حج تحمّل و برداشت کا درس دیتا ہے
’’جو شخص اس ماہ میں حج کی نیت کرے تو حج کے دنوں میں نہ کوئی بُرا کام کرے، نہ کسی سے جھگڑے۔‘‘
SUKKUR:
قرآن حکیم میں باری تعالیٰ کا حکم آیا ہے:''لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ اﷲ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔'' (سورۂ آل عمران)
رسول کریمﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں صرف ایک حج کیا، خود اس حج کی قیادت فرمائی اور چوں کہ یہ آپؐ کی زندگی کا آخری حج تھا، اسی لیے یہ تاریخ اسلام میں حجۃ الوداع کے نام سے موسوم ہوا۔ وہ لوگ نہایت خوش بخت ہیں جنھیں اﷲ نے حج کی سعادت حاصل کرنے کی توفیق دی اور انھوں نے حج کا فرض ادا کرکے تقویٰ حاصل کیا۔
حج کے معنیٰ قصد یا ارادے کے ہیں۔ بیت اﷲ کے حج کے ارادے سے مراد صرف اﷲ کی رضا ہے، اس کا مقصد نہ تو تجارت ہے اور نہ ہی سیرو تفریح۔ حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ حج کے افعال میں عاشقانہ شان ہے۔ جس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا عشق ہوگا، وہ دین میں زیادہ مضبوط ہوگا۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''بیت اﷲ کے گرد پھرنا اور صفاومروہ کے درمیان سعی کرنا، رمی کرنا، یہ سب اﷲ کی یاد کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔''
قرآن حکیم میں آیا ہے:''بے شک، صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو شخص خانۂ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے اور جو کوئی نیک کام کرے تو اﷲ قدر شناس اور دانا ہے۔'' (البقرہ 158)
طواف کرنے کے بعد سعی کرنا واجب ہے جس کا مطلب صفا اور مروہ کے درمیان مخصوص طریقے پر سات چکر لگانا ہے۔ مسجدالحرام کے قریب صفا اور مروہ نامی دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان دوڑنا سعی کہلاتا ہے۔ حج کے ذریعے لوگوں کی رسوم اور طریقوں کی اصلاح ہوئی جس کے بعد ہر رسم کا رخ اﷲ کی جانب مڑگیا۔ طواف اور سعی کے بعد حاجی منیٰ جاتے ہیں جہاں اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''جب تم مناسک ادا کرو تو اپنے آبا و اجداد کے ذکر کے بجائے اﷲ کا بہت ذکر کرو۔'' (البقرہ200)
منیٰ میں ماضی قدیم میں تجارتی بازار لگا کرتے تھے جہاں اپنے آبا و اجداد کی خوبیاں بڑھا چڑھاکر بیان کی جاتی تھیں۔ لیکن اﷲ کے رسولؐ ﷺ نے منیٰ کے اس اجتماع کا رخ اﷲ کے ذکر کی طرف موڑ دیا۔ منیٰ کے بعد عرفات میں وقوف ضروری ہے اور یہی حج کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ یہاں حاجی اﷲ سے مغفرت مانگتے ہیں۔ وقوف عرفات کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ عرفات کے وقوف کے بعد مزدلفہ کی طرف روانگی ہوجاتی ہے۔ راستے میں حاجی تسبیح، ذکر اور تلبیہہ پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں، یہاں ایک پہاڑ مشعرالحرام ہے۔ قرآن میں آیا ہے:''اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعرالحرام (مزدلفہ) میں اﷲ کا ذکر کرو۔''
یہاں حاجی عبادت، ذکر، استغفار توبہ میں مشغول رہتے ہیں۔ یہاں سے حاجی دوبارہ منیٰ کی طرف کوچ کرجاتے ہیں جہاں پہنچ کر قربانی کرتے اور سر منڈواتے ہیں۔
قرآن میں آیا ہے:''نہ ان کے گوشت اﷲ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔'' (الحج 37)
اس کے بعد تین جمرات کی رمی کرنی ہوتی ہے۔ حج کے فرائض میں احرام باندھنا، عرفات کا وقوف اور طواف زیارت ضروری ہے۔ چناں چہ حج کو مبرور بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں خیر اور بھلائی موجود ہو۔ حج میں کوئی گناہ یا دکھاوے کا عنصر نہ ہو۔ اسی سے اﷲ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ حج میں دینی، دنیاوی، روحانی اور جسمانی تمام فوائد موجود ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ علوم و فنون دوسرے انسانوں کے ساتھ ملاقات میں اچھے نتائج مرتب کرتے ہیں۔ چناں چہ خانہ بدوش اور صحرا نورد علوم فنون سے خالی رہ جاتے ہیں۔
