علّامہ اقبال ؒ نہیں…رانااقبالRelevantہے
دنیا بھر کے مسلمان انگریز اور یورپی حکمرانوں سے بے پناہ مرعوب تھے،
جس اقبالؒ کو مغربی تہذیب کی چکا چوند مرعوب نہ کرسکی جسے روشن چہرے کے پیچھے اس کا چنگیز سے تاریک تر اندروں نظر آگیا اور جس نے سو سال پہلے کہہ دیا کہ تھا فرنگ کی رگِ جاں پنجہء یہود میں ہے، اس سے آج کے عالمی چوہدری خائف کیوں نہ ہوںجو احساسِ کمتری اور غلامی کے تصورسے ہی نفرت کرتا ہے اور خون کے ایک قطرے کو کافی جان کر جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے۔
وہ اسے نصاب سے نکلوانے کی کوشش کیوں نہ کریں وہ اسے میڈیا کے ذریعے متنازعہ بنانے کے لیے اپنے کارندوں کی ڈیوٹی بھی ضرور لگائیں گے، انھیں ایسا ہی کرنا چاہیے!۔ آج سے سو سوا سو سال پہلے اقبالؒ کے زمانے میں مسلمانوں کے حالات آج سے کہیں زیادہ دگرگوں تھے اور جو چیلنج درپیش تھے ان کا magnitude آج سے سو گنا زیادہ تھا۔ سب سے بڑا چیلنج مسلمانوں کا بدترین احساسِ کمتری ، معاشی طور پر ترقّی یافتہ اور فاتح اقوام غریب اور مفتوح اقوام کی تہذیب پر حاوی ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات انھیں ہڑپ کرجاتی ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان انگریز اور یورپی حکمرانوں سے بے پناہ مرعوب تھے، خوشحال گھرانوں کے ولایت پلٹ نوجوان پوری طرح یورپی تہذیب کی غلامی قبول کرچکے تھے اور ان سے مرعوب ہوکر انھی کی معاشرت اختیار کررہے تھے۔ مگر یورپی تہذیب کی چکا چونداقبالؒ کو کیا مرعوب کرتی کہ قدرت نے اسے بلبلِ باغِ حجاز بنادیا تھا۔ مرعوب نہ ہونے کی وجہ خود بتاتے ہیں:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اور پھر اسی نظم میں مزید کہا کہ
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لا تخف
اس تصوّر کووہ مختلف انداز سے دہراتے رہے اور مسلمانوں کو اپنے اسلاف کے اوصاف پیدا کرنے کی ترغیب دیتے رہے اور اس کے نتائج کی نوید سناتے رہے
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اترتو سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اس بار یومِ اقبالؒ پر ایوانِ صدر میں ایک بھرپور تقریب منعقد ہوئی(جس پر صدر صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں) جس میں احمد جاوید صاحب اور ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے جیّداسکالرز کے ساتھ مجھ جیسے طالب علم کو بھی مقررین میں شامل کیا گیا تھا۔ میں نے وہاں بھی کہاکہ اقبالؒ کا کوئی شعر اور مصرع اٹھالیں، لگتا ہے آج کہا گیا ہے ۔
پودوں پر لہلہاتے ہوئے پھولوں کی طرح تروتازہ۔ اور سو فیصد Relevent ۔ اقبالؒ نے ہندوستان کے جن مسلمانوں کی راہنمائی کا بیڑہ اٹھایا وہ بے یقینی اور ناامیدی کے اندھیروں میں بھٹکتا ہوا ایک منتشر اورغیر منظّم گروہ تھا جومعاشی، تعلیمی اور سیاسی طور پر بہت پسماندہ رہ چکا تھا ،کسی نے مسلمانوں میں تعلیم کی شرح پوچھی تو جواب ملا ہندوستان کے مسلمانوں کا طرّۂ امتیاز خواندگی نہیں پسماندگی ہے۔
امّت کے حکیم نے مریض قوم کا ایک طبیب ہی کی طرح علاج کیا۔سب سے پہلے اسے خود اعتمادی کی ڈوز دی ۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کے اسلاف کی عظمتوں کے ترانے ان کی رَگ وپے میں اتارکر انھیں احساسِ کمتری سے نجات دلائی اور خود اعتمادی سے سرشار کیا۔کائنات میں ان کی اہمیّت کا احساس دلاکر انھیں باور کرایا کہ تم دنیا میں خالقِ کائنات کے آخری پیغام کے محافظ اور امین ہو۔ پسماندگی اور پستی تمہارا نصیب نہیں ہوسکتی، ذلّت اور زوال تمہارا مقدّر نہیں ہے۔ جانتے ہو تم کن کے وارث ہو ۔جنہوں نے۔
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
جن کی ہیبت سے پہاڑ رائی بن جاتے اور صحرا و دریا دونیم ہوجاتے، جن کی شمسیر جہاں گیر و جہاں دار تھی اور جن کی تکبیر سے پہاڑ لرز اُٹھتے تھے۔
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے
مگر اُمّت مسلمہ آج روایات میں کھوکر راکھ کا ڈھیر بن چکی ہے ایسا کیوں ہے ؟ اب ایسا نہیں رہے گا یہ سب کچھ تبدیل ہوگا ۔ مسلمان یہ نرالی زبان اور پرشکوہ آواز سنکر چونک اٹھے اور جب انھوں نے دیکھا کہ یہ کسی نیم خواندہ مولوی کی آواز نہیں ڈاکٹر محمد اقبالؒ بار ایٹ لاء ان سے مخاطب ہیں تو وہ ھمہ تن گوش ہوئے پھر دانائے راز کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ وہ اسلاف کے اوصاف کہاں گئے۔ اپنے اندر پھر وہی اوصاف پیدا کرو۔ پھر مسلمانوں کو جھنجوڑتے ہوئے پوچھا۔
کس طرح ہوا کند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
مہرو مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
اقبالؒ نے مسلمانوں کو باور کرایا کہ ؎
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کراے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
پرے ہے چرخِ نیلی نام سے منزل مسلماں کی
ستارے جسکی گردِراہ ہوں وہ کارواں تو ہے
دانائے راز نے یورپ اور مغربی طاقتوں کے فیصلوں پر یہودیوں کے اثر و رسوخ کی پیشینگوئی آج سے سوسال پہلے کردی تھی۔ وہ مسلمان حکمرانوں کو یورپ کی غلامی سے باز رہنے پر زور دیتے تھے۔
تری دوا نہ جینوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجئہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امّتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے۔
اقبالؒ شاعرِ انسانیّت بھی ہے انھوں نے اپنی شاعری میں جا بجا عظمتِ انسان کو اجاگر کیا ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریّت کی زد میں ہے گردوں
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے
عروجِ آدمِ خاکی کے منتظر ہیں تمام
یہ کہکشاں، یہ ستارے، یہ نیلگوں افلاک
نوجوانوں میں شاہین کی صفات دیکھنے والااقبالؒ ملّا اور صوفی دونوں سے بیزار ہے اور اعلیٰ کردار کے حامل مجاہد کا متلاشی ہے۔
صوفی کی طریقت میں فقط مستیء احوال
ملّا کی شریعت میں فقط مستیء گفتار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جسکے رگ و پے میں فقط مستیء کردار
صوفی و ملّا کے برعکس اقبالؒ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری ، کا درس دیتے ہیں۔
ان کی مشہور نظم "ابلیس کی مجلسِ شوریٰ" پڑھیں تو لگتا ہے واشنگٹن، لندن یا برسلز کے اہم ترین اجلاسوں کی اندرنی کہانی بیان کردی گئی ہو۔
سو سال پہلے جب آزادی کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا اُسوقت اقبالؒ کی دوربیں نگاہوں نے آنے والے حالات دیکھ لیے اور یہ نوید سنادی تھی۔
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترُ کمانی، ذہنِ ھندی نطقِ اعرابی
کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ِہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
پھر دلوں کو یاد آجائیگا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہء توحید سے
اور پھر ایسا ہی ہوا اقبالؒ کے کلام نے مسلمانوں کے رگ و پے میں بجلیاں بھر دیں وہ قائداعظم ؒ کی قیادت میںآزادی کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور چند سالوں میں ہی پاکستان معرضِ وجود میں آگیا اور سارا چمنستان توحید کے نغموں سے گونج اُٹھا۔
پچھلے دنوںایک جگہ چند بڑے شاعر اور دانشور جمع تھے اور اقبالؒ کے کلام کی تازگی پر بات کررہے تھے، ایک نوجوان صحافی نے، محفل سے اُٹھتے ہوئے کہا "سر میں تو صاف صاف بات کرونگا کہ میرے لیے علاّمہ اقبالؒ کے بجائے رانا اقبال زیادہ Relevantہے کیونکہ ُاس کا ایک نیا چینل آرہا ہے جسمیں مجھے اینکری کی نوکری ملنے کی امّید ہے "۔ اقبال ؒ پر کالم لکھناایک ناکام سی کوشش ہوتی ہے دریا کو کوزے میں بند کرنا ناممکن ہے ۔ یہاں تو دریا نہیں سمندر ہے ، محدود جگہ کے باعث آدھے سے زیادہ کالم کٹ گیا، جو بچ سکا ہے اُسی پر گزارہ کریں اور نوجوانوں کو اقبالؒ کا کلام پڑھانے کی بھرپور کوشش کریں۔