نفاذ اردو کی راہ میں حائل رکاوٹیں

ہمارے اقتدارکے بھوکے سیاستدان بہ ظاہر تو دن رات آئین کا چرچا کرتے رہتے ہیں

S_afarooqi@yahoo.com

ہمارے اقتدارکے بھوکے سیاستدان بہ ظاہر تو دن رات آئین کا چرچا کرتے رہتے ہیں لیکن عملاً آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور نمایاں ثبوت ہماری قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کے معاملے میں ان کی مجرمانہ غفلت اور بے اعتنائی کی صورت میں ہمیں بالکل واضح طور پر نظر آتا ہے۔

اس فعل میں انھیں بیوروکریسی کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، جو قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل اپنے فرنگی آقاؤں کی روش پر گامزن ہے۔اگرچہ 1973 کے آئین میں قطعی غیر مبہم اور بالکل واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ نفاذ آئین ٹھیک 15 برس بعد اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جائے گا، لیکن افسوس صد افسوس 1988 کوگزرے ہوئے ایک مدت درازہوجانے کے بعد بھی اردوکو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا۔

چاروناچارآئین کی اس مسلسل اور کھلم کھلا خلاف ورزی کا خاتمہ کرنے کے لیے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کو کمربستہ ہوکر میدان میں اترنا پڑا۔ان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے 12 سال پرانی پٹیشن کا فیصلہ سناتے بے زبان قومی زبان کی فریاد کی شنوائی کی اور اردو کے نفاذ کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 251 کو بلاتاخیر نافذ کرنے کا حکم صادرکردیا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان صرف24 روزہ انتہائی مختصر مدت کے لیے اپنے منصب جلیلہ پر فائز رہے لیکن نفاذ اردوکا تاریخ ساز فیصلہ صادر کرنے کے نتیجے میں وہ وطن عزیز کی عدلیہ کی تاریخ میں اپنا نام سنہری الفاظ میں لکھوا گئے۔ بلاشبہ یہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردوکے حق میں اپنا فیصلہ بھی اردو میں ہی تحریرکیا تھا اور یہ فیصلہ لکھتے ہوئے ارباب بست وکشاد کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ اردوکو بطور قومی زبان تین ماہ کے اندر اندر تمام سرکاری اداروں میں نافذ العمل کردیا جائے۔

سپریم کورٹ کے اس حکم کی تعمیل میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP)نے انگریزی زبان کی جگہ اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کی غرض سے تمام سرکاری اداروں میں ذریعہ ابلاغ بنانے کے لیے ایک دارالترجمہ بھی قائم کردیا اور سرکاری تقریبات اورکانفرنسوں میں اردو کو وسیلہ ابلاغ بنانے کی ہدایات بھی جاری کردیں مگر نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ان ہدایات پر آج تک کان نہیں دھرا گیا ہے اور سپریم کورٹ کی مقررکردہ تین ماہ کی مدت گزر جانے کے بعد بھی قومی زبان کی جانب سے بے اعتنائی کا سلسلہ جاری ہے۔

نفاذ اردو کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا تقاضا تھا کہ حکمراں خود اس معاملے میں پہل کرکے دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کریں مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں پرانی روش پرگامزن ہیں جس کی تازہ ترین مثال وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کی صورت میں موجود ہے جسے انھوں نے قومی زبان اردو کے بجائے انگریزی میں فرمانے کو ترجیح دی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی سب سے پہلی خلاف ورزی چیئرمین سینیٹ نے اس وقت ہی کردی جب انھوں نے عدالت عظمیٰ کے حکم کے فوراً بعد ایوان بالا کی تمام کارروائی انگریزی زبان میں پڑھ کر سرانجام دی۔

اردو کے ساتھ اس سے بڑی ستم ظریفی بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ نیسپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو خوش آمدید بھی انگریزی زبان میں ہی کیا جب کہ چیف جسٹس جمالی نے اس کے جواب میں انتہائی شستہ اردو میں اپنا خطبہ دیا۔ چیف جسٹس نے اپنے اس طرز عمل سے نہ صرف قومی زبان اردو کے حق میں سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے کے احترام کی بذات خود ایک روشن اور قابل تقلید مثال پیش کی بلکہ اشارتاً میاں رضا ربانی کو بھی اس فیصلے پر عمل کرنے کی خوبصورت ترغیب دی۔


افسوس کہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے جب سے 18 ویں ترمیم کو متعارف کرایا ہے تب ہی سے اردو ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی۔ لسانی تعصب کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سندھی قوم پرستی کے جھنڈے تلے مصور پاکستان علامہ اقبال جیسے عظیم قومی شاعر کو درسی نصاب سے خارج کرانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔

ایسے حالات میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے یوم اقبال پر 9 نومبر کو ہونے والی روایتی عام تعطیل کو منسوخ کروا کر کوئی قومی خدمت نہیں بلکہ Disservice to the nation انجام دینے کی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ میاں صاحب سے ہماری گزارش ہے کہ وہ نادان دوستوں کے مشوروں پر عمل کرنے کے بجائے اپنی عقل سلیم پر بھروسہ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

اردو کو ہماری قومی زبان ہی کا نہیں بلکہ ہماری تاریخ اور ہماری قومی تہذیب و یکجہتی کا ایک جزو لاینفک ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ قیام پاکستان میں اردو کا کلیدی کردار ناقابل تردید حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔

اردو ہی کیماڑی سے خیبر تک تمام اہل پاکستان کے لیے رابطے کی کڑی ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کی بے پناہ اہمیت و افادیت کی بنا پر ہی آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی اس کے فروغ اور تحفظ پر ہمیشہ زور دیا تھا۔ چنانچہ 10 اپریل 1946 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہوگی۔ یہی بات 21 مارچ 1948 کو ڈھاکا میں بھی پرزور الفاظ میں دہرائی گئی۔

نفاذ اردو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا طبقاتی تعلیمی نظام ہے، جسے ہمارے انگریزی زدہ حکمراں ٹولے اور بیوروکریسی کی پشت پناہی اور خفیہ حمایت حاصل ہے۔ ہماری اشرافیہ صدق دل سے نہیں چاہتی کہ قومی زبان اردو کو فروغ حاصل ہو۔ اس کے لیے وہ ہر طرح کے حیلوں بہانوں سے کام لے رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری اشتہاری صنعت اور الیکٹرانک میڈیا بھی نفاذ اردو کی راہ میں ایک رکاوٹ بنا ہوا ہے اور وہ اردو کو فروغ دینے کے بجائے اردش (Urdish) کو بڑھاوا دے رہا ہے جو نہ اردو ہے اور نہ ہی انگلش بلکہ ان دونوں زبانوں کا ایک عجیب قسم کا ملغوبہ ہے۔

قومی زبان کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ ہماری افسر شاہی ہے جس نے نہ صرف ہمارے ارباب اقتدار کو بلکہ ہمارے عوام کو بھی انگریزی نوازی اور انگریز پرستی کی غلامانہ ذہنیت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہی لابی ہے جس کی زیر سرپرستی وطن عزیز میں فرنگی کلچر روز بروز پروان چڑھ رہا ہے اور انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کا جال روز و شب تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے۔

مسلم دنیا میں پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں قومی زبان اردو کے بجائے سرکاری امور میں انگریزی کو غلبہ حاصل ہے، حالانکہ دنیا کے اکثر ممالک بشمول چین، جاپان اور روس اپنے تمام امور مملکت اپنی اپنی قومی زبانوں میں ہی سرانجام دے رہے ہیں اور ترقی و کامرانی کی نت نئی منزلیں طے کر رہے ہیں۔

اس تناظر میں یہ خبر نہایت خوش آیند اور حوصلہ افزا ہے کہ کراچی کے شاعر و ادیب پروفیسر رئیس علوی نے اسلامی ممالک کے وائس چانسلروں کی کانفرنس میں اردو زبان کے سوا کسی بھی دوسری زبان میں اپنا مقالہ پیش کرنے سے معذرت کرلی ہے اور اس بارے میں ایچ ای سی سمیت تمام متعلقہ اداروں کو مطلع بھی کردیا ہے۔

اس بارے میں ایچ ای سی کو تجویزکیے گئے خط میں پروفیسر علوی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں اگر انھیں اردو زبان میں اپنا مقالہ پیش کرنے کی اجازت نہ دی گئی تو ایچ ای سی کا یہ فیصلہ توہین عدالت کے زمرے میں آسکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پروفیسر علوی کے اس اقدام سے بابائے اردو مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سید عبداللہ، شان الحق حقی، ڈاکٹر وحید قریشی اور پروفیسر ابواللیث صدیقی کی ارواح عالم بالا میں بہت خوش ہوئی ہوں گی۔
Load Next Story