سیکولرازم کیوں اور کس لیے
دوسروں کے عقائد پر تنقید اور انھیں گمراہ گردانتے ہوئے ان کی تذلیل ایک عام سا سماجی رویہ ہے
اس وقت دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اور جس طرح مذہبی شدت پسند عناصر مختلف عقائد و نظریات کے حامل افراد کی تکفیر کرتے ہوئے، انتہائی سفاکی کے ساتھ ان کی زندگیاں لے رہے ہیں، اس صورتحال نے ان تمام لوگوں کو شدید کرب اور ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے جو'' لکم دینکم ولی دین'' پر یقین رکھتے ہیں۔
اگرایک طرف داعش، القاعدہ اور بوکوحرام جیسی مسلم شدت پسند تنظیموں نے مذہب کے نام پر پوری دنیا میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا ہوا ہے، تو دوسری طرف ہندو شدت پسند عناصر نے بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت دیگر مذہبی اقلیتوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ بدھ مت کے پیروکار بھکشو بھی مہاتما بدھ کے امن ، شانتی اور اہنسا کے درس کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور غیر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اپنے اکثریتی علاقوں میں پر تشدد کارروائیوں پر اتر آئے ہیں۔
دوسروں کے عقائد پر تنقید اور انھیں گمراہ گردانتے ہوئے ان کی تذلیل ایک عام سا سماجی رویہ ہے، لیکن دنیا میں ایک ایسا تصور معاشرت بھی تیزی کے ساتھ قبولیت حاصل کر رہاہے جس میں انسانوں کو بلاامتیاز عقیدہ اور نسلی و لسانی شناخت مساوی شہری حقوق کا حقدار تصور کیا جاتا ہے۔
یہ طرز عمل سیکولر ازم ہے، لیکن بعض اصطلاحات کے معنی و مطالب اس طرح کنفیوزڈ ہوجاتے ہیں یا کردیے جاتے ہیں کہ وہ عام انسان کے لیے ناقابل قبول ہوجاتے ہیں جیسا کہ سیکولرازم کے ساتھ ہوا۔ مولوی عبدالحق نے جب اپنی انگریزی اردو لغت میں شعوری یا لاشعوری طورپر سیکولرازم کے معنی لادینیت لکھے، تو برصغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ سیکولر ازم کوئی دین مخالف نظریہ ہے جسے قبول کرنے کا مطلب مذہب سے دورہوجانا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اسے اسلام دشمنی سمجھتی ہے۔ مسیحی اسے عیسائیت سے انحراف تصور کرتے ہیں جب کہ شدت پسند ہندو اسے دھرم کونقصان پہنچانے کا ذریعہ گردانتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ سیکولر ازم کی حمایت اور مخالفت میںاب تک سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں اور مقالے تحریر ہوچکے ہیں جن میں اس موضوع پر خاصی پرمغزگفتگو کی گئی ہے، لیکن حال ہی میں جامعہ کراچی کے ایک سینئر استاد اور آرٹس فیکلٹی کے Dean پروفیسر(ڈاکٹر) مونس احمر نے اس موضوع پر تحقیق کے مروجہ اصولوں کو بنیاد بناتے ہوئے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ ایک تحقیقی مقالہ کتابی شکل میں پیش کیا ہے جس کانامConflict Management & Vision for a Secular Pakistan ہے۔
اس کتاب میں پاکستان میں سیکولرازم کے امکانات کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب میںکل پانچ ابواب ہیں۔ پہلا باب The World of Secularismہے۔دوسرا Secularism in Pakistan، تیسراLearning from the experience of Europe، چوتھا Models of Secularismاور پانچواں Vision for Secular Pakistan ہے۔
پہلے باب میں سیکولرازم کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا مختلف حوالوں کے ساتھ جواب تلاش کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ سب سے پہلے اس طرز عمل کا ماخذ جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کے بعد یہ اس پہلو پر غور کیا گیا ہے کہ آیا موجودہ دور میں اس کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا اٹھارویں صدی میں متعارف کردہ نظام کے طور پر جاری رکھا جائے یا اس میں کسی قسم کی ترمیم و اضافے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے؟ اس پہلو پر بھی غور کیا گیا ہے کہ جدید دور میں کسی ریاست کے اندر سیاسی ، سماجی اور ثقافتی تنازعات کی تخفیف و تنظیم میں سیکولرازم کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس کے بعد اس سوال پر کھل کر بحث کی گئی ہے کہ آیا اسلام اور سیکولرازم کے درمیان کسی قسم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ اگر ہاں، تو پھر مسلم معاشرے سیاسی و سماجی مسائل کے حقیقت پسندانہ حل کے لیے اسے ریاستی قوت محرکہ کے طور نافذ کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟
دوسرے باب میں جن سوالات کو اٹھایا گیا اور پھر ان کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں کہ تعلیم یافتہ اور سیکولر ذہن رکھنے والے حلقے سیکولرازم کا مثبت تصور پیش کرنے اور اسے بڑھاوا دینے میں ناکام ہیں؟ پاکستان کی لبرل اور سیکولر اشرافیہ اس طرز عمل کے بارے میں جاری غلط فہمیوں کے پھیلاؤ کی کس حد تک ذمے دار ہے؟ بعض مخصوص حلقے سیکولرازم کو لامذہبیت(Atheism) اور مغربیت کے طورپر کیوں اور کن مقاصد کے لیے پیش کرتے ہیں ؟
کیا تعلیمی نظام میں بہتری اور مناسب اصلاحات کے ذریعے اس طرز حیات کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کو ختم کیا جانا ممکن ہے؟ کیا مذہبی جماعتوں کے باہمی اختلافات سیکولر معاشرے کے قیام میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں؟ اس سلسلے میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد اورکراچی میں جن خیالات کا اظہارکیا،آیا وہ پاکستانی معاشرے میں سیکولر افکار کے پروان چڑھنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرسکیں گے؟
تیسرے باب میں اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ آیا، یورپ کے تجربات سے استفادہ ممکن ہے یا نہیں؟ اس مقصد کے لیے ان تاریخی عوامل کو زیر بحث لایا گیا ہے، جو یورپ کو دورِ تاریکی سے نکالنے کا باعث بنے اور جن کے باعث یورپ میں فکری تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی۔
خاص طور پرعرب محققین کا کردار، جنہوں نے مختلف علوم پر تحقیق و تجربہ کے ساتھ مردہ یونانی فلسفے کو عربی کے قالب میں ڈھال کر نئی زندگی عطا کی اور غور و فکرکے نئے دریچے کھولے۔ جب یورپ میں ریاضی، فلسفہ، منطق واستدلال، صرف ونحو، طبیعات، کیمیا، آرکیٹیکچر اور علم نجوم (astronomy) جیسے علوم پہنچے تو مذہبی حلقوں کی مزاحمت کے باوجود حکمران اشرافیہ کی جانب سے انھیں خاصی حد تک پذیرائی حاصل ہوئی۔ اسپین میں مسلم حکومت اور یورپ کے مشرق میں سلطنت عثمانیہ کا قیام بھی اس سلسلے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، یوں یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہوا، جس کی منطقی منزل صنعتی انقلاب ٹہرا۔
صنعتی انقلاب انسان کے ذہنی اور فکری ارتقاء کا منطقی نتیجہ تھا جس نے انسان کی ذہنی قوت کواس کی جسمانی طاقت پرحاوی کردیا۔ اس نئی تبدیلی نے پورے پیداواری نظام کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ایک نیا پیداواری نظام وجود میں آیا جس کے انسان کے طرز حیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
اس تبدیلی کا پوٹینشیل اتنا زیادہ تھا کہ Status Quoکی روایتی قوتوں کی مزاحمت زیادہ دیر نہ چل سکی۔ بلکہ تبدیلی کا راستہ روکنے کی کوششوں کے ردعمل میں فرانس کو ایک خونریز تصادم سے گذرنا پڑا۔ اس انقلاب نے آزادی، مساوات اور اخوت جیسے اعلیٰ فکری تصورات کو جنم دیا ، لیکن یہ محض سیاسی نعرے نہیں تھے، بلکہ دنیا بھر کے مظلوم، مفلوک الحال اور فاقہ زدہ لوگوں کے دل کی آواز تھے، جو شرف انسانی کے حصول کے لیے مدتوں سے ترس رہے تھے۔
کارل مارکس کا کہنا ہے کہ طریقہ پیداوار انسانی معاشروں میں سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات کا تعین کرتا ہے۔ چنانچہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ایک نیا سیاسی نظام متعارف ہوا جو جمہوریت کہلایا۔ اس نظام نے ہر شہری کو بلاامتیاز خاندانی حسب و نسب اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا۔
کلیسا کی اجارہ داری اور اشرافیہ کی بالادستی کو چیلنج کیا۔ انسان کے ذاتی معاملات میں کلیساکی مداخلت کا راستہ بند کر کے آزادی، اخوت اور مساوات جیسے تصورات کے فروغ کو یقینی بنانے کی عملی کوشش کی ۔ شہری حقوق کو عقیدے ،نسلی ولسانی تفریق سے بلند کیا گیا۔تعلیم ''سب کے لیے'' کو انسان کے بنیادی حق کے طورپر تسلیم کیا گیا۔ یہ جدید دور میں ایک متحمل مزاج معاشرے کے قیام یا سیکولرازم کا آغاز تھا۔ لہٰذا یہ طے ہوا کہ ایک حقیقی جمہوری معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ سیکولر نہ ہو۔
آخری باب میں سیکولر پاکستان کے ویژن پر بحث کی گئی ہے۔ اس حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا نتیجہ ہے۔ جنہوں نے کسی جید عالم کی قیادت میں مجتمع ہونے کے بجائے خوش پوش و خوش ذوق اور جدید عصری تعلیم یافتہ وکیل کو اپنا رہنما بنایا تھا۔ محمد علی جناح، جنھیں ان کے مخالفین بھی ایک آزاد خیال اور سیکولر شخص کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے صدارتی خطبے میں جن ترجیحات کا تذکرہ کیا اور آئین سازی کے لیے جو اہداف متعین کیے ، وہ لازمی طور پر پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی خواہش کا اظہار تھے۔
وقت و حالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ آج پاکستان میں ایک پر امن اور ترقی دوست معاشرے کا قیام اسی وقت ممکن ہے، جب تمام شہریوں کو بلاامتیاز عقیدہ اور نسلی و لسانی تقسیم مساوی حقوق دیے جائیں۔اس مقصدکا حصول اسی وقت ممکن ہے، جب ریاست آئینی طورپراور معاشرہ فکری طور پرسیکولر طرز عمل اختیار کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
اس کے علاوہ دیگر تمام آپشن فتنہ و فساد اور تصادم کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیے یہی ایک راستہ بچا ہے،جسے بالآخر اختیارکرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر مونس احمر نے یہ کتاب لکھ کر پاکستان کے متوشش شہریوں کو دعوت فکردی ہے کہ وہ پاکستان کے سیاسی وسماجی نظام کے بارے میں ازسر نو غوروفکرکریں اورکوئی متوازن لائحہ ترتیب دیں ۔ لہٰذا اس کتاب کا مطالعہ سیاسیات، عمرانیات اور صحافت کے طلبا و طالبات کے علاوہ ہر اس شہری کے لیے سود مند ہے جو اپنے ملک و معاشرے کو متحمل مزاج اور پرامن دیکھنے کا خواہشمند ہے۔
اگرایک طرف داعش، القاعدہ اور بوکوحرام جیسی مسلم شدت پسند تنظیموں نے مذہب کے نام پر پوری دنیا میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا ہوا ہے، تو دوسری طرف ہندو شدت پسند عناصر نے بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت دیگر مذہبی اقلیتوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ بدھ مت کے پیروکار بھکشو بھی مہاتما بدھ کے امن ، شانتی اور اہنسا کے درس کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور غیر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اپنے اکثریتی علاقوں میں پر تشدد کارروائیوں پر اتر آئے ہیں۔
دوسروں کے عقائد پر تنقید اور انھیں گمراہ گردانتے ہوئے ان کی تذلیل ایک عام سا سماجی رویہ ہے، لیکن دنیا میں ایک ایسا تصور معاشرت بھی تیزی کے ساتھ قبولیت حاصل کر رہاہے جس میں انسانوں کو بلاامتیاز عقیدہ اور نسلی و لسانی شناخت مساوی شہری حقوق کا حقدار تصور کیا جاتا ہے۔
یہ طرز عمل سیکولر ازم ہے، لیکن بعض اصطلاحات کے معنی و مطالب اس طرح کنفیوزڈ ہوجاتے ہیں یا کردیے جاتے ہیں کہ وہ عام انسان کے لیے ناقابل قبول ہوجاتے ہیں جیسا کہ سیکولرازم کے ساتھ ہوا۔ مولوی عبدالحق نے جب اپنی انگریزی اردو لغت میں شعوری یا لاشعوری طورپر سیکولرازم کے معنی لادینیت لکھے، تو برصغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ سیکولر ازم کوئی دین مخالف نظریہ ہے جسے قبول کرنے کا مطلب مذہب سے دورہوجانا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اسے اسلام دشمنی سمجھتی ہے۔ مسیحی اسے عیسائیت سے انحراف تصور کرتے ہیں جب کہ شدت پسند ہندو اسے دھرم کونقصان پہنچانے کا ذریعہ گردانتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ سیکولر ازم کی حمایت اور مخالفت میںاب تک سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں اور مقالے تحریر ہوچکے ہیں جن میں اس موضوع پر خاصی پرمغزگفتگو کی گئی ہے، لیکن حال ہی میں جامعہ کراچی کے ایک سینئر استاد اور آرٹس فیکلٹی کے Dean پروفیسر(ڈاکٹر) مونس احمر نے اس موضوع پر تحقیق کے مروجہ اصولوں کو بنیاد بناتے ہوئے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ ایک تحقیقی مقالہ کتابی شکل میں پیش کیا ہے جس کانامConflict Management & Vision for a Secular Pakistan ہے۔
اس کتاب میں پاکستان میں سیکولرازم کے امکانات کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب میںکل پانچ ابواب ہیں۔ پہلا باب The World of Secularismہے۔دوسرا Secularism in Pakistan، تیسراLearning from the experience of Europe، چوتھا Models of Secularismاور پانچواں Vision for Secular Pakistan ہے۔
پہلے باب میں سیکولرازم کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا مختلف حوالوں کے ساتھ جواب تلاش کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ سب سے پہلے اس طرز عمل کا ماخذ جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کے بعد یہ اس پہلو پر غور کیا گیا ہے کہ آیا موجودہ دور میں اس کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا اٹھارویں صدی میں متعارف کردہ نظام کے طور پر جاری رکھا جائے یا اس میں کسی قسم کی ترمیم و اضافے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے؟ اس پہلو پر بھی غور کیا گیا ہے کہ جدید دور میں کسی ریاست کے اندر سیاسی ، سماجی اور ثقافتی تنازعات کی تخفیف و تنظیم میں سیکولرازم کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس کے بعد اس سوال پر کھل کر بحث کی گئی ہے کہ آیا اسلام اور سیکولرازم کے درمیان کسی قسم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ اگر ہاں، تو پھر مسلم معاشرے سیاسی و سماجی مسائل کے حقیقت پسندانہ حل کے لیے اسے ریاستی قوت محرکہ کے طور نافذ کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟
دوسرے باب میں جن سوالات کو اٹھایا گیا اور پھر ان کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں کہ تعلیم یافتہ اور سیکولر ذہن رکھنے والے حلقے سیکولرازم کا مثبت تصور پیش کرنے اور اسے بڑھاوا دینے میں ناکام ہیں؟ پاکستان کی لبرل اور سیکولر اشرافیہ اس طرز عمل کے بارے میں جاری غلط فہمیوں کے پھیلاؤ کی کس حد تک ذمے دار ہے؟ بعض مخصوص حلقے سیکولرازم کو لامذہبیت(Atheism) اور مغربیت کے طورپر کیوں اور کن مقاصد کے لیے پیش کرتے ہیں ؟
کیا تعلیمی نظام میں بہتری اور مناسب اصلاحات کے ذریعے اس طرز حیات کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کو ختم کیا جانا ممکن ہے؟ کیا مذہبی جماعتوں کے باہمی اختلافات سیکولر معاشرے کے قیام میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں؟ اس سلسلے میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد اورکراچی میں جن خیالات کا اظہارکیا،آیا وہ پاکستانی معاشرے میں سیکولر افکار کے پروان چڑھنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرسکیں گے؟
تیسرے باب میں اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ آیا، یورپ کے تجربات سے استفادہ ممکن ہے یا نہیں؟ اس مقصد کے لیے ان تاریخی عوامل کو زیر بحث لایا گیا ہے، جو یورپ کو دورِ تاریکی سے نکالنے کا باعث بنے اور جن کے باعث یورپ میں فکری تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی۔
خاص طور پرعرب محققین کا کردار، جنہوں نے مختلف علوم پر تحقیق و تجربہ کے ساتھ مردہ یونانی فلسفے کو عربی کے قالب میں ڈھال کر نئی زندگی عطا کی اور غور و فکرکے نئے دریچے کھولے۔ جب یورپ میں ریاضی، فلسفہ، منطق واستدلال، صرف ونحو، طبیعات، کیمیا، آرکیٹیکچر اور علم نجوم (astronomy) جیسے علوم پہنچے تو مذہبی حلقوں کی مزاحمت کے باوجود حکمران اشرافیہ کی جانب سے انھیں خاصی حد تک پذیرائی حاصل ہوئی۔ اسپین میں مسلم حکومت اور یورپ کے مشرق میں سلطنت عثمانیہ کا قیام بھی اس سلسلے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، یوں یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہوا، جس کی منطقی منزل صنعتی انقلاب ٹہرا۔
صنعتی انقلاب انسان کے ذہنی اور فکری ارتقاء کا منطقی نتیجہ تھا جس نے انسان کی ذہنی قوت کواس کی جسمانی طاقت پرحاوی کردیا۔ اس نئی تبدیلی نے پورے پیداواری نظام کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ایک نیا پیداواری نظام وجود میں آیا جس کے انسان کے طرز حیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
اس تبدیلی کا پوٹینشیل اتنا زیادہ تھا کہ Status Quoکی روایتی قوتوں کی مزاحمت زیادہ دیر نہ چل سکی۔ بلکہ تبدیلی کا راستہ روکنے کی کوششوں کے ردعمل میں فرانس کو ایک خونریز تصادم سے گذرنا پڑا۔ اس انقلاب نے آزادی، مساوات اور اخوت جیسے اعلیٰ فکری تصورات کو جنم دیا ، لیکن یہ محض سیاسی نعرے نہیں تھے، بلکہ دنیا بھر کے مظلوم، مفلوک الحال اور فاقہ زدہ لوگوں کے دل کی آواز تھے، جو شرف انسانی کے حصول کے لیے مدتوں سے ترس رہے تھے۔
کارل مارکس کا کہنا ہے کہ طریقہ پیداوار انسانی معاشروں میں سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات کا تعین کرتا ہے۔ چنانچہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ایک نیا سیاسی نظام متعارف ہوا جو جمہوریت کہلایا۔ اس نظام نے ہر شہری کو بلاامتیاز خاندانی حسب و نسب اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا۔
کلیسا کی اجارہ داری اور اشرافیہ کی بالادستی کو چیلنج کیا۔ انسان کے ذاتی معاملات میں کلیساکی مداخلت کا راستہ بند کر کے آزادی، اخوت اور مساوات جیسے تصورات کے فروغ کو یقینی بنانے کی عملی کوشش کی ۔ شہری حقوق کو عقیدے ،نسلی ولسانی تفریق سے بلند کیا گیا۔تعلیم ''سب کے لیے'' کو انسان کے بنیادی حق کے طورپر تسلیم کیا گیا۔ یہ جدید دور میں ایک متحمل مزاج معاشرے کے قیام یا سیکولرازم کا آغاز تھا۔ لہٰذا یہ طے ہوا کہ ایک حقیقی جمہوری معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ سیکولر نہ ہو۔
آخری باب میں سیکولر پاکستان کے ویژن پر بحث کی گئی ہے۔ اس حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا نتیجہ ہے۔ جنہوں نے کسی جید عالم کی قیادت میں مجتمع ہونے کے بجائے خوش پوش و خوش ذوق اور جدید عصری تعلیم یافتہ وکیل کو اپنا رہنما بنایا تھا۔ محمد علی جناح، جنھیں ان کے مخالفین بھی ایک آزاد خیال اور سیکولر شخص کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے صدارتی خطبے میں جن ترجیحات کا تذکرہ کیا اور آئین سازی کے لیے جو اہداف متعین کیے ، وہ لازمی طور پر پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی خواہش کا اظہار تھے۔
وقت و حالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ آج پاکستان میں ایک پر امن اور ترقی دوست معاشرے کا قیام اسی وقت ممکن ہے، جب تمام شہریوں کو بلاامتیاز عقیدہ اور نسلی و لسانی تقسیم مساوی حقوق دیے جائیں۔اس مقصدکا حصول اسی وقت ممکن ہے، جب ریاست آئینی طورپراور معاشرہ فکری طور پرسیکولر طرز عمل اختیار کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
اس کے علاوہ دیگر تمام آپشن فتنہ و فساد اور تصادم کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیے یہی ایک راستہ بچا ہے،جسے بالآخر اختیارکرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر مونس احمر نے یہ کتاب لکھ کر پاکستان کے متوشش شہریوں کو دعوت فکردی ہے کہ وہ پاکستان کے سیاسی وسماجی نظام کے بارے میں ازسر نو غوروفکرکریں اورکوئی متوازن لائحہ ترتیب دیں ۔ لہٰذا اس کتاب کا مطالعہ سیاسیات، عمرانیات اور صحافت کے طلبا و طالبات کے علاوہ ہر اس شہری کے لیے سود مند ہے جو اپنے ملک و معاشرے کو متحمل مزاج اور پرامن دیکھنے کا خواہشمند ہے۔