طبقاتی تفریق
گزشتہ ماہ ہم نے روز افزوں گرانی کے اسباب اور اثرات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا تھا۔
HYDERABAD:
گزشتہ ماہ ہم نے روز افزوں گرانی کے اسباب اور اثرات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا تھا۔ قبل از اسلام عہد جاہلیت میں طبقاتی تقسیم، نسلی تفاخر اور نسبی عصبیت انسانی تاریخ کے عروج پر تھی جہاں انسانیت کو ناقابل عبور خطوط پر تقسیم کر دیا گیا تھا، انسانی عدم مساوات کا یہ نظریہ عملاً مذہبی، معاشرتی اور قانونی معاملات پر بھی لاگو ہوتا تھا، طبقاتی تفریق کی انتہائی پست اور بدترین صورت ''شریف اور رزیل'' کی خود ساختہ اور ظالمانہ تقسیم تھی جسے قانونی تحفظ بھی حاصل تھا۔
مہنگائی کے باعث جہاں دوسرے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، وہاں اس کے باعث تعلیم کے اخراجات میں ہونے والے اضافے نے گزشتہ 60 برس سے جاری ایک اہم روایت کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے وہ روایت یہ تھی کہ عمومی طور پر میٹرک و انٹر کے امتحانات میں طلبا و طالبات کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا تھا اور اب اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے سے ہے، ان کا تعلق جن اسکولوں سے تھا وہاں متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کے ایڈمشن کرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
ماضی کی اس روایت کا ٹوٹ جانا آگے چل کر قوم و ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے یہ اس بات کی نشان دہی بھی ہے کہ نہ صرف ہوشربا گرانی نے متوسط طبقے کے طالب علموں کی ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کیا بلکہ مڈل کلاس میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی کم ہو رہا ہے کسی بھی معاشرے میں یہی وہ کلاس ہوتی ہے جو اپنے اسی جذبے کی وجہ سے اجتماعی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
اس کے علاوہ تعلیمی شعبے کے حوالے سے ایک عام خیال یہ ہے کہ اس شعبے کے بعض مفاد پرست لوگ بھاری رقوم لے کر نجی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو پوزیشنز سے نوازتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض بڑے اور نامور تعلیمی اداروں میں یہ رقم ڈونیشن کے نام سے وصول کی جاتی ہے، ظاہر ہے مڈل کلاس طبقے کے والدین کے لیے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات ہی برداشت کرنا دشوار ہے وہ ان اخراجات کے علاوہ بھاری رقم کا بندوبست کس طرح کر سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ متوسط طبقے کے اکثر گھرانوں کے بیشتر نوجوان میٹرک یا انٹر کر کے ہی روزگار سے منسلک ہونے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ والدین کا بوجھ کم کر سکیں ان میں بیشتر ذہین اور با صلاحیت نوجوان بھی ہوتے ہیں جس کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ یا اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک ایسا خواب بن کر رہ جاتا ہے جس کی انھیں کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کے نوجوانوں، اکثر اعلیٰ تعلیم مغربی ممالک میں ہی حاصل کرتے ہیں اگر وطن لوٹ بھی آئیں تو اعلیٰ سیاسی و سرکاری عہدے ان کے منتظر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب وہ پالیسیاں بناتے ہیں یا فیصلے کرتے ہیں تو محض اپنے طبقے کے مفادات کا خیال کرتے ہیں۔ عام لوگوں کا تصور بھی ان کے ذہنوں میں نہیں ہوتا۔
متوسط طبقے کو غربت کی نچلی سطح کی جانب یونہی دھکیلا جاتا رہا تو خطرہ ہے کہ ملک میں انتشار بڑھتا جائے گا جس سے انتہا پسندی کے رجحان کو فروغ ملے گا۔ شدت پسندوں کو مایوس نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد میسر آ جائے گی، ویسے بھی نوجوانوں کی ایک تعداد جرائم کے راستے پر قدم رکھ ہی چکی ہے۔
وطن عزیز میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری غیر یقینی صورتحال، معاشی بد حالی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کو چھونے والی گرانی نے ظلم اور استحصال کی بنیادوں پر قائم طبقاتی تفریق میں مزید اضافہ کر دیا ہے، نہایت عجیب بات ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کلمہ گو مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو ایک اﷲ اور ایک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیروکار ہیں ایک الہامی کتاب قرآن پاک سے رہنمائی حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اس کے باوجود اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے پر نہ صرف رضامند ہیں بلکہ اس کو قائم رکھنے پر بضد بھی ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت میں ہندو مذہب کے پیروکار ایسا کریں تو تعجب نہ ہو کہ ان کے مذہب نے انھیں انسانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے کی تلقین کی ہے۔
لیکن ہمارے مذہب نے تو ہمیں طبقاتی تفریق مٹانے کا حکم دیا ہے ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا تو مشن ہی توحید اور انسانی مساوات کا قیام تھا۔کیا ہم بحیثیت مجموعی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کے برخلاف نہیں چل رہے ہیں۔
طبقاتی تفریق کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ملک میں ہمہ اقسام کے تعلیمی نظام رائج ہیں جو اس تفریق کو استحکام بھی بخشتے ہیں، ان یکسر مختلف نظام ہائے تعلیم کے ذریعے مزید طبقات اور مختلف درجوں کے حاکمین و محکومین تیار ہو رہے ہیں چنانچہ معاشرتی نظام جن قدروں پر استوار ہے وہ صرف غیر اخلاقی ہی نہیں تھا ظالمانہ حد تک غیر انسانی بھی ہے۔
تعلیمی اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ کیا پڑھایا جائے، کون پڑھائے، کتنی فیس لی جائے اور ماحول کیسا ہو، ان تمام معاملات پر کسی قسم کی کوئی قد غن محسوس نہیں ہوتی باوجود اس کے کہ تعلیم کا شعبہ گویا تجارتی منڈی کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے، امیر طبقے کی ضروریات اور مفادات کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے، عوام کے لیے وسائل کی ہمیشہ کمیابی بلکہ رہتی ہے اور ان جیسی دیگر بہت سی وجوہات ہیں جو معاشرے کو مسلسل انتشار اور بحران کے راستے پر لے جا رہی ہے اور وہ ''وحدت ملی'' جس کا تذکرہ کرتے کرتے ہمارے علمائے کرام، دانشوروں اور ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں کی زبانیں نہیں تھکتیں۔
اس ''وحدت ملی'' کا مظاہرہ خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے، ارباب اختیار کی اکثریت سے قومی و ملی ترقی کے ضمن میں تعلیم کی بنیادی اہمیت کا زبانی اقرار تو ضرور کیا لیکن اس کے لیے عملی اقدامات کا ہمیشہ فقدان رہا ہر طبقے کے لیے الگ طرز کے تعلیمی ادارے و نصاب ہیں مثلاً مراعات یافتہ بالائی طبقے کے بہت سے تعلیمی اداروں کا نصاب اور نظام سب ہی کچھ در آمد شدہ ہے اور اس کا نظریہ پاکستان کی روح سے مطابقت رکھنا بھی ضروری نہیں اس کے بعد بھی متمول طبقے کے لیے مخصوص تعلیمی اداروں کے کئی درجے ہیں پھر نمبر آتا ہے۔
گلی گلی محلے قائم انگلش میڈیم اسکول کا، پھر نمبر آتا ہے ان میں بھی کئی درجات ہیں ۔حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقعے پر طبقاتی تفریق اور نسلی تفاخر کے خاتمے کا اعلان ان واضح اور روشن الفاظ میں فرمایا ''لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر برتری حاصل ہے اور نہ کالے کو گورے پر فضیلت و برتری۔
گزشتہ ماہ ہم نے روز افزوں گرانی کے اسباب اور اثرات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا تھا۔ قبل از اسلام عہد جاہلیت میں طبقاتی تقسیم، نسلی تفاخر اور نسبی عصبیت انسانی تاریخ کے عروج پر تھی جہاں انسانیت کو ناقابل عبور خطوط پر تقسیم کر دیا گیا تھا، انسانی عدم مساوات کا یہ نظریہ عملاً مذہبی، معاشرتی اور قانونی معاملات پر بھی لاگو ہوتا تھا، طبقاتی تفریق کی انتہائی پست اور بدترین صورت ''شریف اور رزیل'' کی خود ساختہ اور ظالمانہ تقسیم تھی جسے قانونی تحفظ بھی حاصل تھا۔
مہنگائی کے باعث جہاں دوسرے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، وہاں اس کے باعث تعلیم کے اخراجات میں ہونے والے اضافے نے گزشتہ 60 برس سے جاری ایک اہم روایت کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے وہ روایت یہ تھی کہ عمومی طور پر میٹرک و انٹر کے امتحانات میں طلبا و طالبات کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا تھا اور اب اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے سے ہے، ان کا تعلق جن اسکولوں سے تھا وہاں متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کے ایڈمشن کرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
ماضی کی اس روایت کا ٹوٹ جانا آگے چل کر قوم و ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے یہ اس بات کی نشان دہی بھی ہے کہ نہ صرف ہوشربا گرانی نے متوسط طبقے کے طالب علموں کی ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کیا بلکہ مڈل کلاس میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی کم ہو رہا ہے کسی بھی معاشرے میں یہی وہ کلاس ہوتی ہے جو اپنے اسی جذبے کی وجہ سے اجتماعی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
اس کے علاوہ تعلیمی شعبے کے حوالے سے ایک عام خیال یہ ہے کہ اس شعبے کے بعض مفاد پرست لوگ بھاری رقوم لے کر نجی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو پوزیشنز سے نوازتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض بڑے اور نامور تعلیمی اداروں میں یہ رقم ڈونیشن کے نام سے وصول کی جاتی ہے، ظاہر ہے مڈل کلاس طبقے کے والدین کے لیے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات ہی برداشت کرنا دشوار ہے وہ ان اخراجات کے علاوہ بھاری رقم کا بندوبست کس طرح کر سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ متوسط طبقے کے اکثر گھرانوں کے بیشتر نوجوان میٹرک یا انٹر کر کے ہی روزگار سے منسلک ہونے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ والدین کا بوجھ کم کر سکیں ان میں بیشتر ذہین اور با صلاحیت نوجوان بھی ہوتے ہیں جس کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ یا اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک ایسا خواب بن کر رہ جاتا ہے جس کی انھیں کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کے نوجوانوں، اکثر اعلیٰ تعلیم مغربی ممالک میں ہی حاصل کرتے ہیں اگر وطن لوٹ بھی آئیں تو اعلیٰ سیاسی و سرکاری عہدے ان کے منتظر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب وہ پالیسیاں بناتے ہیں یا فیصلے کرتے ہیں تو محض اپنے طبقے کے مفادات کا خیال کرتے ہیں۔ عام لوگوں کا تصور بھی ان کے ذہنوں میں نہیں ہوتا۔
متوسط طبقے کو غربت کی نچلی سطح کی جانب یونہی دھکیلا جاتا رہا تو خطرہ ہے کہ ملک میں انتشار بڑھتا جائے گا جس سے انتہا پسندی کے رجحان کو فروغ ملے گا۔ شدت پسندوں کو مایوس نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد میسر آ جائے گی، ویسے بھی نوجوانوں کی ایک تعداد جرائم کے راستے پر قدم رکھ ہی چکی ہے۔
وطن عزیز میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری غیر یقینی صورتحال، معاشی بد حالی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کو چھونے والی گرانی نے ظلم اور استحصال کی بنیادوں پر قائم طبقاتی تفریق میں مزید اضافہ کر دیا ہے، نہایت عجیب بات ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کلمہ گو مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو ایک اﷲ اور ایک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیروکار ہیں ایک الہامی کتاب قرآن پاک سے رہنمائی حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اس کے باوجود اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے پر نہ صرف رضامند ہیں بلکہ اس کو قائم رکھنے پر بضد بھی ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت میں ہندو مذہب کے پیروکار ایسا کریں تو تعجب نہ ہو کہ ان کے مذہب نے انھیں انسانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے کی تلقین کی ہے۔
لیکن ہمارے مذہب نے تو ہمیں طبقاتی تفریق مٹانے کا حکم دیا ہے ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا تو مشن ہی توحید اور انسانی مساوات کا قیام تھا۔کیا ہم بحیثیت مجموعی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کے برخلاف نہیں چل رہے ہیں۔
طبقاتی تفریق کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ملک میں ہمہ اقسام کے تعلیمی نظام رائج ہیں جو اس تفریق کو استحکام بھی بخشتے ہیں، ان یکسر مختلف نظام ہائے تعلیم کے ذریعے مزید طبقات اور مختلف درجوں کے حاکمین و محکومین تیار ہو رہے ہیں چنانچہ معاشرتی نظام جن قدروں پر استوار ہے وہ صرف غیر اخلاقی ہی نہیں تھا ظالمانہ حد تک غیر انسانی بھی ہے۔
تعلیمی اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ کیا پڑھایا جائے، کون پڑھائے، کتنی فیس لی جائے اور ماحول کیسا ہو، ان تمام معاملات پر کسی قسم کی کوئی قد غن محسوس نہیں ہوتی باوجود اس کے کہ تعلیم کا شعبہ گویا تجارتی منڈی کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے، امیر طبقے کی ضروریات اور مفادات کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے، عوام کے لیے وسائل کی ہمیشہ کمیابی بلکہ رہتی ہے اور ان جیسی دیگر بہت سی وجوہات ہیں جو معاشرے کو مسلسل انتشار اور بحران کے راستے پر لے جا رہی ہے اور وہ ''وحدت ملی'' جس کا تذکرہ کرتے کرتے ہمارے علمائے کرام، دانشوروں اور ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں کی زبانیں نہیں تھکتیں۔
اس ''وحدت ملی'' کا مظاہرہ خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے، ارباب اختیار کی اکثریت سے قومی و ملی ترقی کے ضمن میں تعلیم کی بنیادی اہمیت کا زبانی اقرار تو ضرور کیا لیکن اس کے لیے عملی اقدامات کا ہمیشہ فقدان رہا ہر طبقے کے لیے الگ طرز کے تعلیمی ادارے و نصاب ہیں مثلاً مراعات یافتہ بالائی طبقے کے بہت سے تعلیمی اداروں کا نصاب اور نظام سب ہی کچھ در آمد شدہ ہے اور اس کا نظریہ پاکستان کی روح سے مطابقت رکھنا بھی ضروری نہیں اس کے بعد بھی متمول طبقے کے لیے مخصوص تعلیمی اداروں کے کئی درجے ہیں پھر نمبر آتا ہے۔
گلی گلی محلے قائم انگلش میڈیم اسکول کا، پھر نمبر آتا ہے ان میں بھی کئی درجات ہیں ۔حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقعے پر طبقاتی تفریق اور نسلی تفاخر کے خاتمے کا اعلان ان واضح اور روشن الفاظ میں فرمایا ''لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر برتری حاصل ہے اور نہ کالے کو گورے پر فضیلت و برتری۔