یہی فائدہ حج کا ہے جس میں علوم و فنون اور کمالات دوسرے انسانوں کی صحبت کے طفیل حاصل ہوتے ہیں۔ حج کے اجتماع عظیم میں ایک دوسرے سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کے بہترین مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے سے آئے ہوئے لوگوں کے علم و ہنر، تہذیب و تمدن اور اچھائیاں منتقل ہونے کا بہترین ذریعہ حج ہے۔ حج سے اظہار یک جہتی کی مثال ملتی ہے۔ اﷲ سے محبت کرنے والے اپنے کاروبار چھوڑ کر اﷲ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ حج میں وقت، پیسہ، جسمانی تھکن، مالی پریشانی ہوسکتی ہے، مگر ان تمام تکالیف پر اﷲ کی محبت اور خوش نودی غالب رہتی ہے۔
ہر حاجی ہر طرح کی تکلیف برداشت کرنے کا جذبہ لے کر حج کرنے جاتا ہے۔ وہ پہلے سے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے کہ مجھے اﷲ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ہر چیز برداشت کرنی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اﷲ کے در کا بھکاری سمجھتا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی مغفرت حاصل کرکے واپس لوٹے۔ حج کا اجتماع اخوت دینی کو بڑھاتا ہے۔ یہ عملاً بتاتا ہے کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں جو ایک لباس اور ایک ہی جیسی عبادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں اخوت اور بھائی چارگی نظر آتی ہے۔ حج رنگ و نسل، زبان و مکاں اور جگہ جیسے امتیازات سے دور ہوتا ہے۔
حاجیوں کا ایک جیسا لباس، ایک جیسے آداب اور عبادت کے ایک جیسے طریقۂ کار کا ہونا حاجیوں کے مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ ہر حاجی ایک اچھے مسلمان، اچھے انسان کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہر حاجی اپنے ملک اور قوم کی طرف سے محبت اور امن کا سفیر ہوتا ہے اور اپنے ملک اور قوم کی نمائندگی اپنے طریقۂ کار سے کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر اس کے ملک کے متعلق رائے قائم کی جاتی ہے۔ ہر حاجی کی ساری حرکات و سکنات ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اﷲ کے حکم کا پابند ہے۔ اﷲ کے احکام میں رہتے ہوئے اس کی خواہشات پوری کرتا ہے۔ حج کے ہر فرض اور سنت کو اس کی حدود میں رکھتا ہے۔ وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اﷲ کے حکم کی بجا آوری میں کسی طرح کی کوتاہی نہ رہ جائے۔ حج دراصل انسان کو تحمل و برداشت کا سبق دیتا ہے اور زینت اور بناؤ سنگھار کی طرف سے اس کی رغبت ہٹاکر آخرت کی طرف رغبت دلاتا ہے۔
قرآن میں آیا ہے:''جو شخص اس ماہ میں حج کی نیت کرے تو حج کے دنوں میں نہ کوئی برا کام کرے، نہ کسی سے جھگڑے اور جو نیک کام تم کروگے وہ اﷲ کو معلوم ہوجائے گا۔'' (البقرہ197) حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص کعبے کی زیارت کو آیا، اور اس نے اﷲ کی نافرمانی کا کوئی کام نہ کیا تو وہ اپنے گھر اس حالت میں لوٹے گا جس حالت میں اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا۔
حج کے ذریعے انسان کو بدمزاجی اور غصے سے بچنے کی تربیت ملتی ہے۔ وہ خوش مزاج ہوجاتا ہے۔ چناں چہ اسے فسق و فجور، لڑائی جھگڑے اور بدمزاجی پر قابو پانے کی عادت ہوجاتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ کسی نے رسول کریمؐ سے دریافت کیا کہ کون سا عمل افضل ہے تو رحمت عالمﷺ نے ارشاد فرمایا:''اﷲ اور رسول پر ایمان لانا۔''
پوچھا گیا، اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟
سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''اﷲ کے دین کی خاطر جہاد کرنا۔''
پوچھا گیا، اس کے بعد؟
خاتم الانبیاءؐ نے ارشاد فرمایا:''وہ حج جس میں حج کرنے والے سے اﷲ کی نافرمانی نہ ہوئی ہو۔''
حج کی سنت یہ ہے کہ اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں سے فائدہ اٹھائے۔ حضرت ابراہیم کی طرح اﷲ کی دعوت پر سر تسلیم خم کرے، اﷲ کی رضا اور فرماں برداری میں اپنا سر جھکا دے جس کی بناء پر انسان اﷲ کی نوازشوں اور عنایتوں سے مالامال ہوجاتا ہے۔ وہ اﷲ کے حکم کے مطابق بغیر سلے اور سادہ کپڑے پہنتا ہے، بال نہیں منڈواتا، دنیا کے عیش و نشاط ترک کردیتا ہے، خوش بو سے پرہیز کرتا ہے، مزدلفہ اور عرفات کے پہاڑوں میں پھرتا ہے، لبیک کہتا ہے اور ننگے سر پھرتا ہے۔ اﷲ سے محبت رکھنے والا ہی ایسی زندگی کو قبول کرسکتا ہے جس کی جھلک اسے حج میں نظر آتی ہے۔
صاحب استطاعت اﷲ کی بہت سی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جسے یہ نعمتیں نہیں ملیں، وہ کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح دولت مند افراد کے دلوں میں غریبوں کے لیے احساس اجاگر ہوتا ہے۔ حج میں لاکھوں انسانوں کو مصروف عبادت دیکھ کر عبادت کی رغبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اﷲ کی پرکشش معبودیت اور مسجودیت کی شان نظر آتی ہے۔ لاکھوں انسان ایک ساتھ سجدہ کرتے ہیں، ایک ساتھ سارے ارکان ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اتحاد کی نظیر پیدا ہوجاتی ہے۔
صدیوں سے ساری دنیا کے مسلمان ہر سال کعبۃ اﷲ کا حج کرنے آتے ہیں۔ دنیا کے تمام لوگوں کا ایک مرکز پر عظیم الشان اجتماع ایک بے نظیر مثال ہے اور ایک ہی لباس میں ایک ہی جذبات اور تمناؤں کے ساتھ سب کے مقاصد بھی مقدس اور خیالات بھی نیک، سب کی زبانوں سے ادا ہونے والے کلمات بھی ایک ہی ہوتے ہیں:''میں حاضر ہوں اے اﷲ، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بے شک! تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہیں اور ملک بھی تیرا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔''
قرآن حکیم میں باری تعالیٰ کا حکم آیا ہے:''لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ اﷲ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔'' (سورۂ آل عمران)
رسول کریمﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں صرف ایک حج کیا، خود اس حج کی قیادت فرمائی اور چوں کہ یہ آپؐ کی زندگی کا آخری حج تھا، اسی لیے یہ تاریخ اسلام میں حجۃ الوداع کے نام سے موسوم ہوا۔ وہ لوگ نہایت خوش بخت ہیں جنھیں اﷲ نے حج کی سعادت حاصل کرنے کی توفیق دی اور انھوں نے حج کا فرض ادا کرکے تقویٰ حاصل کیا۔
حج کے معنیٰ قصد یا ارادے کے ہیں۔ بیت اﷲ کے حج کے ارادے سے مراد صرف اﷲ کی رضا ہے، اس کا مقصد نہ تو تجارت ہے اور نہ ہی سیرو تفریح۔ حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ حج کے افعال میں عاشقانہ شان ہے۔ جس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا عشق ہوگا، وہ دین میں زیادہ مضبوط ہوگا۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''بیت اﷲ کے گرد پھرنا اور صفاومروہ کے درمیان سعی کرنا، رمی کرنا، یہ سب اﷲ کی یاد کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔''
قرآن حکیم میں آیا ہے:''بے شک، صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو شخص خانۂ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے اور جو کوئی نیک کام کرے تو اﷲ قدر شناس اور دانا ہے۔'' (البقرہ 158)
طواف کرنے کے بعد سعی کرنا واجب ہے جس کا مطلب صفا اور مروہ کے درمیان مخصوص طریقے پر سات چکر لگانا ہے۔ مسجدالحرام کے قریب صفا اور مروہ نامی دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان دوڑنا سعی کہلاتا ہے۔ حج کے ذریعے لوگوں کی رسوم اور طریقوں کی اصلاح ہوئی جس کے بعد ہر رسم کا رخ اﷲ کی جانب مڑگیا۔ طواف اور سعی کے بعد حاجی منیٰ جاتے ہیں جہاں اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''جب تم مناسک ادا کرو تو اپنے آبا و اجداد کے ذکر کے بجائے اﷲ کا بہت ذکر کرو۔'' (البقرہ200)
