کہ میں پاکستان کی طرف سے آپ کو ایک معاون بھجوا دیتا ہوں لیکن ڈاکٹر صاحب نے معذرت کر دی کہ وہ تو میرا وقت ضایع کرے گا۔ ایسا جواب کوئی غیر معمولی عالم ہی دے سکتا ہے۔ میں نے نہایت ہی ادب کے ساتھ عرض کیا کہ آپ پاکستان تشریف لے آئیں۔

فرمانے لگے درست ہے میرا بھی جی چاہتا ہے مگر ان لاکھوں کتابوں کا کیا کروں جو پیرس کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں اور میں ان سے مسلسل مستفید ہوتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی دو چار کتابیں پاکستان میں بھی ملتی ہیں لیکن ان کی علم و ادب کا مرقع شخص پیرس میں مقیم ہے اور حقیقی معنوں میں ایک درویش اور دانشور کی زندگی بسر کرتا ہے، بے لو ث اور علم و ادب کی دولت سے آباد۔ یہ اس شہر میں پاکستان کا حوالہ ہے لیکن پیرس بلاشبہ اپنے عملی اور ادبی ذخیروں میں دنیا کے کسی بھی شہر کے برابر ہے یا برتر۔ لیکن ہمیں کیا دنیا کے ان سامراجی شہروں میں جن میں لندن اور پیرس سرفہرست ہیں ہمارے محکوم شہروں اور ملکوں سے لوٹے گئے خزانوں سے ہی بھرے ہوئے ہیں اور ہماری اس تاریخی دولت کو اپنے اشتہار دے کر دنیا کو دکھاتے ہیں ورنہ یورپ کے ان شہروں کے پاس اپنا کیا ہے۔

ہم پاکستانی اپنی اس محرومی کو الفاظ میں چھپاتے ہیں۔ خود ہمارے ہندوستان میں ہمارے علمی اور تاریخی ذخیرے ان ملکوں کے عجائب خانوں میں موجود ہیں اور ان کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ان پر مقدمہ کر دیں کہ انھوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں ہمارے ان علمی خزانوں کو زبردستی ہم سے چھینا بلکہ چوری کیا ہے تو ان کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔

کوئی جواب نہیں کہ ان کے ہاں موجود یہ سب کچھ کسی کا تحفہ نہیں ہے، چوری کا مال ہے۔ یورپ کی عدالتیں انصاف کا بہت شور مچاتی ہیں اگر ہم سے کوئی ان پر چوری کا مقدمہ کر دے تو ان کے پاس اس کا کوئی دفاع نہیں ہے۔ زیادہ نہیں تو پیرس اور لندن کے عجائب گھر تو خالی ہو جائیں صرف الفاظ میں تاریخ باقی رہ جائے۔ اس وقت پیرس کا نوحہ کہ جو شہر ہٹلر سے بچ گیا وہ آج کے دہشت گردوں کی گرفت میں ہے اور کرفیو کی پناہ میں۔
Load Next Story