ضیاء الحق کے بعد آنے والی حکومتیں بھی دہشت گردی کی ذمے دارہیںبیگم نسیم ولی

کمیونزم کا مقابلہ قوم پرستی سے کرنا چاہیے تھا، میں اب بھی ڈیورنڈ لائن کی مخالف ہوں

بزرگ سیاست داں اور عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کی سربراہ بیگم نسیم ولی خان سے خصوصی مکالمہ ۔ فوٹو : فائل

میدان سیاست کے شہسوار تو بہت ہیں لیکن آئرن لیڈی کے نام سے دو ہی خاتون سیاست دانوں نے شہرت حاصل کی، جن میں ایک برطانیہ کی سابق وزیراعظم آنجہانی مارگریٹ تھیچر تھیں اور دوسری بیگم نسیم ولی خان جنھیں پختون ''موربی بی'' کہہ کر پکارتے ہیں۔

میدان سیاست میں وہی لوگ کام یاب ہوتے ہیں جن کے اعصاب مضبوط ہوں، نگاہ عقابی ہو اور عوام کی نبض پر ہاتھ ہو، اور بیگم نسیم ولی خان انہی خوبیوں کے حامل سیاست دانوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اس وقت باچاخان اور ولی خان کی پارٹی کا کنٹرول سنبھالا جب ذوالفقارعلی بھٹو کے بنائے ہوئے حیدرآباد ٹریبونل کیس میں ان کی پارٹی کی ساری قیادت جیل میں تھی اور سیاست کی خالی گدی سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے سیاسی گدی بھی سنبھالی اور پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے سیاسی کردار بھی ادا کیا۔ وہ طویل عرصے تک عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی صدر اور ممبر صوبائی اسمبلی بھی رہیں۔

انہوں نے پارٹی کو نہایت احسن انداز سے چلاکر ثابت کیا کہ سیاست صرف مردوں کا کھیل نہیں بل کہ خواتین بھی اس میدان کی شہسوار بن سکتی ہیں۔ وہ نہایت متحرک رہی ہیں اور پارٹی کو نظم وضبط اور قواعد کے تحت چلانے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ وقت کی پابندی ان کا خاصہ ہے۔

جب سے ان کے اور اے این پی کے راستے جدا ہوئے وہ گوشہ نشین ہوکر رہ گئی تھیں۔ تاہم جب اے این پی کی صوبائی حکومت ختم ہوئی تو وہ ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئیں اور انہوں نے اے این پی کے ناراض کارکنوں کو جمع کرتے ہوئے ''عوامی نیشنل پارٹی ولی'' کے نام سے نئی پارٹی کی بنیاد رکھی اور اب وہ اپنی اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی کردار ادا کررہی ہیں۔ اے این پی سے ناراضگی پیدا ہونے، گوشہ نشینی کے دور اور اے این پی ولی کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے ''ایکسپریس'' نے ان سے تفصیلی بات چیت کی جو پیش خدمت ہے۔ یہ مکالمہ اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ان کا اتنے عرصے میں کسی اخبار کو دیاگیا پہلا انٹرویو ہے ۔

ایکسپریس: اس وقت ملک کے جو حالات ہیں انہیں آپ کس نظر سے دیکھ رہی ہیں، کیا آپ سمجھتی ہیں کہ عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ حل ہوپائیں گے؟

بیگم نسیم ولی خان: میں تو ایک کونے میں پڑی ہوئی ہوں اور مجھے پتا نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ کسی کو پتا نہیں کہ ہماری سمت کیا ہے، منزل کون سی ہوگی اور ہم جو سفر کررہے ہیں یہ کہاں جاکر رکے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نمائندوں کو منتخب نہیں کرتے اور نہ ہی یہ حکومتیں ہماری منتخب کردہ ہیں، بل کہ ایسا لگتا ہے جیسے یہ حکومتیں ہمارے گلے پڑی ہوئی ہیں اور یہ حکومتیں ہمیں بخش دی جاتی ہیں۔ حالاں کہ اصولی طور پر تو عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے۔