منیٰ میں ماضی قدیم میں تجارتی بازار لگا کرتے تھے جہاں اپنے آبا و اجداد کی خوبیاں بڑھا چڑھاکر بیان کی جاتی تھیں۔ لیکن اﷲ کے رسولؐ ﷺ نے منیٰ کے اس اجتماع کا رخ اﷲ کے ذکر کی طرف موڑ دیا۔ منیٰ کے بعد عرفات میں وقوف ضروری ہے اور یہی حج کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ یہاں حاجی اﷲ سے مغفرت مانگتے ہیں۔ وقوف عرفات کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ عرفات کے وقوف کے بعد مزدلفہ کی طرف روانگی ہوجاتی ہے۔ راستے میں حاجی تسبیح، ذکر اور تلبیہہ پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں، یہاں ایک پہاڑ مشعرالحرام ہے۔ قرآن میں آیا ہے:''اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعرالحرام (مزدلفہ) میں اﷲ کا ذکر کرو۔''
یہاں حاجی عبادت، ذکر، استغفار توبہ میں مشغول رہتے ہیں۔ یہاں سے حاجی دوبارہ منیٰ کی طرف کوچ کرجاتے ہیں جہاں پہنچ کر قربانی کرتے اور سر منڈواتے ہیں۔
قرآن میں آیا ہے:''نہ ان کے گوشت اﷲ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔'' (الحج 37)
اس کے بعد تین جمرات کی رمی کرنی ہوتی ہے۔ حج کے فرائض میں احرام باندھنا، عرفات کا وقوف اور طواف زیارت ضروری ہے۔ چناں چہ حج کو مبرور بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں خیر اور بھلائی موجود ہو۔ حج میں کوئی گناہ یا دکھاوے کا عنصر نہ ہو۔ اسی سے اﷲ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ حج میں دینی، دنیاوی، روحانی اور جسمانی تمام فوائد موجود ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ علوم و فنون دوسرے انسانوں کے ساتھ ملاقات میں اچھے نتائج مرتب کرتے ہیں۔ چناں چہ خانہ بدوش اور صحرا نورد علوم فنون سے خالی رہ جاتے ہیں۔
یہی فائدہ حج کا ہے جس میں علوم و فنون اور کمالات دوسرے انسانوں کی صحبت کے طفیل حاصل ہوتے ہیں۔ حج کے اجتماع عظیم میں ایک دوسرے سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کے بہترین مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے سے آئے ہوئے لوگوں کے علم و ہنر، تہذیب و تمدن اور اچھائیاں منتقل ہونے کا بہترین ذریعہ حج ہے۔ حج سے اظہار یک جہتی کی مثال ملتی ہے۔ اﷲ سے محبت کرنے والے اپنے کاروبار چھوڑ کر اﷲ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ حج میں وقت، پیسہ، جسمانی تھکن، مالی پریشانی ہوسکتی ہے، مگر ان تمام تکالیف پر اﷲ کی محبت اور خوش نودی غالب رہتی ہے۔
ہر حاجی ہر طرح کی تکلیف برداشت کرنے کا جذبہ لے کر حج کرنے جاتا ہے۔ وہ پہلے سے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے کہ مجھے اﷲ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ہر چیز برداشت کرنی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اﷲ کے در کا بھکاری سمجھتا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی مغفرت حاصل کرکے واپس لوٹے۔ حج کا اجتماع اخوت دینی کو بڑھاتا ہے۔ یہ عملاً بتاتا ہے کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں جو ایک لباس اور ایک ہی جیسی عبادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں اخوت اور بھائی چارگی نظر آتی ہے۔ حج رنگ و نسل، زبان و مکاں اور جگہ جیسے امتیازات سے دور ہوتا ہے۔
