بلدیاتی انتخابات جمہور کے دم سے
سندھ وپنجاب کےپہلےمرحلےمیں جو انتخابی بےضابطگیاں ہوئی ہیں ان پرنظر رکھنےاوران کے دہرانے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،
RAWALPINDI:
جمہوریت،جمہورکے دم سے چلتی ہے اور ان کی رائے اور ووٹ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ اپنی پسند اورضرورت کے مطابق اپنے نمایندوں کا چناؤکرتے ہیں، تاکہ وہ ان کے مسائل حل کرسکیں لیکن ہمارا المیہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی جمہوریت کی بنیادی نرسری بلدیاتی نظام کو پروان نہیں چڑھنے دیا،کیونکہ مسئلہ اختیارات کی عدم مرکزیت کا ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر ہونیوالے سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی انتخابات اب دوسرے مراحلے میں داخل ہوگئے ہیں،انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی، جمہوری عمل چل رہا ہے، عوام اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، ملک میں بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی چل رہی ہے، تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ووٹرز سے خوشنما وعدے کررہی ہیں، عوام ان وعدوں کی تکمیل کا خواب پورا ہونے کی امید پر ووٹ ڈال رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے امن وامان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حساس پولنگ اسٹیشنز پر فوج اور رینجرز کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے، سندھ وپنجاب کے پہلے مرحلے میں جو انتخابی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ان پر نظر رکھنے اور ان کے دہرانے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے قومی اسمبلی کے ذریعے منظور ہونے والی 18ویں ترمیم کے بعد صوبے طاقتورہوگئے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے باوجود بلدیاتی اختیارات بھی نچلی سطح پر منتقل نہیں کیے گئے ہیں۔
دنیا بھر میں بلدیاتی نظام انتہائی کامیابی سے چل رہا ہے ، لیکن ہمارے ہاں نچلی سطح تک اختیارات نہیں دیے گیے ہیں، تب ہی تو عوامی مسائل کا ایک انبار ہے جو توجہ کا طالب ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستارکا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم میں خدمات پر ٹیکس کی مد میں جو60 ارب روپے کی آمدنی سندھ کو ملنا شروع ہوئی وہ7 برسوں میں240 ارب روپے بنتے ہیں یہ پیسے کہاں اورکس شہر پر خرچ کیے گئے ۔
بات کچھ یوں ہے کہ جبتک ہم اختیارات اورفنڈز کی فراہمی کو یقینی نہیں بناتے تو اس وقت بلدیاتی نمایندے کچھ نہیں کرسکتے ۔پانی کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے ، سیوریج کا نظام درہم برہم ہونے سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، عوام پریشان ہیں پچھلے کئی برسوں سے ، کیونکہ ایم پی اے اور ایم این اے حضرات تو حلقوں میں دستیاب نہیں یا ان تک رسائی ممکن نہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے مراحل مکمل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کو فوری طورپر اختیارات دیے جائیں، تاکہ عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوسکیں اور عوام جمہوریت سے فائدہ اٹھا سکیں ۔
جمہوریت،جمہورکے دم سے چلتی ہے اور ان کی رائے اور ووٹ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ اپنی پسند اورضرورت کے مطابق اپنے نمایندوں کا چناؤکرتے ہیں، تاکہ وہ ان کے مسائل حل کرسکیں لیکن ہمارا المیہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی جمہوریت کی بنیادی نرسری بلدیاتی نظام کو پروان نہیں چڑھنے دیا،کیونکہ مسئلہ اختیارات کی عدم مرکزیت کا ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر ہونیوالے سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی انتخابات اب دوسرے مراحلے میں داخل ہوگئے ہیں،انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی، جمہوری عمل چل رہا ہے، عوام اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، ملک میں بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی چل رہی ہے، تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ووٹرز سے خوشنما وعدے کررہی ہیں، عوام ان وعدوں کی تکمیل کا خواب پورا ہونے کی امید پر ووٹ ڈال رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے امن وامان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حساس پولنگ اسٹیشنز پر فوج اور رینجرز کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے، سندھ وپنجاب کے پہلے مرحلے میں جو انتخابی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ان پر نظر رکھنے اور ان کے دہرانے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے قومی اسمبلی کے ذریعے منظور ہونے والی 18ویں ترمیم کے بعد صوبے طاقتورہوگئے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے باوجود بلدیاتی اختیارات بھی نچلی سطح پر منتقل نہیں کیے گئے ہیں۔
دنیا بھر میں بلدیاتی نظام انتہائی کامیابی سے چل رہا ہے ، لیکن ہمارے ہاں نچلی سطح تک اختیارات نہیں دیے گیے ہیں، تب ہی تو عوامی مسائل کا ایک انبار ہے جو توجہ کا طالب ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستارکا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم میں خدمات پر ٹیکس کی مد میں جو60 ارب روپے کی آمدنی سندھ کو ملنا شروع ہوئی وہ7 برسوں میں240 ارب روپے بنتے ہیں یہ پیسے کہاں اورکس شہر پر خرچ کیے گئے ۔
بات کچھ یوں ہے کہ جبتک ہم اختیارات اورفنڈز کی فراہمی کو یقینی نہیں بناتے تو اس وقت بلدیاتی نمایندے کچھ نہیں کرسکتے ۔پانی کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے ، سیوریج کا نظام درہم برہم ہونے سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، عوام پریشان ہیں پچھلے کئی برسوں سے ، کیونکہ ایم پی اے اور ایم این اے حضرات تو حلقوں میں دستیاب نہیں یا ان تک رسائی ممکن نہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے مراحل مکمل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کو فوری طورپر اختیارات دیے جائیں، تاکہ عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوسکیں اور عوام جمہوریت سے فائدہ اٹھا سکیں ۔