اندرا گاندھی آخری دم تک کہوٹہ کو نشانہ بنانے کی کوشش میں رہیں
امریکی خفیہ ایجنسی ،سی آئی اے کی پاکستانی ایٹمی منصوبے سے متعلق ڈی کلاسیفائڈ دستاویز کے چشم کشا انکشافات
پچھلے چند ماہ میں امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے نے اپنی نہایت اہم کلاسیفائیڈ یا پوشیدہ دستاویز افشا کی ہیں۔ ان کا عنوان ہے:'' پاکستان کے ایٹمی منصوبے پر بھارت کا ردعمل۔'' یہ دستاویز 1981ء تا 1984ء کے دور سے متعلق ہیں جب بھارت پر اندرا گاندھی حکمران تھیں۔
ان ڈی کلاسیفائیڈ دستاویز نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ مقتول بھارتی وزیراعظم جنوری 1980ء سے لے کر اپنی موت (اکتوبر 1984ء) تک کوشش کرتی رہیں کہ کہوٹہ میں واقع پاکستانی ایٹمی تنصیبات تباہ کردی جائیں مگر وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔انھوں نے جب بھی حملے کا ارادہ کیا،کوئی نہ کوئی رکاوٹ سامنے آگئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے وطن عزیز کے ایٹمی منصوبے کو دشمن سے بچائے رکھا۔ اندرا گاندھی نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں پاکستان کے خلاف جو چالیں چلیں، ان کی داستان حیرت انگیز ہے۔
٭٭
اندرا بظاہر شائستہ، مہذب اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں، مگر پاکستان کے معاملے میں ان کے نظریات انتہا پسند ہندو رہنماؤں سے ملتے جلتے تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ پاکستان بھارت کے سامنے سرجھکا کر رہے ورنہ ''اکھنڈ بھارت'' کا حصہ بن جائے۔ یہ اندرا گاندھی ہی ہیں جنہوں نے مشرقی پاکستان کو الگ کیا نیز 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کر ڈالا۔ یوں پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے۔
پاکستانی سول حکومت اور پاک فوج نے مل کر اپنا ایٹمی منصوبہ شروع کیا۔ کہوٹہ میں یورینیم افزدہ کرنے کے لیے لیبارٹری قائم کی گئی۔ اس دوران بے پناہ مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اپنا دفاع مضبوط تر کرنے کی خاطر وطن کے سپوت تمام رکاوٹیں پامردی سے عبور کرتے رہے۔
کہوٹہ میں جاری ایٹمی منصوبے کا سب سے بڑا دشمن بھارت تھا۔ 1979ء کے اوائل میں جنرل ضیاء الحق کو انٹیلی جنس ذرائع سے اطلاع ملی، پاکستان کے بگڑے سیاسی حالات سے فائدہ اٹھا کر بھارتی افواج میں موجود ''عقاب'' کہوٹہ پر فضائی حملہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس خطرے کو نہایت سنگین تصور کرتے ہوئے صدر نے پاک فضائیہ کے سربراہ، ایئرمارشل انور شمیم کو بلوالیا۔
مرحوم ایئرمارشل اپنی آپ بیتی ''Cutting Edge PAF'' میں لکھتے ہیں: ''میں نے صدر مملکت کو بتایا کہ پاک فضائیہ کہوٹہ کا دفاع نہیں کرسکتی۔ وجہ یہ کہ کہوٹہ بھارتی سرحد سے 3 منٹ کے (فضائی) فاصلے پر ہے جبکہ ہمیں کہوٹہ تک پہنچنے میں 8 منٹ لگیں گے۔ لہٰذا جب تک ہمارے طیارے کہوٹہ پہنچے، دشمن کام مکمل کر جاچکا ہوگا۔''
