فیصل آبادلٹریری فیسٹیول
دو دن کیسے گزرے۔معلوم ہی نہیں ہوپایا۔پلک جھپکتے ہی خوبصورت تقریبات کاسلسلہ شروع ہوااورایک لمحہ میں ختم ہوگیا
دو دن کیسے گزرے۔معلوم ہی نہیں ہوپایا۔پلک جھپکتے ہی خوبصورت تقریبات کاسلسلہ شروع ہوااورایک لمحہ میں ختم ہوگیا۔شائدیہ ایک پَل انسانی آرزوؤں کی مانند خاصہ طویل تھا۔فیصل آباداورادب،تجارتی شہراور ادیب، کپڑے کی دکانیں اورشعر۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ اس شہر میں طوفان خیزادبی ذوق رکھنے والے مرد اور خواتین اَن گنت تعداد میں موجودہیں۔گزشتہ برس سے کہیں زیادہ منظم، بھرپور اورشاندارفیسٹیول تھا۔
افتتاحی تقریب میں کیسے کیسے قدآورلوگ موجود تھے۔ انتظارحسین،زہرہ نگاہ،جاویدجبار،افضل رندھاوا، اصغر ندیم سیداورسٹیج سیکریٹری کے طورپرڈاکٹرشیباعالم۔ایک گھنٹے کی تقریب پرکئی کالم لکھے جاسکتے ہیں۔اورہاں،ایک نام میں لکھنے سے قصداً چُوک گیا۔سارہ حیات۔ اگرسچ بولا جائے تولٹریری فیسٹیول فیصل آبادکوحقیقت کاروپ دینے والی خواتین میں یہ تقریباً سرِفہرست ہے۔چندخواتین نے ملکر ایک خواب بُنااورمجسم کرکے تمام لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔
انتظارحسین اور زہرہ نگاہ اردوادب کے وہ قد آور دروازے ہیں جن میں سے تمام اہلِ فن کوسر جھکاکر تعظیم سے گزرنا ہوتا ہے۔ ہاں میرے جیسا لفظوں کا ترکھان خاموشی سے اس لیے گزر جاتا ہے کہ میں ادبی قافلے کا سب سے اجنبی انسان ہوں۔ ایاز خان اورلطیف چوہدری کا لاہورسے قلیل مدت کے لیے آنا باعثِ مسرت تھا۔
پہلی نشست عطاء الحق قاسمی کے ساتھ تھی۔پچیس سال پہلے،جب تقریباًنوجوان تھاتوبزرگ دکھائی دیتاتھا۔اب نوجوان ہے توواقعی نوجوان نظرآتاہے۔طنزومزاح کا جادوگر۔ شائستگی کے دامن سے پیوستہ رہ کرلوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا صرف اسی شخص کاخاصہ ہے۔چندلمحوں کے لیے تمام دکھوں کوبھول کر ہر شخص بے ساختہ ہنسناشروع کر دیتا ہے۔وہ خودکیا ہے۔ اکثریت کو معلوم نہیں،مجھے توقطعاً نہیں۔ بہاولپورمیں کئی ادبی نشستوں کے بعدبرسوں بعدملنے کا اتفاق ہوا۔وہ بھی ایک دوسرے کو پہچانے بغیر۔
داستان گوئی کیاکمال فن تھا۔دوصدیوں سے اجڑے ہوئے ادب کی اس صنف کے متعلق لوگ سب کچھ بھول چکے ہیں۔داستان گوبذات خودکیا تھے۔ آج توادب کی یہ ایسی عظیم روایت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔کراچی سے آئے ہوئے دونوجوانوں نے ڈیڑھ گھنٹہ میں اس قدیم فن کو دوبارہ زندہ کردیا۔فواداورنذرالحسنNAPAکے فارغ التحصیل ہیں۔
ان پڑھے لکھے نوجوانوں نے وہ سماں باندھ دیا کہ لوگ کھو سے گئے۔داستان امیرحمزہ،عمروعیارکے دوقصے اورجنگ آزادی کے بعدداستان گو لوگوں کی دہلی میں ذلت و ناقدری۔ دل چاہتاتھاکہ سنتے رہیں۔ مسلسل سنتے رہیں۔ نوے منٹ دونوں نوجوانوں نے یاداشت کی بنیادپرسیکڑوں اشعارپڑھ ڈالے۔یہ شعرداستان امیرحمزہ کے محض دوقصے بیان کر پائے۔
