سوچ کے نئے دھارے

میاں صاحب نے جو کچھ کہا وہ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

ایک عجب ہیجانی سی کیفیت کسی نہ کسی طور وطن عزیز میں جاری رہتی ہے۔ کبھی کوئی خوش کن بات سامنے آتی ہے، تو دوسرے ہی لمحے دل دہلانے والی باتیں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ جو دال میں کنکر بن کر منہ کو کرکرا کر دیتی ہیں۔ دور کیوں جائیں، گئے ہفتے ہی کو لیجیے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دو الگ الگ تقاریب میں جن خیالات کا اظہار کیا، وہ 68 برس میں پہلی بار بابائے قوم کے تصور پاکستان کی عکاسی کر رہے تھے۔ مگر اسی دوران ISPR کی پریس ریلیز میں گورننس کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا، اس نے میاں صاحب کے خوش کن بیانات کو ایک طرف ڈال کر پورے ملک میں حکمرانی کے بارے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ ہم ان دونوں باتوں پر ایک ہی اظہاریہ میں گفتگو کرنا چاہیں گے، کیونکہ یہ ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہونے کے باوجود حقیقت میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔

سرمایہ کاری کے حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں وزیر اعظم نے فرمایا کہ پاکستانی عوام کا مستقبل ایک لبرل اور جمہوری پاکستان سے مشروط ہے۔ چند روز بعد کراچی میں انھوں نے برصغیر کے رنگارنگ تہوار دیوالی کی تقریب کے دوران کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ انھیں دیوالی کے ساتھ ہولی کے تہوار پر بھی بلایا جائے اور ان پر رنگ بھی پھینکا جائے۔ یہ بھی کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت ان کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اس سلسلے میں بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ میاں صاحب کے حالیہ بیانات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ محض سیاسی ہیں۔ دراصل انھوں نے عالمی رائے عامہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان پر مذہبی شدت پسندی کی سرپرستی کے الزامات غلط ہیں۔ بلکہ مذہبی شدت پسندی کے اصل مظاہر بھارت میں سامنے آ رہے ہیں۔ جہاں اقلیتوں کے ساتھ انتہائی امتیازی اور معاندانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور انھیں ہر طرح سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ پس منظر کچھ ہی کیوں نہ ہو، پاکستان کی 68 برس کی تاریخ میں کسی حکمران نے پہلی مرتبہ ان خیالات کا اظہار کیا ہے، جنھیں غیر ضروری طور پر شجر ممنوعہ بنا دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ بیان پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کی سوچ میں پیدا ہونے والی اس خوشگوار تبدیلی کا اظہار ہے، جو 68 برس بعد ہی سہی اس کی سمجھ میں آنا شروع ہوئی ہے۔

میاں صاحب نے جو کچھ کہا وہ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ انھوں نے صرف جرأت رندانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے انھی خیالات کی ترجمانی کی ہے، جو بابائے قوم کے اس ملک کے بارے میں تھے۔ جن کا اظہار وہ برٹش انڈیا میں سیاسی جدوجہد کے دوران مختلف مواقع پر کرتے رہے تھے اور قیام پاکستان سے تین روز قبل دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں ان کا خطاب بھی ان کی اسی فکر کا عکاس تھا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد اور اس کے قیام کے مقاصد کا مطالعہ کرتے ہوئے دو باتوں کا ذہن میں رہنا ضروری ہے۔ اول، یہ ملک برٹش انڈیا میں موجود تمام فقہوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا نتیجہ ہے، جنھوں نے کسی مذہبی عالم کے بجائے عصری تعلیم سے آراستہ ایک وکیل کو اپنا رہنما تسلیم کیا۔ دوئم، یہ ملک کسی ایک فرقہ یا مسلک کے مسلمانوں کے لیے قائم نہیں ہوا۔ اس لیے اس کے قیام کی تھیوکریٹک تشریح و تفہیم غیر منطقی اور لایعنی ہے۔

پاکستان اور اس کے نظام حکمرانی کو سمجھنے کے لیے بانی پاکستان محمد علی جناح کی شخصیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ وہ جناح تھے، جنھیں مسز سروجنی نائیڈو نے ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا تھا۔ BJP کے مرکزی رہنما لال کشن ایڈوانی نے چند برس قبل اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر ان کے مزار پر حاضری دی تھی اور مہمانوں کی کتاب میں انھیں عظیم سیکولر رہنما لکھا تھا۔ BJP کے ایک اور سینئر رہنما جسونت سنگھ نے جناح کے سیاسی ویژن پر کتاب لکھی اور انھیں نہرو سے بڑا سیکولر رہنما قرار دیا۔ یہ وہی جناح تھے، جنھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کو قریب لانے کی خاطر لکھنو پیکٹ کا مسودہ تیار کیا۔ صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت کے لیے 14 نکات پیش کیے۔ یہ وہی جناح تھے، جنھوں نے آخری لمحے تک ہندوستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اس مقصد کے لیے کیبنٹ مشن کی تجاویز کو بھی تسلیم کیا تھا۔ اس لیے جناح کے قائم کردہ ملک کی تنگ نظر تھیوکریٹک تفہیم نہ صرف ان کی توہین ہے، بلکہ ان کی تخلیق کی بھی توہین ہے۔