ان کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ ملک کی آبادی کتنی زیادہ بڑھ چکی ہے، معاشی طور پر ہمیں مسائل درپیش ہیں، منہگائی ہے، بدامنی ہے لیکن حکومت کو ان مسائل کے حل سے کوئی دل چسپی نہیں، جس کی وجہ سے قوم محرومیوں کا شکار ہے۔ دراصل حکومتیں نااہل نہیں ہوا کرتیں لیکن حکم راں جن لوگوں کے نرغے میں ہوتے ہیں وہ انہیں چلنے نہیں دیتے۔ اگر حکومت ایک قدم آگے چلتی ہے تو پیچھے سے اسے کھینچنے کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے اور پیچھے سے کھینچنے والے لوگ بڑے مضبوط ہوتے ہیں، جن سے چھٹکارا نہیں مل پارہا۔ یہی لوگ وزیر اور مشیر بھی بن جاتے ہیں۔ محکمے اور ادارے کام نہیں کرتے اور حکم رانوں کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ نیچے نظر ڈال کر دیکھ سکیں کہ عوام کے مسائل کیا ہیں؟

ایکسپریس: اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دیے گئے ہیں، کیا آپ سمجھتی ہیں کہ صوبوں کو وہ خودمختاری حاصل ہوگئی ہے جس کا آپ لوگوںنے ہمیشہ مطالبہ کیا؟

بیگم نسیم ولی خان: اگر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کے مسائل حل ہونے ہوتے تو اب تک ہوچکے ہوتے، کیوںکہ اٹھارہویں ترمیم کو ہوئے 5 سال ہوچکے ہیں، پانچ سال میں تو بچہ اپنے پاؤں پر چلنا سیکھ کر اسکول جانا بھی شروع کردیتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوسکا، لیکن بہت سے لوگوں کی حالت میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے، جو لوگ ہمارے ساتھ ستر اور اسی کی دہائی میں کام کرتے تھے اور ان کے پاس یا تو گاڑی تھی نہیں یا پھر پرانے ماڈل کی گاڑی ہوا کرتی تھی۔ ان کے پاس آج ایک نہیں دو، دو بلٹ پروف گاڑیاں ہیں، شاید یہ لوگ اپنی موت سے ڈرتے ہیں حالاںکہ ''موت کا ایک دن معین ہے'' اور جو ڈر گیا وہ مرگیا۔

ایکسپریس: صوبہ سرحد کا نام گذشتہ دور میں تبدیل ہوا اور اسے خیبرپختون خوا کا نام ملا۔ صوبے کے نام کی تبدیلی کا کریڈٹ آپ کسے دیتی ہیں ؟

بیگم نسیم ولی خان : ہمارے صوبے کے نام کی تبدیلی کا کریڈٹ وزیراعظم نوازشریف کو جاتاہے، کیوںکہ یہ انہی کا دیا ہوا نام ہے۔ میاں نوازشریف نے اپنی گذشتہ حکومت کے آخری ایام میں ہمارے پاس ایک وفد بھیجا، جس نے ولی خان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر میرے علاوہ اسفندیارولی خان، اجمل خٹک اور اعظم ہوتی بھی موجود تھے۔ ان کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا کہ صوبے کے نام کے حوالے سے چوں کہ مجھ (نوازشریف) سے اے این پی ناراض ہے، اس لیے اگر اے این پی چاہے تو صوبے کا نام تبدیل کرتے ہوئے خیبرپختون خوا یا اباسین پختون خوا رکھا جاسکتا ہے۔

