دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ میئر یا چیئرمین زمینوں کی الاٹمنٹ کے معاملات میں توثیق یا تنسیخ کا حق رکھتا ہے
آج کل میڈیا میں ایک مہم چلائی جارہی ہے۔
جس میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء کے بارے میں کچھ اس طرح کی رائے مرتب کی جارہی ہے کہ خاکم بدہن سندھ کو فروخت کرنے کا مکمل انتظام کرلیا گیا ہے اور سندھ اب چند دنوں کا مہمان رہ گیا ہے۔ میری عاجزانہ گزارش ہے کہ سندھ دھرتی سے وفاداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ سندھ کے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے ناکہ منفی پروپیگنڈا کے ذریعہ ایک نان ایشو موضوع پر اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔
اگر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء کے بارے میں اعتراض ہیں تو وہ دلائل جیسے جمہوری طریقہ کو یکسر رد کرتے ہوئے حل طلب بن سکتے تھے مگر منطق اور دلیل جیسے جمہوری طریقہ کو یکسر ردکرتے ہوئے اختلاف برائے اختلاف کے نظریے سے معاندانہ رویوں کا اظہار کسی طور پر بھی ایک جمہوری معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ اس کیلیے پاکستان اور بالخصوص سندھ کی تاریخ کا عمیق مطالعہ کرنا پڑے گاکہ کس طرح نام نہاد قوم پرست سیاستدانوں نے سندھ کے حقوق کی پامالی میں اپنا کردار اداکیا، آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ان موسمی سیاستدانوں کا کردارکسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سندھ کے عوام کو محض زبان کے نام پر دست و گریباں کرنے میں ان تانگہ پارٹیوں کے لیڈروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج کس منہ سے سندھ کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
سب سے پہلا مسئلہ صوبائی خود مختاری کا تھا جو صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مدبرانہ سوچ کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت نے نہایت خوش اسلوبی سے حل کیا اس کے بعد دوسرا اہم قدم این ایف سی ایوارڈ کی منصفانہ تقسیم کا تھا جو تمام صوبوں کی باہمی مشاورت اور بغیر کسی اختلاف کے حل کردیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک متنازع موضوع کالا باغ ڈیم بھی ہے جس پر کئی سال سے سیاسی یتیم اپنی اپنی دکانیں چلا رہے ہیں اور کالا باغ ڈیم کے ایشو کھڑا کرکے چوراہے کی سیاست میں اپنے اپنے جھنڈے بلند کررہے ہیں۔
لیکن صدر پاکستان کی فراست اور معاملہ فہمی کی بدولت کالا باغ ڈیم جیسے سلگتے موضوع کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ موجودہ جمہوری حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جب ان سیاست کے میدانوں میں جعلی شہسواروں کی جمہوری طاقت کے آگے دال نہیں گلی تو انھوں نے ایک نان ایشو موضوع پر تشدد کی سیاست کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں عوام کو گمراہ کرنے میں انھوں نے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ لیا ہے جو کسی بھی طرح ایک مہذب معاشرے کا حصہ قطعی نہیںہوسکتا۔
سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس2012ء کی تمام شقوں میں کہیں بھی سندھ کے عوام کے حقوق کی پامالی کا اشارہ نہیں ملتا بلکہ انتظامی طور پر مزید بہترکرنے اور نچلی سطح پر عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلیے ایک تاریخی کارنامہ ہے جس میں تمام اختیارات عوامی نمائندوں کے پاس ہی رہیں گے صرف لفظوں کے ردوبدل مثلاً میئر اور چیئرمین کے الفاظ انتظامی لحاظ سے تو الگ نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہے جس میں بڑے شہروں کا انتظامی کنٹرول کا ماخذ میئر کو بنایا گیا ہے جبکہ چھوٹے شہروں میں چیئرمین کا لفظ میئر کے ہی مترادف ہے لیکن انتظامی فرائض کے لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں۔ آج سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس پر جتنے اعتراض اٹھائے جارہے ہیں ان میں سے ایک بھی اعتراض منطقی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
جس میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ میئر یا چیئرمین زمینوں کی الاٹمنٹ کے معاملات میں توثیق یا تنسیخ کا حق رکھتا ہے۔ درحقیقت ایسے کوئی خصوصی اختیارات ان دونوں عہدوں کو تفویض نہیں کیے گئے جبکہ کے ڈی اے اور کے ایم سی کی لیز میں توسیع کرنے کا اختیار میئر کو سونپا گیاہے۔ ماضی میں کے ڈی اے اور کے ایم سی کے اپنے پولیس اسٹیشن موجود تھے جو اپنی زمینوں کی تجاوزات کے معاملے میں حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔
مخالفین دو عشروں پہلے والے اختیارات پر خاموش تھے جب صرف کراچی اور حیدرآباد میں میئرکا عہدہ تھا اور ڈسٹرکٹ اور کونسل کے چیئرمین کبھی سندھ کے کسی اور اضلاع میں میئر نہیں تھے اور باقی اضلاع میں چیئرمین کا تقرر کیا جاتا تھا اور آج سندھ کے (6) چھ شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص اور خیرپور کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کا درجہ دے دیا گیا اور دوسرے اضلاع میں چیئرمین کا عہدہ برقرار رکھا ہے، یہ انتظامی طور پر سندھ کے باشندوں کو سہولیات کی فراہمی کا ایک تاریخی تحفہ ہے جس میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام آنے والے شہر اپنا انتظام و انصرام مزید بہتر طور پر چلاسکیں گے اور دیگر اضلاع میں چیئرمین اپنے فرائض کی ادائیگی مزید احسن طریقہ سے کریں گے۔ انتظامی لحاظ سے مذکورہ بلدیاتی قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس سے سندھ کے باشندوں کو آپس میں ایک دوسرے سے اجنبیت کا احساس ہو یا تقسیم کا تاثر آئے۔
میرا سندھ کے عوام سے ایک سوال ہے کہ سندھ دھرتی کے وفاداروں کو آج اس بات کا خیال کیوں آیا جب جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے آمرانہ دور میں ہر جائز اور ناجائز بات پر آمنا صدقناً کہتے رہے اور سندھ کے عوام کے درد کو محسوس کیے بغیر ہی تمام مراعات بٹورتے رہے جب جمہوری طریقہ سے بغیر کسی دبائو اور دھاندلی کے سندھ کے عوام کو ایک بہتر انتظامی ڈھانچہ دیا جارہا ہے تو ان دھرتی کے خود ساختہ بیٹوں کو اتنی تکلیف کیوں ہورہی ہے۔ انھیں احتجاج کرنے کا خیال اس وقت کیوں نہیں آیا جب بلدیاتی نظام ایک آمر کے ذریعہ متعارف کرایا گیا اور آج جب پیپلزپارٹی کو حکومت اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے ایک بہتر نظام اپنے صوبوں کو دینے کی خواہاں ہے تو ان کو اپنی سیاست کی دکانیں ہمیشہ کے لیے بند ہوتی نظر آرہی ہیں تو اس لیے انھوں نے اب تشدد کی سیاست کا سہارا لیا ہے جو کہ ایک فاشٹ نظریہ ہے جسے تاریخ میں کبھی بھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا۔
(نوٹ: مضمون نگار وزیر اطلاعات سندھ ہیں)
جس میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء کے بارے میں کچھ اس طرح کی رائے مرتب کی جارہی ہے کہ خاکم بدہن سندھ کو فروخت کرنے کا مکمل انتظام کرلیا گیا ہے اور سندھ اب چند دنوں کا مہمان رہ گیا ہے۔ میری عاجزانہ گزارش ہے کہ سندھ دھرتی سے وفاداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ سندھ کے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے ناکہ منفی پروپیگنڈا کے ذریعہ ایک نان ایشو موضوع پر اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔
اگر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء کے بارے میں اعتراض ہیں تو وہ دلائل جیسے جمہوری طریقہ کو یکسر رد کرتے ہوئے حل طلب بن سکتے تھے مگر منطق اور دلیل جیسے جمہوری طریقہ کو یکسر ردکرتے ہوئے اختلاف برائے اختلاف کے نظریے سے معاندانہ رویوں کا اظہار کسی طور پر بھی ایک جمہوری معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ اس کیلیے پاکستان اور بالخصوص سندھ کی تاریخ کا عمیق مطالعہ کرنا پڑے گاکہ کس طرح نام نہاد قوم پرست سیاستدانوں نے سندھ کے حقوق کی پامالی میں اپنا کردار اداکیا، آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ان موسمی سیاستدانوں کا کردارکسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سندھ کے عوام کو محض زبان کے نام پر دست و گریباں کرنے میں ان تانگہ پارٹیوں کے لیڈروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج کس منہ سے سندھ کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
سب سے پہلا مسئلہ صوبائی خود مختاری کا تھا جو صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مدبرانہ سوچ کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت نے نہایت خوش اسلوبی سے حل کیا اس کے بعد دوسرا اہم قدم این ایف سی ایوارڈ کی منصفانہ تقسیم کا تھا جو تمام صوبوں کی باہمی مشاورت اور بغیر کسی اختلاف کے حل کردیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک متنازع موضوع کالا باغ ڈیم بھی ہے جس پر کئی سال سے سیاسی یتیم اپنی اپنی دکانیں چلا رہے ہیں اور کالا باغ ڈیم کے ایشو کھڑا کرکے چوراہے کی سیاست میں اپنے اپنے جھنڈے بلند کررہے ہیں۔
لیکن صدر پاکستان کی فراست اور معاملہ فہمی کی بدولت کالا باغ ڈیم جیسے سلگتے موضوع کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ موجودہ جمہوری حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جب ان سیاست کے میدانوں میں جعلی شہسواروں کی جمہوری طاقت کے آگے دال نہیں گلی تو انھوں نے ایک نان ایشو موضوع پر تشدد کی سیاست کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں عوام کو گمراہ کرنے میں انھوں نے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ لیا ہے جو کسی بھی طرح ایک مہذب معاشرے کا حصہ قطعی نہیںہوسکتا۔
سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس2012ء کی تمام شقوں میں کہیں بھی سندھ کے عوام کے حقوق کی پامالی کا اشارہ نہیں ملتا بلکہ انتظامی طور پر مزید بہترکرنے اور نچلی سطح پر عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلیے ایک تاریخی کارنامہ ہے جس میں تمام اختیارات عوامی نمائندوں کے پاس ہی رہیں گے صرف لفظوں کے ردوبدل مثلاً میئر اور چیئرمین کے الفاظ انتظامی لحاظ سے تو الگ نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہے جس میں بڑے شہروں کا انتظامی کنٹرول کا ماخذ میئر کو بنایا گیا ہے جبکہ چھوٹے شہروں میں چیئرمین کا لفظ میئر کے ہی مترادف ہے لیکن انتظامی فرائض کے لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں۔ آج سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس پر جتنے اعتراض اٹھائے جارہے ہیں ان میں سے ایک بھی اعتراض منطقی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
جس میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ میئر یا چیئرمین زمینوں کی الاٹمنٹ کے معاملات میں توثیق یا تنسیخ کا حق رکھتا ہے۔ درحقیقت ایسے کوئی خصوصی اختیارات ان دونوں عہدوں کو تفویض نہیں کیے گئے جبکہ کے ڈی اے اور کے ایم سی کی لیز میں توسیع کرنے کا اختیار میئر کو سونپا گیاہے۔ ماضی میں کے ڈی اے اور کے ایم سی کے اپنے پولیس اسٹیشن موجود تھے جو اپنی زمینوں کی تجاوزات کے معاملے میں حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔
مخالفین دو عشروں پہلے والے اختیارات پر خاموش تھے جب صرف کراچی اور حیدرآباد میں میئرکا عہدہ تھا اور ڈسٹرکٹ اور کونسل کے چیئرمین کبھی سندھ کے کسی اور اضلاع میں میئر نہیں تھے اور باقی اضلاع میں چیئرمین کا تقرر کیا جاتا تھا اور آج سندھ کے (6) چھ شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص اور خیرپور کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کا درجہ دے دیا گیا اور دوسرے اضلاع میں چیئرمین کا عہدہ برقرار رکھا ہے، یہ انتظامی طور پر سندھ کے باشندوں کو سہولیات کی فراہمی کا ایک تاریخی تحفہ ہے جس میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام آنے والے شہر اپنا انتظام و انصرام مزید بہتر طور پر چلاسکیں گے اور دیگر اضلاع میں چیئرمین اپنے فرائض کی ادائیگی مزید احسن طریقہ سے کریں گے۔ انتظامی لحاظ سے مذکورہ بلدیاتی قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس سے سندھ کے باشندوں کو آپس میں ایک دوسرے سے اجنبیت کا احساس ہو یا تقسیم کا تاثر آئے۔
میرا سندھ کے عوام سے ایک سوال ہے کہ سندھ دھرتی کے وفاداروں کو آج اس بات کا خیال کیوں آیا جب جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے آمرانہ دور میں ہر جائز اور ناجائز بات پر آمنا صدقناً کہتے رہے اور سندھ کے عوام کے درد کو محسوس کیے بغیر ہی تمام مراعات بٹورتے رہے جب جمہوری طریقہ سے بغیر کسی دبائو اور دھاندلی کے سندھ کے عوام کو ایک بہتر انتظامی ڈھانچہ دیا جارہا ہے تو ان دھرتی کے خود ساختہ بیٹوں کو اتنی تکلیف کیوں ہورہی ہے۔ انھیں احتجاج کرنے کا خیال اس وقت کیوں نہیں آیا جب بلدیاتی نظام ایک آمر کے ذریعہ متعارف کرایا گیا اور آج جب پیپلزپارٹی کو حکومت اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے ایک بہتر نظام اپنے صوبوں کو دینے کی خواہاں ہے تو ان کو اپنی سیاست کی دکانیں ہمیشہ کے لیے بند ہوتی نظر آرہی ہیں تو اس لیے انھوں نے اب تشدد کی سیاست کا سہارا لیا ہے جو کہ ایک فاشٹ نظریہ ہے جسے تاریخ میں کبھی بھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا۔
(نوٹ: مضمون نگار وزیر اطلاعات سندھ ہیں)