گھر عورت کی پناہ گاہ مگر۔۔۔

صنف نازک کی تقدیس ہر ایک کے لیے مقدم ہونی چاہیے


نادیہ فاطمہ November 16, 2015
صنف نازک کی تقدیس ہر ایک کے لیے مقدم ہونی چاہیے۔ فوٹو: فائل

کہاجاتا ہے کہ صنف نازک کے لیے اس کے گھر سے زیادہ محفوظ ٹھکانہ اور کوئی نہیں۔ گھر کی چار دیواری کے اندر وہ اپنی ناموس و آبرو کے حوالے سے بالکل بے خطر و بے فکر رہتی ہے، کیوں کہ وہ یہ بات بخوبی جانتی اور سمجھتی ہے کہ اس کا گھر اس کی جان اور عزت کا محافظ ہے، یہی سوچ لے کر جب وہ اپنے سسرال رخصت ہو کر آتی ہے، تو بسا اوقات اس کی یہ سوچ کچھ غلط ثابت ہوتی ہے۔

آج بھی ایسی بہت سی خواتین ہیں جو اپنے شوہر کے گھر میں اپنی ناموس کے حوالے سے خائف دکھائی دیتی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ وہ شوہر کے گھر میں اس کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ذہنی کوفت کا شکار رہتی ہیں اور انہیں ہر سطح پر ہراساں کیے جانے کا خوف لاحق ہوتا ہے۔

بعض اوقات سسرال اور میکے کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ لڑکیاں سسرال کے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں، مگر وہ لڑکیاں جو فطرتاً الگ تھلگ رہنے مزاج کی مالک ہوتی ہیں، انہیں جیٹھ صاحب، دیور اور نندؤئی کی زیادہ بے تکلفی مذاق یا فقرے چست کرنا انتہائی ناگوار گزرتا ہے، مگر وہ مجبوراً خاموش رہتی ہیں، کیوں کہ ان کے شوہر صاحب کو اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

بعض گھرانوں کا ماحول کافی آزاد اور بے باک ہوتا ہے۔ ان کے ہاں دیور بھابھی وغیرہ کے درمیان گھول میل بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بھابیوں سے ہر طرح کا مذاق کیا جاتا ہے، مگر ہر لڑکی اس بات کو پسند نہیں کرتی، وہ اپنے دیور، جیٹھ اور نندوئیوں سے اس طرح زیادہ گھول میل نہیں رکھنا چاہتی اور یہیں سے اس کے اعصاب کا امتحان شروع ہوتا ہے۔

بہت سے گھرانوں میں دامادوں کی بے پناہ آؤ بھگت کی جاتی ہے، انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ وہ اکثر اوقات اپنی سلج سے بھی بے تکلفی برتتے ہیں اور کافی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان سے ہر طرح کا مذاق کرنے لگتے ہیں، جو لڑکی کی حیا اور مزاج پر نہایت گراں گزرتا ہے۔ وہ اسے باہمی عزت واحترام کے تعلق کے قطعی منافی خیال کرتی ہے۔

اس سے ایک لڑکی نہایت کوفت سے دوچار ہوتی ہے، کیوں کہ اسے یہ سب برداشت کرنا ہوتا ہے۔ وہ محض اس خوف کی بنا پر اپنے شوہر سے بھی کچھ کہہ نہیں پاتی کہ مبادا وہ اسے ہی مورد الزام ٹھیرا دے یا پھر کہیں یہ معاملہ سنگین نوعیت اختیار نہ کر جائے اور مزید مسائل کا پیش خیمہ نہ بنے۔

اکثر گھرانوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ میاں بیوی کے انتہائی نجی معاملات میں بھی جیٹھ یا نندوئی وغیرہ دخل اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ محفلوں میں نجی ؓاتوں کو موضوع سخن بناتے ہیں، جو انتہائی معیوب اور غیر اخلاقی فعل ہے۔ اس طرح کی صورت حال ایک عورت کے لیے بے انتہا تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہوتی ہے، کیوں کہ اس طرح کے موضوعات پر اس طرح کھلے عام گفتگو، اس کی ذات پر براہ راست حملے کی طرح ہوتا ہے۔ کوئی بھی عورت یہ ہرگز گوارا نہیں کرتی کہ اس کے ازدواجی معاملات میں جیٹھ، دیور، نندوئی حتیٰ کہ سسر صاحب بھی دخل دیں، کیوں کہ یہ اس کی زندگی کا انتہائی ذاتی معاملہ ہے، اس میں دخل دینے کا کسی کو حق نہیں۔ اس ضمن میں شوہر صاحبان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ شوہر اپنی بیوی کی عصمت و جان کا ہی محافظ نہیں ہوتا، بلکہ اس کی عزت نفس اس کے پندار کی حفاظت کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر اس کی بیوی اس کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ذہنی و نفسیاتی طور پر ہراساں ہو رہی ہے، تو یہ بات شوہر حضرات کے لیے انتہائی ندامت و شرمندگی کا باعث ہے۔

اکثر اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ شوہر حضرات اپنے دوستوں اور کزن کے حوالے سے بہت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔ بچپن کے دوست دفتر کے ساتھی یا پھر کوئی کزن اکثر اوقات ان کے گھر میں آتے ہیں، محفلیں جماتے ہیں اور اپنے دوستوں کی طرح ان کی بیویوں سے بھی بے تکلف ہو کر بات چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کرتے ہیں، اگر بیویاں اپنے شوہر کے دوستوں سے حجاب کرنا چاہیں یا ان سے فاصلہ رکھیں، تو اس بات کو بعض شوہر حضرات اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ یہ بھی جواز پیش کرتے ہیں کہ 'فلاں کی بیوی تو ہم سے اتنی خوش اخلاقی سے پیش آتی ہے۔' یا 'فلاں سے تو ہم مذاق کرتے ہیں اسے تو برا نہیں لگتا۔' وغیرہ۔ یہ استدلال قطعاً درست نہیں ہے اور معاشرتی طور پر بھی اس کے ثمرات کافی منفی برآمد ہوتے ہیں۔

اکثر و بیش تر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کم سن اور معصوم لڑکیاں، جو عقل و شعور کے حوالے سے ناپختہ ہوتی ہیں، انہیں اپنے بہنوئیوں، رشتے کے خالوؤں، پھوپھاؤں وغیرہ کی جانب سے بے تکلفی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے والدین کی ڈانٹ کے خوف سے اس بات کا تذکرہ نہیں کرتیں، جب کہ اس طرح کی صورت حال سے خود اس کی نفسیات بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ شدید ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ہمارے یہاں کے گھرانوں میں رشتے کے چچا، تایا، پھوپھا، خالو، بہنوئی اور ابو کے دوستوں وغیرہ پر آنکھیں بند کر کے بھروسا کر لیا جاتا ہے، جب کہ بسا اوقات یہی قریبی اور اپنائیت والے رشتے ہی گھر کی عزت کو نقب لگا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے والدین کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں، کہ وہ اپنی بیٹیوں کے معاملے میں کسی پر بھی اندھا بھروسا نہ کریں۔ بیٹی چاہے تین سال کی ہو یا تیرہ سال کی، اس کی عصمت و حرمت آبگینے سے بھی زیادہ نحیف و نازک ہے، یہ بات انہیں ہمہ وقت اپنے اذہان میں رکھنی چاہیے۔ اگر آپ کی بیٹی کے کوئی استاد گھر میں ٹیوشن یا پھر سپارہ پڑھانے آتے ہیں، تو آپ بھی ان کے کمرے میں رہیں، یا پھر ایسی بیٹھک میں بٹھائیں، جہاں اہل خانہ بھی ہوں، یا ان کا آنا جانا ہو۔ یہ ذمہ داری خاص طور پر ماؤں پر عائد ہوتی ہے، لہٰذا وہ اپنی ذمہ داری سے کوتاہی نہ برتیں۔

ایسے شوہر حضرات سے بھی درخواست ہے، جو اپنے دوستوں، رشتے دار مردوں پر بھروسا کرتے ہیں۔ وہ یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ ان کی بیوی کی عصمت و حرمت کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اور صرف ان پر عائد ہوتی ہے۔ انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ان کا اپنے دوست، کزن، بھائی یا بہنوئی سے ہنسی مذاق ہے، تو قطعاً ضروری نہیں کہ آپ کی بیوی بھی ان کے ساتھ ویسا ہی انداز اپنائے۔

توازن زندگی کا حسن ہے، اگر ہر ناتے کو اس رشتے کی حدود و قیود کے مطابق برتا اور نبھایا جائے، تو بہترین ہے۔ کوئی بھی رشتہ چاہے وہ سالی، بہنوئی کا رشتہ ہو یا پھر دیور جیٹھ بھاب کا۔ وہ اپنائیت کے ساتھ ساتھ احترام وتقدس کے ساتھ قائم و دائم رہتا ہے۔ اس ضمن میں شوہر حضرات کو بھی اپنے عمل میں توازن رکھنا چاہیے۔ اس طرح کے حساس معاملات میں محتاط انداز اپنانے کی بے حد ضرورت ہے، تاکہ ہر رشتہ اپنے مقام ومرتبے کے ساتھ قائم رہے۔ یہ ٹھیک ہے ہمیں زمانے کے ساتھ ضرور چلنا ہے، لیکن اس کے لیے معاشرتی حد بندیوں کو پامال کر دینا اور شریک حیات کے لیے باعث آزاربننا کسی طرح درست نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں