امن کے پیام بر پاک فوج کی بیرون ملک امن کے لیے خدمات
۔ اب تک اقوام متحدہ کے 41 امن مشنوں میں 154,527 پاکستانی فوجی حصہ لے چکے ہیں
حالتِ جنگ ہو یا امن، پاک فوج جس مستعدی اور جاں فشانی سے وطن عزیز کے دفاع کے لیے سر بکف ہے وہ پوری قوم کے لیے باعث اطمینان اور سرمایہ افتخار ہے۔ اور بات صرف وطن عزیز تک محدود نہیں، پاک فوج دنیا بھر کے لیے پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند ہے اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مختلف ممالک میں قیام امن کے لیے گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اگر پاک فوج کی ان خدمات کو نظر انداز کرتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک یہی نہیں تقریباً ہر معاملے میں ہی مسلمانوں کے بارے میں عموماً اور پاکستان کے حوالے سے خصوصاً اس کا رویہ متعصبانہ ہوتا ہے مگر افسوس اس بات پر ہے کہ خود پاکستانی میڈیا کو اپنی فوج کی خدمات اور کارنامے بتانے کی توفیق نہیں ہوتی۔
پاکستانی فوج 1960 سے اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ ہے، 23 ممالک میں خدمات انجام دے چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ دنیا کی دوسری بڑی فوج ہے جو امن کے لیے دنیا بھر میں کام کررہی ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے پاکستان نے دنیا بھر میں قیام امن کے لیے تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنا اخلاقی اور پیشہ ورانہ کردار نہایت موثر طریقے سے نبھایا ہے۔ اقوام متحدہ کو امن کے لیے جہاں کہیں بھی فوجی امداد کی ضرورت پڑی پاکستان نے سب سے پہلے اپنے فوجی بھیجے، اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی تمام تر افواج میں پاکستانی فوجیوں (بشمول سپاہی اور افسروں کے) کی شہادت کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
اب تک 136 پاکستانی فوجی اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران شہادت کو گلے لگاچکے ہیں اور تقریباً اتنے ہی زخمی بھی ہوئے ہیں جب کہ ہر سال اوسطاً تقریباً 2 فوجی دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں قیام امن کی کوششوں میں شہادت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ اس وقت تقریباً 8247 پاکستانی فوجی اقوام متحدہ کے 6 امن مشنوں میں دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات ہیں۔ جن ممالک میں پاک افواج نے کام یابی سے امن قائم کیا ان میں کانگو، کمبوڈیا، بوسنیا، روانڈا، انگولا، صومالیہ، نمیبیا، نیو گنی اور چند ایسے ممالک بھی شامل ہیں جن کا نام بھی شاید ہی ہم میں سے کسی نے سنا ہو۔ یہاں پاکستانی فوج کے چند اہم ممالک میں امن مشنوں میں کام کی تفصیل دی جارہی ہے۔
(1)۔ کانگو: 1960 میں بیلجیم سے آزادی حاصل کرتے ہی کانگو میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے جن میں تقریباً دس ہزار افراد قتل کیے گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کانگو شدید مالی بحران کا بھی شکار ہوگیا۔ پاک فوج نے اقوام متحدہ کے امن مشن کی ابتدا کانگوں سے کی جس میں 400 فوجی جوانوں نے حصہ لیا۔ اقوام متحدہ نے اس آپریشن کی تمام تر ذمے داری پاک فوج کو سونپی، جس نے نہایت ناسازگار حالات میں 1960 سے 1964 تک بلاتعطل نہایت احسن طریقے اپنا فریضہ نبھایا اور اس مشن کو کام یاب بنایا۔
(2)۔ نیوگنی: نیوگنی انڈونیشیا سے ملحق ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جو 1962 سے پہلے ہالینڈ کے زیر تسلط تھا، جب کہ وہاں کے عوام انڈونیشیا کے ساتھ الحاق چاہتے تھے، کافی عرصے تک ہالینڈ کی فوج نیوگنی پر قابض رہی۔ 1962 میں ہالینڈ کی حکومت نے بذریعہ انتخابات عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس علاقے کو انڈونیشیا کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت بھی پاک فوج کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ نیوگنی میں پر امن منتقلی اقتدار اور وہاں نظم و نسل کے نفاذ کے لیے اقوام متحدہ نے پاک فوج کو منتخب کیا۔ نیوگنی سے ہالینڈ کی فوج کے انخلا اور انڈونیشیا کی فوج کے نظام سنبھالنے تک کے تمام معاملات پاک فوج کے زیرنگرانی انتہائی احسن اور پُرامن طریقے سے انجام پائے اور کوئی ایک معمولی سا ناخوش گوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا اور نیوگنی کا الحاق پُرامن طور پر انڈونیشیا سے ہوگیا۔ پاک فوج کے اس کارنامے کو سراہتے ہوئے انڈونیشیا کے اس وقت کے صدر سوئیکارنو نے کہا تھا کہ ''پاک افواج امن کی بہترین سفیر ہیں اور پاکستان اور انڈونیشیا کے قریبی تعلقات پاک افواج ہی کے مرہون منت ہیں۔''
(3)۔ پاک افواج نے 1995میں 525فوجیوں کو اقوام متحدہ کی درخواست پر ہیٹی بھیجا جہاں سیاسی حالات نہایت خراب اور عوام بھوک و افلاس کا شکار تھے۔ جرائم میں بے حد اضافہ ہوچکا تھا۔ اس کے علاوہ ہیٹی کی فوجی حکومت سے وہاں کے عوام سخت نالاں تھے اور ملک میں خانہ جنگی جاری تھی۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں پاک افواج نے وہاں کا نظم و نسق نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالا۔ ہیٹی میں پُرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
جسے پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ جرائم کے خاتمے کے لیے پاک افواج نے جو حکمت عملی اختیار کی اس سے جرائم کی بیخ کنی اور قیام امن میں خاطر خواہ مدد ملی اور ہیٹی کے عوام نے سکون کا سانس لیا۔ ہیٹی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، جسے پاک فوج نے ترجیحی بنیادوں پر حل کیا۔ یہی نہیں پاک فوج کے جوانوں نے اپنے لیے فراہم کیا جانے والا راشن اور کھانے پینے کا سامان بھی ہیٹی کے غریب عوام میں تقسیم کرکے ہیٹی کے عوام کے دل جیت لیے۔
(4)۔ صومالیہ: صومالی صدر محمد سعد باری کی اپنی نااہل حکومت کو بچانے کی کوششوں نے 1993 میں صومالیہ کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے صومالی فوج میدان میں اتر آئی جو بعد میں خود دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اس کے ساتھ کچھ قبائلی گروہ بھی اپنی آزادی کے لیے میدان میں آگئے یوں صومالیہ میں حکومت گرانے اور خود اقتدار حاصل کرنے کی جنگ میں کئی گروہ مدمقابل آگئے۔ صومالی عوام کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر تھا۔
جنگ کی وجہ سے نظام زراعت درہم برہم ہوگیا اور ملک شدید غذائی قلت کا شکار ہوگیا۔ جنگ میں بیس ہزار افراد مارے گئے، جب کہ قحط اور بھوک و افلاس کی وجہ سے تیس ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ صومالیہ میں صورت حال اس وقت مزید دگر گوں ہوگئی جب امریکی فوج نے اس جنگ میں بے جا مداخلت کی۔ صومالی فوج کے ایک گروہ نے دو امریکی ہیلی کاپٹر مار گرائے اور سیکڑوں امریکی فوجیوں کو قید کرلیا۔
اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ نے پاک فوج سے مدد طلب کی، جس پر پاک فوج نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے فوری طور پر 7200 جوان مع رسد روانہ کردیے۔ امریکی فوجیوں کو قیدی بنانے والا گروہ اقوام متحدہ سمیت نہ کسی کی بات سننے پر تیار تھا اور نہ ہی امریکی فوجیوں کو رہا کرنے پر راضی تھا۔ لیکن یہ پاک فوج کا اعزاز ہے کہ اس نے اس گروہ سے کام یاب مذاکرات کرکے امریکی فوجیوں کو رہائی دلوائی اور بہ حفاظت امریکی کیمپ تک پہنچادیا۔ صومالیہ میں جنگ کو رکوانے اور وہاں امن کے قیام کے لیے 24 پاکستانی فوجیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
پاک فوج نے صومالیہ میں امن قائم کرنے کے ساتھ وہاں کی زبوں حال معیشت کو بحال کرنے اور صومالی عوام کو غذائی بحران سے نکالنے میں بھی قابل قدر کردار ادا کیا۔
(5)۔ بوسنیا: 1992 میں گویوسلاویہ کی فوج نے بوسنیا پر چڑھائی کردی، جس کا مقصد بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی تھا۔ یوگوسلاویہ کے اس جارحانہ اقوام کی پوری دنیا نے مذمت کی جس میں پاکستان پیش پیش تھا، اقوام متحدہ نے اس وقت بھی پاک افواج کی جانب دیکھا اور پاک فوج نے بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر اسلحے اور مشینی دستوں پر مشتمل رسد بوسنیا روانہ کی۔
3000 پاکستانی فوجیوں نے اس کڑے وقت میں اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے بوسنیا کو یوگوسلاویہ کے قبضے سے آزاد کرایا۔ یوگوسلاویہ کی فوج کے ہاتھوں مسمار مسلمانوں کے گھروں، مساجد اور دیگر عمارات کی تعمیر سے بوسنیا کو دوبارہ ایک پُرامن ملک بنانے میں پاک فوج نے کلیدی کردار ادا کرکے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کا صحیح معنوں میں حق ادا کردیا۔ اس مشن میں 6 پاکستانی فوجیوں نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔
(6)۔ سوڈان: سوڈان براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی 60 فی صد آبادی مسلمان ہے۔ 1956 سے سوڈان اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ سوڈان کے جنوب میں زیادہ تر عرب قبائل جب کہ جنوب میں سیاہ فام قبائل آباد ہیں، جو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں۔ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے سوڈانی حکومت، سیاہ فام قبائل اور عرب قبائل عرصہ دراز سے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں ۔
جس کی وجہ سے سوڈان کی معیشت زبوں حالی اور عوام پس ماندگی کا شکار ہیں۔ 65000 سوڈانی باشندے اس خانہ جنگی کے باعث چاڈ اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ 2013 سے لے کر اب تک پاکستانی فوج سوڈان میں امن قائم کرنے، مختلف قبائل کے درمیان جنگ بندی کرانے، نقل مکانی کرنے والے سوڈانی عوام کی بحالی، غذائی اور طبی امداد کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔ اس تمام کاموں میں سب سے مشکل کام مسلح قبائل کے درمیان جنگ بندی کرانا ہے جسے پاک فوج اپنی دانش مندانہ حکمت عملی سے کام یاب بنارہی ہے جس پر نہ صرف سوڈانی حکومت بلکہ سوڈانی عوام بھی تہہ دل سے پاک فوج کے معترف اور شکر گزار ہیں۔
اسی طرح کمبوڈیا، روانڈا،، انگول، کویت، نمیبیا اور دیگر ممالک میں بھی پاک فوج نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اب تک اقوام متحدہ کے 41 امن مشنوں میں 154,527 پاکستانی فوجی حصہ لے چکے ہیں۔
اب بھی پاک افواج کے جوان دنیا کے مختلف ممالک میں شہریوں کی حفاظت، طبی امداد کی فراہمی، شاہراہوں کی تعمیر، پُرامن انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ایسے ممالک جو خانہ جنگی یا خلفشار میں مبتلا ہیں وہاں قیام امن کے لیے پوری لگن اور دیانت داری سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ افواج پاکستان کی ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 13 اگست 2014 کو اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے کہا تھا کہ ''اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں اب تک 100 سے زاید ممالک کے فوجی حصہ لے چکے ہیں، جن میں سب سے اچھی کارکردگی پاکستانی افواج کی ہے۔ دنیا بھر میں امن کے قیام کے لیے پاک افواج کی خدمات اقوام متحدہ کی تاریخ کا سب سے روشن باب ہیں۔''
پاکستانی فوج 1960 سے اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ ہے، 23 ممالک میں خدمات انجام دے چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ دنیا کی دوسری بڑی فوج ہے جو امن کے لیے دنیا بھر میں کام کررہی ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے پاکستان نے دنیا بھر میں قیام امن کے لیے تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنا اخلاقی اور پیشہ ورانہ کردار نہایت موثر طریقے سے نبھایا ہے۔ اقوام متحدہ کو امن کے لیے جہاں کہیں بھی فوجی امداد کی ضرورت پڑی پاکستان نے سب سے پہلے اپنے فوجی بھیجے، اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی تمام تر افواج میں پاکستانی فوجیوں (بشمول سپاہی اور افسروں کے) کی شہادت کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
اب تک 136 پاکستانی فوجی اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران شہادت کو گلے لگاچکے ہیں اور تقریباً اتنے ہی زخمی بھی ہوئے ہیں جب کہ ہر سال اوسطاً تقریباً 2 فوجی دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں قیام امن کی کوششوں میں شہادت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ اس وقت تقریباً 8247 پاکستانی فوجی اقوام متحدہ کے 6 امن مشنوں میں دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات ہیں۔ جن ممالک میں پاک افواج نے کام یابی سے امن قائم کیا ان میں کانگو، کمبوڈیا، بوسنیا، روانڈا، انگولا، صومالیہ، نمیبیا، نیو گنی اور چند ایسے ممالک بھی شامل ہیں جن کا نام بھی شاید ہی ہم میں سے کسی نے سنا ہو۔ یہاں پاکستانی فوج کے چند اہم ممالک میں امن مشنوں میں کام کی تفصیل دی جارہی ہے۔
(1)۔ کانگو: 1960 میں بیلجیم سے آزادی حاصل کرتے ہی کانگو میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے جن میں تقریباً دس ہزار افراد قتل کیے گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کانگو شدید مالی بحران کا بھی شکار ہوگیا۔ پاک فوج نے اقوام متحدہ کے امن مشن کی ابتدا کانگوں سے کی جس میں 400 فوجی جوانوں نے حصہ لیا۔ اقوام متحدہ نے اس آپریشن کی تمام تر ذمے داری پاک فوج کو سونپی، جس نے نہایت ناسازگار حالات میں 1960 سے 1964 تک بلاتعطل نہایت احسن طریقے اپنا فریضہ نبھایا اور اس مشن کو کام یاب بنایا۔
(2)۔ نیوگنی: نیوگنی انڈونیشیا سے ملحق ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جو 1962 سے پہلے ہالینڈ کے زیر تسلط تھا، جب کہ وہاں کے عوام انڈونیشیا کے ساتھ الحاق چاہتے تھے، کافی عرصے تک ہالینڈ کی فوج نیوگنی پر قابض رہی۔ 1962 میں ہالینڈ کی حکومت نے بذریعہ انتخابات عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس علاقے کو انڈونیشیا کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت بھی پاک فوج کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ نیوگنی میں پر امن منتقلی اقتدار اور وہاں نظم و نسل کے نفاذ کے لیے اقوام متحدہ نے پاک فوج کو منتخب کیا۔ نیوگنی سے ہالینڈ کی فوج کے انخلا اور انڈونیشیا کی فوج کے نظام سنبھالنے تک کے تمام معاملات پاک فوج کے زیرنگرانی انتہائی احسن اور پُرامن طریقے سے انجام پائے اور کوئی ایک معمولی سا ناخوش گوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا اور نیوگنی کا الحاق پُرامن طور پر انڈونیشیا سے ہوگیا۔ پاک فوج کے اس کارنامے کو سراہتے ہوئے انڈونیشیا کے اس وقت کے صدر سوئیکارنو نے کہا تھا کہ ''پاک افواج امن کی بہترین سفیر ہیں اور پاکستان اور انڈونیشیا کے قریبی تعلقات پاک افواج ہی کے مرہون منت ہیں۔''
(3)۔ پاک افواج نے 1995میں 525فوجیوں کو اقوام متحدہ کی درخواست پر ہیٹی بھیجا جہاں سیاسی حالات نہایت خراب اور عوام بھوک و افلاس کا شکار تھے۔ جرائم میں بے حد اضافہ ہوچکا تھا۔ اس کے علاوہ ہیٹی کی فوجی حکومت سے وہاں کے عوام سخت نالاں تھے اور ملک میں خانہ جنگی جاری تھی۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں پاک افواج نے وہاں کا نظم و نسق نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالا۔ ہیٹی میں پُرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
جسے پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ جرائم کے خاتمے کے لیے پاک افواج نے جو حکمت عملی اختیار کی اس سے جرائم کی بیخ کنی اور قیام امن میں خاطر خواہ مدد ملی اور ہیٹی کے عوام نے سکون کا سانس لیا۔ ہیٹی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، جسے پاک فوج نے ترجیحی بنیادوں پر حل کیا۔ یہی نہیں پاک فوج کے جوانوں نے اپنے لیے فراہم کیا جانے والا راشن اور کھانے پینے کا سامان بھی ہیٹی کے غریب عوام میں تقسیم کرکے ہیٹی کے عوام کے دل جیت لیے۔
(4)۔ صومالیہ: صومالی صدر محمد سعد باری کی اپنی نااہل حکومت کو بچانے کی کوششوں نے 1993 میں صومالیہ کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے صومالی فوج میدان میں اتر آئی جو بعد میں خود دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اس کے ساتھ کچھ قبائلی گروہ بھی اپنی آزادی کے لیے میدان میں آگئے یوں صومالیہ میں حکومت گرانے اور خود اقتدار حاصل کرنے کی جنگ میں کئی گروہ مدمقابل آگئے۔ صومالی عوام کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر تھا۔
جنگ کی وجہ سے نظام زراعت درہم برہم ہوگیا اور ملک شدید غذائی قلت کا شکار ہوگیا۔ جنگ میں بیس ہزار افراد مارے گئے، جب کہ قحط اور بھوک و افلاس کی وجہ سے تیس ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ صومالیہ میں صورت حال اس وقت مزید دگر گوں ہوگئی جب امریکی فوج نے اس جنگ میں بے جا مداخلت کی۔ صومالی فوج کے ایک گروہ نے دو امریکی ہیلی کاپٹر مار گرائے اور سیکڑوں امریکی فوجیوں کو قید کرلیا۔
اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ نے پاک فوج سے مدد طلب کی، جس پر پاک فوج نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے فوری طور پر 7200 جوان مع رسد روانہ کردیے۔ امریکی فوجیوں کو قیدی بنانے والا گروہ اقوام متحدہ سمیت نہ کسی کی بات سننے پر تیار تھا اور نہ ہی امریکی فوجیوں کو رہا کرنے پر راضی تھا۔ لیکن یہ پاک فوج کا اعزاز ہے کہ اس نے اس گروہ سے کام یاب مذاکرات کرکے امریکی فوجیوں کو رہائی دلوائی اور بہ حفاظت امریکی کیمپ تک پہنچادیا۔ صومالیہ میں جنگ کو رکوانے اور وہاں امن کے قیام کے لیے 24 پاکستانی فوجیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
پاک فوج نے صومالیہ میں امن قائم کرنے کے ساتھ وہاں کی زبوں حال معیشت کو بحال کرنے اور صومالی عوام کو غذائی بحران سے نکالنے میں بھی قابل قدر کردار ادا کیا۔
(5)۔ بوسنیا: 1992 میں گویوسلاویہ کی فوج نے بوسنیا پر چڑھائی کردی، جس کا مقصد بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی تھا۔ یوگوسلاویہ کے اس جارحانہ اقوام کی پوری دنیا نے مذمت کی جس میں پاکستان پیش پیش تھا، اقوام متحدہ نے اس وقت بھی پاک افواج کی جانب دیکھا اور پاک فوج نے بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر اسلحے اور مشینی دستوں پر مشتمل رسد بوسنیا روانہ کی۔
3000 پاکستانی فوجیوں نے اس کڑے وقت میں اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے بوسنیا کو یوگوسلاویہ کے قبضے سے آزاد کرایا۔ یوگوسلاویہ کی فوج کے ہاتھوں مسمار مسلمانوں کے گھروں، مساجد اور دیگر عمارات کی تعمیر سے بوسنیا کو دوبارہ ایک پُرامن ملک بنانے میں پاک فوج نے کلیدی کردار ادا کرکے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کا صحیح معنوں میں حق ادا کردیا۔ اس مشن میں 6 پاکستانی فوجیوں نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔
(6)۔ سوڈان: سوڈان براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی 60 فی صد آبادی مسلمان ہے۔ 1956 سے سوڈان اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ سوڈان کے جنوب میں زیادہ تر عرب قبائل جب کہ جنوب میں سیاہ فام قبائل آباد ہیں، جو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں۔ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے سوڈانی حکومت، سیاہ فام قبائل اور عرب قبائل عرصہ دراز سے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں ۔
جس کی وجہ سے سوڈان کی معیشت زبوں حالی اور عوام پس ماندگی کا شکار ہیں۔ 65000 سوڈانی باشندے اس خانہ جنگی کے باعث چاڈ اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ 2013 سے لے کر اب تک پاکستانی فوج سوڈان میں امن قائم کرنے، مختلف قبائل کے درمیان جنگ بندی کرانے، نقل مکانی کرنے والے سوڈانی عوام کی بحالی، غذائی اور طبی امداد کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔ اس تمام کاموں میں سب سے مشکل کام مسلح قبائل کے درمیان جنگ بندی کرانا ہے جسے پاک فوج اپنی دانش مندانہ حکمت عملی سے کام یاب بنارہی ہے جس پر نہ صرف سوڈانی حکومت بلکہ سوڈانی عوام بھی تہہ دل سے پاک فوج کے معترف اور شکر گزار ہیں۔
اسی طرح کمبوڈیا، روانڈا،، انگول، کویت، نمیبیا اور دیگر ممالک میں بھی پاک فوج نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اب تک اقوام متحدہ کے 41 امن مشنوں میں 154,527 پاکستانی فوجی حصہ لے چکے ہیں۔
اب بھی پاک افواج کے جوان دنیا کے مختلف ممالک میں شہریوں کی حفاظت، طبی امداد کی فراہمی، شاہراہوں کی تعمیر، پُرامن انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ایسے ممالک جو خانہ جنگی یا خلفشار میں مبتلا ہیں وہاں قیام امن کے لیے پوری لگن اور دیانت داری سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ افواج پاکستان کی ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 13 اگست 2014 کو اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے کہا تھا کہ ''اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں اب تک 100 سے زاید ممالک کے فوجی حصہ لے چکے ہیں، جن میں سب سے اچھی کارکردگی پاکستانی افواج کی ہے۔ دنیا بھر میں امن کے قیام کے لیے پاک افواج کی خدمات اقوام متحدہ کی تاریخ کا سب سے روشن باب ہیں۔''