ادب اور میڈیا
ہمارے ملک میں ادب ایک بھولی ہوئی کہانی بن کر رہ گیا ہے،
KARACHI:
ہمارے ملک میں ادب ایک بھولی ہوئی کہانی بن کر رہ گیا ہے، ملک میں بے شمار ادبی تنظیمیں موجود ہیں، سرکاری سطح پر بھی کئی ایسی بڑی ادبی تنظیمیں موجود ہیں جنھیں سرکار کی طرف سے کروڑوں روپوں کی فنڈنگ ہوتی ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ عوام ادب اور شاعری سے ناآشنا ہیں، جو ادبی انجمنیں موجود ہیں ان کا کام محض ادبی نشستوں کا اہتمام ہو کر رہ گیا ہے، جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، کروڑوں کا فنڈ رکھنے والی سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں کا دائرہ فیسٹیول اور کانفرنسوں تک محدود ہے، جن کا مقصد سوائے فنڈ کے بے جا استعمال کے اور کچھ نہیں۔ ادب کو عوام کی زندگی کا حصہ کیوں بننا چاہیے اس پر غور کرنے سے پہلے ہمیں اپنی معاشرتی زندگی پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ ہمارا ملک اور معاشرہ سر سے پاؤں تک ہزاروں قسم کے جرائم کا مرکز بنا ہوا ہے، کسی شہری کی جان محفوظ ہے نہ مال، اگرچہ یہ بدترین صورتحال ہمارے معاشی نظام کا نتیجہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس معاشی نظام کی تبدیلی تک اس بدترین صورتحال کو جوں کا توں چھوڑ دیا جائے یا اس میں بہتری لانے کی کوشش کی جائے؟
جرائم، کرپشن، بدعنوانیوں جیسی بے شمار برائیوں کی روک تھام کا واحد ذریعہ قانون اور انصاف کا نظام ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ جب قانون اور انصاف کا نظام خود بدترین کرپشن کا شکار ہو تو پھر معاشرے کی تبدیلی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ ہمارے سیاست دان گلے پھاڑ پھاڑ کر قانون اور انصاف کی برتری کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن قانون اور انصاف کا گلا گھونٹنے کا نیک کام یہی معزز حضرات کرتے ہیں، اپنی بدعنوانیوں کو چھپانے میں یہ طبقہ کبھی قانون میں اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق ردوبدل کرتا نظر آتا ہے تو کبھی انصاف کو اپنی مرضی اور مفادات کے تحت استعمال کرتا نظر آتا ہے۔ آج ملک کے سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو بے شمار اعلیٰ سطح رہنما اربوں کی کرپشن کے الزامات میں مبتلا نظر آتے ہیں، لیکن دلچسپ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اعلیٰ سطح رہنما جب عدالتوں میں آتے ہیں تو وکٹری کے نشان بناتے نظر آتے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ''سیاسی کارکن'' ہجوموں کی شکل میں ان ''اکابرین'' کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں انصاف کا نظام اس قدر توانا اور تیز ہے کہ برسوں نہیں عشروں تک مقدمات زیر سماعت رہتے ہیں، حتیٰ کہ ملزمان جوان سے بوڑھے اور بوڑھوں سے مرحوم ہو جاتے ہیں لیکن انصاف سے محروم ہی رہتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد تقریباً دو تین عشروں تک ہمارا ملک جرائم، مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسی لعنتوں سے بڑی حد تک بچا رہا۔ لوگ گھروں کے دروازے کھلے رکھ کر سوتے تھے، گھر سے بے فکر اور خوف سے آزاد نکلتے تھے اور اطمینان سے گھر واپس آتے تھے۔ محرم، بقرعید، عیدالفطر اور 12 ربیع الاول کی تقریبات پورے اطمینان اور بے خوفی کے ساتھ منائی جاتی تھیں، ان موقعوں پر نہ ہزاروں پولیس کے سپاہی تعینات ہوتے، نہ رینجرز اور فوج کی مدد لی جاتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ادب عوام کی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بنا ہوا تھا۔ ہر محلے، ہر گلے میں کیبن لائبریریاں قائم تھیں، جن میں جدید ادب اور شاعری کی کتابیں معمولی کرائے پر دستیاب ہوتی تھیں اور لوگ خصوصاً نوجوان طبقہ اپنی پسند کی ادبی کتابیں حاصل کرنے کے لیے ایڈوانس بکنگ کراتا تھا۔