یہ جناح کا ایک رخ تھا، جو ان کے سیکولر خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شخصیت کا دوسرا رخ قانون کا احترام کرنے اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کرنے والے وکیل اور سیاستدان کا ہے۔ ان کی تمامتر جدوجہد قانون کے دائرے کے اندر رہی۔ اپنے فکری رجحانات اور تصورات کا انھوں نے ہمیشہ برملا اظہار کیا اور انھیں چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے جو پاکستان بنانا چاہا تھا، وہ ایک لبرل، روشن خیال اور جمہوری ملک تھا۔ لیکن انھیں نہیں معلوم تھا کہ جن عناصر پر وہ آنکھ بند کر کے اعتماد کر رہے ہیں، وہ پس پردہ ان کی جمہوری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی آنکھ بند ہو جانے کے بعد وہ اس ملک کو ایک جمہوری فلاحی ریاست کے بجائے سیکیورٹی ریاست میں تبدیل کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔

پاکستان میں اسلام اور قومی سلامتی کے نام پر 68 برس تک جو بھیانک کھیل کھیلا گیا، اس کی وجہ سے نہ صرف ملک دولخت ہوا، بلکہ باقی ماندہ ملک کے چھوٹے صوبوں میں عوامی بے چینی بھی پیدا ہوئی۔ فکری نرگسیت پر مبنی غلط حکمت عملیوں پر اصرار کے باعث جہاں غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط و مستحکم ہونے کا موقع ملا، وہیں مذہب کے نام پر جنونیت کا رقص بسمل بھی شروع ہوا۔ مذہبی عسکریت اور متشدد فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل ہوئے۔ غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا۔ پنجاب میں اگر مسیحی تاراج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، تو سندھ میں ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں کے ساتھ جبراً شادیاں کرانے کا رجحان بھی سامنے آیا۔ جب کہ دونوں صوبوں میں علاقے کے بااثر لوگ اس گھناؤنے کھیل کی سرپرستی کرتے رہے اور حکومت تماشائی بنی یہ سب کچھ دیکھتی رہی۔ جس کی وجہ سے سیکڑوں ہندو گھرانے بھارت منتقل ہونے پر اور مسیحی گھرانے مغربی ممالک کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔

اب دوسری طرف آئیے۔ پاکستان میں خرابی بسیار کی ذمے داری صرف اسٹیبلشمنٹ پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادتیں بھی اس صورتحال کی پوری طرح ذمے دار ہیں۔ سیاسی ناپختگی اور جمہوریت کے بارے میں غیر واضح اور مبہم تصورات کی وجہ سے سیاسی جماعتیں جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کے بجائے باہم دست و گریباں رہتی ہیں۔ اپنے اختلافات پارلیمان میں طے کرنے کے بجائے سڑکوں اور چوراہوں پر دھرنوں کی شکل میں طے کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے حد سے بڑھے ہوئے کشیدہ تعلقات کا فائدہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی ہیں۔ حکومتوں کی کمزوریوں کے باعث ریاست کے ماتحت اداروں میں ریاستی امور میں بے جا مداخلت کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ ماہرانہ مشاورت کے بجائے مختلف پالیسیوں پر اثرانداز ہونے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جمہوری طرز حکمرانی کو مختلف نوعیت کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں قائم ہونے والی چار فوجی حکومتیں اسی رجحان کو ظاہر کرتی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں گورننس کے معاملات انتہائی دگرگوں ہیں۔ پورے ملک میں بدانتظامی، کرپشن اور اقربا پروری اپنے عروج پر ہے۔ آئین و قانون کی بالادستی کا تصور مفقود ہو چکا ہے۔ خود منتخب حکمرانوں نے پارلیمان کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب کہ ذرایع ابلاغ میں اٹھائے جانے والے مسائل پر کان دھرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ ایسی صورتحال میں حکمرانی میں پائی جانے والی خرابیوں اور کمزوریوں سے چھٹکارا پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ عام آدمی اپنے مسائل کے حل کی خاطر ادھر ادھر دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر ان تمام خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود کسی ماتحت ریاستی ادارے کو پریس ریلیز کے ذریعے حکومتی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنے کا اختیار نہ آئین دیتا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر تسلیم کردہ قواعد و ضوابط دیتے ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب حکمران 68 برس تک جھک مارنے کے بعد جناح کے تصور پاکستان کو تسلیم کرنے اور ملک کو ایک لبرل جمہوریہ ماننے پر آمادہ ہو سکتے ہیں، تو حکمرانی میں پائی جانے والی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کا تدارک بھی ممکن ہے۔ اس مقصد کے لیے عزم و حوصلے کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ میاں نواز شریف جیسا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا وزیر اعظم اقلیتوں کے تہواروں میں شرکت کرے گا، ان کے مساوی حقوق کی وکالت کرے گا اور ملک کے مستقبل کو لبرل ازم اور جمہوریت سے مشروط کرنے کی بات کرے گا۔ لیکن جب یہ ہو سکتا ہے، تو حکمرانی میں بہتری کے اقدامات بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ عوام کی مرضی اور منشا کے بغیر ممکن نہیں۔
Load Next Story