دہشتگردی کے لیے فنانسنگ

بہت سے معاملات میں بینکوں کو سیاسی دباؤ کی وجہ سے بھاری قرضے جاری کرنے پڑتے ہیں


اکرام سہگل November 16, 2015

KARACHI: قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام پہلی بار اکتوبر 1999ء میں عمل میں آیا جس کا مقصد مالیاتی اداروں میں بدعنوانی کا جائزہ لینا تھا۔ تقریباً 80 فیصد کیسز میں قرضہ جات یا پیشگی لی گئی رقوم شامل ہیں جنھیں زیادہ تر جعلی دستاویزات کے ذریعے نکلوایا گیا۔ نیب کی اولین کامیابی مالیاتی شعبے کے کرپٹ ارکان کو پکڑ کر بہت بھاری رقوم برآمد کروا لینا تھا جسے قبل ازیں ڈوبی ہوئی رقم تصور کر لیا گیا تھا۔ اس معاملے میں قصور واروں کو بسرعت انصاف کے کٹہرے تک لایا گیا۔ اس ضمن میں ''پلی بار گین'' کا جو نظریہ پیش کیا گیا اس سے رقم واپس کر کے سزا سے بچنے کا موقع دیا گیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ انتظام بھی بہت حد تک بے اثر ہو گیا۔ بہت سے افراد نے تھوڑی بہت رقم واپس کر کے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ باقی رقم پھر کاروبار یا ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے کام آئی۔ ان میں سے بعض اب ارب کھرب پتی بن چکے ہیں۔

بہت سے معاملات میں بینکوں کو سیاسی دباؤ کی وجہ سے بھاری قرضے جاری کرنے پڑتے ہیں، لیکن قرضے ہڑپ کرنے والے بہت سارے سیاستدانوں میں سے صرف چند ایک ہی قانون کی گرفت میں لائے جا سکے۔ وہ جنہوں نے ناجائز طریقوں سے مالیاتی اداروں سے بھاری رقوم حاصل کرنے کی کوشش کی اور جن افسروں نے ان کو سہولت فراہم کی ان میں سے شاذ و نادر ہی کوئی قانون کی گرفت میں آیا ہو گا۔ مالیاتی اداروں میں کام کرنے والوں کی اکثریت دیانت دار اور خوددار پروفیشنلز کی ہے لیکن کئی لوگ اپنے سینئرز کے دباؤ کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوئے جب کہ ان سینئرز پر اور زیادہ بااثر اور طاقتور عناصر کا دباؤ تھا کہ قرضہ جات اور پیشگی رقوم جاری کی جائیں۔ ایسے مالیاتی اداروں کی بھی تھوڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے اس صورت حال سے اپنے لیے ناجائز فوائد بھی حاصل کیے۔ بہت سے معاملات میں پیش کی جانے والی دستاویزات کی پڑتال کو نظرانداز کر دیا گیا جو یقیناً مشکوک تھیں ۔ بدقسمتی سے مالیاتی اداروں کے ایسے افسروں کو جنہوں نے اتنے بڑے بڑے قرضے جاری کیے بہت کم قانون کی گرفت میں لایا گیا۔

اس سے بھی زیادہ قابل افسوس کردار ان آڈٹ فرموں کا تھا جن کے بین الاقوامی رابطے ایسی کمپنیوں کے ساتھ تھے جن کی شہرت مشکوک تھی۔ آخر انھوں نے یہ مشکوک ادائیگیاں کیسے جاری کیں اور انھیں پکڑا کیوں نہیں گیا۔ مناسب نگرانی کی کمی اور آڈٹ فرموں کا ضروری تجزیہ نہ کرنے سے انھیں قانون کی گرفت میں نہیں لایا جا سکا حتیٰ کہ گرفتار ہونے والوں کو بھی سزا نہ دی جا سکی۔ اور جب پوچھ گچھ شروع ہوئی تو یہ ایشو صدر جنرل مشرف کے پاس چلا گیا اور وہاں یہ دلیل دی گئی کہ اس پوچھ گچھ سے بینکنگ شعبے کا ''مورال ڈاؤن'' ہو رہا ہے جس کے بیرونی سرمایہ کاری پر براہ راست مضر اثرات مرتب ہونگے۔ یوں تحقیقاتی معاملات تقریباً بند ہو گئے۔ اس کا ایک قابل اعتبار معیار یہ ہے کہ پہلے دو سال میں بدعنوان افراد سے جو رقم برآمد کی اس کے بعد کے 15 سال میں بھی اتنی رقم برآمد نہ ہو سکی۔ جن قواعد و ضوابط کو نافذ کیا جانا تھا انھیں ناکام بنا دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بینکوں کے ذریعے کی جانے والی ترسیلات زیادہ شفاف ہو گئیںتاہم افسروں نے اپنے ناجائز ہتھکنڈوں میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں پیدا کر لیں۔

اسٹیٹ بینک کی انسپیکشن ٹیمیں مالیاتی اداروں کا آڈٹ کر کے بہت شاندار کام انجام دیتی ہیں لیکن وہ نان بینکنگ لین دین میں زیادہ گہرائی سے جائزہ نہیں لیتیں۔شاطر لوگوں نے ایسے انداز سے ''بیلنس شیٹس'' مرتب کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا ہے جن کا بینکوں کے ڈائریکٹرز کے پاس تفصیلی مطالعے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ سرکاری رقوم کی اس خورد برد پر یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ یہ کام بورڈ آف ڈائریکٹرز کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی شفافیت اور کرپشن کے سدباب کے لیے قائم کی گئی گلوبل ایجنڈا کونسل (جی اے سی) کا اجلاس دبئی میں منعقد ہوا جس میں بینکوں کے لین دین کے مشکوک معاملات پر غور کیا گیا اور اس غیر قانونی سرگرمی کی روک تھام کا فیصلہ کیا گیا۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی سربراہ کرسٹائن لیگارڈے نے حال ہی میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مالیاتی انڈسٹری میں بدعنوان عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ لیگارڈے کا کہنا تھا کہ غلط کار لوگوں کے خلاف کارروائی اس بنا پر بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے فنانشل سروسز سیکٹر کا اخلاقی معیار بہتر ہو گا جس کی ساکھ بار بار کے سکینڈلوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے بہت متاثر ہو چکی ہے۔ انفرادی بدعنوانیوں کا خمیازہ بھی مالیاتی اداروں کو بھگتنا پڑتا ہے جن کو کہ پابندیوں کا شکار بنایا جاتا ہے۔ بدعنوان عناصر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بھی رقوم مہیا کرتے ہیں جو کہ منظم جرائم کا جزو لاینفک ہے۔ ان بدعنوانیوں پر کور کمانڈرز کانفرنس میں فوج کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ان ''وہائٹ کالر جرائم'' کے خلاف موثر کارروائی کریں جن کی منظم جرائم اور دہشت گردی کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں