ان تینوں کو دیوالی مبارک
یہ دین دیوالی کا دین نہ سہی تہوار سہی جس کے پیچھے ہندو دین کی ایک داستان ہے۔
اگر عربوں کی اس مشہور ضرب المثل میں کہیں تجربے کی کچھ سچائی ہے تو ان دنوں یہ پاکستان کے عوام پر ضرور صادق آنی چاہیے۔ یہ ضرب المثل ہے ''الناس علی دین ملو کہم'' کہ عوام اپنے حکمرانوں کے دین پر چلتے ہیں، تجربے سے درست ثابت ہوتی ہے۔ ان دنوں ہمارا دین دیوالی ہے جس پر ایک نہیں تین درجہ اول کے سیاستدان جن میں ایک سچ مچ کا حکمران بھی شامل ہے چل رہے ہیں اور اس کی پیروی اور صداقت کا اعلان کر رہے ہیں۔
یہ دین دیوالی کا دین نہ سہی تہوار سہی جس کے پیچھے ہندو دین کی ایک داستان ہے۔ ہندو مذہب جو چند داستانوں کا مجموعہ ہے ان میں دیوالی سے متعلق داستان سب سے زیادہ مقبول ہے کہ اس کے پس منظر میں خوشی کی روایت ہے جسے ہر سال جشن برپا کر کے منایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں دیوالی منائی گئی اور پاکستان میں بھی منائی گئی اس کی تقریبات میں ہمارے تین بڑے ملک کے مختلف حصوں میں جا کر شریک ہوئے۔ عزیزم بلاول بھٹو جو پیپلز پارٹی کو پال رہے ہیں یا اس کی گود میں خود بھی پل رہے ہیں، دیوالی منانے کے لیے تھر کے دور دراز علاقے مٹھی جا پہنچے۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور دو عدد اپنی ڈبل مطلقہ خواتین کے شوہر جناب عمران خان نے سندھ کے تاریخی مقام عمر کوٹ میں دیوالی کا تہوار منایا جہاں کبھی شہنشاہ اکبر پیدا ہوا تھا اور جناب وزیراعظم نے کراچی میں دیوالی کے تہوار کی ایک تقریب میں شرکت کی اور اس میں زبردست تقریریں کیں اور جوش و جذبے کا اظہار بھی کیا۔ اس طرح ہمارے تین رہنماؤں نے ہندوؤں کی دیوالی کے تہوار میں خوشدلانہ شرکت کی اور اپنے بھارتی پڑوسیوں کو خوش کیا۔
پاکستان کے اندر آباد اور پاکستانی ہندو بھی بہت خوش ہوئے۔ کسی دانشور نے لکھا ہے کہ بھارت کو سیکولر کہنا اور کہلوانا اسے ہندو بھارت بنانا اور سمجھنا ہے کیونکہ بھارت اگر سیکولر ہو گا تو وہ خالص ہندو ہو گا۔ ان دنوں بعض اصطلاحیں بہت مقبول ہو رہی ہیں جن میں سے ایک 'سیکولر' ہے دوسری لبرل۔
پاکستان کے روشن خیالوں میں سیکولر کی اصطلاح بہت مقبول ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ملک حسب روایت اور تاریخ ایک مسلمان ملک نہیں ایک سیکولر ملک ہے جس کا کوئی دین مذہب نہیں ہے بلکہ ایسی پابندیوں سے مکمل آزاد ہے اور اسلام سمیت اس کا کوئی دین مذہب نہیں ہے۔ یہ وہ سیکولر پاکستانی ہیں جو پاکستان کی دانشوری کی دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔
سیکولر کے علاوہ ایک اور اصطلاح ہے 'لبرل' کی یعنی کسی ذہنی آوارہ اور بے راہ رو مکمل آزاد انسان کی جس نے ہر پابندی کو اتار پھینکا ہے اور وہ ایک بے لگام انسان ہے جو کسی سمت کا رخ بھی کر سکتا ہے یعنی آپ بھی صحیح کہتے ہیں اور وہ بھی صحیح ہیں قسم کی دوغلی پالیسی ایسے لبرل انسان کو جناب ماؤزے تنگ نے منافق کہا ہے۔ ہم مسلمان بھی اسے دین و ایمان سے محروم انسان سمجھتے ہیں اور ناقابل اعتبار۔
بات ہندوؤں کے تہوار دیوالی میں لمبے پینڈے طے کر کے ہمارے بڑے لیڈروں کے قدم رنجہ کی ہو رہی تھی جنہوں نے اپنے لبرل ہونے کا عملاً ثبوت دیا اور اس کا برملا اعلان بھی کیا۔ تحریک انصاف کے نوخیز لیڈر جناب عمران خان نے عمر کوٹ میں دیوالی کا تہوار منایا۔ یہ شہر شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش کی وجہ سے بہت مشہور اور تاریخی ہے۔
اس سے پہلے جناب وزیراعظم میاں نواز شریف نے ذوق و شوق سے کراچی میں دیوالی منائی اور ایک تقریب میں نہایت پرجوش انداز کے ساتھ شرکت کی اور اپنے وجود پر ہولی کا رنگ چڑھانے کی آرزو کی۔ انھوں نے حیدر آباد میں ایک صوفی بھگت کنورام کے نام سے منسوب ایک میڈیکل کمپلیکس کی تعمیر کا اعلان کیا۔ بھگت کنورام صوفی مشہور تھے جو یہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں برابر کے مقبول تھے اور راگ کے ذریعے صوفی ازم کو پھیلاتے تھے۔
انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے نام پر ایک عمارت کا اعلان بڑی بات سمجھی جا رہی ہے۔ میاں صاحب نے مسلمان ہندو سکھ عیسائی سب پاکستانیوں کے لیے مساوات کا اعلان بھی کیا وہ سب کے وزیراعظم ہیں اور وہی تقریر کی جو قائداعظم نے 11 اگست کو اسمبلی میں کی تھی۔ ان کی اس تقریر کو بھی بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ہمارے پاکستان کی تین سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے اس طرح دیوالی منائی کہ قوم کو لطف آ گیا۔
یہ سب اتفاق تھا یا منصوبہ کہ ہمارے سیاستدانوں نے دیوالی کے تہوار کا بہانہ بنا کر بھارت کو خوش کر دیا بلکہ بھارت سے زیادہ ہندو برادری کو بھی جو پاکستان میں بھی ہے اور بھارت میں بھی آج کے دور میں انتہا پسندی کو مسترد کر دیا گیا ہے اور ہر مذہب اور نسل اور برادری کو سامنے رکھا گیا ہے جس سے کوئی ملک بنتا ہے اور پاکستان تو ماشاء اللہ ایک رنگا رنگ ملک ہے جس میں کئی برادریاں آباد ہیں اور مختلف مذہب کے لوگ ہیں اور نسل در نسل مختلف نظریاتی گروہ چلے آ رہے ہیں وہ سب ایک ملک ہیں مل جل کر آباد ہیں۔ ان میں بھارت کی وجہ سے ہندو بہت اہم ہیں اور ان کا دیوالی کا تہوار بہت مقبول ہے۔
یہ تہوار مدت سے پاکستان میں بھی منایا جاتا رہا ہے البتہ اس دفعہ پاکستان کے تین بڑے سیاسی لیڈروں نے اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے انداز میں یہ تہوار منا کر نہ صرف ہندوؤں کو خوش کیا ہے بلکہ ملک بھر میں یک جہتی کی مثال قائم کی ہے۔ ان تینوں کو دیوالی مبارک ہو اور ان کے مقاصد جو بھی ہیں ان میں معاون ہو۔ بھارت ہمارا ازلی و ابدی پڑوسی ہے اور اس کی دوستی اور دشمنی بھی ایسی ہی ہے اس کو دھیما کرنے کے لیے بے ضرر اور خوشدلانہ تہواروں میں شرکت بہت مفید ہے اور ہمارے سیاستدانوں نے اتفاقاً عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔
ایک نہایت ضروری تصحیح
پیرس کی یادوں کے بارے میں ایک کالم میں محترم المقام ڈاکٹر حمید اللہ کے اسم گرامی کی جگہ عبداللہ چھپ گیا ہے۔ قارئین کی غیر معمولی تعداد نے پروف ریڈنگ کی اس غلطی کی تصحیح کی ہے اور صحیح نام ڈاکٹر حمید اللہ لکھا ہے اور لکھنے کا کہا ہے۔ خوشی ہے کہ قارئین کو فنکاروں سے زیادہ ایک عالم یاد ہے۔ عالم مرتبت ڈاکٹر حمید اللہ اسلامی تاریخ اور علوم کے غیرمعمولی ماہر اور عالم ہیں اور قارئین کا اس عالم کے ساتھ جو تعلق ہے وہ قابل فخر اور اطمینان ہے۔(کالم نویس)
یہ دین دیوالی کا دین نہ سہی تہوار سہی جس کے پیچھے ہندو دین کی ایک داستان ہے۔ ہندو مذہب جو چند داستانوں کا مجموعہ ہے ان میں دیوالی سے متعلق داستان سب سے زیادہ مقبول ہے کہ اس کے پس منظر میں خوشی کی روایت ہے جسے ہر سال جشن برپا کر کے منایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں دیوالی منائی گئی اور پاکستان میں بھی منائی گئی اس کی تقریبات میں ہمارے تین بڑے ملک کے مختلف حصوں میں جا کر شریک ہوئے۔ عزیزم بلاول بھٹو جو پیپلز پارٹی کو پال رہے ہیں یا اس کی گود میں خود بھی پل رہے ہیں، دیوالی منانے کے لیے تھر کے دور دراز علاقے مٹھی جا پہنچے۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور دو عدد اپنی ڈبل مطلقہ خواتین کے شوہر جناب عمران خان نے سندھ کے تاریخی مقام عمر کوٹ میں دیوالی کا تہوار منایا جہاں کبھی شہنشاہ اکبر پیدا ہوا تھا اور جناب وزیراعظم نے کراچی میں دیوالی کے تہوار کی ایک تقریب میں شرکت کی اور اس میں زبردست تقریریں کیں اور جوش و جذبے کا اظہار بھی کیا۔ اس طرح ہمارے تین رہنماؤں نے ہندوؤں کی دیوالی کے تہوار میں خوشدلانہ شرکت کی اور اپنے بھارتی پڑوسیوں کو خوش کیا۔
پاکستان کے اندر آباد اور پاکستانی ہندو بھی بہت خوش ہوئے۔ کسی دانشور نے لکھا ہے کہ بھارت کو سیکولر کہنا اور کہلوانا اسے ہندو بھارت بنانا اور سمجھنا ہے کیونکہ بھارت اگر سیکولر ہو گا تو وہ خالص ہندو ہو گا۔ ان دنوں بعض اصطلاحیں بہت مقبول ہو رہی ہیں جن میں سے ایک 'سیکولر' ہے دوسری لبرل۔
پاکستان کے روشن خیالوں میں سیکولر کی اصطلاح بہت مقبول ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ملک حسب روایت اور تاریخ ایک مسلمان ملک نہیں ایک سیکولر ملک ہے جس کا کوئی دین مذہب نہیں ہے بلکہ ایسی پابندیوں سے مکمل آزاد ہے اور اسلام سمیت اس کا کوئی دین مذہب نہیں ہے۔ یہ وہ سیکولر پاکستانی ہیں جو پاکستان کی دانشوری کی دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔
سیکولر کے علاوہ ایک اور اصطلاح ہے 'لبرل' کی یعنی کسی ذہنی آوارہ اور بے راہ رو مکمل آزاد انسان کی جس نے ہر پابندی کو اتار پھینکا ہے اور وہ ایک بے لگام انسان ہے جو کسی سمت کا رخ بھی کر سکتا ہے یعنی آپ بھی صحیح کہتے ہیں اور وہ بھی صحیح ہیں قسم کی دوغلی پالیسی ایسے لبرل انسان کو جناب ماؤزے تنگ نے منافق کہا ہے۔ ہم مسلمان بھی اسے دین و ایمان سے محروم انسان سمجھتے ہیں اور ناقابل اعتبار۔
بات ہندوؤں کے تہوار دیوالی میں لمبے پینڈے طے کر کے ہمارے بڑے لیڈروں کے قدم رنجہ کی ہو رہی تھی جنہوں نے اپنے لبرل ہونے کا عملاً ثبوت دیا اور اس کا برملا اعلان بھی کیا۔ تحریک انصاف کے نوخیز لیڈر جناب عمران خان نے عمر کوٹ میں دیوالی کا تہوار منایا۔ یہ شہر شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش کی وجہ سے بہت مشہور اور تاریخی ہے۔
اس سے پہلے جناب وزیراعظم میاں نواز شریف نے ذوق و شوق سے کراچی میں دیوالی منائی اور ایک تقریب میں نہایت پرجوش انداز کے ساتھ شرکت کی اور اپنے وجود پر ہولی کا رنگ چڑھانے کی آرزو کی۔ انھوں نے حیدر آباد میں ایک صوفی بھگت کنورام کے نام سے منسوب ایک میڈیکل کمپلیکس کی تعمیر کا اعلان کیا۔ بھگت کنورام صوفی مشہور تھے جو یہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں برابر کے مقبول تھے اور راگ کے ذریعے صوفی ازم کو پھیلاتے تھے۔
انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے نام پر ایک عمارت کا اعلان بڑی بات سمجھی جا رہی ہے۔ میاں صاحب نے مسلمان ہندو سکھ عیسائی سب پاکستانیوں کے لیے مساوات کا اعلان بھی کیا وہ سب کے وزیراعظم ہیں اور وہی تقریر کی جو قائداعظم نے 11 اگست کو اسمبلی میں کی تھی۔ ان کی اس تقریر کو بھی بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ہمارے پاکستان کی تین سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے اس طرح دیوالی منائی کہ قوم کو لطف آ گیا۔
یہ سب اتفاق تھا یا منصوبہ کہ ہمارے سیاستدانوں نے دیوالی کے تہوار کا بہانہ بنا کر بھارت کو خوش کر دیا بلکہ بھارت سے زیادہ ہندو برادری کو بھی جو پاکستان میں بھی ہے اور بھارت میں بھی آج کے دور میں انتہا پسندی کو مسترد کر دیا گیا ہے اور ہر مذہب اور نسل اور برادری کو سامنے رکھا گیا ہے جس سے کوئی ملک بنتا ہے اور پاکستان تو ماشاء اللہ ایک رنگا رنگ ملک ہے جس میں کئی برادریاں آباد ہیں اور مختلف مذہب کے لوگ ہیں اور نسل در نسل مختلف نظریاتی گروہ چلے آ رہے ہیں وہ سب ایک ملک ہیں مل جل کر آباد ہیں۔ ان میں بھارت کی وجہ سے ہندو بہت اہم ہیں اور ان کا دیوالی کا تہوار بہت مقبول ہے۔
یہ تہوار مدت سے پاکستان میں بھی منایا جاتا رہا ہے البتہ اس دفعہ پاکستان کے تین بڑے سیاسی لیڈروں نے اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے انداز میں یہ تہوار منا کر نہ صرف ہندوؤں کو خوش کیا ہے بلکہ ملک بھر میں یک جہتی کی مثال قائم کی ہے۔ ان تینوں کو دیوالی مبارک ہو اور ان کے مقاصد جو بھی ہیں ان میں معاون ہو۔ بھارت ہمارا ازلی و ابدی پڑوسی ہے اور اس کی دوستی اور دشمنی بھی ایسی ہی ہے اس کو دھیما کرنے کے لیے بے ضرر اور خوشدلانہ تہواروں میں شرکت بہت مفید ہے اور ہمارے سیاستدانوں نے اتفاقاً عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔
ایک نہایت ضروری تصحیح
پیرس کی یادوں کے بارے میں ایک کالم میں محترم المقام ڈاکٹر حمید اللہ کے اسم گرامی کی جگہ عبداللہ چھپ گیا ہے۔ قارئین کی غیر معمولی تعداد نے پروف ریڈنگ کی اس غلطی کی تصحیح کی ہے اور صحیح نام ڈاکٹر حمید اللہ لکھا ہے اور لکھنے کا کہا ہے۔ خوشی ہے کہ قارئین کو فنکاروں سے زیادہ ایک عالم یاد ہے۔ عالم مرتبت ڈاکٹر حمید اللہ اسلامی تاریخ اور علوم کے غیرمعمولی ماہر اور عالم ہیں اور قارئین کا اس عالم کے ساتھ جو تعلق ہے وہ قابل فخر اور اطمینان ہے۔(کالم نویس)