لندن میں چار دن
ڈیوزبری سے غزل انصاری اور فرحت پروین اور بریڈ فورڈ سے نیلما درانی بھی پہنچ چکی تھیں۔
جناح فاؤنڈیشن کی طرف سے عزیزی محمود رانا نے میڈیا کانفرنس کا اعلان ہونے کے فوراً بعد رابطہ کر کے مجھ سے اور وصی شاہ سے آٹھ نومبر کی شام ایک عدد مشاعرے کے لیے بک کر لی تھی اور اس کے بڑے بڑے اشتہار بھی مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر مسلسل چل رہے تھے۔
سوکچھ دیر اس کے گھر پر رکنے کے بعد مشاعرہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے جو ایک ''دعوت'' نامی ہال تھا جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، محمود رانا اس ہجوم کا کریڈٹ ہمیں اور ہم اس کی انتظامی صلاحیتوں کو دیتے رہے کہ اب کم از کم لندن کی ادبی تقریبات کی حد تک سامعین نسبتاً کم اور باذوق سامعین اور بھی کم نظر آتے ہیں، ان خوش ذوق اور ہمہ تن متوجہ سامعین پر محمود رانا کی دلچسپ اور غیر روائتی کمپیئرنگ نے سونے پر سہاگے کا کام کیا، اسٹیج چھوٹا اور شاعر زیادہ ہونے کی وجہ سے کئی شاعر سامعین کی صفوں سے اٹھ اٹھ کر آ رہے تھے اس لیے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ یہ سفینہ غم دل کہاں جا کے رکے گا۔
ڈیوزبری سے غزل انصاری اور فرحت پروین اور بریڈ فورڈ سے نیلما درانی بھی پہنچ چکی تھیں۔ ''پوشاک محل'' والے خواجہ افتخار بھی موجود تھے جب کہ میڈیا کانفرنس کے شرکاء میں سے یٰسین رشید ' افضل بٹ ' مشتاق منہاس اورغریدہ فاروقی بھی شامل ہوئے ۔ سلمیٰ میو ' راشد ہاشمی اور عمران رشید بھی آخر تک موجود رہے۔
جناح فاؤنڈیشن کے حوالے سے محمود رانا نے اپنی کمپیئرنگ کے دوران قائداعظم سے متعلق کچھ بہت دلچسپ واقعات اور اقوال بھی سنائے، عزیزی وصی شاہ حسب معمول منیر نیازی مرحوم کے مشہور مصرعے ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں'' پر عمل کرتا نظر آیا۔ عمومی طور پر یہ ایک کامیاب اور بھرپور مشاعرہ تھا۔
9 نومبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک منی ہال میں ڈاکٹر جاوید شیخ نے ''اردو مرکز'' کے حوالے سے میرے لیے ایک تقریب پذیرائی کا اہتمام کر رکھا تھا گذشتہ شب کے مشاعرے کی طرح اس کا آغاز بھی میں نے علامہ اقبال سے متعلق ایک نظم سے کیا اتفاق سے آج ہی کے دن میرے بیٹے علی ذی شان کی بھی سالگرہ ہوتی ہے چنانچہ اسے فون پر مبارک باد دی گئی، لارڈ نذیر کسی مصروفیت کی وجہ سے نہ پہنچ سکے مگر ان کی کمی ایک اور لارڈ صاحب نے پوری کر دی ۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ہاؤس آف لارڈز میں پاکستانیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے جب کہ چند برس قبل تک اس کا تصور بھی محال تھا۔ ڈاکٹر جاوید شیخ اور عزیزی فیضان عارف کے تعارفی کلمات کے علاوہ چونکہ پروگرام صرف میری شاعری تک محدود تھا اس لیے بہت دیر تک پڑھنا پڑا لیکن معین الدین عقیل اور بھارت سے آئے ہوئے خلیل الرحمن صاحب سمیت بہت سے اعلیٰ ذوق سامعین کی موجودگی کے باعث یہ مشق سخن ایک خوشگوار مشقت میں ڈھل گئی جب کہ گزشتہ روز ڈاکٹر جاوید شیخ صاحب کے دیے گئے ڈنر میں بھی اس کا اعادہ ہوا جس میں ان کی بیگم ڈاکٹر حسینہ' بیٹی فاطمہ یاسر اور بھارت سے آئے ہوئے خلیل الرحمن صاحب نے دعوت کام و دہن کا بہت عمدہ اہتمام کر رکھا تھا۔
لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر سید ابن عباس سے پہلی ملاقات تو غیر متوقع طور پر مختلف شعبوں میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے والی برٹش پاکستانی خواتین کی ایک تقریب پذیرائی میں ہوئی تھی لیکن ان کی شفیق ادب اور وطن دوست شخصیت کا جادو ہر ملاقات کے بعد بڑھتا ہی چلا گیا۔ برادرم قمر رضا کے برنچ میں وہ دو گھنٹے کے نوٹس پر آ گئے اور دیر تک محفل میں شامل رہے۔
بہت دنوں کے بعد کسی پاکستانی سفارت کار کو اپنی کمیونٹی میں اس قدر مقبول اور INVOLVE انوالو دیکھ کر دلی خوشی ہوئی، ان کا اصرار تھا کہ واپسی سے قبل ان سے ایک بالمشافہ ملاقات ضروری ہے، سو اس کے لیے 11 نومبر کی سہ پہر کا وقت طے پایا، برادرم میجر رفیق حسرت کے بھائی شہزاد صاحب (جو ویمبلے کے سابقہ میئر اور OBEجیسے مؤقر اعزاز کے حامل ہیں) سے بھی خوب ملاقات رہی جو زحمت کر کے پاکستانی سفارت خانے میں بھی آ گئے تھے، اس عمارت میں یوں تو میں پہلے بھی کئی بار آ چکا ہوں لیکن اس بار ہائی کمشنر کے آفس سے ملحقہ وہ جگہ بھی دیکھنے کا موقع ملا جہاں 1984ء میں پہلی لندن یاترا کے موقع پر سفارت خانے نے جمیل الدین عالی' مرحومہ پروین شاکر اور میرے ساتھ ایک محفل کا اہتمام کیا تھا جس میں اس وقت لندن میں مقیم اہم ترین پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی تھی۔
عزیزی مبین رشید کی اس کئی حوالوں سے بہت کامیاب میڈیا کانفرنس کی وساطت سے بہت سے نئے دوستوں سے بھی ملاقات کا موقع ملا مگر سب سے زیادہ خوشی مجھے ان احباب کے بچوں سے مل کر ہوئی کہ جن میں سے بیشتر وہاں کے ماحول میں پلنے بڑھنے کے باوجود اندر اور باہر سے پورے پاکستانی تھے۔
تعلیم یافتہ' مہذب اور اپنی تہذیب کے دلدادہ ۔ نیوکاسل میں برادرم طارق احمد کے گھر اگرچہ چند گھنٹے ہی گزارنے کا موقع ملا مگر ان کے تینوں بیٹوں کی تعلیمی قابلیت اور تہذیبی رکھ رکھاؤ کی خوشگوار مہک اب بھی میرے ساتھ ساتھ ہے اور اسی سے ملتی جلتی کیفیت کا سامنا مجھے اس سفر میں بار بار ہوا ۔کہ یہی گرمجوشی اور محبت ان احباب سے بھی ملی جو گزشتہ دس پندرہ برس میں وہاں بسلسلہ کاروبار یا ملازمت مقیم اور وہاں کے شہری ہیں۔
ان بزرگ نوجوانوں کی فہرست اگرچہ بہت طویل ہے سو محض مثال کے طور پر امتیاز رانجھا' عمران رشید' راشد ہاشمی' مبین رشید' امجد شاہ' عبدالواحد' احمد جمال' محمد اطہر ' فیضان عارف ' محمود رانا ' ساجد عطا اور پروفیسر طارق احمد کے نام لیے جا سکتے ہیں کہ یہ سب دوست اپنے اپنے میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو یقینا ہم سب کے لیے فخر کا باعث ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی میڈیا کانفرنس کی معرفت کیے جانے والے اس پندرہ روزہ سفر کا احوال تمام ہوتا ہے۔