آگ تو لگ گئی جلنا تو سب کو ہے
میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ فرانس میں ظلم و بربریت کی انتہا ہو گئی
میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ فرانس میں ظلم و بربریت کی انتہا ہو گئی، لیکن یہ سو چ سوچ کر میرا جسم کانپ رہا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ مجھے کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ داعش والے کون ہیں۔ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ روس کا صدر امریکی صدر سے کیا بات کرتا ہے۔ میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے، اس بات سے کہ ایرانیوں کا سعودیہ کے ساتھ کیا کھیل چل رہا ہے۔ ہاں! مجھے افسوس ہوا کہ جب فرانس کے بے گناہ شہریوں کو چُن چُن کر مارا گیا، لیکن میرا خوف یہ ہے کہ میرا کیا ہو گا؟ میرے بھائی کا کیا بنے گا؟ کوئی پاکستانی اس کارروائی میں ملوث نکلا تو سارا نزلہ پاکستان میں گرے گا، میرا بھائی جو برطانیہ میں رہتا ہے اُس کے خلاف تعصب بڑھ جائے گا۔
مجھے شدید صدمہ پہنچا جب میں نے لوگوں کی چیخ و پکار سُنی، مگر مجھے دور سے شامی معصوم بچے روتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کیا 9/11 کے بعد جو کچھ پاکستان اور افغانستا ن کے ساتھ ہوا۔ وہ ہی کچھ کیا اب شام اور عراق میں ہو گا۔ وہاں غصے میں وحشیانہ بمباری کی جائے گی۔ ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے جو پہلے ہی آپ جیسی بڑی طاقتوں کے کھیل کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ اب کیا وہ ہی ہو گا جو کچھ عراق میں ہوا۔ آپ نے وہاں جو آگ لگائی اُس نے عراق کا شیرازہ ہی بکھیر دیا۔ مجھے دور سے ان ماؤں کی سسکیاں سُنائی دے رہی ہیں جو اب اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے یورپ نہیں جا سکیں گی۔ پہلے ہی ان کی زندگی بارود کے ڈھیر پر ٹنگی پڑی تھی۔ اب سب لوگ اُس کے جسم سے کھال تک اتار دیں گے، کیا کسی کو وہ آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔
میں فرانس کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا ہوں۔ جو ظلم و بربریت کا نشانہ بنے، لیکن کیا یہ سب لوگ میرے ساتھ کھڑے تھے۔ جب میں پچھلے سال اپنے بچوں کے جنازے اُٹھا رہا تھا۔ کیا کسی کو میرے دکھ کا احساس ہے کہ جب میں اپنی ماں کو روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ آگ کسی کی نہیں ہوتی۔ آپ نے میرے گھر میں آگ لگائی اور یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے شعلے آپ تک نہیں پہنچیں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی تھی۔ پہلے آپ نے شاطرانہ طریقے سے اپنا غلبہ قائم کرنے کے لیے ہمیں دوزخ میں دھکیلا تھا۔ اب یہ آگ آپ کے گھر تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں اب آپ پھر غلطی کر رہے ہیں۔ شعلوں کو روکنے کے لیے اُس پر پانی نہیں ڈال رہے، بلکہ اُسے تیل فراہم کر رہے ہیں۔ اس وقت آنکھیں بند کر کے محاذ کھولا جا رہا ہے اُس کی بُو کئی بچوں کے جسموں میں داخل ہو کر بارود بن جائے گی۔ خون آپ نے بہانا شروع کیا تو روکنا بھی آپکو ہی ہو گا۔ جتنے گھر اس میں اور اجڑیں گے اتنی اس جنگ میں شدت آئے گی۔ معاملہ یہ سیاسی ہے۔ اسے سیاست کی میز پر ہی حل ہونا چاہیے۔
