تیری شوخیاں اورتیری …
خیبر پختونخوا میں جب سوات پر قبضہ ہوا اور سیاسی جماعتوں نے کالعدم اسلامی پسند جماعتوں سے معاہدے کیے
ISLAMABAD:
گزشتہ دنوں جب گڈ گورننس کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا اعلامیہ جاری ہوا تو اس نے ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچا دی اور طرح طرح کی قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔ حالانکہ کورکمانڈر کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز کا جاری کرنا ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔
پاک فوج کا ادارہ حکومت کا ماتحت تو کہلایا جاتا ہے لیکن ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاست دانوں نے فوج کو اس کے کردار سے بڑھ کر اختیارات دینے کی روش اختیار کی یہاں تک کہ اقتدار کے حصول کے خاطر فوج کو بھی سیاسی معاملات میں دخل اندازی پر مجبور کرنے والے ہمارے جمہوری نظام کے داعی سیاست دان ہی ہیں، جنھیں جمہوریت کے کھوکھلے نظام میں صرف اپنے اقتدار کی کرسی اور تھرڈ ایمپائر ہی نظر آتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس سمیت قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں کے قیام اور خصوصی اختیارات کی تفویض فوج نے بزور طاقت حاصل نہیں کی بلکہ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے کٹھ پتلی سیاست دانوں نے ہی اس کی توثیق کی اور اسمبلی میں روتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تلخ فیصلے جمہوری ادارے کر رہے ہیں جس پر وہ شرمندہ ہیں۔
داخلہ پالیسی ہوں یا خارجہ پالیسی ہماری مملکتوں کو بیرونی طاقتوں سے ڈکٹیشن لینے اور ڈومور کے مطالبے کرنے کی عادت اس لیے پڑ گئی ہے کیونکہ ان کواپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے سود کے تباہ کن نظام سے اپنی تجوریوں کے پیٹ بھرنے ضروری ہیں۔ ان کی شاہانہ طرز زندگی اور ناقابل برداشت شاہانہ اخراجات نے ملک کے بچے بچے کو بیرونی طاقتوں کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئی ایس پی آر کے بیان کو خلاف آئین کہنا عوام میں پاک فوج کے کردار کو متنازعہ بنانے کی کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔ کئی عشروں تک سندھ میں حکومت کرنے والی اتحادی جماعتوں کی جانب سے امن کا قیام عمل میں لانے میں ناکامی اور ان ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے امن کے لیے فوج کی طلبی کی اپیلیں و مطالبے کس طور غیر آئینی کہلائے جا سکتے ہیں۔
بلوچستان میں فراری اور علیحدگی پسندوں کی جانب سے گریٹر بلوچستان کے منصوبے میں بھارت اور پاکستان دشمن عناصر کی مداخلت کو روکنے میں ناکامی کی ذمے داری سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے جو اپنے سیاسی مفاد کے خاطر بلوچ علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے میں مسلسل ناکامی کا شکار ہیں۔ اگر سیاست دانوں میں استعداد کار ہوتی تو بلوچستان میں آپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی اور سفارتی طور پر بھارت، ایران اور افغانستان سے بلوچستان میں امن کے لیے اور علیحدگی پسندوں کے جائز مطالبات کے حل کے لیے کوشش کر سکتے تھے لیکن خود کو بے دست و پا بنا کر تمام تر ذمے داری فوج پر ڈال کر بلوچستان کے حل کے لیے اپنی ذمے داریوں سے فرار ہونا کیا گڈگورننس کہلاتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں جب سوات پر قبضہ ہوا اور سیاسی جماعتوں نے کالعدم اسلامی پسند جماعتوں سے معاہدے کیے تو کیا اس کے کوئی دیرپا اثرات نظر آئے؟ بلکہ ملا فضل اللہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا، جماعت اسلامی کی حکومت نے اسلام پسندوں کو مراعات دیں اور تحریک نفاذ شریعت کے رہنماؤں کی پیٹھ ٹھونکتے رہے اور سوات مالاکنڈ ڈویژن میں عسکری قوت اس قدر مضبوط ہو گئی کہ سیکولر جماعت اے این پی کو ان سے نظام عدل کے نام پر معاہدے کرنے پڑے لیکن اس کے بھی مثبت نتائج اس لیے نہیں آ سکے کیونکہ مصلحتوں اور سیاسی مفادات نے معاہدات پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوات مالاکنڈ دویژن پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا اور بالآخر ان سیاسی جماعتوں نے فوج کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ہم جمہوری نظام کے خانوادے ناکام ہو گئے ہیں لاکھوں انسانوں کی جان بچانے اور سوات مالا کنڈ کا علاقہ واپس لانے کے لیے ہماری مدد کریں۔ پھر یہی فوج تھی جس نے سوات مالا کنڈ ڈویژن میں آپریشن راہ راست اور وزیر ستان میں آپریشن راہ نجات کے ذریعے پاکستان کا پرچم سر بلند کیا اور حکومتی رٹ قائم کی، سیاستدانوں کی کم معاملہ فہمی سے مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش تو بن چکا ہے لیکن انھوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنی ریشہ دانیوں اور کرپشن، مفاد پرستیوں کی روش پر گامزن رہتے ہوئے، سوائے اپنی تجوریوں کو بھرنے کے اور کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔
بلکہ الٹا جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کی جانب سے انتہا پسند حکیم اللہ محسود کو شہید اور آئی ایس پی آر کے بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن نے کتوں کو بھی شہادت کا درجہ دے دیا، جن سیاست دانوں کے نزدیک نجس جانور کتا اور بیگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے شہید کہلائے جائیں اور پاک فوج کو ایک کٹھ پتلی ادارہ سمجھ کر تنبیہہ کی جائے کہ خاموش رہو اور جو نام نہاد سیاست دان کہہ رہے وہی کرو تو کیا اس کو گڈ گورننس کہا جا سکتا ہے۔
آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج نے اپنا پورا مورال داؤ پر لگا دیا یہی سیاسی جماعتیں تھیں جنھوں آئی ڈی پیز کی خدمت کرنے انھیں سہارا دینے کے بجائے ان پر سیاست شروع کر دی، کسی نے صوبہ بند کر دیا تو کسی نے اسے وفاق کا مسئلہ قرار دے دیا۔ کیا پاکستان کی بقا کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی دینے والے عوام اور پاک فوج کی حیثیت اس قدر سیاست دانوں کے نزدیک گئی گزری ہو گئی ہے کہ ان کے نزدیک جان و مال کی قربانی دینے والے محض رسمی پیرائے میں کہلائے جانے کے قابل رہ جاتے ہیں، کیا یہی گڈ گورننس کہلائی جاتی ہے۔
شمالی و جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج نے جس بھرپور کارروائی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے تو یہ ان کی کسی جنگی مشقوں کا سلسلہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سرحدوں سے ایسے عناصر کی سرکوبی ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں آئے روز بم دھماکے اور خود کش دھماکے ہوتے رہے اور عام انسان کی جان و کاروبار محفوظ نہیں رہا، سیاست دانوں کی یہ جمہوری حکومتیں ہی ہیں جو انھیں تحفظ دینے میں ناکام رہیں، مذاکرات کے نام پر حکومتی بے اختیار کمیٹی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان (کالعدم) سے نمائشی فوٹو سیشن اور میڈیا ٹرائل نے پوری قوم کو شش و پنج میں رکھا، پنجاب میں تو طالبان سے مبینہ طور پر معاہدہ کر لیا گیا تھا کہ پنجاب میں انھیں کچھ نہ کہا جائے ۔
جس پر پورے پاکستان میں ایک انتشار پھیل گیا گیا تھا کیا ہم اسے گڈ گورننس کہیں گے۔ سندھ میں جس طرح کئی عشروں سے ہزاروں کی تعداد میں بیگناہ عوام کا خون بہایا جاتا رہا اور نامعلوم افراد، گینگ وار مافیا نے کراچی کے عوام کی سانس تک لینے کی فیس مقرر کر دی اور سائیں سرکار سب اچھا کی رپورٹ دیتی رہی کیا اسے گڈ گورننس قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی حکومت امن و امان کے حوالے سے بدترین ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں، تحریک انصاف کے چیئرمین تو طالبان کی محبت میں اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ پشاور میں طالبان کو باقاعدہ دفتر کھولنے کی دعوت و اجازت دینے کی پیشکش کر دی تھی، کافی عرصے تک تو شدت پسندوں کی کارروائیوں پر مذمت کرنے پر بھی تامل برتتے رہے۔
شدت پسندوں کو دہشت گرد کہنے سے کتراتے رہے، یہاں تک کہ عوام خون میں نہا رہے تھے اور یہ اپنے وزراء کے ساتھ اسلام آباد کے دھرنوں میں رقص و سرور کی محفلوں میں مصروف تھے جب خٹک صاحب سے پوچھا گیا تو تیکھا سا جواب آیا کہ اگر میں پشاور میں ہوتا تو کیا تباہی نہیں آتی اور میں ڈاکٹر نہیں ہوں، کراچی ائیر پورٹ اور پھر اے پی ایس کے ہولناک واقعات نے تمام سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھول دیں اور ان کی نظریں اور جڑے ہاتھ فوج کی جانب ہی اٹھے کہ خدارا مدد کو آؤ۔
کیا امن و امان کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی نہیں ہے کہ وہ اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی آلودگی سے پاک کرتے اور پولیس کی نوکریاں لاکھوں روپوں میں فروخت کرنے اور پولیس فنڈز میں اربوں روپوں کے غبن کرنے کے بجائے عوام کے تحفظ کو ترجیح دیتے۔ ہمیں پاک فوج کو متنازعہ بنانے سے گریز کی راہ اپنانے ہو گی اپنی سیاسی معاملات کو خود حل کرنا ہو گا۔
گزشتہ دنوں جب گڈ گورننس کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا اعلامیہ جاری ہوا تو اس نے ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچا دی اور طرح طرح کی قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔ حالانکہ کورکمانڈر کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز کا جاری کرنا ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔
پاک فوج کا ادارہ حکومت کا ماتحت تو کہلایا جاتا ہے لیکن ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاست دانوں نے فوج کو اس کے کردار سے بڑھ کر اختیارات دینے کی روش اختیار کی یہاں تک کہ اقتدار کے حصول کے خاطر فوج کو بھی سیاسی معاملات میں دخل اندازی پر مجبور کرنے والے ہمارے جمہوری نظام کے داعی سیاست دان ہی ہیں، جنھیں جمہوریت کے کھوکھلے نظام میں صرف اپنے اقتدار کی کرسی اور تھرڈ ایمپائر ہی نظر آتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس سمیت قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں کے قیام اور خصوصی اختیارات کی تفویض فوج نے بزور طاقت حاصل نہیں کی بلکہ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے کٹھ پتلی سیاست دانوں نے ہی اس کی توثیق کی اور اسمبلی میں روتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تلخ فیصلے جمہوری ادارے کر رہے ہیں جس پر وہ شرمندہ ہیں۔
داخلہ پالیسی ہوں یا خارجہ پالیسی ہماری مملکتوں کو بیرونی طاقتوں سے ڈکٹیشن لینے اور ڈومور کے مطالبے کرنے کی عادت اس لیے پڑ گئی ہے کیونکہ ان کواپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے سود کے تباہ کن نظام سے اپنی تجوریوں کے پیٹ بھرنے ضروری ہیں۔ ان کی شاہانہ طرز زندگی اور ناقابل برداشت شاہانہ اخراجات نے ملک کے بچے بچے کو بیرونی طاقتوں کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئی ایس پی آر کے بیان کو خلاف آئین کہنا عوام میں پاک فوج کے کردار کو متنازعہ بنانے کی کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔ کئی عشروں تک سندھ میں حکومت کرنے والی اتحادی جماعتوں کی جانب سے امن کا قیام عمل میں لانے میں ناکامی اور ان ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے امن کے لیے فوج کی طلبی کی اپیلیں و مطالبے کس طور غیر آئینی کہلائے جا سکتے ہیں۔
بلوچستان میں فراری اور علیحدگی پسندوں کی جانب سے گریٹر بلوچستان کے منصوبے میں بھارت اور پاکستان دشمن عناصر کی مداخلت کو روکنے میں ناکامی کی ذمے داری سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے جو اپنے سیاسی مفاد کے خاطر بلوچ علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے میں مسلسل ناکامی کا شکار ہیں۔ اگر سیاست دانوں میں استعداد کار ہوتی تو بلوچستان میں آپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی اور سفارتی طور پر بھارت، ایران اور افغانستان سے بلوچستان میں امن کے لیے اور علیحدگی پسندوں کے جائز مطالبات کے حل کے لیے کوشش کر سکتے تھے لیکن خود کو بے دست و پا بنا کر تمام تر ذمے داری فوج پر ڈال کر بلوچستان کے حل کے لیے اپنی ذمے داریوں سے فرار ہونا کیا گڈگورننس کہلاتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں جب سوات پر قبضہ ہوا اور سیاسی جماعتوں نے کالعدم اسلامی پسند جماعتوں سے معاہدے کیے تو کیا اس کے کوئی دیرپا اثرات نظر آئے؟ بلکہ ملا فضل اللہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا، جماعت اسلامی کی حکومت نے اسلام پسندوں کو مراعات دیں اور تحریک نفاذ شریعت کے رہنماؤں کی پیٹھ ٹھونکتے رہے اور سوات مالاکنڈ ڈویژن میں عسکری قوت اس قدر مضبوط ہو گئی کہ سیکولر جماعت اے این پی کو ان سے نظام عدل کے نام پر معاہدے کرنے پڑے لیکن اس کے بھی مثبت نتائج اس لیے نہیں آ سکے کیونکہ مصلحتوں اور سیاسی مفادات نے معاہدات پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوات مالاکنڈ دویژن پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا اور بالآخر ان سیاسی جماعتوں نے فوج کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ہم جمہوری نظام کے خانوادے ناکام ہو گئے ہیں لاکھوں انسانوں کی جان بچانے اور سوات مالا کنڈ کا علاقہ واپس لانے کے لیے ہماری مدد کریں۔ پھر یہی فوج تھی جس نے سوات مالا کنڈ ڈویژن میں آپریشن راہ راست اور وزیر ستان میں آپریشن راہ نجات کے ذریعے پاکستان کا پرچم سر بلند کیا اور حکومتی رٹ قائم کی، سیاستدانوں کی کم معاملہ فہمی سے مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش تو بن چکا ہے لیکن انھوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنی ریشہ دانیوں اور کرپشن، مفاد پرستیوں کی روش پر گامزن رہتے ہوئے، سوائے اپنی تجوریوں کو بھرنے کے اور کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔
بلکہ الٹا جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کی جانب سے انتہا پسند حکیم اللہ محسود کو شہید اور آئی ایس پی آر کے بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن نے کتوں کو بھی شہادت کا درجہ دے دیا، جن سیاست دانوں کے نزدیک نجس جانور کتا اور بیگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے شہید کہلائے جائیں اور پاک فوج کو ایک کٹھ پتلی ادارہ سمجھ کر تنبیہہ کی جائے کہ خاموش رہو اور جو نام نہاد سیاست دان کہہ رہے وہی کرو تو کیا اس کو گڈ گورننس کہا جا سکتا ہے۔
آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج نے اپنا پورا مورال داؤ پر لگا دیا یہی سیاسی جماعتیں تھیں جنھوں آئی ڈی پیز کی خدمت کرنے انھیں سہارا دینے کے بجائے ان پر سیاست شروع کر دی، کسی نے صوبہ بند کر دیا تو کسی نے اسے وفاق کا مسئلہ قرار دے دیا۔ کیا پاکستان کی بقا کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی دینے والے عوام اور پاک فوج کی حیثیت اس قدر سیاست دانوں کے نزدیک گئی گزری ہو گئی ہے کہ ان کے نزدیک جان و مال کی قربانی دینے والے محض رسمی پیرائے میں کہلائے جانے کے قابل رہ جاتے ہیں، کیا یہی گڈ گورننس کہلائی جاتی ہے۔
شمالی و جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج نے جس بھرپور کارروائی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے تو یہ ان کی کسی جنگی مشقوں کا سلسلہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سرحدوں سے ایسے عناصر کی سرکوبی ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں آئے روز بم دھماکے اور خود کش دھماکے ہوتے رہے اور عام انسان کی جان و کاروبار محفوظ نہیں رہا، سیاست دانوں کی یہ جمہوری حکومتیں ہی ہیں جو انھیں تحفظ دینے میں ناکام رہیں، مذاکرات کے نام پر حکومتی بے اختیار کمیٹی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان (کالعدم) سے نمائشی فوٹو سیشن اور میڈیا ٹرائل نے پوری قوم کو شش و پنج میں رکھا، پنجاب میں تو طالبان سے مبینہ طور پر معاہدہ کر لیا گیا تھا کہ پنجاب میں انھیں کچھ نہ کہا جائے ۔
جس پر پورے پاکستان میں ایک انتشار پھیل گیا گیا تھا کیا ہم اسے گڈ گورننس کہیں گے۔ سندھ میں جس طرح کئی عشروں سے ہزاروں کی تعداد میں بیگناہ عوام کا خون بہایا جاتا رہا اور نامعلوم افراد، گینگ وار مافیا نے کراچی کے عوام کی سانس تک لینے کی فیس مقرر کر دی اور سائیں سرکار سب اچھا کی رپورٹ دیتی رہی کیا اسے گڈ گورننس قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی حکومت امن و امان کے حوالے سے بدترین ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں، تحریک انصاف کے چیئرمین تو طالبان کی محبت میں اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ پشاور میں طالبان کو باقاعدہ دفتر کھولنے کی دعوت و اجازت دینے کی پیشکش کر دی تھی، کافی عرصے تک تو شدت پسندوں کی کارروائیوں پر مذمت کرنے پر بھی تامل برتتے رہے۔
شدت پسندوں کو دہشت گرد کہنے سے کتراتے رہے، یہاں تک کہ عوام خون میں نہا رہے تھے اور یہ اپنے وزراء کے ساتھ اسلام آباد کے دھرنوں میں رقص و سرور کی محفلوں میں مصروف تھے جب خٹک صاحب سے پوچھا گیا تو تیکھا سا جواب آیا کہ اگر میں پشاور میں ہوتا تو کیا تباہی نہیں آتی اور میں ڈاکٹر نہیں ہوں، کراچی ائیر پورٹ اور پھر اے پی ایس کے ہولناک واقعات نے تمام سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھول دیں اور ان کی نظریں اور جڑے ہاتھ فوج کی جانب ہی اٹھے کہ خدارا مدد کو آؤ۔
کیا امن و امان کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی نہیں ہے کہ وہ اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی آلودگی سے پاک کرتے اور پولیس کی نوکریاں لاکھوں روپوں میں فروخت کرنے اور پولیس فنڈز میں اربوں روپوں کے غبن کرنے کے بجائے عوام کے تحفظ کو ترجیح دیتے۔ ہمیں پاک فوج کو متنازعہ بنانے سے گریز کی راہ اپنانے ہو گی اپنی سیاسی معاملات کو خود حل کرنا ہو گا۔