میدان عرفات

’’ عرفات کا قیام ہی حج ہے۔‘‘

اس میدان میں صرف 9 ذی الحج کو حجاج کرام کا بہ یک وقت اجتماع ہوتا ہے جہاں وہ وقوف کے دوران اﷲ تعالیٰ سے اپنی بخشش طلب کرتے ہیں۔ فوٹو فائل

عرفات کے نام کی تین توجیہات بتائی جاتی ہیں۔ اس کے تین قریب ترین معنیٰ پہچان کے ہیں اور تین ہی مختلف روایات ملتی ہیں:

٭جب حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا جنت سے زمین پر اتارے گئے تو وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔ حضرت آدم ؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سری لنکا کی ایک پہاڑی سراندیپ پر اترے تھے جہاں ان کے قدموں کے نشانوں کی روایت بھی ملتی ہے۔

اماں حوا کو جدہ کے مقام پر اتارا گیا تھا جہاں ان کا مزار بھی ہے۔ حضرت آدم ؑ روئے زمین پر خود کو تنہا محسوس کررہے تھے، اس لیے وہ حوا کی تلاش میں نکل پڑے اور اسی عرفات کے میدان میں ان دونوں کی ملاقات ہوگئی۔ یہاں دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا۔

٭دوسری توجیہہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت جبرائیل ؑ نے مناسک حج سکھائے تھے جو انھوں نے جان لیے تھے، اسی جاننے کو عرفہ کہا جاتا ہے۔

٭تیسری توجیہہ اس نام کی یہ ہے کہ اس مقام پر لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرتے ہیں، کیوں کہ لوگ جانتے ہیں کہ اﷲ توبہ و استغفار کو قبول کرنے اور مغفرت کرنے والا ہے۔ روز محشر یہیں حشر برپا ہوگا اور دنیا کے تمام لوگ اﷲ کو پہچان لیں گے۔

میدان عرفات مکہ سے تیرہ میل دور مشرقی سمت میں طائف کے راستے پر واقع ہے۔ یہ شمالی جانب عرفات ایک پہاڑی سلسلے سے ملا ہوا ہے۔ یہ میدان حدود حرم سے باہر واقع ہے۔ مشرق تا مغرب یہ چوڑائی میں چار میل اور لمبائی میں سات تا آٹھ میل قریب ہے۔ مکہ سے آنے والے حاجی درۂ مازمین سے نکل کر ان ستونوں کے پاس سے گزرتے ہیں جو حرم کی حد بندی کرتے ہیں۔ ان ستونوں کے مشرق کی جانب عرفہ نامی نشیب ہے جس کے دور کے کونے پر مسجد نمرہ ہے۔ حجاج کے وقوف کرنے کی جگہ یا مقام اجتماع اس مسجد سے مشرق اور جبل رحمت سے مغرب کی جانب دور تک چلا گیا ہے اور مشرق کی جانب کوہستان طائف کے سلسلے سے گھرا ہوا ہے۔

اس میدان میں صرف 9 ذی الحج کو حجاج کرام کا بہ یک وقت اجتماع ہوتا ہے جہاں وہ وقوف کے دوران اﷲ تعالیٰ سے اپنی بخشش طلب کرتے ہیں۔ یہ وقوف چوبیس گھنٹوں سے بھی کم کا ہوتا ہے، اس لیے یہاں مستقل آبادی کے آثار نہیں پائے جاتے۔

اس میدان کا ذکر قرآن حکیم میں بھی آیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو۔''


(سورہ بقرہ آیت198)
علمائے کرام اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ 9 ذی الحج کو فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد سورج نکلنے کا انتظار کرے اور زوال آفتاب سے پہلے سے پہلے عرفات پہنچ جائے، تاکہ وقت وقوف ہوجائے پھر جیسے ہی مغرب کا وقت شروع ہو، عرفات چھوڑ دیا جائے اور مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پہلے مغرب کی نماز ادا کرے اور پھر دوسری اقامت کہہ کر عشا کی نماز ادا کی جائے۔ وقوف عرفات حج کارکن اعظم ہے۔ یہ وقوف خواہ ایک منٹ کا ہو، اس کی ادائیگی فرض ہے۔

حضورﷺ کا فرمان مبارک ہے:''وقوف عرفات ہی حج ہے۔''
خاتم الانبیاء و المرسلین ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع یہیں ارشاد فرمایا تھا اور اسی دوران آپؐ پر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی تھی:''آج کے دن ہم نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام تمام کردیا اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔''

(سور المائدہ آیت 3)
یہاں مسلمانوں کو تین خوش خبریاں سنائی گئیں: تکمیل دین، تکمیل قرآن اور اﷲ تعالیٰ کا دین اسلام پسند کرنا۔ ان خوش خبریوں سے پہلے ہی مسلمان درج ذیل وجوہ کی بنا پر سرشار تھے: صحابہ کا حضور ؐ کے ساتھ حج کرنا۔ جمعہ کے دن حج ہونا۔ اور عرفات کا میدان ہونا۔

اسی میدان میں ایک مشہور تاریخی پہاڑ جبل رحمت ہے جہاں سرکار دو عالمؐ نے وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا جسے سن کر صحابہ کو اندازہ ہورہا تھا کہ شاید یہ آپؐ کا آخری خطبہ ہو۔ آپؐ بار بار اشارتاً فرما رہے تھے:''مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔ شاید اس حج کے بعد میں کوئی اور حج نہ کرسکوں۔'' (صحیح مسلم)

ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ حضورؐ نے عرفہ کی شام کو میدان عرفات میں امت کی مغفرت کی دعا مانگی اور بڑی گریہ زاری کی جس کے جواب میں رحمت الٰہی جوش میں آئی اور ارشاد ہوا:''میں نے تمھاری دعا قبول کرلی اور جو گناہ بندوں نے میرے کیے ہیں، وہ معاف کردیے، البتہ جو ظلم ایک نے دوسرے پر کیے ہیں، ان کا بدلہ لیا جائے گا۔''

مسجد نمرہ میں نبی کریمؐ نے عرفہ کے دن ظہر اور عصر کی نماز یںملا کر پڑھی تھیں۔ اس وقت یہ جگہ بھی ایک چٹیل میدان تھی۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حاجی کو اس مسجد میں وقوف نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اس میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ بعض کی رائے میں یہ عرفات سے خارج ہے، کچھ کی نظر میں مسجد کا کچھ حصہ عرفات سے خارج ہے اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ یہاں وقوف نہ کیا جائے۔ اس مسجد میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی کا اہتمام نہیں ہے، کیوں کہ آبادی سے یہ کافی فاصلے پر ہے۔ یہاں صرف حج اور جمعے کا اجتماع ہوتا ہے۔ عرفات کا میدان چند گھنٹوں کے لیے خیمہ بستی بن جاتا ہے جو میلوں پر محیط ہوتا ہے۔

سورج غروب ہونے تک خوب دعائیں کریں۔ نبی کریم ؐ پر درود و سلام کا تحفہ بھیجتے رہیں۔ آج کا دن قبولیت دعا کا دن ہے، اس لیے فضول گوئی سے گریز کریں۔ دھوپ میں کھڑے ہوکر جتنی دیر تک ہوسکے دعا مانگتے رہیں۔ آج اس کی رحمت کا سمندر ٹھا ٹھیں مار رہا ہے۔ وہ آپ کے گناہوں کو مٹا کر آپ کو ایسے پاک و صاف کردے گا جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہوں ۔
Load Next Story