جن لوگوں نے علاقوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو عالمگیریت کی شکل دی تھی۔ ان سب کے لیے سبق ہے۔ جنھوں نے روس سے لڑنے کے لیے پوری دنیا سے کھیپ ہمارے یہاں بھیجی تھی۔ وہ سب لوٹ چکے ہیں۔ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے کہ وہاں فرانس میں حملہ ہو اور آپ شام پر اپنے جہاز دوڑانا شروع کر دیں۔ اس سے آپ اپنے عوام کو یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ ہم بدلہ لے رہے ہیں لیکن یہ کسی طور پر بھی بہتر حکمت عملی نہیں ہے۔ آپ کو یہ محسوس کرنا ہو گا کہ ماں چاہے فرانس کی ہو یا پھر وزیرستان کی، ممتا شام اور امریکا میں ایک جیسی ہوتی ہے۔ ماں کی گود کابل میں اجڑے یا پھر جرمنی میں بددعا ایک جیسی ہی نکلتی ہے۔
لڑاؤ اور مارو کے ذریعے حکومت کرنے والے جب تک یہ نہیں سوچیں گے کہ کسی بھی جگہ ماں کی گود نہیں اجڑنی چاہیے انھیں وقفے وقفے سے خون کا یہ رقص دیکھنا پڑے گا۔ انسانیت کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ جب شام میں زندگی کا چراغ گُل ہو رہا ہو تو امریکا میں بیٹھے ''جینٹل مین'' کی آنکھ بھی نم ہو۔ جب فرانس میں خون کا ایک قطرہ گرے تو پاکستان میں اس کا دکھ محسوس کیا جائے۔
جس تیزی سے یہاں انسانیت کا درس دینے والے بڑھے ہیں، اُسی تیزی کے ساتھ یہاں انسانیت کا خاتمہ شروع ہو چکا ہے۔ کوئی ہمیں مذہب کے نام پر انسانیت کو قتل کرنے کا سرٹیفیکیٹ دیتا ہے تو کوئی ہمیں جمہوریت کے نام پر پستول پکڑا دیتا ہے۔ کسی نے ہمیں انسانی حقوق کے نام پر مقتل تک پہنچایا تو کسی نے ہمیں اپنی بقا کے لیے آگ میں جھونک دیا۔ مسئلے کا حل کیا ہے، کیا انسانیت کو اسی طرح کبھی پشاور کے اسکول میں تو کبھی بغداد کی گلیوں میں رسوا کرنا ہے؟ جس کے پاس جہاں طاقت ہے وہ انسانیت کو سرعام ننگا کر کے بیچنے میں مصروف ہے۔ کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ پاکستان جس آگ میں جل رہا ہے، اُس کا بیج بونے والے کون سی عدالت کے سامنے حاضر ہوئے۔ کیا کسی میں اتنی ہمت ہے جو ٹونی بلئیر کے اس اعتراف کے بعد کہ عراق میں غلطی ہوئی ہے انھیں عالمی پولیس والوں کے سامنے پیش کر سکے۔
خون تو پھر خون ہے ٹپکے کا تو جم جائے گا۔ داعش ہو، طالبان ہو، الشباب ہو یا پھر شیوسینا، کوئی یہ بھی تو بتائے کہ ان کے پاس یہ رنگ برنگے ہتھیار آ کہاں سے رہے ہیں۔ جس کا جہاں زور چلا، جس کو جہاں اپنا الُو سیدھا کرنے کا موقع ملا اور جیسے یہ یقین ہوا کہ وہ کمزور کی گردن پر پاؤں رکھ سکتا ہے۔ وہ شروع ہو گیا۔ فرانس یہ بھی تو بتا دے کہ وہ مالی میں کیا کر رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ قاتل فرانس کی گلیوں میں آوارہ گردی کریں۔ کمزور کو طاقت سے کچلنے کی رسم کو ختم کرنا ہو گا، اور اُن لوگوں تک بھی پہنچنا ہوگا جو چاہتے ہیں کہ خون بہتا رہے تا کہ اُن کی دکان چلتی رہے۔
پاکستان میں کون چاہتا ہے کہ دھماکے ہوں؟ شام میں کس کی دلچسپی تھی کہ وہاں لہو بہتا رہے۔ ایک عام عراقی کا نام بتا دیجیے جو یہ چاہتا ہو کہ موصل کی گلیوں میں سناٹا ہو۔ جیسے آج لوگوں کے ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے ہیں کہ فرانس میں امن رہے۔ ویسے ہی تو ہم کئی دہائیوں سے یہ دعا مانگ رہے ہیں۔
اب وہ وقت نہیں رہا کہ برابر کا گھر جل رہا ہو اور میں تماشہ دیکھوں۔ اگر دنیا کو امن کی طرف سفر کرنا ہے تو پھر معاملے کو بندوق بیچ کر حل نہیں کرنا ہو گا، بلکہ بارود کو سمندر میں غرق کر کے بات کرنی ہو گی۔ یہ بتانا ہو گا کہ ہم ببول بو کر پھول کی خواہش نہیں کر سکتے۔ ہم تقسیم کر کے امن کی گنتی نہیں بڑھا سکتے، اگر پیرس خوشبو کا شہر ہے تو ہمارا پشاور بھی پھولوں کا شہر ہے، اگر امریکا میں سب سے بڑی یونیورسٹی ہو سکتی ہے تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ شام کی مٹی اور تہذیب نے انسانیت کو پہچان دی ہے۔ ہاں مان لیتے ہیں کہ برطانیہ ایک مہذب ملک ہے لیکن یہ بھی تو یاد رکھے کہ انسانوں کی سب سے پرانی تاریخ بابل اور نینوا کہاں سے ہے۔ انسان سب برابر ہے کسی کے پاس فخر کرنے کے لیے ماضی ہے تو کسی کے پاس حال ہے اور ہو سکتا ہے کسی کے پاس مستقبل ہو۔
ہم آج سے نہیں اُس وقت سے حالت جنگ میں ہیں، جب آپ نے اس دہشت گردی کا بیچ ہمارے ملک میں بویا تھا جب مغرب اتحاد بنا کر جہادی ہمارے یہاں بھیجتا تھا۔ آپ اپنی ہی مسلط کی ہوئی جنگ کے آغاز کا اعلان کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ داعش نے یہ عمل کر کے جنگ کا اعلان کیا ہے، مگر اس جنگ کا آغاز آپ نے انھیں اسلحہ اور طاقت دے کر کیا تھا۔ ہمیں خوشی ہوتی کہ اگر یہ اعلان تھوڑا سا بدل کر ہوتا اور کہا جاتا کہ آج سے ہم اُس جنگ کا باقاعدہ حصہ ہیں جو ہم نے شروع کی تھی، لیکن اب ہمارے دوست ہمارے دشمن ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا ایک ایک بچہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا، اگر آپ یہ کہتے کہ ہم اب پاکستان کے بچوں کے ساتھ ہیں جنھیں اسکول میں شہید کیا گیا تھا۔ شام اور عراق کی ہر ماں آپ کے ساتھ ہوتی، اگر آپ یہ کہتے کہ ہم ان سب سے معافی مانگتے ہیں کہ ہم نے آپ کی گودیں اجاڑیں اور آج کے بعد ہم کسی ماں کو رونے نہیں دیں گے، لیکن ایک بار پھر گہری سازش ہے۔ داعش نے یہ محاذ کھولا ہے یا پھر اُس نے اپنے آقا کا حکم پورا کیا ہے۔ جس کے تحت انسانیت کی قبر پر کھڑے ہو کر اپنی سلطنت قائم کرنا ہے۔ کچھ لوگ غلطیاں کر رہے ہیں، کچھ سے غلطیاں کرائی جا رہی ہیں اور کچھ لوگ جان بوجھ کر غلطیاں کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے جنگل میں آگ تو لگی ہوئی ہے دیکھنا یہ ہے کہ گھر کس کس کا بچتا ہے۔
مجھے شدید صدمہ پہنچا جب میں نے لوگوں کی چیخ و پکار سُنی، مگر مجھے دور سے شامی معصوم بچے روتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کیا 9/11 کے بعد جو کچھ پاکستان اور افغانستا ن کے ساتھ ہوا۔ وہ ہی کچھ کیا اب شام اور عراق میں ہو گا۔ وہاں غصے میں وحشیانہ بمباری کی جائے گی۔ ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے جو پہلے ہی آپ جیسی بڑی طاقتوں کے کھیل کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ اب کیا وہ ہی ہو گا جو کچھ عراق میں ہوا۔ آپ نے وہاں جو آگ لگائی اُس نے عراق کا شیرازہ ہی بکھیر دیا۔ مجھے دور سے ان ماؤں کی سسکیاں سُنائی دے رہی ہیں جو اب اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے یورپ نہیں جا سکیں گی۔ پہلے ہی ان کی زندگی بارود کے ڈھیر پر ٹنگی پڑی تھی۔ اب سب لوگ اُس کے جسم سے کھال تک اتار دیں گے، کیا کسی کو وہ آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔
میں فرانس کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا ہوں۔ جو ظلم و بربریت کا نشانہ بنے، لیکن کیا یہ سب لوگ میرے ساتھ کھڑے تھے۔ جب میں پچھلے سال اپنے بچوں کے جنازے اُٹھا رہا تھا۔ کیا کسی کو میرے دکھ کا احساس ہے کہ جب میں اپنی ماں کو روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ آگ کسی کی نہیں ہوتی۔ آپ نے میرے گھر میں آگ لگائی اور یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے شعلے آپ تک نہیں پہنچیں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی تھی۔ پہلے آپ نے شاطرانہ طریقے سے اپنا غلبہ قائم کرنے کے لیے ہمیں دوزخ میں دھکیلا تھا۔ اب یہ آگ آپ کے گھر تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں اب آپ پھر غلطی کر رہے ہیں۔ شعلوں کو روکنے کے لیے اُس پر پانی نہیں ڈال رہے، بلکہ اُسے تیل فراہم کر رہے ہیں۔ اس وقت آنکھیں بند کر کے محاذ کھولا جا رہا ہے اُس کی بُو کئی بچوں کے جسموں میں داخل ہو کر بارود بن جائے گی۔ خون آپ نے بہانا شروع کیا تو روکنا بھی آپکو ہی ہو گا۔ جتنے گھر اس میں اور اجڑیں گے اتنی اس جنگ میں شدت آئے گی۔ معاملہ یہ سیاسی ہے۔ اسے سیاست کی میز پر ہی حل ہونا چاہیے۔
جن لوگوں نے علاقوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو عالمگیریت کی شکل دی تھی۔ ان سب کے لیے سبق ہے۔ جنھوں نے روس سے لڑنے کے لیے پوری دنیا سے کھیپ ہمارے یہاں بھیجی تھی۔ وہ سب لوٹ چکے ہیں۔ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے کہ وہاں فرانس میں حملہ ہو اور آپ شام پر اپنے جہاز دوڑانا شروع کر دیں۔ اس سے آپ اپنے عوام کو یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ ہم بدلہ لے رہے ہیں لیکن یہ کسی طور پر بھی بہتر حکمت عملی نہیں ہے۔ آپ کو یہ محسوس کرنا ہو گا کہ ماں چاہے فرانس کی ہو یا پھر وزیرستان کی، ممتا شام اور امریکا میں ایک جیسی ہوتی ہے۔ ماں کی گود کابل میں اجڑے یا پھر جرمنی میں بددعا ایک جیسی ہی نکلتی ہے۔
لڑاؤ اور مارو کے ذریعے حکومت کرنے والے جب تک یہ نہیں سوچیں گے کہ کسی بھی جگہ ماں کی گود نہیں اجڑنی چاہیے انھیں وقفے وقفے سے خون کا یہ رقص دیکھنا پڑے گا۔ انسانیت کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ جب شام میں زندگی کا چراغ گُل ہو رہا ہو تو امریکا میں بیٹھے ''جینٹل مین'' کی آنکھ بھی نم ہو۔ جب فرانس میں خون کا ایک قطرہ گرے تو پاکستان میں اس کا دکھ محسوس کیا جائے۔
جس تیزی سے یہاں انسانیت کا درس دینے والے بڑھے ہیں، اُسی تیزی کے ساتھ یہاں انسانیت کا خاتمہ شروع ہو چکا ہے۔ کوئی ہمیں مذہب کے نام پر انسانیت کو قتل کرنے کا سرٹیفیکیٹ دیتا ہے تو کوئی ہمیں جمہوریت کے نام پر پستول پکڑا دیتا ہے۔ کسی نے ہمیں انسانی حقوق کے نام پر مقتل تک پہنچایا تو کسی نے ہمیں اپنی بقا کے لیے آگ میں جھونک دیا۔ مسئلے کا حل کیا ہے، کیا انسانیت کو اسی طرح کبھی پشاور کے اسکول میں تو کبھی بغداد کی گلیوں میں رسوا کرنا ہے؟ جس کے پاس جہاں طاقت ہے وہ انسانیت کو سرعام ننگا کر کے بیچنے میں مصروف ہے۔ کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ پاکستان جس آگ میں جل رہا ہے، اُس کا بیج بونے والے کون سی عدالت کے سامنے حاضر ہوئے۔ کیا کسی میں اتنی ہمت ہے جو ٹونی بلئیر کے اس اعتراف کے بعد کہ عراق میں غلطی ہوئی ہے انھیں عالمی پولیس والوں کے سامنے پیش کر سکے۔
خون تو پھر خون ہے ٹپکے کا تو جم جائے گا۔ داعش ہو، طالبان ہو، الشباب ہو یا پھر شیوسینا، کوئی یہ بھی تو بتائے کہ ان کے پاس یہ رنگ برنگے ہتھیار آ کہاں سے رہے ہیں۔ جس کا جہاں زور چلا، جس کو جہاں اپنا الُو سیدھا کرنے کا موقع ملا اور جیسے یہ یقین ہوا کہ وہ کمزور کی گردن پر پاؤں رکھ سکتا ہے۔ وہ شروع ہو گیا۔ فرانس یہ بھی تو بتا دے کہ وہ مالی میں کیا کر رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ قاتل فرانس کی گلیوں میں آوارہ گردی کریں۔ کمزور کو طاقت سے کچلنے کی رسم کو ختم کرنا ہو گا، اور اُن لوگوں تک بھی پہنچنا ہوگا جو چاہتے ہیں کہ خون بہتا رہے تا کہ اُن کی دکان چلتی رہے۔
پاکستان میں کون چاہتا ہے کہ دھماکے ہوں؟ شام میں کس کی دلچسپی تھی کہ وہاں لہو بہتا رہے۔ ایک عام عراقی کا نام بتا دیجیے جو یہ چاہتا ہو کہ موصل کی گلیوں میں سناٹا ہو۔ جیسے آج لوگوں کے ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے ہیں کہ فرانس میں امن رہے۔ ویسے ہی تو ہم کئی دہائیوں سے یہ دعا مانگ رہے ہیں۔
اب وہ وقت نہیں رہا کہ برابر کا گھر جل رہا ہو اور میں تماشہ دیکھوں۔ اگر دنیا کو امن کی طرف سفر کرنا ہے تو پھر معاملے کو بندوق بیچ کر حل نہیں کرنا ہو گا، بلکہ بارود کو سمندر میں غرق کر کے بات کرنی ہو گی۔ یہ بتانا ہو گا کہ ہم ببول بو کر پھول کی خواہش نہیں کر سکتے۔ ہم تقسیم کر کے امن کی گنتی نہیں بڑھا سکتے، اگر پیرس خوشبو کا شہر ہے تو ہمارا پشاور بھی پھولوں کا شہر ہے، اگر امریکا میں سب سے بڑی یونیورسٹی ہو سکتی ہے تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ شام کی مٹی اور تہذیب نے انسانیت کو پہچان دی ہے۔ ہاں مان لیتے ہیں کہ برطانیہ ایک مہذب ملک ہے لیکن یہ بھی تو یاد رکھے کہ انسانوں کی سب سے پرانی تاریخ بابل اور نینوا کہاں سے ہے۔ انسان سب برابر ہے کسی کے پاس فخر کرنے کے لیے ماضی ہے تو کسی کے پاس حال ہے اور ہو سکتا ہے کسی کے پاس مستقبل ہو۔
ہم آج سے نہیں اُس وقت سے حالت جنگ میں ہیں، جب آپ نے اس دہشت گردی کا بیچ ہمارے ملک میں بویا تھا جب مغرب اتحاد بنا کر جہادی ہمارے یہاں بھیجتا تھا۔ آپ اپنی ہی مسلط کی ہوئی جنگ کے آغاز کا اعلان کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ داعش نے یہ عمل کر کے جنگ کا اعلان کیا ہے، مگر اس جنگ کا آغاز آپ نے انھیں اسلحہ اور طاقت دے کر کیا تھا۔ ہمیں خوشی ہوتی کہ اگر یہ اعلان تھوڑا سا بدل کر ہوتا اور کہا جاتا کہ آج سے ہم اُس جنگ کا باقاعدہ حصہ ہیں جو ہم نے شروع کی تھی، لیکن اب ہمارے دوست ہمارے دشمن ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا ایک ایک بچہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا، اگر آپ یہ کہتے کہ ہم اب پاکستان کے بچوں کے ساتھ ہیں جنھیں اسکول میں شہید کیا گیا تھا۔ شام اور عراق کی ہر ماں آپ کے ساتھ ہوتی، اگر آپ یہ کہتے کہ ہم ان سب سے معافی مانگتے ہیں کہ ہم نے آپ کی گودیں اجاڑیں اور آج کے بعد ہم کسی ماں کو رونے نہیں دیں گے، لیکن ایک بار پھر گہری سازش ہے۔ داعش نے یہ محاذ کھولا ہے یا پھر اُس نے اپنے آقا کا حکم پورا کیا ہے۔ جس کے تحت انسانیت کی قبر پر کھڑے ہو کر اپنی سلطنت قائم کرنا ہے۔ کچھ لوگ غلطیاں کر رہے ہیں، کچھ سے غلطیاں کرائی جا رہی ہیں اور کچھ لوگ جان بوجھ کر غلطیاں کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے جنگل میں آگ تو لگی ہوئی ہے دیکھنا یہ ہے کہ گھر کس کس کا بچتا ہے۔