ہمارا ٹریفک سسٹم اور ڈرائیونگ لائسنس

گاڑی چلانے والے اپنے ساتھ درجنوں انسانوں کی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں،

کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کی تہذیبی اقدار، نظم و ضبط کا مطالعہ کرنا ہے تو آپ اس کی شاہراہوں پر ٹریفک سسٹم کو دیکھ لیجیے، آپ اس معاشرے کے اخلاقی رویے کو بخوبی سمجھ جائیں گے۔ ہم اپنے شہروں کی بات کریں تو ہمارا ٹریفک سسٹم افراتفری، لاقانونیت کی بدترین مثال ہے۔ گاڑی چلانے والے اپنے ساتھ درجنوں انسانوں کی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں، پھر یہ بھی کہ اس قتل کی نہ سزا ہے نہ کوئی قانون عمل درآمد ہوپاتا ہے۔ بے ضمیری کے خمیر سے گندھے ان قاتلوں کے پاس ملامت کی کوئی رمق بھی نہیں، جو آیندہ انھیں سدھارنے کی کوشش ہوسکے۔ چند سال قبل کی بات ہے، میرے بہنوئی گھر سے قریب ہی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں بری طرح زخی ہوئے، آس پاس کے لوگوں نے ڈرائیور کا لائسنس ضبط کرلیا۔ بہنوئی صاحب دو سال تک بستر پر پڑے رہے۔ گاڑی کے مالک نے تاوان تو کیا ادا کرنا تھا اس نے الٹا اپنے لائسنس کے چوری ہونے کی ایف آئی آر لکھوائی اور نیا لائسنس بنوالیا۔ جن کے پاس لائسنس نہیں ہیں اور گاڑیاں چلارہے ہیں وہ تو مجرم ہیں ہی لیکن جو لائسنس یافتہ ہیں، ان کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا کہ ڈرائیونگ لائسنس کے ساتھ ایک اچھا شہری بننے کی تربیت بھی لازمی ہے۔

ہمارے ہاں کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیورز بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں، زیادہ تو دیہی علاقوں سے آتے ہیں اور چند دن میںگاڑیاں چلانا سیکھ کر کام شروع کردیتے ہیں، ان کے گاڑیاں چلانے کا انداز موت کے کنوئیں میں گاڑی چلانے جیسا ہوتا ہے۔ سنا ہے اصول تو یہ ہے اگر کسی کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں، اس نے روڈ ایکسیڈنٹ میں کسی کی جان لے لی، اس کو کسی حادثے کا شاخسانہ نہیں گردانا جائے گا، ڈرائیور کو سزائے موت تفویض ہوگی۔ مگر کبھی ایسا ہوتا دیکھا نہیں۔ ہمارے ملک میں قانون پر عملدرآمد تو ویسے بھی بہت مشکل کام ہے، پھر محض لائسنس بنوا کر کسی کو قتل کا لائسنس حاصل کرنا تو اور بھی خوفناک بات ہے۔ ہمیں لائسنس کے ساتھ روڈ پر گاڑی چلانے کی اخلاقی تربیت بھی درکار ہے۔ ایک ذمے دار شہری کے حقوق و فرائض جاننا، ان پر عمل کرنا، اس کے لیے حکومت کو مختلف ورکشاپس کا انتظام کرنا ہوگا، مختلف ادارے اپنے ورکرز کوگاڑیوں کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ٹریفک کے اصول و ضوابط کی تربیتی کلاس بھی کروائیں تو یہ معاشرے کے لیے بہت کارآمد ہوگا۔


چند دن قبل ٹریفک پولیس کی جانب سے ایک مستحسن اعلان کیا گیا کہ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، لائسنس بنوانے کی مدت میں ایک ماہ کی مزید توثیق کردی گئی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شہر کراچی میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 38 لاکھ ہے لیکن لائسنس 12 لاکھ جاری ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 26 لاکھ بنا لائسنس ڈرائیورز موجود ہیں، جنھوں نے اب تک لائسنس بنوانا ضروری نہیں سمجھا۔ نجانے کب سے گاڑی بنا لائسنس استعمال کرکے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، اب کارروائی و سزا کی سخت دھمکی کے بعد سب ہی لائسنس کے دفاتر کی جانب دوڑ رہے ہیں۔ اس قدر بڑی تعداد میں لائسنس کا اجرا اتنی جلدی ناممکن نظر آتا ہے۔ لائسنس حکام روزانہ 100 سے 150 لائسنس فارمز جاری کرتے تھے، اب روزانہ 5000فارمز جاری کیے جارہے ہیں، اس وقت لائسنس دفاتر کے سامنے جو بدانتظامی اور ہڑبونگ نظر آتی ہے، لگتا ہے سارا شہر وہیں امڈ آیا ہو۔ عملے کے ساتھ شہری پریشان ہیں۔ کسی طرح جلد از جلد لائسنس کا حصول ممکن بنانے کی تگ و دو میں ناخوشگوار واقعات بھی پیش آرہے ہیں، لیکن کیا اس طرح تمام لوگوں کو لائسنس جاری ہوسکتا ہے؟

اگر ہو بھی گیا تو یہ محض ایک کاغذ کا پروانہ ثابت ہوگا، اشاروں کی پہچان، حادثوں کی روک تھام کے لیے وضع کیے گئے اصول و ضوابط اور لائسنس کی ابجد سیکھنے کے لیے کوئی انتظام ہی نہیں، جب کہ پہلے تو اسی کا انتظام ہونا چاہیے۔ ہمارے باشعور شہری لاکھوں روپے خرچ کرکے گاڑی خریدتے ہیں، بدقسمتی دیکھئے، اتنی قانون شکنی کہ چند ہزار روپے خرچ کرکے گاڑی چلانے کی تربیت کا لائسنس لینا گوارا نہیں کرتے۔ کیا ہم ایک مہذب معاشرہ کہلانے کے حقدار ہیں، جہاں 26 لاکھ افراد قتل کا لائسنس لیے پھرتے ہوں۔ ہم لوگ خوامخواہ جیمز بونڈ کے لائسنس ٹو کلِ (Licence to kill) کو دیکھ کر رشک کرتے رہے، یہ معمولی لائسنس تو ہمارے ہاں سب کو حاصل ہے، ٹریفک پولیس کی جانب سے ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے حکم نامے نے ہمارے معاشرے میں پھیلی لاقانونیت کی ایک اور پول پٹی کھول دی ہے۔ ہم دن بدن مسائل کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں، بے ضابطگی کی جڑیں ہمارے نظام میںگہری ہوچکی ہیں۔ اس کا اندازہ تھوڑی دیر شاہراہوں پر کھڑے ہوکر ہمارے ٹریفک سسٹم کو دیکھ کر بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
Load Next Story