سرمایہ دارانہ جمہوریت فریب نظر ہے

(برما) میانمار میں اپوزیشن نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر رہی ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

KARACHI:
(برما) میانمار میں اپوزیشن نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ سوچی کی جماعت کو اپنا صدر لانے کے لیے دو تہائی کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔ جو وہ حاصل کر چکی ہے۔ میانمار میں آئین کے مطابق منتخب اسمبلی میں ایک چوتھائی نشستیں فوج کے لیے مختص ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سوچی کے لیے ملک گیر فتح کے باوجود صدر بننا آسان نہیں کیونکہ آئین کی ایک شق کے مطابق کوئی بھی شخص جس کے کسی غیر ملکی سے بچے ہوں وہ ملک کا صدر نہیں بن سکتا۔ واضح رہے کہ سوچی کا شوہر برطانوی ہے جس سے ان کے دو بچے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے ان انتخابات میں ملک کے 80 فیصد شہریوں نے ووٹ ڈالے۔ پچیس سال بعد ہونے والے ان آزادانہ انتخابات میں میانمار کے عوام نے اپنی سیاسی تمناؤں کا اظہار سوچی کے حق میں ووٹ دے کر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس الیکشن میں تین کروڑ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے فوج کی حمایت یافتہ پارٹی کو بدترین شکست سے دوچار کر دیا۔

تیسری دنیا کے ملکوں کی کیا قسمت ہے کہ سامراج پہلے ان پر اپنی پالتو آمریت مسلط کرتا ہے اس طرح سے ان ملکوں کے وسائل کو کئی دہائیوں تک بے دردی سے لوٹا جاتا ہے۔ جب عوام پر ظلم و ستم کی انتہا ہو جاتی ہے تو وہی سامراج جس نے یہ آمریت مسلط کی ہوتی ہوا کا رخ بھانپتے ہوئے کہ عوامی رائے عامہ اس کے خلاف ہو رہی ہے تو اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے وفادار آمر سے اس طرح آنکھیں پھیر لیتا ہے کہ جیسے کبھی اس سے واسطہ ہی نہیں تھا۔ پسے ہوئے مظلوم سادہ لوح عوام سامراج کی اس قلا بازی پر فریفتہ ہو کر سامراج کے حق میں زندہ باد کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب اس آمریت زدہ ملک میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ عوام کو یہ پٹی پڑھائی گئی ہوتی ہے کہ جمہوریت کے ذریعے نہ صرف اپنے حکمران چن سکتے ہیں بلکہ ان کو نکال بھی سکتے ہیں اور جمہوریت ہی ان کی غربت بیماری اور بے روز گاری کا خاتمہ کر کے ان کو خوش حالی سے ہمکنار کرے گی۔ جب کہ ہوتا اس کے برعکس ہے کہ حکمران طبقات پہلے سے زیادہ دولت مند ہو جاتے ہیں اور عوام پہلے سے بھی غریب تر ہو جاتے ہیں۔ ان کے فاقوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

پہلے وہ دو وقت کی روکھی سوکھی کھا لیتے تھے۔ اب وہ بہ مشکل ایک وقت کی روٹی پر آ جاتے ہیں۔ ان کو بس اتنا ہی کھانے کو ملتا ہے کہ وہ بمشکل زندہ رہ سکیں۔ اس صورت حال میں ان میں سودے بازی کی صلاحیت نہیں رہتی اور وہ سستے ترین داموں پر اپنی محنت کو بیچنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ جب کہ ان پر حکمرانی کرنے والوں کی دولت میں دن دونی رات چوگنی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جیسے حکمرانوں کے گالوں کی لالی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ عوام کے رخسار زور سے زرد تر ہوتے جاتے ہیں۔ ابھی خوراک کہاں سے کھائیں پیسے ہی نہیں۔ مسائل اور دولت کا ارتکاز حکمران طبقوں میں ہوتا چلا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ کم خوراکی کی وجہ سے خطرناک بیماریوں ٹی بی کینسر ہیپاٹائٹس دمہ اور دل کی بیماریوں کا شکار ہو کر طبعی عمر سے بہت پہلے کم عمری میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ پاکستان کا یہ حال ہے کہ اس کے تمام شہروں قصبوں دیہاتوں میں آبادی کی ایک بڑی تعداد ہیپاٹائٹس جیسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے۔ صرف اس ایک خطرناک بیماری کے ہاتھوں روزانہ تین ہزار' ماہانہ ایک لاکھ اور سالانہ دس لاکھ لوگ موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔

تیسری دنیا کے ملکوں جہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے غربت فلاکت بھوک کی ایک جیسی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ میانمار میں انتخابات کے بعد سوچی کے حامیوں کا لاکھوں کی تعداد میں جشن مناتے ہوئے دیکھ کر اچانک بے نظیر کی یاد آ گئیں جب ان کی آمد پر بیس سے تیس لاکھ لوگوں کا سمندر ایئر پورٹ سے مینار پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ لوگ انقلاب کے نعرے لگا رہے تھے۔ اب راج کرے گی خلق خدا کے نعرے بلند ہو رہے تھے لیکن آج کیا صورت حال ہے۔ قوم مزید سامراجی غلامی میں جکڑی جا چکی ہے اور سامراج نے مذہبی دہشت گردی کے اژدہے کے ذریعے اس غلامی سے آزادی کو نا ممکن بنا دیا ہے۔


انقلاب کو سامراج کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسا لولا لنگڑا انقلاب مزید سامراجی غلامی لے کر آتا ہے۔ وہ انقلاب جو سامراج کی غلامی سے نجات دلا دے وہ بیلٹ باکس کے ذریعے نہیں آتا۔ اس کے لیے خون دینا پڑتا ہے تب جا کر سامراج اور اس کے ایجنٹ مقامی حکمران طبقوں سے نجات ملتی ہے۔ جب تک دنیا کے غریب عوام عوامی جمہوریت کو نہیں اپنائیں گے وہ اور ان کی نسلیں سرمایہ داروں کی غلامی اور ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستی رہیں گی۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت' جو پاکستان اور بھارت میں بھی رائج ہے دنیا کے غریب عوام کے لیے دھوکا اور فریب نظر ہے۔ صرف عوامی جمہوریت کے ذریعے ہی محنت کش مزدور خواتین سمیت بے وسیلہ پڑھا لکھا طبقہ سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کو شکست دے کر ہزاروں سال کی ذلت غلامی اور محتاجی سے نجات اور انسانیت انصاف مساوات پر مبنی سماج قائم کر کے اس دنیا کو جنت میں بدلنے کی تعبیر پا سکتا ہے۔ ورنہ تو بے نظیر کی طرح مظلومانہ قتل ہونے کے بعد بھی قد کے برابر بھی اسٹریچر میسر نہیں آتا کہ پیر باہر لٹک رہے ہوتے ہیں۔

میانمار برما میں بھی وہی ہونے جا رہا ہے جس سے پاکستان چند دہائیوں قبل گزر چکا ہے۔

حکومت اور حکمرانوں کے لیے فیصلہ کن وقت کا آغاز نومبر کے آخر میں ہو جائے گا۔

سیل فون: 0346-4527997
Load Next Story