جنرل ضیاء الحق نے سربراہ پاک فضائیہ سے دریافت کیا کہ کہوٹہ کی ایٹمی تنصیبات کا دفاع کیونکر مضبوط بنایا جائے؟ یہ نہایت اہم معاملہ تھا کیونکہ پاکستان اب ایٹم بم بناکر ہی بھارت کے برابر آسکتا تھا۔ دوسری صورت میں اس کی بقا سنگین خطرات سے دوچار ہوجاتی۔ مرحوم انور شمیم نے انہیں بتایا کہ اگر جدید ترین امریکی طیارہ، ایف سولہ پاکستان کو مل جائے تو بھارتی کہوٹہ پر حملے کرنے سے قبل ہزار بار سوچیں گے۔ یہ ایف سولہ کہوٹہ کا دفاع نہیں بلکہ بھارتی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے میں کام آنے تھے۔دلچسپ بات یہ کہ جب درج بالا بات چیت ہوئی تو پاکستان اور امریکا کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ مگر دسمبر 1979ء میں افغانستان پر سویت یونین کے حملے نے کایا پلٹ ڈالی۔ اب روسیوں کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اہم ترین اتحادی بن گیا۔ یوں پاکستان کے معاملے میں امریکی پالیسی بھی بدل گئی۔ ان بدلے حالات سے صدر ضیاء الحق نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔
پاکستان کو خوش کرنے کے لیے امریکی حکومت نے F-5 طیارے دینے کا اعلان کیا مگر پاکستان کا کہنا تھا کہ اسے صرف ایف سولہ درکار ہیں۔ امریکی انکار کرتے رہے، مگر پاکستانیوں کے اصرار پر انہیں ہامی بھرنا پڑی۔ چناںچہ جنوری 1983ء میں اولیّں ایف سولہ طیارے پاکستان کو مل گئے ۔لیکن پچھلے دو برس میں یہ زبردست خطرہ موجود رہا کہ بھارتی طیارے کسی بھی وقت کہوٹہ پر بمباری کرکے ہماری تنصیبات تباہ کرسکتے ہیں۔
ہوا یہ کہ جون 1981ء میں اسرائیلی ایف سولہ طیاروں نے بم گرا کے بغداد کے نزدیک واقع زیر تعمیر عراقی ایٹمی ریکٹر تباہ کر ڈالا۔ یہ خبر سن کر بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی نے اظہار مسّرت کیا۔ انہیں احساس ہوگیا کہ بھارتی طیارے بھی اسی طریقے سے کہوٹہ پر حملہ کرسکتے ہیں۔ چناں چہ ان کی ایما پر حملے کے سلسلے میں تیاریاں کی جانے لگیں۔
اتفاق کی بات یہ کہ اسی زمانے میں بھارت کو برطانیہ سے جیگوار طیارے مل گئے۔ تب یہ جدید ترین سپرسونک بمبار جہاز تھے۔ اسی لیے بھارتی فضائیہ نے اپنی وزیراعظم کو بتایا کہ کہوٹہ کی تنصیبات کو تباہ کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا اندرا گاندھی نے منصوبے کی منظوری دے دی۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن امریکا کا مشہور تھنک ٹینک ہے۔ ''بروکنگز انڈیا'' اس کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ بھارتی نژاد امریکی محقق، واہ گروپال سنگھ طویل عرسے سے اس ادارے میں بطور سینئر فیلو کام کررہے ہیں۔ انہوں نے 1996ء میں انکشاف کیا کہ جولائی 1981ء میں بھارتی فضائیہ نے کہوٹہ پر حملہ کرنے کے لیے پلان تیار کر لیا تھا ۔لیکن دو باتوں کی وجہ سے حملے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑگیا۔ اول بھارتی حکمران طبقے کو احساس ہوگیا کہ کہوٹہ پر حملہ ہوا، تو تیسری پاک بھارت جنگ چھڑجائے گی۔ دوم امریکا نے سخت الفاظ میں اندرا گاندھی کو دہمکی دی کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگجوئی سے باز رہیں۔ تب افغان جنگ پوری شدت سے جاری تھی اور امریکا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان کو کسی مصیبت میں ڈالا جائے۔
اندرا گاندھی نے پھر اوائل 1983ء میں کہوٹہ پر حملے کا آرڈر دیا اور اس بار وہ اسرائیل کی مدد چاہتی تھی۔ اریان لیوی اور کیتھرین اسکاٹ۔ کلارک ممتاز برطانوی اخبار، گارڈین سے منسلک مشہور انوسٹیگیٹیو صحافی ہیں۔ 2007ء میں ان کی انگریزی کتابDeception: Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracyشائع ہوئی۔ کتاب میں وہ لکھتے ہیں:
''فروری 1983ء میں بھارتی افواج کے اعلیٰ افسروں نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا۔ وہ ایسے الیکٹرونک آلات خریدنے آئے تھے جو کہوٹہ کے فضائی دفاع کو جامد کرسکیں۔ مذید براں اسرائیلی حکومت نے بھارتیوں کو ایف سولہ کی تکنیکی خصوصیات کے متعلق معلومات بھی دیں۔ (تب تک پاک فضائیہ کو ایف سولہ مل چکے تھے)۔ بدلے میں بھارتی افسروں نے سویت ساختہ مگ۔23 طیارے کی خفیہ تکنیکی تفصیل سے اسرائیلیوں کو آگاہ کیا۔(مصر اور شام یہ روسی ساختہ طیارہ رکھتے تھے)۔''
بھارت کی طرح اسرائیل بھی پاکستان کے ''اسلامی ایٹم بم'' کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ اسی لیے اسرائیلی حکومت کہوٹہ پر حملے کی خاطر بھارتیوں کا ساتھ دینے کے لیے بخوشی تیار ہوگئی۔ یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد ہی ہے جس نے وسط 1981ء میں کہوٹہ لیبارٹریز کو خام مال فراہم کرنے والی یورپی کمپنیوں کو ''لیٹر بم'' بھجوائے تھے۔
بھارتی منصوبہ یہ تھا کہ راجھستان کے راستے پاکستان پر زمینی حملہ کیا جائے۔ جب پاک افواج یہ حملہ روکنے میں مصروف ہوں، تو جیگوار طیارے کہوٹہ پہنچ کر پاکستانی ایٹمی تنصیبات تہس نہس کردیں۔ یہ جنگی منصوبہ اندرا گاندھی کی ایما پر بھارتی افواج کے عقابوں نے تیار کیا۔
لیکن امریکی سی آئی اے کو اس منصوبے کی بھنک مل گئی۔ چناں چہ اس نے پاکستانی حکومت کو خبردار کردیا۔ اس زمانے میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ منیر احمد خان انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے ویانا (آسٹریا) گئے ہوئے تھے۔
پاکستانی حکومت کی ایما پر انہوں نے بھارتی ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ، ڈاکٹر راجا رمنا کو کھانے کی دعوت پر بلالیا۔ منیر احمد خان نے اسی موقع پر بھارتی ہم منصب کو خبردار کیا ''اگر بھارت نے ہماری ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا، تو ہمارے ایف سولہ بمبئی میں واقع بھارتی ایٹمی تنصیبات کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔''
اس دھمکی نے خاطر خواہ کام کر دکھایا اور یہ سوچ کر اندرا گاندھی کی عقل ٹھکانے آگئی کہ پاکستانیوں کی بم باری سے بمبئی ملیامیٹ ہوگیا، تو پھر کیا ہوگا۔ پاکستان کے زبردست جوابی وار کے خطرے ہی نے بھارتی وزیراعظم کو مجبور کردیا کہ وہ کہوٹہ پر حملے کا منصوبہ پھر ختم کردیں۔ یہ منصوبہ اس لیے بھی قابل عمل نہ رہا کہ ''سسپنس'' کا عنصر ختم ہوگیا اور پاک فضائیہ نے کہوٹہ کا فضائی دفاع مزید مضبوط کرلیا۔
غیرملکی و ملکی مورخین لکھتے ہیں کہ اس موقع پر اسرائیلی حکومت نے اندرا گاندھی کو پیش کش کی کہ وہ کہوٹہ پر حملہ کرنے کو تیار ہے۔ یہ منصوبہ اندرا گاندھی کو پسند آیا۔ یوں پاکستانی ایٹمی تنصیبات تباہ ہوجاتیں اور بھارت پر الزام بھی نہ لگتا۔ اسی لیے بھارتی وزیراعظم نے اس منصوبے کی بھی منظوری دے دی۔ یہ وسط 1984ء کی بات ہے۔
اسرائیل اور بھارت کے عسکری عقابوں نے پھرکہوٹہ پر دھاوا بولنے کی خاطر دو منصوبے تیار کیے۔ پہلے منصوبے کی رو سے اسرائیل کے ایف پندرہ اور ایف سولہ طیارے پہلے خفیہ طور پر بھارت پہنچتے۔ انہیں جام نگر کے فضائی اڈے پر ٹھہرایا جاتا۔ اسرائیلی طیارے مکمل تیاری کے بعد پٹھان کوٹ کی ائر بیس پہنچ جاتے۔وقت مقررہ پر وہاں سے پرواز کرتے اور کشمیر کے پہاڑوں کی آڑ لیتے، پاکستانی ریڈار سے بچتے کہوٹہ پہنچ جاتے۔
دوسرا منصوبہ زیادہ مہم جویانہ تھا۔ اس کی رو سے اسرائیلی طیارے بحرہند میں پہنچ کر کسی ایسے مسافر ہوائی جہاز کو نشانہ بناتے جو اسلام آباد جارہا ہوتا۔ جب ہوائی جہاز تباہ ہوجاتا، تو وہ اس کے کال سائن کو استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کی سمت اڑنے لگتے۔ یہ اسرائیلی طیارے فضا میں ایسی فارمیشن بناتے کہ ریڈار پر وہ ایک ہی جہاز کی شکل میں نظر آتے۔
اس دوسرے منصوبے کے مطابق اسلام آباد کے نزدیک کہوٹہ پہنچ کر اسرائیلی طیارے پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر میزائل و بم پھینکتے اور پھر پٹھان کوٹ پہنچ جاتے۔ وہاں سے ایندھن بھر کر انہیں واپس اسرائیل روانہ کردیا جاتا۔
غیر ملکی مورخین کا دعویٰ ہے کہ امریکا کو ان منصوبوں کی خبر مل گئی۔ اس نے پھر دونوں ممالک کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا، تو امریکا جانب دار نہیں رہے گا۔ اسی دھمکی کی وجہ سے اندرا گاندھی نے پھر پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر مشترکہ اسرائیل و بھارتی حملہ روک دیا۔
درج بالا واقعات سے عیاں ہے ، بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی جنوری 1980ء میں دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی موت تک بھر پور کوشش کرتی رہیں کہ پاکستان ایٹم بم نہ بنانے پائے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا ہر حربہ ناکام رہا اور وہ بے نیل و مرام کیفیت میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ انہیں انہی کے محافظوں نے گولیاں مار کر دنیا سے چلتا کیا۔
ان چار پانچ برس کے دوران پاک افواج کا کردار بھی مثالی رہا۔ وہ چوبیس گھنٹے چست و متحرک رہ کر قومی اور ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کرتی رہیں۔ انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی سستی و آلکسی نہیں دکھائی اور یوں دشمن کو وار کرنے کا موقع نہ دیا ۔ کہیں زیادہ طاقتور دشمن کو دانت کھٹے کر دینے والا جواب دینے کی وجہ سے ہی پاک افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔
غرض اندرا گاندھی کی تمام کوششیں بیکار گئیں اور پاکستان نے 1984ء کے لگ بھگ پہلا ایٹم بم تیار کرلیا۔ ایٹم بم بناکر پاکستان نے اپنا دفاع ازحد مضبوط کرلیا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا ایٹمی منصوبہ خالصتاً دفاعی ہے۔ اگر بھارت ایٹم بم نہ بناتا، تو پاکستان بھی اس خطرناک ہتھیار سے دور رہتا۔ لیکن دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمیں مجبوراً یہ ناخوشگوار راہ اختیار کرنا پڑی۔
