ایک سنگِ میل فیصلہ
دھاندلی کے الزامات صرف الزامات ہی رہے،کسی فرد یا ادارے پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی
گذشتہ جمعہ کا دن اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ اس روز عدالت عظمیٰ نے ایک ایسا تاریخ ساز فیصلہ دیا،جس کے پاکستان کے سیاسی مستقبل پرگہرے اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
بشرطیکہ حکمران اشرافیہ اس فیصلے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی مفادات سے بلند ہوکراس پر صحیح معنی میں عملدرآمد کرسکے۔ پاکستان کی نصف صدی سے زائدعرصہ پر محیط سیاسی تاریخ میں سیاستدانوں کو مختلف الزامات کے تحت سزائیں ہوتی رہی ہیں، جب کہ اس ملک کی اصل حکمران اسٹبلشمنٹ نے جو گل کھلائے ہیں،ان پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پوری غیر جانبداری اور جراتمندی کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کیے ہوں۔
معاملہ صرف 1990 کے عام انتخابات تک محدود نہیں ہے۔پاکستان کی تاریخ میں دسمبر1970 کے عام انتخابات کے سوا تقریباً سبھی انتخابات پر مختلف حلقوں کی جانب سے انگشت نمائی ہوتی رہی ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ 1977ء سے 2002ء کے دوران ہونے والا ایک بھی عام انتخاب ایسا نہیں تھا جس پر غیر جانبدار حلقوں نے اعتراضات نہ اٹھائے ہوں اور جن کی شفافیت پر تشکیک کا اظہار نہ کیا ہو۔اس سلسلے میں روئے سخن ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی جانب ہی رہا اور اس کے کردار پرشکوک وشبہات کا اظہار ہو تا رہا۔ لیکن کسی بھی حلقے نے عدالت سے رجوع کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دھاندلی کے الزامات صرف الزامات ہی رہے،کسی فرد یا ادارے پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی۔ 1990 کے انتخابات کے فوراً بعد بھی اسی قسم کی چہ میگوئیاںہوئیں۔ محترمہ شہید نے بھی الزام عائد کیا کہ اس انتخاب کو ان سے چرالیا گیا۔مگر اسے بھی حسب سابق الزام تراشی سمجھتے ہوئے نظرانداز کردیا گیا۔لیکن 1993ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد1994 میں اس وقت کے وفاقی وزیرداخلہ نصیراللہ بابر نے اس مسئلے کوسنجیدگی کے ساتھ قومی اسمبلی میں اٹھایا۔انھوں نے جنرل اسلم بیگ پرانتخابات کو انجینئرڈ کرنے کا براہ راست الزام عائدکرتے ہوئے مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے اس کھیل میں ملوث ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف کاروائی بھی شروع کردی۔جب اس معاملے نے نازک شکل اختیار کرناشروع کی تو ائیر مارشل اصغر خان سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی کے سیاسی کردار کے بارے میںیہ پٹیشن جمع کرائی۔ مسئلہ پر 16برس بعد فیصلہ سامنے آیا ہے۔
پاکستان میںامور مملکت اور حکمرانی میں سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کوئی نیا مظہر نہیںہے۔ اس کاآغاز قیام پاکستان سے قبل ہی ہوگیاتھا۔جس کی مثال قیام پاکستان سے تین روز قبل بابائے قوم کے دستورساز اسمبلی سے خطاب کا سنسر کیاجانا ہے۔ معروف محقق عقیل عباس جعفری کی تحقیق کے مطابق اگر اس وقت کے ڈان کے بنگالی ایڈیٹرالطاف حسین اس عمل کی سختی کے ساتھ مزاحمت نہ کرتے تو شاید یہ تقریرکبھی عوام تک نہ پہنچ پاتی۔لیکن نوکر شاہی کوقیام پاکستان کے ساتھ ہی حاصل ہونے والی اس بے پناہ طاقت کی ذمے داری مسلم لیگی قیادت کے ساتھ خود بابائے قوم پر بھی عائد ہوتی ہے، جوسیاسی رہنمائوں کے مقابلے میں سول بیوروکریسی کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ مختلف رپورٹس کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قائد اعظم اپنے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین سے زیادہ سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کواہمیت دیا کرتے تھے۔جس کی وجہ سے نوکرشاہی کو من مانیاں کرنے کا موقع ملااور وہ پالیسی سازی پر حاوی ہوتی چلی گئی۔
پاکستان میں اسٹبلشمنٹ کی بالادستی کا دوسرا بڑا سبب ریاست کا فلاحی کی بجائے سکیورٹی اسٹیٹ بن جاناہے۔جس کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کو سیاستدانوں پر حاوی آنے کا موقع ملا۔لیکن سیاستدانوں کی کوتاہ بینی اور جمہوریت کے بارے میں غیر سنجیدہ روش سے بھی صرف نظر ممکن نہیںہے۔ان کی جمہوری نظام میں عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابتدائی سات برسوںکے دوران دستور ساز اسمبلی کے کل156اجلاس ہوئے، جن میں سوائے قرارداد مقاصد کی منظوری کے قانون سازی میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہ بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ ملک پہلے وجود میں آگیا اور مقاصد بعد میں طے کیے گئے۔اس المناک صورتحال کا تیسراسبب یہ ہے کہ1951 کے بعد ملک غلام محمد کی سرپرستی میں نوکر شاہی اس قدر طاقتور ہوگئی کہ اس نے من مانے فیصلے کرنا شروع کردیئے۔جن میں 1953 میں لاہور سمیت پنجاب کے بعض شہروں میں مارشل لاء کا نفاذ اورفوج کے سربراہ کو یونیفارم میں وزیر دفاع مقررکیاجاناشامل ہے۔ان اقدمات نے دراصل فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کا راستہ دکھایا۔ جب کہ 1954 میںدستور ساز اسمبلی کی تحلیل، جمہوریت کی بیخ کنی کی طرف پہلا قدم تھا۔اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ غیرجمہوری قوتیں 1958 کے بعد مضبوط ہوئیں،بلکہ یہ قوتیں قیام پاکستان سے قبل ہی اپنے اہداف طے کرچکی تھیں۔
البتہ1958 سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔یعنی ہردس سے بارہ برس فوج براہ راست اقتدار میں رہتی۔جب خراب حکمرانی اور سیاسی حبس کے سبب عوام میںبے چینی پھیلتی ہے، تو کچھ عرصہ کے لیے پس پردہ جاکر سیاسی جماعتوں کو حکومت سازی کا موقع دیتی ہے، مگر لگام اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔مطلب یہ کہ جب چاہتی حکومت ختم کرادیتی اور جب چاہتی انتخابات میں ایجنسیوں کے ذریعہ دھاندلی کراکے کسی دوسری جماعت کو اقتدار میں لے آتی۔پھر سیاسی جماعتوں پر نااہلی کا الزام لگا کر ایک بار پھربراہ راست اقتدارمیں آجاتی۔ یوں54 برسوںسے یہ کھیل جاری ہے۔
اس دوران چار بار فوج نے براہ راست اقتدار پر قبضہ کیا۔پانچ منتخب سیاسی حکومتیں اور دوفوجی سربراہ کی صدارت کے ساتھ سویلین حکومتیں قائم ہوئیں۔مگربھٹو حکومت چھوڑ کر کوئی بھی سویلین حکومت پالیسی سازی میں آزاد نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اس دوران سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی،جو سیاسی عمل پراعتماد کرنے کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جوڑ توڑ کو اقتدار کا زینہ سمجھنے لگی۔ نتیجتاً نہ سیاسی عمل صحیح خطوط پر پروان چڑھ سکا اور نہ سیاستدان پراعتماد انداز میں فیصلہ سازی اور حکمرانی کرسکے۔
2007 کے بعد عدلیہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ نمودار ہوئی۔یہی سبب ہے کہ گذشتہ چار برسوں سے تمام تر تنقید اوردبائوکے باوجود بعض اہم اور حساس قومی امور پر جراتمندانہ فیصلے صادر کر رہی ہے۔لہٰذا یہ فیصلہ اسی جوڈیشل ایکٹوازم کے سلسلے کی کڑی ہے،جس میں پہلی بار کسی آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔مگر یہاں دیکھنا یہ ہے کہ آیا عدلیہ کے اس فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوسکے گا یا نہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ نظم حکمرانی معاشرے کی اجتماعی نفسیات اور طرز حیات کی عکاس ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بنیادی طورپر نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ طرز معاشرت کی فرسودہ بندشوں میں جکڑا ہوا ہے،اس لیے جدید طرز حکمرانی کے اصول وضوابط کو سمجھنے اور انھیں برتنے کی منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔جمہوریت کے ثمرات اس وقت ہی معاشرے کی ہر سطح تک پہنچتے ہیں، جب لوگ حقوق کے ساتھ فرائض کو بھی سمجھیں، ان میں توازن قائم کرسکیںاوراصول وضوابط کی نزاکتوں کوسمجھنے کے قابل ہوجائیں۔
پاکستان میں روز اول ہی سے جمہوریت کو سنجیدگی کے ساتھ اپنانے کی کوشش نہیں کی گئی،بلکہ اس کے ساتھ ہمیشہ مذاق کیا گیا۔ یہ بات بارہا ان صفحات پر بیان کی جاچکی ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل سیاسی وسماجی کلچر ہے۔مگر پاکستان میں ایک مخصوص اشرافیہ کے وجود میں آجانے اور مسلسل کسی نہ کسی شکل میں اقتدار پر قابض رہنے کی وجہ سے جمہوریت اپنی صحیح شکل میں پروان چڑھنے کی بجائے انتخابی عمل تک محدود ہوکر رہ گئی۔جس کی وجہ سے فکری مطلقیت، عدم برداشت اور تشددجیسے رجحانات کو تقویت حاصل ہوئی ہے، جو جمہوریت اور جمہوری کلچر کی کھلی نفی ہے۔یہ انداز فکر گذشتہ 65برس سے پاکستان میں تیزی سے پھیل رہاہے،جو اس ملک کے وجود کو نقصان پہنچانے کا سبب بنا ہوا ہے۔
اب جب کہ یہ فیصلہ آچکا ہے۔اس حوالے سے دو سوال اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کیا اس فیصلہ پر عمل ہوسکے گا؟ یعنی فوج اپنے ایک سابق چیف اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی سزا پر تیار ہوسکے گی؟ دوسرے اس فیصلے کے نتیجے میں سیاسی تقسیم کے مزید گہرا ہونے سے کیا آیندہ انتخابات متاثرنہیں ہوںگے؟اس بارے میں چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم بھی ایک انٹرویومیںاپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔اس لیے جہاں ایک طرف یہ فیصلہ پاکستان کے مستقبل کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔وہیں دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے درمیان خلیج کے بڑھنے اورسیاسی انتشار کے پھیلنے کاسبب بھی بن سکتا ہے۔
بشرطیکہ حکمران اشرافیہ اس فیصلے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی مفادات سے بلند ہوکراس پر صحیح معنی میں عملدرآمد کرسکے۔ پاکستان کی نصف صدی سے زائدعرصہ پر محیط سیاسی تاریخ میں سیاستدانوں کو مختلف الزامات کے تحت سزائیں ہوتی رہی ہیں، جب کہ اس ملک کی اصل حکمران اسٹبلشمنٹ نے جو گل کھلائے ہیں،ان پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پوری غیر جانبداری اور جراتمندی کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کیے ہوں۔
معاملہ صرف 1990 کے عام انتخابات تک محدود نہیں ہے۔پاکستان کی تاریخ میں دسمبر1970 کے عام انتخابات کے سوا تقریباً سبھی انتخابات پر مختلف حلقوں کی جانب سے انگشت نمائی ہوتی رہی ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ 1977ء سے 2002ء کے دوران ہونے والا ایک بھی عام انتخاب ایسا نہیں تھا جس پر غیر جانبدار حلقوں نے اعتراضات نہ اٹھائے ہوں اور جن کی شفافیت پر تشکیک کا اظہار نہ کیا ہو۔اس سلسلے میں روئے سخن ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی جانب ہی رہا اور اس کے کردار پرشکوک وشبہات کا اظہار ہو تا رہا۔ لیکن کسی بھی حلقے نے عدالت سے رجوع کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دھاندلی کے الزامات صرف الزامات ہی رہے،کسی فرد یا ادارے پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی۔ 1990 کے انتخابات کے فوراً بعد بھی اسی قسم کی چہ میگوئیاںہوئیں۔ محترمہ شہید نے بھی الزام عائد کیا کہ اس انتخاب کو ان سے چرالیا گیا۔مگر اسے بھی حسب سابق الزام تراشی سمجھتے ہوئے نظرانداز کردیا گیا۔لیکن 1993ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد1994 میں اس وقت کے وفاقی وزیرداخلہ نصیراللہ بابر نے اس مسئلے کوسنجیدگی کے ساتھ قومی اسمبلی میں اٹھایا۔انھوں نے جنرل اسلم بیگ پرانتخابات کو انجینئرڈ کرنے کا براہ راست الزام عائدکرتے ہوئے مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے اس کھیل میں ملوث ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف کاروائی بھی شروع کردی۔جب اس معاملے نے نازک شکل اختیار کرناشروع کی تو ائیر مارشل اصغر خان سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی کے سیاسی کردار کے بارے میںیہ پٹیشن جمع کرائی۔ مسئلہ پر 16برس بعد فیصلہ سامنے آیا ہے۔
پاکستان میںامور مملکت اور حکمرانی میں سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کوئی نیا مظہر نہیںہے۔ اس کاآغاز قیام پاکستان سے قبل ہی ہوگیاتھا۔جس کی مثال قیام پاکستان سے تین روز قبل بابائے قوم کے دستورساز اسمبلی سے خطاب کا سنسر کیاجانا ہے۔ معروف محقق عقیل عباس جعفری کی تحقیق کے مطابق اگر اس وقت کے ڈان کے بنگالی ایڈیٹرالطاف حسین اس عمل کی سختی کے ساتھ مزاحمت نہ کرتے تو شاید یہ تقریرکبھی عوام تک نہ پہنچ پاتی۔لیکن نوکر شاہی کوقیام پاکستان کے ساتھ ہی حاصل ہونے والی اس بے پناہ طاقت کی ذمے داری مسلم لیگی قیادت کے ساتھ خود بابائے قوم پر بھی عائد ہوتی ہے، جوسیاسی رہنمائوں کے مقابلے میں سول بیوروکریسی کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ مختلف رپورٹس کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قائد اعظم اپنے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین سے زیادہ سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کواہمیت دیا کرتے تھے۔جس کی وجہ سے نوکرشاہی کو من مانیاں کرنے کا موقع ملااور وہ پالیسی سازی پر حاوی ہوتی چلی گئی۔
پاکستان میں اسٹبلشمنٹ کی بالادستی کا دوسرا بڑا سبب ریاست کا فلاحی کی بجائے سکیورٹی اسٹیٹ بن جاناہے۔جس کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کو سیاستدانوں پر حاوی آنے کا موقع ملا۔لیکن سیاستدانوں کی کوتاہ بینی اور جمہوریت کے بارے میں غیر سنجیدہ روش سے بھی صرف نظر ممکن نہیںہے۔ان کی جمہوری نظام میں عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابتدائی سات برسوںکے دوران دستور ساز اسمبلی کے کل156اجلاس ہوئے، جن میں سوائے قرارداد مقاصد کی منظوری کے قانون سازی میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہ بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ ملک پہلے وجود میں آگیا اور مقاصد بعد میں طے کیے گئے۔اس المناک صورتحال کا تیسراسبب یہ ہے کہ1951 کے بعد ملک غلام محمد کی سرپرستی میں نوکر شاہی اس قدر طاقتور ہوگئی کہ اس نے من مانے فیصلے کرنا شروع کردیئے۔جن میں 1953 میں لاہور سمیت پنجاب کے بعض شہروں میں مارشل لاء کا نفاذ اورفوج کے سربراہ کو یونیفارم میں وزیر دفاع مقررکیاجاناشامل ہے۔ان اقدمات نے دراصل فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کا راستہ دکھایا۔ جب کہ 1954 میںدستور ساز اسمبلی کی تحلیل، جمہوریت کی بیخ کنی کی طرف پہلا قدم تھا۔اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ غیرجمہوری قوتیں 1958 کے بعد مضبوط ہوئیں،بلکہ یہ قوتیں قیام پاکستان سے قبل ہی اپنے اہداف طے کرچکی تھیں۔
البتہ1958 سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔یعنی ہردس سے بارہ برس فوج براہ راست اقتدار میں رہتی۔جب خراب حکمرانی اور سیاسی حبس کے سبب عوام میںبے چینی پھیلتی ہے، تو کچھ عرصہ کے لیے پس پردہ جاکر سیاسی جماعتوں کو حکومت سازی کا موقع دیتی ہے، مگر لگام اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔مطلب یہ کہ جب چاہتی حکومت ختم کرادیتی اور جب چاہتی انتخابات میں ایجنسیوں کے ذریعہ دھاندلی کراکے کسی دوسری جماعت کو اقتدار میں لے آتی۔پھر سیاسی جماعتوں پر نااہلی کا الزام لگا کر ایک بار پھربراہ راست اقتدارمیں آجاتی۔ یوں54 برسوںسے یہ کھیل جاری ہے۔
اس دوران چار بار فوج نے براہ راست اقتدار پر قبضہ کیا۔پانچ منتخب سیاسی حکومتیں اور دوفوجی سربراہ کی صدارت کے ساتھ سویلین حکومتیں قائم ہوئیں۔مگربھٹو حکومت چھوڑ کر کوئی بھی سویلین حکومت پالیسی سازی میں آزاد نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اس دوران سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی،جو سیاسی عمل پراعتماد کرنے کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جوڑ توڑ کو اقتدار کا زینہ سمجھنے لگی۔ نتیجتاً نہ سیاسی عمل صحیح خطوط پر پروان چڑھ سکا اور نہ سیاستدان پراعتماد انداز میں فیصلہ سازی اور حکمرانی کرسکے۔
2007 کے بعد عدلیہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ نمودار ہوئی۔یہی سبب ہے کہ گذشتہ چار برسوں سے تمام تر تنقید اوردبائوکے باوجود بعض اہم اور حساس قومی امور پر جراتمندانہ فیصلے صادر کر رہی ہے۔لہٰذا یہ فیصلہ اسی جوڈیشل ایکٹوازم کے سلسلے کی کڑی ہے،جس میں پہلی بار کسی آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔مگر یہاں دیکھنا یہ ہے کہ آیا عدلیہ کے اس فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوسکے گا یا نہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ نظم حکمرانی معاشرے کی اجتماعی نفسیات اور طرز حیات کی عکاس ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بنیادی طورپر نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ طرز معاشرت کی فرسودہ بندشوں میں جکڑا ہوا ہے،اس لیے جدید طرز حکمرانی کے اصول وضوابط کو سمجھنے اور انھیں برتنے کی منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔جمہوریت کے ثمرات اس وقت ہی معاشرے کی ہر سطح تک پہنچتے ہیں، جب لوگ حقوق کے ساتھ فرائض کو بھی سمجھیں، ان میں توازن قائم کرسکیںاوراصول وضوابط کی نزاکتوں کوسمجھنے کے قابل ہوجائیں۔
پاکستان میں روز اول ہی سے جمہوریت کو سنجیدگی کے ساتھ اپنانے کی کوشش نہیں کی گئی،بلکہ اس کے ساتھ ہمیشہ مذاق کیا گیا۔ یہ بات بارہا ان صفحات پر بیان کی جاچکی ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل سیاسی وسماجی کلچر ہے۔مگر پاکستان میں ایک مخصوص اشرافیہ کے وجود میں آجانے اور مسلسل کسی نہ کسی شکل میں اقتدار پر قابض رہنے کی وجہ سے جمہوریت اپنی صحیح شکل میں پروان چڑھنے کی بجائے انتخابی عمل تک محدود ہوکر رہ گئی۔جس کی وجہ سے فکری مطلقیت، عدم برداشت اور تشددجیسے رجحانات کو تقویت حاصل ہوئی ہے، جو جمہوریت اور جمہوری کلچر کی کھلی نفی ہے۔یہ انداز فکر گذشتہ 65برس سے پاکستان میں تیزی سے پھیل رہاہے،جو اس ملک کے وجود کو نقصان پہنچانے کا سبب بنا ہوا ہے۔
اب جب کہ یہ فیصلہ آچکا ہے۔اس حوالے سے دو سوال اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کیا اس فیصلہ پر عمل ہوسکے گا؟ یعنی فوج اپنے ایک سابق چیف اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی سزا پر تیار ہوسکے گی؟ دوسرے اس فیصلے کے نتیجے میں سیاسی تقسیم کے مزید گہرا ہونے سے کیا آیندہ انتخابات متاثرنہیں ہوںگے؟اس بارے میں چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم بھی ایک انٹرویومیںاپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔اس لیے جہاں ایک طرف یہ فیصلہ پاکستان کے مستقبل کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔وہیں دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے درمیان خلیج کے بڑھنے اورسیاسی انتشار کے پھیلنے کاسبب بھی بن سکتا ہے۔