جس پر خان عبدالولی خان نے جواب دیا کہ کسی بھی بچے کا ایک ہی نام ہوسکتا ہے دو نہیں۔ اگر پختون خوا کے ساتھ خیبر یا اباسین لگانا ضروری ہے تو پھر پنجاب کے ساتھ راوی، بلوچستان کے ساتھ بولان اور سندھ کے ساتھ بھی کوئی لاحقہ، سابقہ لگادیا جائے تو پھر ہم بھی پختون خوا کے ساتھ اباسین یا خیبر کا لفظ قبول کرلیں گے۔ اس سے بھی ذرا پیچھے کی بات کرتے ہیں۔ باچاخان نے جنرل ضیاء الحق کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا،''میرا صوبہ بے نام ہے، اسے نام دیا جائے۔'' جس پر جنرل ضیاء الحق نے جواباً لکھا کہ انہیں تین نام ارسال کیے جائیں، جن میں سے انتخاب کیا جائے گا۔

اس کے جواب میں باچاخان نے کہا کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام اس کے والدین یا اپنے بڑے ہی رکھتے ہیں، کوئی باہر کا شخص نہیں اور ہمارے صوبے کا نام پختون خوا کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ باچاخان اور ولی خان کی کہی ہوئی یہ باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں، جن سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اسی لیے میں کہتی ہوں کہ خیبرپختون خوا کا نام میاں نوازشریف کا دیا ہوا ہے، جس پر انہیں داد دینی چاہیے۔

ایکسپریس: آپ کے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی حمایتی ہیں، کیا یہ بات درست ہے؟

بیگم نسیم ولی خان: مجھے فوجیوں میں جنرل راحیل شریف، شریف النفس فوجی جنرل نظر آتے ہیں۔ ورنہ تو جو بھی جنرل کمان سنبھالتا ہے اس کا اپنا کوئی نہ کوئی ایجنڈا ضرور ہوتا ہے، لیکن جنرل راحیل شریف نے جس روز سے کمان سنبھالی ہے وہ قوم کی خدمت کررہے ہیں۔

حالاں کہ یہاں کسی نے طالبان کو اپنے بچے کہا، کسی نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھا تو کوئی ان کے کیمپ چلاتا رہا۔ کیا مرحوم نصیر اﷲ بابر، جو ایک جنرل ہی تھا، ان طالبان کا گاڈفادر نہیں بنا ہوا تھا اور کیا دوسرے بھی ان کے سرپرست نہیں بنے ہوئے تھے؟ کیا یہ کوئی درست طریقہ تھا۔ ولی خان نے تو کافی عرصہ پہلے کہہ دیا تھا کہ ''اگر آپ اپنے ہمسایہ کے گھر بم بھجوائیں گے تو وہاں سے بھی آپ کو جواباً پھول نہیں آئیں گے اس لیے دوسروں کے گھروں میں آگ لگانے سے گریز کیاجائے۔'' جنرل راحیل شریف ناکردہ گناہوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں دہشت گردی کے بیج بوئے گئے اور انہیں بڑھاوا دیا گیا۔

ایکسپریس: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے ذمہ دار سابق صدر جنرل ضیاء الحق اور ان کی پالیسیاں ہیں؟

بیگم نسیم ولی خان: ضیاء الحق ایک حد تک ذمہ دار تھے۔ انہوں نے مذہب کے نام پر دہشت گردی کو عام کیا، حالاںکہ ہمارا مذہب اسلام تو امن اور محبت کا دین ہے۔ آپ کسی کو بم دھماکا کرتے ہوئے مسلمان نہیں کرسکتے۔ ولی خان تو اس وقت بھی کہتے تھے کہ افغانستان میں امریکا اور روس کے درمیان جاری جنگ جہاد نہیں بل کہ فساد ہے، لیکن اس وقت ولی خان کو روس کا ایجنٹ کہا گیا۔ حالاںکہ ہم تو اپنی قوم کے ایجنٹ ہیں۔ اس وقت کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لیے مُلاؤں کا انتخاب کیا گیا۔

حالاں کہ کمیونزم کا مقابلہ قوم پرستی سے کرنا چاہیے تھا، جس کا نہ تو کسی دوسرے کو کوئی نقصان ہوتا اور نہ ہی آج ہم مشکلات میں گھرے ہوتے۔ لیکن یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ ضیاء الحق کے بعد آنے والی جمہوری حکومتیں بھی دہشت گردی کے حوالے سے ذمے دار ہیں، کیوںکہ کسی نے بھی اس کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، بل کہ الٹا کسی نہ کسی طریقے سے اس کی سرپرستی بھی کی اور اسے استعمال بھی کیا۔

ایکسپریس: آپ کا اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے ساتھ بنیادی اختلاف کیا ہے؟

بیگم نسیم ولی خان: میرا اسفندیارولی خان کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف نہیں۔ اسی لیے میں نے پارٹی اجلاس میں کہا تھا کہ وہ مجھے ماں کہے تو میں اسے معاف کردوں گی، لیکن میرے اس بیان پر میری پارٹی کے ارکان مجھ سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے مجھ پر پابندی عاید کردی کہ اگر میں ذاتی طور پر بھی اسفندیارولی خان کے ساتھ راضی نامہ کروں گی تو پارٹی کی اجازت ہی سے ایسا کیا جائے گا، کیوں کہ وہ قوم کے گناہ گار ہیں اور صرف اسفندیارولی خان نہیں، بل کہ اس میں امیر حیدرہوتی بھی شامل ہیں، جنہوں نے معصوم شاہ جیسے لوگ مسلط کیے۔

میں تو خیر اسے معصوم بھی نہیں کہوں گی کیوںکہ یہ کیسا معصوم ہے جس نے کروڑوں کی کرپشن کی۔ انہی لوگوں نے مجھے پارٹی سے نکال دیا۔ میں نے سیاست بھی کی اور اسمبلیوں اور حکومتوں میں بھی رہی، لیکن آج تک ایک روپیہ نہ تو رشوت لی اور نہ ہی دی، کوئی کرپشن کی نہ ہی چوری، میرے بیٹے سنگین ولی خان کا لکڑی کا کاروبار تھا جو ٹھپ پڑا ہے، حالاںکہ میں رشوت دے کر یہ کاروبار شروع کراسکتی تھی، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ جو کام غلط ہے وہ غلط ہے۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ آپ کے اور اسفندیارولی خان کے درمیان اختلافات خان عبدالولی خان کی زندگی ہی میں شروع ہوگئے تھے، کیا یہ بات درست ہے؟

بیگم نسیم ولی خان: یہ اختلافات تب شروع ہوئے جب قوم نے کہا کہ چوری ہورہی ہے، ٹھیکے اور نوکریاں فروخت ہورہی ہیں اور کرپشن کا بازار گرم ہے ۔ یہ باچاخان اور ولی خان کی پارٹی ہے۔ اس لیے میں نے اس سلسلے میں تحقیق کی تو اس بات کو درست پایا، کیوںکہ جس شخص کے پاس ایک پرانی کھٹارا گاڑی تھی۔ اس کے پاس آج دو، دو بلٹ پروف گاڑیاں کہاں سے آگئیں؟ جب کہ ایک بلٹ پروف گاڑی غالباً پونے دو کروڑ کی ہے۔ یہ پیسہ آسمان سے تو نہیں گرتا، نہ ہی درختوں پر اُگتا ہے۔

ایکسپریس: کیا افراسیاب خٹک کا آپ اور اسفندیارولی خان کے موجودہ اختلافات میں کوئی کردار ہے؟

بیگم نسیم ولی خان: اس بارے میں مجھے کچھ پتا نہیں کہ اس میں افراسیاب خٹک کا کوئی ہاتھ ہے یا نہیں۔ البتہ اسفندیارولی خان اور میرے درمیان تعلق نہ بھی ہو تب بھی ان کا میری صاحب زادی اور اپنی بہن ڈاکٹر گلالئی کے ساتھ رابطہ رہتا ہے۔ میں نے نہ تو کبھی کوئی دشمنی کی اور نہ ہی کروں گی۔ میں نے تو ولی خان کی وفات کے بعد اسفندیارولی خان اور سنگین ولی خان مرحوم، دونوں بھائیوں کو ساتھ بٹھایا اور ان سے کہا کہ یہ تمھارے والد کی جائیداد ہے جسے وہ آپس میں مشاورت سے تقسیم کرلیں۔ اس لیے میرا ان کے ساتھ کوئی گھریلو مسئلہ نہیں، نہ ہی کسی قسم کی کوئی ذاتی دشمنی ہے، بل کہ میں تو اپنی پختون قوم کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہوں، جو مجھے وراثت میں ملی ہے۔

ایکسپریس: یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو اے این پی سے اس لیے نکالا گیا کہ آپ فرید طوفان کی حمایتی تھیں، کیا یہ حقیقت ہے ؟

بیگم نسیم ولی خان: فرید طوفان سے کہا گیا کہ وہ ان کا ساتھ دیں تاکہ بیگم نسیم ولی کو پارٹی سے نکالا جاسکے، جب کہ مجھے کہا گیا کہ میں ان کا ساتھ دوں، تاکہ فرید طوفان کو پارٹی سے فارغ کیا جاسکے۔ میں کیسے فرید طوفان کو پارٹی سے نکالنے کی حمایت کرتی، اس نے 35 سال اس پارٹی میں گزارے۔ دور طالب علمی سے لے کر عملی سیاست تک کبھی بے وفائی نہیں کی اور ہمیشہ پوری ایمان داری کے ساتھ پارٹی کے لیے کام کیا۔ میں کیسے اور کیوں اس کی مخالفت کرتی۔ فرید طوفان پیپلزپارٹی میں گئے تب بھی انہوں نے مجھ سے مشاورت کی تھی اور جب وہ مسلم لیگ(ن) میں گئے تب بھی انہوں نے میرے ساتھ مشورہ کیا تھا۔

ایکسپریس: تو پھر اب آپ نے کیوں انہیں اپنی پارٹی سے نکال دیا ہے؟

بیگم نسیم ولی خان: میں نے کب اسے پارٹی سے نکالا ہے وہ تو خود ناراض ہوکر گھر بیٹھ گیا ہے۔ میں جب پارٹی کی صدر تھی تو میں ملک بھر میں پارٹی کی انتخابی مہم چلایا کرتی تھی اور میں نے کبھی اپنے حلقے میں اپنی انتخابی مہم نہیں چلائی۔1977 ء میں جب خواتین کے سیاست میں آنے کا تصور بھی نہیں ہوا کرتا تھا، اس وقت میں نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے الیکشن لڑا اور دونوں پر کام یابی حاصل کی، لیکن اپنی انتخابی مہم نہیں چلائی اور یہاں فریدطوفان اپنے بھائی کے الیکشن کے سلسلے میں انتخابی مہم چلانے کے لیے ڈیڑھ مہینہ اپنے گاؤں جابیٹھے۔

حالاںکہ پارٹی کے صوبائی صدر کی حیثیت سے ان کے کاندھوں پر پورے صوبے کی ذمہ داری تھی۔ میں نے اس سے یہی کہا کہ وہ پارٹی کا صوبائی صدر بنے ایک گاؤں یا حلقہ تک محدود نہ ہو۔ میں 80 سال کی عمر میں بھی آج پورے صوبے اور ملک میں گھومتی رہتی ہوں تو دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتی ہوں۔


ایکسپریس: آپ کی پارٹی کے کچھ لوگو ں کا خیال ہے کہ امیر حیدر ہوتی، اے این پی کے آصف زرداری ہیں، آپ کیا کہتی ہیں؟

بیگم نسیم ولی خان: نہیں ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔ امیرحیدر ہوتی، اے این پی کے آصف زرداری نہیں، وہ خدائی خدمت گار امیر محمد خان کے پوتے، ایک اچھے ورکر، خوش اخلاق انسان اور شیروشکر ہوجانے والے ہیں۔ حیدر ہوتی میں یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی باتوں سے کسی کو بھی رام کرسکتا ہے، لیکن خامیاں، خوبیوں سے بڑھ کر ہیں کیوں کہ اگر امیر محمد خان کے پوتے کی حکومت میں ان کی ناک کے نیچے کرپشن ہوتی ہے یا رشوت لی اور دی جاتی ہے اور وہ اس پر ایکشن نہیں لیتے یا بے خبر رہتے ہیں تو انہیں کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے، کیوںکہ وہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو تھے۔

ایکسپریس: بھارت میں شیو سینا کی جانب سے جو انتہاپسندی کی جارہی ہے اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

بیگم نسیم ولی خان: بھارت میں اس وقت جارحیت ہورہی ہے، کیوں کہ وہاں ایک جارح حکومت ہے، انتہاپسندوں کی حکومت ہے، تو وہ کیسے سیکولر بن سکتے ہیں۔ حالاں کہ بھارت مختلف مذاہب کے لوگوں کا ملک ہے، جہاں پاکستان سے زیادہ مسلمان آباد ہیں لیکن جو انتہاپسند ہوگا وہ انتہا پسندی تو ضرور کرے گا اور یہی کچھ بی جے پی اور شیوسینا والے کررہے ہیں۔

جس کے خلاف سونیا گاندھی بجا طور پر احتجاج کرنے نکلی ہیں کیوں کہ سونیا گاندھی اس پارٹی کی سربراہ ہیں جس نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ اصل بدقسمتی تو یہی ہوتی ہے کہ وہ لوگ برسراقتدار آجائیں جن کا ملک کی آزادی کی جدوجہد میں کردار نہ ہو۔ پاکستان کو دیکھ لیجیے۔

قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کبھی جیل نہیں گئے، نہ ہی ان کا حلقہ تھا، لیکن اقتدار ان کے پاس تھا، لیکن ہمارے یہاں لوگ ان معاملات پر بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور ان کے لب سلے رہتے ہیں۔ خدائی خدمت گار تحریک نے پہلے مسلم لیگ کے ساتھ رابطہ کیا، لیکن جب مسلم لیگ نے مثبت جواب نہ دیا تو پھر خدائی خدمت گار تحریک نے کانگریس کے ساتھ مل کر آزادی کی جنگ لڑی۔ نیلسن منڈیلا نے 26 سال جیل میں گزارے اور انہیں نوبیل انعام دیا گیا، جب کہ باچاخان نے 33 سال جیل میں گزارے لیکن انہیں ایسا ایوارڈ نہیں دیا گیا۔

میرے والد نے چھے سال جیل میں گزارے، ماموں کا جنازہ جیل سے آیا، لیکن انڈیا میں ان لوگوں کی خوش قسمتی تھی کہ جواہر لال نہرو نے اگر آزادی کی تحریک میں حصہ لیا تو وہی وزیراعظم بھی بنے اور انہوں نے ریاست کو انتہا پسندانہ رنگ دینے کے بجائے سیکولر ریاست بنایا۔ اس وقت بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایوارڈ واپس کیے جارہے ہیں، احتجاج ہورہا ہے۔ کانگریس کو بھرپور طریقے سے اس کے خلاف میدان میں نکلنا چاہیے ۔

ایکسپریس: مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

بیگم نسیم ولی خان: بنگلادیش کسی اور نے نہیں بل کہ ہم لوگوں نے بنایا ہے، کیوںکہ جب ''ادھر ہم، اُدھر تم'' کا نعرہ لگایا گیا تو پھر یہ کام تو گویا ہم نے ہی کیا ہے۔

ایکسپریس: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں؟

بیگم نسیم ولی خان: 1965ء اور1971ء کی جنگوں کے دوران افغان صدر سردارداؤد نے پاکستانی قیادت کو کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ وہ مشرقی سرحد کو سنبھالیں اور مغربی سرحد کی جانب سے بے فکر رہیں، لیکن اس کے بعد کیا ہوا، اسی افغانستان کو تباہ کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ ملک کے رقبے میں اضافہ ہونا چاہیے۔