آج ایٹمی سائنس سے متعلق پاکستانی سائنس دانوں، انجینئروں اور دیگر ہنرمندوں کا شمار دنیا کے بہترین ماہرین میں ہوتا ہے۔ یہ ماہرین بھارت کی جارحانہ عسکری پالیسیوں کو پیوند خاک کرنے کے لیے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی بناچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، گھمنڈی اور انتہا پسند مودی حکومت اپنی تمام تر طاقت کے باوجود پاکستان پر علی الاعلان حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔
ان ڈی کلاسیفائیڈ دستاویز نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ مقتول بھارتی وزیراعظم جنوری 1980ء سے لے کر اپنی موت (اکتوبر 1984ء) تک کوشش کرتی رہیں کہ کہوٹہ میں واقع پاکستانی ایٹمی تنصیبات تباہ کردی جائیں مگر وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔انھوں نے جب بھی حملے کا ارادہ کیا،کوئی نہ کوئی رکاوٹ سامنے آگئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے وطن عزیز کے ایٹمی منصوبے کو دشمن سے بچائے رکھا۔ اندرا گاندھی نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں پاکستان کے خلاف جو چالیں چلیں، ان کی داستان حیرت انگیز ہے۔
٭٭
اندرا بظاہر شائستہ، مہذب اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں، مگر پاکستان کے معاملے میں ان کے نظریات انتہا پسند ہندو رہنماؤں سے ملتے جلتے تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ پاکستان بھارت کے سامنے سرجھکا کر رہے ورنہ ''اکھنڈ بھارت'' کا حصہ بن جائے۔ یہ اندرا گاندھی ہی ہیں جنہوں نے مشرقی پاکستان کو الگ کیا نیز 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کر ڈالا۔ یوں پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے۔
پاکستانی سول حکومت اور پاک فوج نے مل کر اپنا ایٹمی منصوبہ شروع کیا۔ کہوٹہ میں یورینیم افزدہ کرنے کے لیے لیبارٹری قائم کی گئی۔ اس دوران بے پناہ مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اپنا دفاع مضبوط تر کرنے کی خاطر وطن کے سپوت تمام رکاوٹیں پامردی سے عبور کرتے رہے۔
کہوٹہ میں جاری ایٹمی منصوبے کا سب سے بڑا دشمن بھارت تھا۔ 1979ء کے اوائل میں جنرل ضیاء الحق کو انٹیلی جنس ذرائع سے اطلاع ملی، پاکستان کے بگڑے سیاسی حالات سے فائدہ اٹھا کر بھارتی افواج میں موجود ''عقاب'' کہوٹہ پر فضائی حملہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس خطرے کو نہایت سنگین تصور کرتے ہوئے صدر نے پاک فضائیہ کے سربراہ، ایئرمارشل انور شمیم کو بلوالیا۔
مرحوم ایئرمارشل اپنی آپ بیتی ''Cutting Edge PAF'' میں لکھتے ہیں: ''میں نے صدر مملکت کو بتایا کہ پاک فضائیہ کہوٹہ کا دفاع نہیں کرسکتی۔ وجہ یہ کہ کہوٹہ بھارتی سرحد سے 3 منٹ کے (فضائی) فاصلے پر ہے جبکہ ہمیں کہوٹہ تک پہنچنے میں 8 منٹ لگیں گے۔ لہٰذا جب تک ہمارے طیارے کہوٹہ پہنچے، دشمن کام مکمل کر جاچکا ہوگا۔''
جنرل ضیاء الحق نے سربراہ پاک فضائیہ سے دریافت کیا کہ کہوٹہ کی ایٹمی تنصیبات کا دفاع کیونکر مضبوط بنایا جائے؟ یہ نہایت اہم معاملہ تھا کیونکہ پاکستان اب ایٹم بم بناکر ہی بھارت کے برابر آسکتا تھا۔ دوسری صورت میں اس کی بقا سنگین خطرات سے دوچار ہوجاتی۔ مرحوم انور شمیم نے انہیں بتایا کہ اگر جدید ترین امریکی طیارہ، ایف سولہ پاکستان کو مل جائے تو بھارتی کہوٹہ پر حملے کرنے سے قبل ہزار بار سوچیں گے۔ یہ ایف سولہ کہوٹہ کا دفاع نہیں بلکہ بھارتی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے میں کام آنے تھے۔دلچسپ بات یہ کہ جب درج بالا بات چیت ہوئی تو پاکستان اور امریکا کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ مگر دسمبر 1979ء میں افغانستان پر سویت یونین کے حملے نے کایا پلٹ ڈالی۔ اب روسیوں کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اہم ترین اتحادی بن گیا۔ یوں پاکستان کے معاملے میں امریکی پالیسی بھی بدل گئی۔ ان بدلے حالات سے صدر ضیاء الحق نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔
پاکستان کو خوش کرنے کے لیے امریکی حکومت نے F-5 طیارے دینے کا اعلان کیا مگر پاکستان کا کہنا تھا کہ اسے صرف ایف سولہ درکار ہیں۔ امریکی انکار کرتے رہے، مگر پاکستانیوں کے اصرار پر انہیں ہامی بھرنا پڑی۔ چناںچہ جنوری 1983ء میں اولیّں ایف سولہ طیارے پاکستان کو مل گئے ۔لیکن پچھلے دو برس میں یہ زبردست خطرہ موجود رہا کہ بھارتی طیارے کسی بھی وقت کہوٹہ پر بمباری کرکے ہماری تنصیبات تباہ کرسکتے ہیں۔
ہوا یہ کہ جون 1981ء میں اسرائیلی ایف سولہ طیاروں نے بم گرا کے بغداد کے نزدیک واقع زیر تعمیر عراقی ایٹمی ریکٹر تباہ کر ڈالا۔ یہ خبر سن کر بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی نے اظہار مسّرت کیا۔ انہیں احساس ہوگیا کہ بھارتی طیارے بھی اسی طریقے سے کہوٹہ پر حملہ کرسکتے ہیں۔ چناں چہ ان کی ایما پر حملے کے سلسلے میں تیاریاں کی جانے لگیں۔
اتفاق کی بات یہ کہ اسی زمانے میں بھارت کو برطانیہ سے جیگوار طیارے مل گئے۔ تب یہ جدید ترین سپرسونک بمبار جہاز تھے۔ اسی لیے بھارتی فضائیہ نے اپنی وزیراعظم کو بتایا کہ کہوٹہ کی تنصیبات کو تباہ کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا اندرا گاندھی نے منصوبے کی منظوری دے دی۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن امریکا کا مشہور تھنک ٹینک ہے۔ ''بروکنگز انڈیا'' اس کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ بھارتی نژاد امریکی محقق، واہ گروپال سنگھ طویل عرسے سے اس ادارے میں بطور سینئر فیلو کام کررہے ہیں۔ انہوں نے 1996ء میں انکشاف کیا کہ جولائی 1981ء میں بھارتی فضائیہ نے کہوٹہ پر حملہ کرنے کے لیے پلان تیار کر لیا تھا ۔لیکن دو باتوں کی وجہ سے حملے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑگیا۔ اول بھارتی حکمران طبقے کو احساس ہوگیا کہ کہوٹہ پر حملہ ہوا، تو تیسری پاک بھارت جنگ چھڑجائے گی۔ دوم امریکا نے سخت الفاظ میں اندرا گاندھی کو دہمکی دی کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگجوئی سے باز رہیں۔ تب افغان جنگ پوری شدت سے جاری تھی اور امریکا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان کو کسی مصیبت میں ڈالا جائے۔
اندرا گاندھی نے پھر اوائل 1983ء میں کہوٹہ پر حملے کا آرڈر دیا اور اس بار وہ اسرائیل کی مدد چاہتی تھی۔ اریان لیوی اور کیتھرین اسکاٹ۔ کلارک ممتاز برطانوی اخبار، گارڈین سے منسلک مشہور انوسٹیگیٹیو صحافی ہیں۔ 2007ء میں ان کی انگریزی کتابDeception: Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracyشائع ہوئی۔ کتاب میں وہ لکھتے ہیں:
''فروری 1983ء میں بھارتی افواج کے اعلیٰ افسروں نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا۔ وہ ایسے الیکٹرونک آلات خریدنے آئے تھے جو کہوٹہ کے فضائی دفاع کو جامد کرسکیں۔ مذید براں اسرائیلی حکومت نے بھارتیوں کو ایف سولہ کی تکنیکی خصوصیات کے متعلق معلومات بھی دیں۔ (تب تک پاک فضائیہ کو ایف سولہ مل چکے تھے)۔ بدلے میں بھارتی افسروں نے سویت ساختہ مگ۔23 طیارے کی خفیہ تکنیکی تفصیل سے اسرائیلیوں کو آگاہ کیا۔(مصر اور شام یہ روسی ساختہ طیارہ رکھتے تھے)۔''
بھارت کی طرح اسرائیل بھی پاکستان کے ''اسلامی ایٹم بم'' کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ اسی لیے اسرائیلی حکومت کہوٹہ پر حملے کی خاطر بھارتیوں کا ساتھ دینے کے لیے بخوشی تیار ہوگئی۔ یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد ہی ہے جس نے وسط 1981ء میں کہوٹہ لیبارٹریز کو خام مال فراہم کرنے والی یورپی کمپنیوں کو ''لیٹر بم'' بھجوائے تھے۔
بھارتی منصوبہ یہ تھا کہ راجھستان کے راستے پاکستان پر زمینی حملہ کیا جائے۔ جب پاک افواج یہ حملہ روکنے میں مصروف ہوں، تو جیگوار طیارے کہوٹہ پہنچ کر پاکستانی ایٹمی تنصیبات تہس نہس کردیں۔ یہ جنگی منصوبہ اندرا گاندھی کی ایما پر بھارتی افواج کے عقابوں نے تیار کیا۔
لیکن امریکی سی آئی اے کو اس منصوبے کی بھنک مل گئی۔ چناں چہ اس نے پاکستانی حکومت کو خبردار کردیا۔ اس زمانے میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ منیر احمد خان انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے ویانا (آسٹریا) گئے ہوئے تھے۔
پاکستانی حکومت کی ایما پر انہوں نے بھارتی ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ، ڈاکٹر راجا رمنا کو کھانے کی دعوت پر بلالیا۔ منیر احمد خان نے اسی موقع پر بھارتی ہم منصب کو خبردار کیا ''اگر بھارت نے ہماری ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا، تو ہمارے ایف سولہ بمبئی میں واقع بھارتی ایٹمی تنصیبات کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔''
اس دھمکی نے خاطر خواہ کام کر دکھایا اور یہ سوچ کر اندرا گاندھی کی عقل ٹھکانے آگئی کہ پاکستانیوں کی بم باری سے بمبئی ملیامیٹ ہوگیا، تو پھر کیا ہوگا۔ پاکستان کے زبردست جوابی وار کے خطرے ہی نے بھارتی وزیراعظم کو مجبور کردیا کہ وہ کہوٹہ پر حملے کا منصوبہ پھر ختم کردیں۔ یہ منصوبہ اس لیے بھی قابل عمل نہ رہا کہ ''سسپنس'' کا عنصر ختم ہوگیا اور پاک فضائیہ نے کہوٹہ کا فضائی دفاع مزید مضبوط کرلیا۔
غیرملکی و ملکی مورخین لکھتے ہیں کہ اس موقع پر اسرائیلی حکومت نے اندرا گاندھی کو پیش کش کی کہ وہ کہوٹہ پر حملہ کرنے کو تیار ہے۔ یہ منصوبہ اندرا گاندھی کو پسند آیا۔ یوں پاکستانی ایٹمی تنصیبات تباہ ہوجاتیں اور بھارت پر الزام بھی نہ لگتا۔ اسی لیے بھارتی وزیراعظم نے اس منصوبے کی بھی منظوری دے دی۔ یہ وسط 1984ء کی بات ہے۔
اسرائیل اور بھارت کے عسکری عقابوں نے پھرکہوٹہ پر دھاوا بولنے کی خاطر دو منصوبے تیار کیے۔ پہلے منصوبے کی رو سے اسرائیل کے ایف پندرہ اور ایف سولہ طیارے پہلے خفیہ طور پر بھارت پہنچتے۔ انہیں جام نگر کے فضائی اڈے پر ٹھہرایا جاتا۔ اسرائیلی طیارے مکمل تیاری کے بعد پٹھان کوٹ کی ائر بیس پہنچ جاتے۔وقت مقررہ پر وہاں سے پرواز کرتے اور کشمیر کے پہاڑوں کی آڑ لیتے، پاکستانی ریڈار سے بچتے کہوٹہ پہنچ جاتے۔
دوسرا منصوبہ زیادہ مہم جویانہ تھا۔ اس کی رو سے اسرائیلی طیارے بحرہند میں پہنچ کر کسی ایسے مسافر ہوائی جہاز کو نشانہ بناتے جو اسلام آباد جارہا ہوتا۔ جب ہوائی جہاز تباہ ہوجاتا، تو وہ اس کے کال سائن کو استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کی سمت اڑنے لگتے۔ یہ اسرائیلی طیارے فضا میں ایسی فارمیشن بناتے کہ ریڈار پر وہ ایک ہی جہاز کی شکل میں نظر آتے۔
اس دوسرے منصوبے کے مطابق اسلام آباد کے نزدیک کہوٹہ پہنچ کر اسرائیلی طیارے پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر میزائل و بم پھینکتے اور پھر پٹھان کوٹ پہنچ جاتے۔ وہاں سے ایندھن بھر کر انہیں واپس اسرائیل روانہ کردیا جاتا۔
غیر ملکی مورخین کا دعویٰ ہے کہ امریکا کو ان منصوبوں کی خبر مل گئی۔ اس نے پھر دونوں ممالک کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا، تو امریکا جانب دار نہیں رہے گا۔ اسی دھمکی کی وجہ سے اندرا گاندھی نے پھر پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر مشترکہ اسرائیل و بھارتی حملہ روک دیا۔
درج بالا واقعات سے عیاں ہے ، بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی جنوری 1980ء میں دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی موت تک بھر پور کوشش کرتی رہیں کہ پاکستان ایٹم بم نہ بنانے پائے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا ہر حربہ ناکام رہا اور وہ بے نیل و مرام کیفیت میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ انہیں انہی کے محافظوں نے گولیاں مار کر دنیا سے چلتا کیا۔
ان چار پانچ برس کے دوران پاک افواج کا کردار بھی مثالی رہا۔ وہ چوبیس گھنٹے چست و متحرک رہ کر قومی اور ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کرتی رہیں۔ انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی سستی و آلکسی نہیں دکھائی اور یوں دشمن کو وار کرنے کا موقع نہ دیا ۔ کہیں زیادہ طاقتور دشمن کو دانت کھٹے کر دینے والا جواب دینے کی وجہ سے ہی پاک افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔
غرض اندرا گاندھی کی تمام کوششیں بیکار گئیں اور پاکستان نے 1984ء کے لگ بھگ پہلا ایٹم بم تیار کرلیا۔ ایٹم بم بناکر پاکستان نے اپنا دفاع ازحد مضبوط کرلیا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا ایٹمی منصوبہ خالصتاً دفاعی ہے۔ اگر بھارت ایٹم بم نہ بناتا، تو پاکستان بھی اس خطرناک ہتھیار سے دور رہتا۔ لیکن دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمیں مجبوراً یہ ناخوشگوار راہ اختیار کرنا پڑی۔
آج ایٹمی سائنس سے متعلق پاکستانی سائنس دانوں، انجینئروں اور دیگر ہنرمندوں کا شمار دنیا کے بہترین ماہرین میں ہوتا ہے۔ یہ ماہرین بھارت کی جارحانہ عسکری پالیسیوں کو پیوند خاک کرنے کے لیے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی بناچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، گھمنڈی اور انتہا پسند مودی حکومت اپنی تمام تر طاقت کے باوجود پاکستان پر علی الاعلان حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