حکمرانوں کے ’’قرضوں ‘‘ کا کھیل

مجھے یاد ہے کہ جب یہی حکومت الیکشن سے پہلے کشکول توڑ دینے کا نعرہ لگا رہی تھی

بڑی دردناک، مضحکہ خیز، عجیب اور عبرت انگیز بات ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط لینے کے لیے کئی دن حیلوں، بہانوں،سچے جھوٹے وعدوں کا سہارا لیا تب کہیں جا کر انھیں عالمی مالیاتی فنڈز کی جانب سے 50کروڑ ڈالر ملنے کی فتح نصیب ہوئی۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ قرض مانگتے ہوئے ہچکچاتے تھے، سو بار سوچا کرتے تھے کہ یہ میں کیسے چکا پاؤں گا، لیکن اب تو قرض ملنے پر ہمارے حکمران خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔

مجھے یاد ہے کہ جب یہی حکومت الیکشن سے پہلے کشکول توڑ دینے کا نعرہ لگا رہی تھی تو مجھ سمیت کئی دوست سمجھے کہ ہمارے حکمران شاید انا پرست ہو گئے ہیں کہ وہ غیر کی امداد وصول نہیں کریں اور ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے وغیرہ۔ لیکن اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی کشکول توڑنے کا عزم خاک میں مل گیا اور یہ نوید سنائی گئی کہ 'خزانے خالی ہیں'۔ سابقہ حکومت نے کچھ نہیں چھوڑا وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہماری نئی حکومت نے عوام کو ''ماموں'' بنا کر ووٹ لیا تھا، یعنی اقتدار میں آنے کے لیے اتنی جلدی تھی کہ انھیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انھوں نے کون کون سی فیلڈز میں پیپر ورک کرنا ہے۔

پھر کیا ہونا تھا وہی ہوا جو سابقہ حکومتیں کرتی آئی ہیں یعنی ان ''روایتی'' سیاستدانوں نے اپنے موجودہ ڈھائی سالہ دور میں کل 7ارب ڈالر کے قرضے لیے ہیں۔ اور اب مختلف بینکوں سے 96 ارب روپے کا قرضہ لینے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔ حیرت ہے جتنے قرضے اس ملک میں جمہوری حکومتوں کی جانب سے لیے جاتے ہیں اتنے دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں لیے جاتے اور نہ ہی اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ ڈار صاحب نے دبئی سے ''فاتحانہ'' واپسی کے بعد کہا کہ ہمارے ہمسائے صرف باتیں کرتے ہیں ''کچھ'' دیتے نہیں،،، کمال ہے کہ ہمسایوں کو ہمسایوں کا اچھی طرح علم ہوتا ہے اسی لیے ہمسائے پاکستان کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

آپ چین ہی کی مثال لے لیں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ آپ کو براہ راست ''کیش'' دیتا ہی نہیں اگر دیتا بھی ہے تو کسی پراجیکٹ میں انوسٹمنٹ کرکے دیتا ہے تاکہ وہ بعد ازاں دوگنا یا چوگنا وصول کر سکے اور اس کی شرائط بھی اپنی نوعیت کی ہی ہوتی ہیں جیسے بیشتر تعمیراتی کام چینی کمپنیاں ہی کرتی ہیں۔ اس نے بے شمار منصوبے مکمل کیے ہیں جن میں چشمہ بیراج، گوادر پورٹ، واہ فیکٹری، شاہراہ ریشم نمایاں ہیں اور اب بھی چینی ماہرین پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ امریکا ہمیں قرضے بھی دیتا ہے، یو ایس ایڈ کے ذریعے امداد بھی فراہم کرتا ہے لیکن یہ پیسے کرپشن زدہ معاشرے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

یعنی اشرافیہ کی جیب سے ہوتے ہوئے واپس امریکی بینکوں میں چلے جاتے ہیں۔ جس سے کرپشن پھلی پھولتی ہے اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم ہزاروں ارب روپے کے مقروض ہوچکے ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ 70ارب ڈالر کا قرضہ حکمرانوں نے کہاں غائب کیا ہے۔ یہ وہی قرضہ ہے جسے دبا کر کوئی سیاستدان دبئی بیٹھا ہے تو کوئی دنیا گھوم رہا ہے اور کوئی سوئس بینکوں میں رکھ پاکستان میں آ بھی رہا ہے اور مزے سے اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہا ہے۔۔۔ اب سوئس بینکوں سے اگر پیسہ واپس اپنے ملک میں لانے کے کیس کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو اس فرسودہ نظام میں بیوروکریسی، نیب اور دیگر اداروں کے لوگ ہاتھ پاؤں مارنے میں ہی اربوں روپے خرچ کر آتے ہیں۔۔ جب کہ سوئس حکام ٹس سے مس نہیں ہوتے،۔۔۔ اور نہ کبھی ہوں گے۔

خیر ہمارے لیڈروں کا حال تو کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ جیسے انھیں قرضے لینے کی عادت سی پڑ گئی ہے، میرے خیال میں اندرون ملک سب سے پہلے انھیں پکڑنا چاہیے جنہوں نے قرضے لیے اور معاف کروا لیے۔ ہمارے سیاسی رہبروں نے سرکاری بینکوں سے ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اربوں روپے کے قرض لیے اور معاف کروا لیے، 1971 سے تا حال کسی کی اتنی ہمت، جرأت اور حوصلہ نہیں ہوا کہ قرض نادہندگان سے معلوم کرسکے کہ بینک سے جو قرضہ حاصل کیا گیا تھا اس کا کیا ہوا؟


اگر 70کی دہائی میں کسی نے 1کروڑ روپے کا قرض لیا تو آج 40سال بعد 1کروڑ کی ویلیو کیا ہو گی۔۔۔ یعنی 70اور 80کی دہائی میں بھی اربوں روپے کی ویلیوز کے برابر قرض لیے گئے جنھیں معاف کروایا جاتا رہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق اپنے پاس تو قرض نادہندگان کی ایک فہرست رکھتے تھے اور اکثر و بیشتر یہ دھمکی دیتے تھے کہ یہ فہرست شایع کردی جائے گی۔ نتیجتاً بیشتر سیاستدان جن کے نام اس فہرست میں تھے، ان کے ہاتھ پر ''بیعت'' کرچکے تھے۔

افسوس از حد افسوس کہ ماضی میں ایک فون پر خطیر رقومات قرض دی گئیں۔ ان قرضوں کی وصولیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے کہ جن افراد نے یہ قرضے معاف کرائے ہیں انھوں نے اپنی قانونی حیثیت مستحکم کرلی ہے۔ بعض نے یہ قرضے اپنے عزیزوں کے نام پر لیے ہیں۔ بعض نے جائیداد، ملوں، فیکٹریوں اور تجارتی اداروں کے جو کاغذات ضمانت کے طور پر جمع کرائے ہیں ان کی مالیت لیے گئے قرض سے بہت ہی کم ہے۔

اگر عدالت کے حکم کے مطابق قرض وصول کرنے کے لیے اس جائیداد کے نیلام کی نوبت آبھی جائے تو بینک کو آٹے میں نمک کے برابر قرض بھی وصول نہیں ہوگا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف سیاستدان نے فرمایا تھا کہ میں نے تو فلاں مل کی ضمانت پر قرض لیا تھا۔ اب میں یہ مل فروخت کرچکا ہوں لہٰذا مجھ سے اس قرض کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اگر تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیں تو بینکوں سے قرض لینے اور واپس نہ دینے کی روایت بھٹو دور سے بینکوں کے ''قومیانے'' کے بعد شروع ہوتی ہے۔ نجی بینک بغیر کسی معتبر ضمانت کے اور قرض کی واپسی کی یقین دہانی کے ایقان کے بعد ہی قرض دیتے ہیں اس لیے کہ انھیں یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ قرض نہ دینے کی صورت میں وہ معتوب ہوجائیں گے جب کہ قومیائے گئے بینک کے ارباب اختیار کے سر پر ہمیشہ یہ تلوار لٹکی رہتی ہے کہ اگر انھوں نے فلاں ''بڑے'' کو قرض نہیں دیا تو ان کی نوکری سلامت نہیں رہے گی۔

کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بینک کے افسر ان قرض دینے کے لیے قرض لینے والے سے کچھ فیصد طے کرلیتے ہیں کہ اگر وہ ایک خطیر رقم کا قرض دلوائیں گے تو اس قرض میں اتنی رقم ان کی ہوگی۔ قرض لینے والا تو اکثر و بیشتر اسی نیت سے قرض لیتا ہے کہ یہ قرض وہ واپس نہیں کریگا لہٰذا فوراً اس پیشکش کو قبول کرلیتا ہے۔ کاغذات کا پیٹ بھرنے کے لیے بینک کے افسران ضمانت کے طور پر وہ کاغذات بھی قبول کرلیتے ہیں جو یا تو جعلی ہوتے ہیں یا ان میں دکھائی گئی جائیداد کی قیمت دیے جانے والے قرض سے بہت ہی کم ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ضابطے کی کارروائی پوری ہوجاتی ہے۔ رقم بطور قرض دیدی جاتی ہے اور اکثر و بیشتر رقم ڈوب جاتی ہے۔

دنیا جانتی ہے کہ اسی طریقے سے پاکستان کے ٹاپ سیاستدانوں اور دیگر نے اربوں روپے کے قرضے یا تو واپس نہیں کیے یا پھر معاف کرالیے گئے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے عرب شہزادے کا قرضہ معاف کرایا۔ حال ہی میں ڈاکٹر عاصم نے بھی قرضہ معافی کے حوالے بہت سے راز اُگلے ہیں۔
Load Next Story