اس طرح کے اَن گنت قصے موجودہیں اور انکو ازبر ہیں۔کسی بھی کاغذکے بغیرداستان گوئی ایک انتہائی مشکل فن تھااورہے۔تمام لوگ دم بخودتھے۔معلوم ہوتاتھاکہ داستان کے جادوگربادشاہ ملکائیں اورعیارلفظوں کالبادہ اوڑھ کر آپ کے سامنے آن کھڑے ہیں۔انسان کئی سوسال پہلے کی دنیا میں چلاجاتاہے۔سب کے ساتھ ایسے ہی ہوا۔ ایک ایسی طلسماتی دنیاجہاں سے واپسی صرف ذہن کے جادوئی قالین کی بدولت ممکن ہے۔
دوسرے دن ایک ایک گھنٹہ پرمحیط چھ نشستیں تھیں۔ پہلی نشست میں بیس پچیس منٹ تاخیرسے پہنچا۔صبح ساڑھے دس بجے ہال بھرچکاتھا۔کشورناہیدنے باتیں شروع کیں توایسا لگا کہ الفاظ ترتیب سے ہاتھ باندھ کراس خاتون کے سامنے کھڑے ہوچکے ہیں۔تقریب کی ترتیب کچھ ایسی تھی کہ کشور ناہیدسے مکالمہ کے لیے آصف فرخی موجود تھے۔
کیا دلچسپ سادہ سی باتیں تھیں۔کشورنے اپنی زندگی میں عورتوں کے حقوق کے لیے جوعظیم جدوجہدکی ہے اسکوچالیس پچاس منٹ کی نشست میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔ سرکار کی نوکری اور کشور جیسی غیرروائتی خاتون۔اس نے اسلام آبادمیں کیا کیا دکھ دیکھے ہونگے تصور نہیں کیا جاسکتا۔ لکھنااورمسلسل لکھنا۔ چھوٹی سی زندگی میں یہ قدآورعورت کیا کیاکچھ کرچکی ہے۔ یقین نہیں آتا۔
افضل رندھاواپنجابی زبان کا ایک محترم نام ہے۔تعلق فیصل آبادسے ہے۔پیرانہ سالی کے باوجودجوان اورذرخیز ذہن کے مالک۔ہم ان لوگوں کاذہن نہیں سمجھ سکتے۔زمین اورمٹی کی خوشبوان کی زندگی کاسرمایہ ہے۔حاصل سفربھی ہے اور زندہ رہنے کاسبب بھی۔پنجاب اس شخص میں آکر خودبخود آپ سے ہم کلام ہوجاتاہے۔
بے ساختگی اورکمال محبت کے ساتھ۔ جس طرح افضل رندھاوانے اپنی نظمیں سنائیں وہ بذات خود کمال تھا۔اردوکے متعلق بڑی ہی دلچسپ بات کی۔ اردو چھوڑ کرپنجابی زبان میں اس لیے لکھناشروع کیاکہ مجھے اردو لکھتے ہوئے آخرتک پتہ نہیں چلتاتھاکہ صحیح زبان لکھ رہاہوں یا غلط۔ پنجابی کیونکہ مادری زبان ہے اس لیے اس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔انگریزی،اردواورپنجابی پریکساں قدرت رکھنے والا شخص۔مگرشائدانھیں پنجابی میں لکھنے میں وہ لطف آتا ہے جو دوسری زبانوں میں نہیں ہے۔پاکستان اورہندوستان کے ان تمام حصوں میں یکساں مقبول ہیں جہاں جہاں پنجاب کی مٹی میں گھندی ہوئی زبان بولی جاتی ہے۔
زہرہ نگاہ نے کمال مہربانی کی تھی۔کراچی سے تشریف لائیں۔ان کے ساتھ نشست بہت فکرانگیزرہی۔کیاکیالکھ چکی ہیں۔"جنگل کے قانون"کے عنوان سے اپنی آزادنظم سنائی تو لوگوں پرسکوت طاری ہوگیا۔مکمل خاموشی۔ جب" میں بچ گئی ماں"سنائی گئی تواکثرلوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایک ایسی بچی کی کہانی جوابھی پیداہی نہیں ہوئی۔صرف لڑکی ہونے کے جرم میں پیدائش سے پہلے قتل ہوگئی۔یہ اسکا نوحہ ہے۔ فریادہے۔کوک ہے۔
ایک ایسی بچی جو معاشرے میں اپنے خاندان کے مردحضرات کے لیے تشویش، عزت، ذلت اور تقدس کانشان ہے۔لیکن ایک ادنیٰ سانشان۔جسکی اپنی ذات کی کوئی حیثیت نہیں۔میرے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون کی آنکھوں میں بادل سے آچکے تھے۔یہ خاتون میری خوش دامن آپا مسرت عمردرازتھیں۔میں کیوں نہیں رویا۔ صرف اس خوف سے کہ لوگ مجھے کیاسمجھیںگے۔میرے متعلق کیا کہیں گے۔ مگردل میں آنسوگرتے رہے۔بہت مشکل ہے۔ صاحب بہت مشکل ہے۔