جب ہندوستان کی تقسیم ہورہی تھی اس وقت باچاخان نے کہا تھا کہ یہ ہندوستان کی نہیں بل کہ مسلمانوں کی تقسیم ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی۔ آج بھی پاکستان سے زیادہ مسلمان بھارت میں مقیم ہیں بل کہ بنگلادیش میں بھی یہاں سے زیادہ مسلمان ہیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن سادہ تھے کہ انہوں نے 54 فی صد یعنی اکثریت میں ہونے کے باوجود اقلیت یعنی 46 فی صد والوں سے الگ ہوگئے۔ انہیں تو پاکستان اپنا بنانا چاہیے تھا۔ آج افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے یہ تمام غلط پالیسیوں اور امریکی اقدامات کا شاخسانہ ہے۔ وہ قبائلی معاشرہ ہے جہاں اتنا کچھ ہوچکا ہے کہ اب کیسے امن آئے گا۔

ایکسپریس: آپ ہمیشہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن کی مخالفت کیا کرتی تھیں، کیا اب بھی ایسا ہی ہے؟

بیگم نسیم ولی خان: بالکل ایسا ہی ہے۔ میرا آج بھی یہی موقف ہے اور میں آج بھی ڈیورنڈ لائن کی مخالف ہو۔ یہ ایک عارضی لکیر ہے، جسے 1892ء میں گندمک معاہدے کے تحت کھینچا گیا تھا، جس سے افغانوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں اور یہاں بسنے والے افغان ایک ہی تھے اور ہیں۔

ایکسپریس: اے این پی نے آئی جے آئی کا ساتھ دے کر غلطی نہیں کی تھی؟ اور کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے کے مترادف نہیں تھا؟

بیگم نسیم ولی خان: کیا ہم آپ کو اسٹیبلشمنٹ کے لوگ دکھائی دیتے ہیں (قہقہہ لگاتے ہوئے) ہم نے آئی جے آئی کا ساتھ دیا لیکن جمہوریت کے لیے۔ ہم نے تو پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) میں بھی مذہبی جماعتوں کا ساتھ نبھایا، جہاں تک آئی جے آئی کا تعلق ہے تو ہمارا معاہدہ 32 نکات پر مشتمل تھا، جس میں نظام اسلام یا نفاذ اسلام سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں تھا۔ یہ تو بعد میں ملاؤں نے شوشہ چھوڑا اور اسے نفاذ اسلام سے متعلق اتحاد قراردے دیا۔

ایکسپریس: کیا اے این پی بھی چھانگامانگا سیاست کا حصہ رہی؟

بیگم نسیم ولی خان: چھانگامانگا جیسی سیاست ہر جگہ ہوتی ہے اور سب ہی ایسے طور طریقے اپناتے ہیں، لیکن جہاں تک اے این پی کا تعلق ہے تو ہمارا کوئی بھی رکن نہیں بکا۔ اس وقت یا تو لیگی ارکان کی خریدوفروخت ہوئی یا پھر مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کی۔ ہمارے 13 ارکان تھے اور وہ سب اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق چلتے رہے۔

ایکسپریس: کہا جاتاہے کہ امیرحیدرہوتی کی بطور وزیراعلیٰ نام زدگی کے پیچھے آپ کارفرما تھیں۔ اسی وجہ سے بلور خاندان کے ساتھ آپ کی ناراضگی ہوگئی؟

بیگم نسیم ولی خان: جس وقت امیر حیدر ہوتی کی وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے نام زدگی کی گئی اس وقت میں اے این پی کا حصہ نہیں تھی تو میں نے کیسے ان کی نام زدگی کی یا اس میں اہم کردار ادا کیا؟ اگر میں اس وقت اے این پی کا حصہ ہوتی تو میں حیدر ہوتی کی جگہ بشیر بلور شہید کا نام پیش کرتی، کیوںکہ وہ اس کے اہل تھے ۔

ایکسپریس: سننے میں آیا ہے کہ آپ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی حامیوں میں سے ہیں؟

بیگم نسیم ولی خان: عمران خان اچھا جارہا تھا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو تیزی سے اوپر جاتاہے وہ تیزی سے نیچے بھی آتا ہے۔ عمران خان شوکت خانم ہسپتال کے حوالے سے ایک اچھے منتظم ہیں، جنہوں نے اپنے اس ہسپتال کا نظام ایسا بنارکھا ہے کہ عوام کو حقیقی معنوں میں سہولت ملتی ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں بھی عمران خان جیسا کوئی نہیں، لیکن جہاں تک میدان سیاست کا تعلق ہے تو اس میدان میں اترنے کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو عمران خان حاصل نہیں کرپائے۔

نہ ہی ان کے پاس ایسے سیاسی مشیر ہیں جو اچھے مشورے دے سکیں یا ان کی درست سمت میں راہ نمائی کرسکیں۔ اصل میں عمران خان نے بطور کرکٹر ہمیشہ ہی اپنی تعریف سنی ہے اس لیے وہ تنقید کے عادی نہیں ہیں، جب کہ سیاست میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر عمران خان بھی میدان سیاست میں کام یابی چاہتے ہیں تو وہ اپنے اندر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔

ایکسپریس: خیبرپختونخوا کی موجودہ صوبائی حکومت اور اپنی پارٹی کی گذشتہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ کیسے کریں گی؟

بیگم نسیم ولی خان: موجودہ اور گذشتہ حکومت میں کوئی خاص فرق نہیں۔ نہ ہی کوئی ایسی تبدیلی آئی ہے کہ جس کی بنیاد پر تعریف کی جاسکے۔ موجودہ صوبائی حکومت نے تو پشاور میں اوورہیڈبرج پر پلاسٹک کے پھول لگادیے ہیں۔ یعنی یہ اپنے شہر اور صوبے کے لوگوں کو فطرت اور قدرتی حسن سے بھی دور کررہے ہیں۔

ایکسپریس: سنتے ہیں کہ آپ جب اے این پی کی صوبائی صدر تھیں تو نہایت ہی سخت گیر تھیں اور اپنی پارٹی کے ساتھیوں پر سختی کیا کرتی تھیں؟

بیگم نسیم ولی خان: (قہقہہ لگاتے ہوئے) جی ہاں، اسی لیے تو انہوں نے مجھے ڈکٹیٹر کا خطاب دیا ہوا تھا، لیکن میں دراصل ڈسپلن کی قائل ہوں۔ خود بھی ڈسپلن کی پابند ہوں اور دوسروں کو بھی ڈسپلن کا پابند رکھتی تھی۔ اب دیکھ لیجیے کہ آج اس پارٹی میں ڈسپلن نہیں تو اب کہاں کھڑی ہے؟

ایکسپریس: آپ کا دعویٰ ہے کہ باچاخان مرکز پشاور پر آپ کا اور آپ کی پارٹی کا حق ہے، کیا آپ اب بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں؟

بیگم نسیم ولی خان: دیکھیے یہ معاملہ عدالت میں ہے اور میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتی کیوںکہ ہم نے اپنا موقف عدالت میں پیش کررکھا ہے اور اب عدالت کو اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ اس لیے اس موقع پر باچاخان مرکز کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔

ایکسپریس: اعظم خان ہوتی نے اپنی وفات سے قبل اے این پی اور اس کی قیادت کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، کیا وہ درست تھا؟ آپ اس بارے میں کیا کہیں گی؟

بیگم نسیم ولی خان: اعظم خان ہوتی نے جو کچھ کہا وہ درست تھا یا غلط، اس بارے میں اعظم ہوتی ہی بتاسکتے تھے، لیکن یہ ہے کہ مرحوم اعظم ہوتی نے جو کچھ کہا وہ آخری دم تک اس پر قائم رہے اور جن پر الزامات لگائے تھے ان لوگوں نے جواب تک نہیں دیا، تو اس سے اور کیا مطلب لیاجاسکتا ہے؟
Load Next Story