بچوں سے بات کیسے منوائیں
بہت سی مائیں اپنے بچوں کو غلام بنا دیتی ہیں اور کئی مائیں اپنے بچوں کو ’سیٹھ‘ بنا دیتی ہیں۔
'بچی ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے' یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مصرع آج کل کے بچوں کے لیے ہی کہا گیا ہے، کیوں کہ بڑوں کا ان کی دلیلوں کے آگے جیتنا بہت مشکل محسوس ہوتا ہے۔
بہت سی مائیں اپنے بچوں کو غلام بنا دیتی ہیں اور کئی مائیں اپنے بچوں کو 'سیٹھ' بنا دیتی ہیں۔ یعنی بعض مائیں اتنی ضدی ہوتی ہیں کہ بچوں کو اپنی زندگی جینے نہیں دیتیں، ہر معاملے میں اپنی مرضی ان پر تھوپنا چاہتی ہیں، جب کہ کچھ مائیں اتنے لاڈ اور نخرے اٹھاتی ہیں کہ پھر بچوں کی عادت ہی بگڑ جاتی ہے۔ وہ بچے عملی طور پر ان پر 'حاکم' بن جاتے ہیں اور پھر جب ان کی بات نہ مانی جائے تو پورا گھر سر پر اٹھالیتے ہیں اور سب سے اپنی ضد منوالیتے ہیں۔
یہ دونوں برتاؤ غلط ہیں۔ ماؤں کو اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے اولاد کی تربیت کرنی چاہیے۔ شروع سے ہی والدین کا احترام اور فرماں برداری کی سوچ پیدا کرنی چاہیے۔ جائز باتیں مان لی جائیں، لیکن کچھ جائز باتیں بھی ایسی ہوتی ہیں، جو کہ ہمارے مالی بجٹ یا گھریلو تناؤ کا سبب بنتی ہیں، تو اس میں بچوں کو انکار کر کے اس چیز کے نقصانات یا مسائل سے اچھی طرح آگاہ کرنا چاہیے، تاکہ ان کے ذہنوں میں بدمزگی نہ رہے۔
بعض مائیں اپنے بچوں کے لیے بہت پریشان رہتی ہیں کہ ہمارا بچہ روتا بہت ہے یا اسکول نہیں جاتا یا پھر اسکول سے واپس آکر بہت تنگ کرتا ہے۔ ایسی ماؤں کا اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں وہ خود ہی تو اپنے بچے کو جذباتی طور پر نظر انداز نہیں کر رہیں، کیوں کہ آج کل عام طور سے مائیں اپنے بچوں کو موبائل، کمپیوٹر اور کارٹون موویز کے حوالے کر کے اپنی ذمہ داری سے سُبک دوش ہو جاتی ہیں اور اس بات کو اپنے سکون کا باعث سمجھتی ہیں کہ بچہ بھی اپنے مشاغل میں لگا ہوا ہے، چناں چہ وہ خود بھی اپنی مصروفیات میں لگی رہتی ہیں۔ یہ بات بچے کو جذباتی طور پر مجروح کرتی ہے، جو وقت آپ کا بچے کو گود میں بٹھا کر کہانی سنانے کا یا اس کے جذبات کا تبادلہکرنے کا تھا وہ آپ نے گیمز اور کارٹون کی نذر کروا دیا۔ بچے کو اپنے پاس بٹھائیں، اسے توجہ اور وقت دیں۔ اسے پیار کریں۔ جب اسکول سے واپس آئے، تو اس کا پرجوش انداز میں استقبال کریں، جس سے پتا چلے کہ آپ کو اس کا انتظار تھا۔ اس کی آمدورفت سے بے خبر نہ رہیں۔ یہ تمام باتیں بچے کی جذباتیت کو تسکین پہنچائیں گی، پھر آپ کا بچہ بات بے بات روئے گا بھی نہیں اور ضد کے ذریعے آپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا، کیوں کہ آپ کی محبت اور عزت اس کے دل میں اتر جائے گی اور آپ کا کہا ایک اشارے میں مان لے گا۔
ویسے بھی بچوں کا روٹھنا منانا صرف ماؤں کے ساتھ ہی چلتا ہے، کیوں کہ رب کریم نے ماں کا رتبہ اور رشتہ بھی سب سے قیمتی اور اَن مول رکھا ہے۔ اپنی اولاد کے لیے جو مائیں اپنے وقت اور مصروفیات کی قربانی دیتی ہیں وہ بچے ضرور ان کے فرماں بردار بنتے ہیں۔
اسکول سے واپسی پر بچے کے لیے خصوصی طور پر کھانے پینے کا اہتمام کریں۔ اس کے اسکول کا حال احوال پوچھیں۔ ہلکے پھلکے انداز سے اس کی تصحیح بھی کرتی رہیں۔ چیزوں کو پھیلانے کے بہ جائے جگہ پر رکھنے کی ترغیب دیں، اس کے بعد اس سے معمول کے کاموں کا کہیں۔ اس کے لیے بچے کے گھر آنے سے پہلے پہلے ماؤں کو خود کو گھر کے کاموں سے فارغ کر لینا چاہیے، تاکہ جب بچہ گھر آئے، تو ماں پر کاموں کا سہم سوار نہ ہو۔ ورنہ ماں حکم دے رہی ہوتی ہے، بچہ مان نہیں رہا ہوتا اور پھر گھر میں چیخ پکار کا ماحول جنم لیتا ہے، چوں کہ بچہ چھے سے سات گھنٹے اسکول میں گزار کر آتا ہے، تو اب فطری طور پر اس کو ماں کی آغوش کی محبت بھری نگاہوں کی اور بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے تمام ماؤں کو وقت نکالنا پڑتا ہے۔ جو مائیں خوش اسلوبی سے یہ کام نبھالیتی ہیں، وہ بچوں کو منانے میں کام یاب ہو جاتی ہیں۔