انگریزی ناول پرنویدشہزادکی گفتگوبہت متاثرکن تھی۔ ان کا مہر تارڑسے مکالمہ تھا۔نویدشہزاد کافکری پھیلاؤانتہائی وسیع ہے۔ وہ انگریزی ادب کے موجودہ لکھنے والوں کوملک اورخطے کی بنیادپرتقسیم کرنے کے پیہم خلاف تھیں۔انگریزی ناول کے مصنفین کوکسی ایک ملک یاریاست سے منسوب کرنے سے اختلاف رکھتی ہیں۔
انگریزی میں کہانیاں اور ہمارے خطے سے لکھنے والوں پرسیرحاصل گفتگوہوئی۔اپنی لاعلمی پر نادم ہواکہ ایس اے رحمان کی بیٹی کے متعلق مجھے اتنی کم معلومات ہیں۔بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگاکہ آج کی الحمرا آرٹس کونسل دراصل ایس اے رحمان کی ذاتی کوشش اورادب دوستی کی وجہ سے قائم ہوئی۔نویدشہزادنے اس وقت کالاہور دیکھا ہواہے جس میں قوت برداشت بھی تھی اورثقافتی رچاؤ بھی۔
ڈرامہ پربات کرنے کے لیے کمال احمدرضوی اور عثمان پیرذادہ موجودتھے۔کمال احمدرضوی اپنے فن کاوہ بادشاہ ہے جسکے دربارمیں فنکاروں کو فنکارہونے کی سند عطاکی جاتی ہے۔ کمال احمدرضوی سے پوچھاگیاکہ آپ نے ڈراموں میں کام کیوں شروع کیا۔بے تکلفی سے کہنے لگے، کہ "فاقوں سے بچنے کے لیے"۔ٹیلی ویژن اور تھیٹر پر ان کی جتنی پذیرائی ہوئی وہ کمال احمدرضوی کوباکمال کرتی گئی۔کمال احمدرضوی کی گفتگو میں آج بھی وہی کشش ہے جو عین جوانی میں انکاخاصہ تھی۔
کمال احمدرضوی کے چہرے پر وہی ذہین معصومیت موجود تھی۔جوبلیک اینڈوائٹ ٹی وی کے دورمیں سب سے زیادہ مقبول پروگرام الف نون کی پہچان تھی۔عثمان پیرزادہ نے گورنمنٹ کالج لاہورمیں اپنے زمانہ طالبعلمی کے پہلے کھیل بنانے کاذکرکیا۔بتانے لگے کہ پورے کھیل کے لیے پندرہ سوروپے کی ضرورت تھی۔ کسی بھی طالبعلم کے پاس پیسے نہیں تھے ۔پندرہ سوروپے کس نے فراہم کیے۔یہ گورنمنٹ کالج میں ان کے کلاس فیلو شہبازشریف تھے۔شہبازشریف سیاست کی پیچیدگیوں میں اتنے گم ہوچکے ہیں کہ اب سوچ کربھی حیرت ہوتی ہے کہ اس شخص نے نوجوانی میں ڈرامہ کواتنی اہمیت دی ہوگی۔
اس کالم میں تین خوبصورت نشستوں کا ذکر قصداً نہیں کررہا۔فیض صاحب کی باکمال بیٹی اورنواسے عدیل ہاشمی، مستنصرحسین تارڑکی دلچسپ گفتگو،راحت اور ساحرہ کاظمی کی خوبصورت باتوںکا۔یہ ذکرپھرکبھی سہی۔ سات بجے شام کو ہال میں یہ عالم تھاکہ متعددخواتین و حضرات فرش پرآرام سے بیٹھے ہوئے ان تمام بڑے لوگوں کی باتیں سن رہے تھے۔ کسی نے یہ نہیں کہاکہ اگر کرسی نہیں ہے تووہ واپس چلا جائیگا۔ سیکڑوں لوگ زمین اورسیڑھیوں پربیٹھے تھے۔
اتنی ہی تعداد میں لوگ راہداریوں میں کھڑے تھے۔ انٹرلوپ کے مالک مصدق ذوالقرنین جومیرے کیڈٹ کالج حسن ابدال کے دوست ہیں، اعلان کرکے سب کو حیران کردیاکہ وہ کراچی کے آرٹ کے سب سے بڑے ادارے کی طرح فیصل آباد میں اسی طرح کاادارہ قائم کرنے میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مصدق کی دریا دلی کاجائزفائدہ حکومت کیسے اٹھاتی ہے یہ اب انکاکام ہے۔واپسی پرپتہ نہیں کیوں مجھے ایسے لگ رہاتھاکہ میںذہنی طورپرابھی تک آرٹس کونسل کی راہداری میں اکیلا کھڑا سوچ رہاہوں کہ یہ ادیب فنکاراورکون تھے۔کہاں سے آئے اورکہاں چلے گئے۔ہال خالی کیسے ہوگیا؟