لوگ کرشن چندر، عصمت، بیدی، منٹو، فیض، جیلانی بانو جیسے ادیبوں اور شاعروں کو جانتے تھے اور ان سے مانوس بھی تھے، ان ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں میں کوئی ایسا جادو نہیں ہوتا تھا جو عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا بلکہ اس ادب اور شاعری میں انسانوں کے درمیان محبت، بھائی چارے کے ساتھ ساتھ طبقاتی استعمال کا ذکر ہوتا، کہانیوں اور شاعری کی تقسیم ہی محبت اور رواداری ہوتی تھی، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان محبت، اخوت بھائی چارے کے رشتے مستحکم تھے، نہ فرقہ وارانہ نفرتیں تھیں، نہ فقہی تعصبات۔ انسانوں کے درمیان انسانیت کا رشتہ سب سے مضبوط رشتہ ہوتا تھا۔ نہ محرم کے جلوسوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں سپاہی متعین ہوتے تھے نہ سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا جاتا تھا، نہ مسجدوں، امام بارگاہوں، مندروں کے باہر پولیس کا ہجوم ہوتا تھا۔
آج بھی ادبی تنظیمیں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی بھرمار ہے، لیکن ادب اور شاعری سے عوام قطعی لاتعلق ہیں، ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ محکمہ پولیس اور رینجرز پر اربوں روپے خرچ کرنے والوں اور پولیس کے لیے بلٹ پروف گاڑیوں اور جیکٹوں پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والے حکمرانوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ حیوانوں کو انسان بنانے والے نسخۂ کیمیا ادب اور شاعری پر بھی ایک بڑا بجٹ رکھا جائے اور ادب کی چادر اوڑھی ہوئی سرکاری ادبی تنظیموں کو پابند کیا جائے کہ وہ انسانوں کے درمیان محبت کو فروغ دینے والے ادب اور شاعری کی کتابوں کے سستے ایڈیشن چھاپ کر عوام تک ادب کی رسائی کو آسان بنائیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن، اکادمی آف ادبیات، آرٹس کونسل ایسے ادارے ہیں جن کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ منتخب ادب کے سستے ایڈیشن چھاپ کر اور اس کی تقسیم اور فروخت کا ایک مربوط نظام بنا کر عوام میں ادب نوازی کی ایک ایسی فضا قائم کر سکتے ہیں جو اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ذہنوں کو روشنی سے تابندہ کر دے۔
آج کی دنیا میں الیکٹرانک میڈیا ایک ایسا وسیلہ ہے جس کی چپے چپے تک رسائی ہے، اگر کتاب کلچر کے فروغ میں میڈیا حصہ لے تو ملک کے کونے کونے تک ادب کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ ہمارا میڈیا ایان علی، ریحام خان کے لیے تو گھنٹوں پر مشتمل پروگرام پیش کرتا ہے لیکن کسی ادب یا شاعری کی کتاب کی تقریب، اجرا کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہمارے چینلوں پر سیاسی اختلافات، الزامات اور جوابی الزامات کی تشہیر کے لیے تو سیکڑوں ٹاک شوز ہیں، ''ماہر اینکرز'' ہیں، فقہی پروپیگنڈے کے لیے تو بے شمار چینلز ہیں، جن کا عوام کی بہتری سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ٹاک شوز عوام میں ذہنی اور نظریاتی انتشار اور فرقہ وارانہ تعصبات کو پروان چڑھاتے ہیں، انسانوں کے درمیان محبت کے فروغ کے لیے علیحدہ ادبی چینلز کی بات تو دور کی ہے موجودہ چینلز پر ادب کے لیے ادبی پروگراموں کے لیے چند گھنٹے وقف کیے جائیں، جن میں اچھے ادب اور اچھے وژن کے ادیبوں، شاعروں کو متعارف کرایا جائے تو اس کے مثبت اثرات پورے جرائم زدہ معاشرے کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