حاجیوں کا ایک جیسا لباس، ایک جیسے آداب اور عبادت کے ایک جیسے طریقۂ کار کا ہونا حاجیوں کے مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ ہر حاجی ایک اچھے مسلمان، اچھے انسان کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہر حاجی اپنے ملک اور قوم کی طرف سے محبت اور امن کا سفیر ہوتا ہے اور اپنے ملک اور قوم کی نمائندگی اپنے طریقۂ کار سے کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر اس کے ملک کے متعلق رائے قائم کی جاتی ہے۔ ہر حاجی کی ساری حرکات و سکنات ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اﷲ کے حکم کا پابند ہے۔ اﷲ کے احکام میں رہتے ہوئے اس کی خواہشات پوری کرتا ہے۔ حج کے ہر فرض اور سنت کو اس کی حدود میں رکھتا ہے۔ وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اﷲ کے حکم کی بجا آوری میں کسی طرح کی کوتاہی نہ رہ جائے۔ حج دراصل انسان کو تحمل و برداشت کا سبق دیتا ہے اور زینت اور بناؤ سنگھار کی طرف سے اس کی رغبت ہٹاکر آخرت کی طرف رغبت دلاتا ہے۔
قرآن میں آیا ہے:''جو شخص اس ماہ میں حج کی نیت کرے تو حج کے دنوں میں نہ کوئی برا کام کرے، نہ کسی سے جھگڑے اور جو نیک کام تم کروگے وہ اﷲ کو معلوم ہوجائے گا۔'' (البقرہ197) حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص کعبے کی زیارت کو آیا، اور اس نے اﷲ کی نافرمانی کا کوئی کام نہ کیا تو وہ اپنے گھر اس حالت میں لوٹے گا جس حالت میں اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا۔
حج کے ذریعے انسان کو بدمزاجی اور غصے سے بچنے کی تربیت ملتی ہے۔ وہ خوش مزاج ہوجاتا ہے۔ چناں چہ اسے فسق و فجور، لڑائی جھگڑے اور بدمزاجی پر قابو پانے کی عادت ہوجاتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ کسی نے رسول کریمؐ سے دریافت کیا کہ کون سا عمل افضل ہے تو رحمت عالمﷺ نے ارشاد فرمایا:''اﷲ اور رسول پر ایمان لانا۔''
پوچھا گیا، اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟
سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''اﷲ کے دین کی خاطر جہاد کرنا۔''
پوچھا گیا، اس کے بعد؟
خاتم الانبیاءؐ نے ارشاد فرمایا:''وہ حج جس میں حج کرنے والے سے اﷲ کی نافرمانی نہ ہوئی ہو۔''
حج کی سنت یہ ہے کہ اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں سے فائدہ اٹھائے۔ حضرت ابراہیم کی طرح اﷲ کی دعوت پر سر تسلیم خم کرے، اﷲ کی رضا اور فرماں برداری میں اپنا سر جھکا دے جس کی بناء پر انسان اﷲ کی نوازشوں اور عنایتوں سے مالامال ہوجاتا ہے۔ وہ اﷲ کے حکم کے مطابق بغیر سلے اور سادہ کپڑے پہنتا ہے، بال نہیں منڈواتا، دنیا کے عیش و نشاط ترک کردیتا ہے، خوش بو سے پرہیز کرتا ہے، مزدلفہ اور عرفات کے پہاڑوں میں پھرتا ہے، لبیک کہتا ہے اور ننگے سر پھرتا ہے۔ اﷲ سے محبت رکھنے والا ہی ایسی زندگی کو قبول کرسکتا ہے جس کی جھلک اسے حج میں نظر آتی ہے۔
صاحب استطاعت اﷲ کی بہت سی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جسے یہ نعمتیں نہیں ملیں، وہ کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح دولت مند افراد کے دلوں میں غریبوں کے لیے احساس اجاگر ہوتا ہے۔ حج میں لاکھوں انسانوں کو مصروف عبادت دیکھ کر عبادت کی رغبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اﷲ کی پرکشش معبودیت اور مسجودیت کی شان نظر آتی ہے۔ لاکھوں انسان ایک ساتھ سجدہ کرتے ہیں، ایک ساتھ سارے ارکان ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اتحاد کی نظیر پیدا ہوجاتی ہے۔
صدیوں سے ساری دنیا کے مسلمان ہر سال کعبۃ اﷲ کا حج کرنے آتے ہیں۔ دنیا کے تمام لوگوں کا ایک مرکز پر عظیم الشان اجتماع ایک بے نظیر مثال ہے اور ایک ہی لباس میں ایک ہی جذبات اور تمناؤں کے ساتھ سب کے مقاصد بھی مقدس اور خیالات بھی نیک، سب کی زبانوں سے ادا ہونے والے کلمات بھی ایک ہی ہوتے ہیں:''میں حاضر ہوں اے اﷲ، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بے شک! تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہیں اور ملک بھی تیرا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔''