ادبی میلوں کا موسم شروع ہوگیا
افتتاحی نشست کے فوراً بعد نئے نویلے داستان گو اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے نظر آئے۔
ادبی میلوں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ فیصل آباد لٹریچر فیسٹیول کو اس ادبی موسم کی افتتاحی تقریب جانئے۔ فیصل آباد سے آگے لاہور ہے' کراچی ہے' اسلام آباد ہے۔ لاہور میں جو ادبی تیوہار منائے جانے والے ہیں انھیں تو بس آیا سمجھو۔ لاہور آرٹ کونسل کا لٹریچر فیسٹیول۔ بس اس کے آس پاس فیض فیسٹیول۔ اس تقریب سے کتنے ڈیلی گیٹ ہندوستان سے یہاں آنے کے لیے سمجھ لو کہ پابرکاب ہیں۔ اب تو ان کے اپنے ادبی میلے خطرے میں ہیں۔ شیوسینا چشم پوشی کرے تب ہی تو وہ منعقد ہو سکیں گے۔ ادبی میلے جو ان کے حصے کے تھے اب ان کی صورت بقول غالب ان نالوں کی سی ہے کہ ع
جو واں نہ کھنچ سکے وہ یہاں آ کے دم ہوئے
تو فی الحال ہم فیصل آباد کے لٹریچر فیسٹیول سے عہدہ برا ہونے کے عمل میں مصروف ہیں۔ لاہور اور کراچی سے آئے ہوئے مہمان جمع ہیں۔ رونق ویسی ہی ہے جیسے ہمارے حالیہ ادبی میلوں میں، جنھیں لٹریچر فیسٹیول کے خطاب سے نوازا گیا ہے، ہوا کرتی ہے۔ یعنی سمجھ لو کہ یہاں بھی نوجوانوں کا وہی بھیڑ بھڑکا ہے جو اسلام آباد' لاہور اور سب سے بڑھ کر کراچی میں ہوا کرتا ہے۔ ہر گروپ' ہر فرد کیمرے سے مسلح ہے۔ آنکھیں بند کر کے ہر مہمان ادیب کو گھیرتا ہے اور اس کے ساتھ اپنی تصویر کھنچواتا ہے۔ آٹو گراف بک کا رواج سمجھو کہ ختم ہو چکا ہے۔ کوئی کاپی' کوئی میلہ سے خریدی ہوئی نئی کتاب' اور کچھ نہیں تو ہبڑ دبڑ میں کہیں سے کاغذ پکڑتے ہیں اور ادیب کا آٹو گراف حاصل کرنے کے لیے اس سے کام چلاتے ہیں۔
جب متواتر ہم نے یہ بے ہنگم عمل دیکھا تو اب پوچھ لیتے ہیں کہ آپ کی آٹو گراف بک کہاں ہے۔ اور یہ نئی خریدی ہوئی اچھی بری کونسی کتاب ہے جس پر آپ ہم سے آٹو گراف مانگ رہے ہیں یا مانگ رہی ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ یہ طلبا طالبات آٹو گراف کے ڈسپلن سے، اس رسم سے یکسر نابلد ہیں۔ خیر فیصل آباد یونیورسٹی کی پیدائش تو حال ہی میں عمل میں آئی ہے۔ مگر ہم نے تو لاہور اور کراچی کے طلبا و طالبات کا بھی یہی حال دیکھا ہے۔
ہاں تو فیسٹیول کا افتتاح بہت شاندار تھا۔ ہال کھچا کھچ اس طرح بھرا ہوا تھا کہ اب تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ لو ہمیں تو بتایا جا رہا تھا کہ تمہارے ادب ودب کی اب مانگ نہیں ہے۔ ادب کا یا مجموعی طور پر کسی بھی رنگ کی سنجیدہ کتاب کا قاری اس راہ کو چھوڑ کر لقمۂ میڈیا بن چکا ہے اور مختلف ٹی وی چینلوں پر جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے اس سے اپنے ذوق کی تسکین کرتا ہے۔ فاعتبروا یا الولی الابصار۔
ہاں تو حاضرین بہت تھے اور مہمان ادیب بھی کچھ کم نہیں تھے۔ کلیدی خطبہ جاوید جبار صاحب نے پڑھا۔ ساتھ میں زہرہ نگاہ نے اپنے انداز سے اپنا خطبہ پڑھا۔ مختصر خطبہ صدارت افضل حسن رندھاوا کا۔ اس میں ٹکڑا ہم نے لگایا۔
افتتاحی نشست کے فوراً بعد نئے نویلے داستان گو اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے نظر آئے۔ اس گمشدہ روایت کی عجب رنگ سے تجدید ہوئی ہے۔ پچھلے سالوں میں دلی شہر میں دو نوخیز داستان گو نمودار ہوئے۔ دلی سے لاہور آن وارد ہوئے۔ ارے داستان کو تو ہماری نئی ادبی تحریکوں نے یکسر رد کر دیا تھا۔ سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک سے شروع ہو جائیے اور ترقی پسند تحریک و نیز جدید شاعری کی تحریک تک آ جائیے۔ سب نے اپنے اپنے حساب سے اردو فکشن کی اس پرانی روایت کو فرسودہ اور بے وقت کی راگنی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ مگر پھر اچانک ہم نے سنا کہ ہمارے عالم ادبیات شمس الرحمن فاروقی نے داستان امیر حمزہ کی سنتالیس ضخیم جلدوں میں اپنی تحقیق سے جان ڈال دی ہے۔ پھر سنا کہ اب اس داستان کے انگریزی میں ترجمے ہو رہے ہیں۔ اردو کی نامور اسکالر فرانسس پریچٹ پہلے ہی ایسا کام انجام دے چکی تھیں۔ گویا انگریزی میں داستانوں کے ترجمہ کی بسم اللہ انھوں نے کی تھی۔
ادھر لاہور میں شہناز اعجاز الدین نے ایک موٹی سی کتاب کی صورت اس داستان کا ایک انگریزی ترجمہ پیش کر ڈالا۔ اور لیجیے اب تازہ کمک ان نوخیز داستان گویوں فواد خاں اور نذر الحسن سے حاصل ہوئی ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے کراچی سے داستان گویوں کی یہ ایک چوڑی نمودار ہوئی۔ فیصل آباد کے لٹریچر فیسٹیول میں داستان گوئی کا ہنر انھوں نے اس طرح دکھایا کہ بے تحاشا داد کمائی۔ ہم حیران کہ پرانی اردو جس سے ہماری نثر بہت آگے پھر سے اپنا جادو جگا رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر اس جادو کو ہم نے پچھلے برس ریختہ کے اردو میلے میں جاگتے دیکھا۔ وہاں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں اردو دان کم تھے۔ ان سے بڑھ کر تھیٹر والے' دستاویزی فلمیں بنانے والے' دنیائے موسیقی کی مخلوق' مصور' مجسمہ ساز' رقاص جوق در جوق آ رہے ہیں اور ان نوزائیدہ داستان گویوں پر داد کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ ارے انھوں نے اب سے پہلے اپنے اردو کے ذوق کو کہاں چھپا رکھا تھا۔
اگلی صبح پہلے سیشن میں کشور ناہید اپنی نئی اشاعت 'مٹھی بھر یادیں' کے ساتھ نمودار ہوئیں۔ اب کتاب خاموش تھی۔ اور صاحب کتاب رواں تھی۔ آصف فرخی اپنے سوالوں سے بیچ بیچ میں ٹکڑے لگا رہے تھے۔ اور ہر ٹکڑے کے ساتھ کشور ناہید اور چمک اٹھتیں۔ ہال بھرا ہوا تھا۔ داد اس حساب سے مل ہی تھی۔ وہ گئیں تو پنجابی کے نامی گرامی ناول نگار افضل احسن رندھاوا نمودار ہوئے۔ انھیں صغریٰ صدف انٹرویو کر رہی تھیں۔ ناول نگار نے اپنے رنگ سے باتیں کیں اور داد کمائی۔ اردو پنجابی کے رنگ کے بعد انگریزی نے اپنا رنگ دکھایا۔ اس پروگرام میں نوید شہزاد کا لیکچر تھا۔ پتہ چلا کہ یہاں ان کی انگریزی دانش کے قدردان بہت جمع ہیں کہ ان کے کہے کو سمجھ رہے ہیں اور اس پر داد دے رہے ہیں۔ سو ان کی تقریر کے بعد سوال بھی کتنے ہی ہوئے۔ شاید یہ پروگرام اس قسم کا تھا جس نے سامعین کو سوال کرنے پر بہت اکسایا۔
اب ہم تھک چکے تھے۔ معلوم کیا کہ اگلا پروگرام کیا ہے۔ اگلا پروگرام۔ ارے ان دنوں دو ہی تو بڑے واقعے گزرے ہیں۔ عمران خاں اور ریحام کی شادی کا ڈراپ سین اور خورشید محمود قصوری کی کتاب نہ عقاب نہ فاختہ Neither a Hawk Nor a Dove کی اشاعت۔ کتاب کتنے نازک وقت میں شایع ہوئی ہے۔ تجربے نے ثابت کیا کہ نہیں' یہی وقت اس کے لیے مناسب تھا۔ ادھر شیوسینا نے پاکستانی آرٹسٹوں اور دانشوروں پر قدغن لگا رکھی تھی کہ بہت ہو گئی۔ اب تمہارا شو یہاں نہیں ہو گا۔ جس نے ایسی کوشش کی وہ ایک دھمکی میں بھیگے بتاشے کی طرح بیٹھ گیا۔ مگر قصوری صاحب کے میزبان کلکارنی جی دُھن کے پکے نکلے کہ کتاب کی منہ دکھائی تو مقرر ہوئی۔ شیوسینا والوں نے ان کے چہرے پر کالک مل دی۔ فیصلہ کیا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ چہرے پر ایسی کالک کے ساتھ ہم تقریب میں جلوہ افروز ہوں گے۔ تو کیسے وقت میں قصوری صاحب اپنی تصنیف لطیف لے کر ہندوستان میں وارد ہوئے تھے؎
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا
وہ کام کیا ہم نے کہ رستم سے نہ ہو گا
لیجیے ادھر کلکارنی جی کے چہرے پر کالک ملی گئی' ادھر کتاب کا چہرہ پہلے سے بڑھ کر روشن ہو گیا۔
ایک پروگرام کمال احمد رضوی کے ساتھ جس میں گفتگو سب سے بڑھ کر عثمان پیرزادہ نے کی۔ ایک پروگرام مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ کہ پندرہ کہانیوں سے مسلح ہو کر آئے تھے۔ پھر کاظمین کی جوڑی نمودار ہوئی۔ یعنی راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی۔ سوال کرنے اور باتیں کرنے والے اصغر ندیم سید۔
وہ صبح تھی اور اب شام سر پر تھی۔ اور شام شہریاراں فیض صاحب کی یاد میں۔ اس شام کو رونق بخشی منیزہ ہاشمی نے' عارفہ سیدہ نے' اور عدیل ہاشمی نے۔
کراچی اور لاہور کی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ مگر فیصل آباد میں لٹریچر فیسٹیول نے اتنا مجمع لوٹا اور سامعین نے ادب کے معاملات و مسائل میں اتنا شغف دکھایا اور اتنے سوال کھڑے کیے اور بچوں بڑوں نے ادیبوں کی اتنی تصویریں کھینچیں حیرت' حیرت۔ پنجاب کا ایک اور شہر فیصل آباد لگتا ہے کہ اپنی یونیورسٹی اور اپنے لٹریچر فیسٹیول کے زور پر لاہور' اسلام آباد' کراچی کی صف میں آن کھڑا ہوا ہے۔
جو واں نہ کھنچ سکے وہ یہاں آ کے دم ہوئے
تو فی الحال ہم فیصل آباد کے لٹریچر فیسٹیول سے عہدہ برا ہونے کے عمل میں مصروف ہیں۔ لاہور اور کراچی سے آئے ہوئے مہمان جمع ہیں۔ رونق ویسی ہی ہے جیسے ہمارے حالیہ ادبی میلوں میں، جنھیں لٹریچر فیسٹیول کے خطاب سے نوازا گیا ہے، ہوا کرتی ہے۔ یعنی سمجھ لو کہ یہاں بھی نوجوانوں کا وہی بھیڑ بھڑکا ہے جو اسلام آباد' لاہور اور سب سے بڑھ کر کراچی میں ہوا کرتا ہے۔ ہر گروپ' ہر فرد کیمرے سے مسلح ہے۔ آنکھیں بند کر کے ہر مہمان ادیب کو گھیرتا ہے اور اس کے ساتھ اپنی تصویر کھنچواتا ہے۔ آٹو گراف بک کا رواج سمجھو کہ ختم ہو چکا ہے۔ کوئی کاپی' کوئی میلہ سے خریدی ہوئی نئی کتاب' اور کچھ نہیں تو ہبڑ دبڑ میں کہیں سے کاغذ پکڑتے ہیں اور ادیب کا آٹو گراف حاصل کرنے کے لیے اس سے کام چلاتے ہیں۔
جب متواتر ہم نے یہ بے ہنگم عمل دیکھا تو اب پوچھ لیتے ہیں کہ آپ کی آٹو گراف بک کہاں ہے۔ اور یہ نئی خریدی ہوئی اچھی بری کونسی کتاب ہے جس پر آپ ہم سے آٹو گراف مانگ رہے ہیں یا مانگ رہی ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ یہ طلبا طالبات آٹو گراف کے ڈسپلن سے، اس رسم سے یکسر نابلد ہیں۔ خیر فیصل آباد یونیورسٹی کی پیدائش تو حال ہی میں عمل میں آئی ہے۔ مگر ہم نے تو لاہور اور کراچی کے طلبا و طالبات کا بھی یہی حال دیکھا ہے۔
ہاں تو فیسٹیول کا افتتاح بہت شاندار تھا۔ ہال کھچا کھچ اس طرح بھرا ہوا تھا کہ اب تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ لو ہمیں تو بتایا جا رہا تھا کہ تمہارے ادب ودب کی اب مانگ نہیں ہے۔ ادب کا یا مجموعی طور پر کسی بھی رنگ کی سنجیدہ کتاب کا قاری اس راہ کو چھوڑ کر لقمۂ میڈیا بن چکا ہے اور مختلف ٹی وی چینلوں پر جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے اس سے اپنے ذوق کی تسکین کرتا ہے۔ فاعتبروا یا الولی الابصار۔
ہاں تو حاضرین بہت تھے اور مہمان ادیب بھی کچھ کم نہیں تھے۔ کلیدی خطبہ جاوید جبار صاحب نے پڑھا۔ ساتھ میں زہرہ نگاہ نے اپنے انداز سے اپنا خطبہ پڑھا۔ مختصر خطبہ صدارت افضل حسن رندھاوا کا۔ اس میں ٹکڑا ہم نے لگایا۔
افتتاحی نشست کے فوراً بعد نئے نویلے داستان گو اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے نظر آئے۔ اس گمشدہ روایت کی عجب رنگ سے تجدید ہوئی ہے۔ پچھلے سالوں میں دلی شہر میں دو نوخیز داستان گو نمودار ہوئے۔ دلی سے لاہور آن وارد ہوئے۔ ارے داستان کو تو ہماری نئی ادبی تحریکوں نے یکسر رد کر دیا تھا۔ سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک سے شروع ہو جائیے اور ترقی پسند تحریک و نیز جدید شاعری کی تحریک تک آ جائیے۔ سب نے اپنے اپنے حساب سے اردو فکشن کی اس پرانی روایت کو فرسودہ اور بے وقت کی راگنی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ مگر پھر اچانک ہم نے سنا کہ ہمارے عالم ادبیات شمس الرحمن فاروقی نے داستان امیر حمزہ کی سنتالیس ضخیم جلدوں میں اپنی تحقیق سے جان ڈال دی ہے۔ پھر سنا کہ اب اس داستان کے انگریزی میں ترجمے ہو رہے ہیں۔ اردو کی نامور اسکالر فرانسس پریچٹ پہلے ہی ایسا کام انجام دے چکی تھیں۔ گویا انگریزی میں داستانوں کے ترجمہ کی بسم اللہ انھوں نے کی تھی۔
ادھر لاہور میں شہناز اعجاز الدین نے ایک موٹی سی کتاب کی صورت اس داستان کا ایک انگریزی ترجمہ پیش کر ڈالا۔ اور لیجیے اب تازہ کمک ان نوخیز داستان گویوں فواد خاں اور نذر الحسن سے حاصل ہوئی ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے کراچی سے داستان گویوں کی یہ ایک چوڑی نمودار ہوئی۔ فیصل آباد کے لٹریچر فیسٹیول میں داستان گوئی کا ہنر انھوں نے اس طرح دکھایا کہ بے تحاشا داد کمائی۔ ہم حیران کہ پرانی اردو جس سے ہماری نثر بہت آگے پھر سے اپنا جادو جگا رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر اس جادو کو ہم نے پچھلے برس ریختہ کے اردو میلے میں جاگتے دیکھا۔ وہاں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں اردو دان کم تھے۔ ان سے بڑھ کر تھیٹر والے' دستاویزی فلمیں بنانے والے' دنیائے موسیقی کی مخلوق' مصور' مجسمہ ساز' رقاص جوق در جوق آ رہے ہیں اور ان نوزائیدہ داستان گویوں پر داد کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ ارے انھوں نے اب سے پہلے اپنے اردو کے ذوق کو کہاں چھپا رکھا تھا۔
اگلی صبح پہلے سیشن میں کشور ناہید اپنی نئی اشاعت 'مٹھی بھر یادیں' کے ساتھ نمودار ہوئیں۔ اب کتاب خاموش تھی۔ اور صاحب کتاب رواں تھی۔ آصف فرخی اپنے سوالوں سے بیچ بیچ میں ٹکڑے لگا رہے تھے۔ اور ہر ٹکڑے کے ساتھ کشور ناہید اور چمک اٹھتیں۔ ہال بھرا ہوا تھا۔ داد اس حساب سے مل ہی تھی۔ وہ گئیں تو پنجابی کے نامی گرامی ناول نگار افضل احسن رندھاوا نمودار ہوئے۔ انھیں صغریٰ صدف انٹرویو کر رہی تھیں۔ ناول نگار نے اپنے رنگ سے باتیں کیں اور داد کمائی۔ اردو پنجابی کے رنگ کے بعد انگریزی نے اپنا رنگ دکھایا۔ اس پروگرام میں نوید شہزاد کا لیکچر تھا۔ پتہ چلا کہ یہاں ان کی انگریزی دانش کے قدردان بہت جمع ہیں کہ ان کے کہے کو سمجھ رہے ہیں اور اس پر داد دے رہے ہیں۔ سو ان کی تقریر کے بعد سوال بھی کتنے ہی ہوئے۔ شاید یہ پروگرام اس قسم کا تھا جس نے سامعین کو سوال کرنے پر بہت اکسایا۔
اب ہم تھک چکے تھے۔ معلوم کیا کہ اگلا پروگرام کیا ہے۔ اگلا پروگرام۔ ارے ان دنوں دو ہی تو بڑے واقعے گزرے ہیں۔ عمران خاں اور ریحام کی شادی کا ڈراپ سین اور خورشید محمود قصوری کی کتاب نہ عقاب نہ فاختہ Neither a Hawk Nor a Dove کی اشاعت۔ کتاب کتنے نازک وقت میں شایع ہوئی ہے۔ تجربے نے ثابت کیا کہ نہیں' یہی وقت اس کے لیے مناسب تھا۔ ادھر شیوسینا نے پاکستانی آرٹسٹوں اور دانشوروں پر قدغن لگا رکھی تھی کہ بہت ہو گئی۔ اب تمہارا شو یہاں نہیں ہو گا۔ جس نے ایسی کوشش کی وہ ایک دھمکی میں بھیگے بتاشے کی طرح بیٹھ گیا۔ مگر قصوری صاحب کے میزبان کلکارنی جی دُھن کے پکے نکلے کہ کتاب کی منہ دکھائی تو مقرر ہوئی۔ شیوسینا والوں نے ان کے چہرے پر کالک مل دی۔ فیصلہ کیا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ چہرے پر ایسی کالک کے ساتھ ہم تقریب میں جلوہ افروز ہوں گے۔ تو کیسے وقت میں قصوری صاحب اپنی تصنیف لطیف لے کر ہندوستان میں وارد ہوئے تھے؎
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا
وہ کام کیا ہم نے کہ رستم سے نہ ہو گا
لیجیے ادھر کلکارنی جی کے چہرے پر کالک ملی گئی' ادھر کتاب کا چہرہ پہلے سے بڑھ کر روشن ہو گیا۔
ایک پروگرام کمال احمد رضوی کے ساتھ جس میں گفتگو سب سے بڑھ کر عثمان پیرزادہ نے کی۔ ایک پروگرام مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ کہ پندرہ کہانیوں سے مسلح ہو کر آئے تھے۔ پھر کاظمین کی جوڑی نمودار ہوئی۔ یعنی راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی۔ سوال کرنے اور باتیں کرنے والے اصغر ندیم سید۔
وہ صبح تھی اور اب شام سر پر تھی۔ اور شام شہریاراں فیض صاحب کی یاد میں۔ اس شام کو رونق بخشی منیزہ ہاشمی نے' عارفہ سیدہ نے' اور عدیل ہاشمی نے۔
کراچی اور لاہور کی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ مگر فیصل آباد میں لٹریچر فیسٹیول نے اتنا مجمع لوٹا اور سامعین نے ادب کے معاملات و مسائل میں اتنا شغف دکھایا اور اتنے سوال کھڑے کیے اور بچوں بڑوں نے ادیبوں کی اتنی تصویریں کھینچیں حیرت' حیرت۔ پنجاب کا ایک اور شہر فیصل آباد لگتا ہے کہ اپنی یونیورسٹی اور اپنے لٹریچر فیسٹیول کے زور پر لاہور' اسلام آباد' کراچی کی صف میں آن کھڑا ہوا ہے۔