بہت سی مائیں اپنے بچوں کو غلام بنا دیتی ہیں اور کئی مائیں اپنے بچوں کو 'سیٹھ' بنا دیتی ہیں۔ یعنی بعض مائیں اتنی ضدی ہوتی ہیں کہ بچوں کو اپنی زندگی جینے نہیں دیتیں، ہر معاملے میں اپنی مرضی ان پر تھوپنا چاہتی ہیں، جب کہ کچھ مائیں اتنے لاڈ اور نخرے اٹھاتی ہیں کہ پھر بچوں کی عادت ہی بگڑ جاتی ہے۔ وہ بچے عملی طور پر ان پر 'حاکم' بن جاتے ہیں اور پھر جب ان کی بات نہ مانی جائے تو پورا گھر سر پر اٹھالیتے ہیں اور سب سے اپنی ضد منوالیتے ہیں۔
یہ دونوں برتاؤ غلط ہیں۔ ماؤں کو اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے اولاد کی تربیت کرنی چاہیے۔ شروع سے ہی والدین کا احترام اور فرماں برداری کی سوچ پیدا کرنی چاہیے۔ جائز باتیں مان لی جائیں، لیکن کچھ جائز باتیں بھی ایسی ہوتی ہیں، جو کہ ہمارے مالی بجٹ یا گھریلو تناؤ کا سبب بنتی ہیں، تو اس میں بچوں کو انکار کر کے اس چیز کے نقصانات یا مسائل سے اچھی طرح آگاہ کرنا چاہیے، تاکہ ان کے ذہنوں میں بدمزگی نہ رہے۔
بعض مائیں اپنے بچوں کے لیے بہت پریشان رہتی ہیں کہ ہمارا بچہ روتا بہت ہے یا اسکول نہیں جاتا یا پھر اسکول سے واپس آکر بہت تنگ کرتا ہے۔ ایسی ماؤں کا اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں وہ خود ہی تو اپنے بچے کو جذباتی طور پر نظر انداز نہیں کر رہیں، کیوں کہ آج کل عام طور سے مائیں اپنے بچوں کو موبائل، کمپیوٹر اور کارٹون موویز کے حوالے کر کے اپنی ذمہ داری سے سُبک دوش ہو جاتی ہیں اور اس بات کو اپنے سکون کا باعث سمجھتی ہیں کہ بچہ بھی اپنے مشاغل میں لگا ہوا ہے، چناں چہ وہ خود بھی اپنی مصروفیات میں لگی رہتی ہیں۔ یہ بات بچے کو جذباتی طور پر مجروح کرتی ہے، جو وقت آپ کا بچے کو گود میں بٹھا کر کہانی سنانے کا یا اس کے جذبات کا تبادلہکرنے کا تھا وہ آپ نے گیمز اور کارٹون کی نذر کروا دیا۔ بچے کو اپنے پاس بٹھائیں، اسے توجہ اور وقت دیں۔ اسے پیار کریں۔ جب اسکول سے واپس آئے، تو اس کا پرجوش انداز میں استقبال کریں، جس سے پتا چلے کہ آپ کو اس کا انتظار تھا۔ اس کی آمدورفت سے بے خبر نہ رہیں۔ یہ تمام باتیں بچے کی جذباتیت کو تسکین پہنچائیں گی، پھر آپ کا بچہ بات بے بات روئے گا بھی نہیں اور ضد کے ذریعے آپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا، کیوں کہ آپ کی محبت اور عزت اس کے دل میں اتر جائے گی اور آپ کا کہا ایک اشارے میں مان لے گا۔
ویسے بھی بچوں کا روٹھنا منانا صرف ماؤں کے ساتھ ہی چلتا ہے، کیوں کہ رب کریم نے ماں کا رتبہ اور رشتہ بھی سب سے قیمتی اور اَن مول رکھا ہے۔ اپنی اولاد کے لیے جو مائیں اپنے وقت اور مصروفیات کی قربانی دیتی ہیں وہ بچے ضرور ان کے فرماں بردار بنتے ہیں۔
اسکول سے واپسی پر بچے کے لیے خصوصی طور پر کھانے پینے کا اہتمام کریں۔ اس کے اسکول کا حال احوال پوچھیں۔ ہلکے پھلکے انداز سے اس کی تصحیح بھی کرتی رہیں۔ چیزوں کو پھیلانے کے بہ جائے جگہ پر رکھنے کی ترغیب دیں، اس کے بعد اس سے معمول کے کاموں کا کہیں۔ اس کے لیے بچے کے گھر آنے سے پہلے پہلے ماؤں کو خود کو گھر کے کاموں سے فارغ کر لینا چاہیے، تاکہ جب بچہ گھر آئے، تو ماں پر کاموں کا سہم سوار نہ ہو۔ ورنہ ماں حکم دے رہی ہوتی ہے، بچہ مان نہیں رہا ہوتا اور پھر گھر میں چیخ پکار کا ماحول جنم لیتا ہے، چوں کہ بچہ چھے سے سات گھنٹے اسکول میں گزار کر آتا ہے، تو اب فطری طور پر اس کو ماں کی آغوش کی محبت بھری نگاہوں کی اور بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے تمام ماؤں کو وقت نکالنا پڑتا ہے۔ جو مائیں خوش اسلوبی سے یہ کام نبھالیتی ہیں، وہ بچوں کو منانے میں کام یاب ہو جاتی ہیں۔