غیرجانبدار انہ سوچ کی حمایت
دوسری جانب روسی صدر اور فرانسیسی صدر اولاند کے درمیان اس حوالے سے منعقدہ مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔
روسی صدر ولادی میر پیوتن نے انقرہ میں ہونے والی کانفرنس میں میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ داعش کو دنیا کے چالیس ممالک مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ ولادی میر کا کہنا تھا کہ داعش کا انحصار تیل کی آمدنی پر ہے۔ اس آمدنی کے راستے روک دینے چاہئیں کیونکہ یہ پیسہ دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
دوسری جانب روسی صدر اور فرانسیسی صدر اولاند کے درمیان اس حوالے سے منعقدہ مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ دنیا کی نظریں اس جانب مبذول ہیں کہ آخر شام اور عراق کے پناہ گزینوں کا کیا ہو گا۔ صورتحال اس وقت مزیدگمبھیر ہو گئی تھی جب روسی جہاز چند ہفتے پہلے مصر میں گرکر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں 224 مسافر ہلاک ہوئے۔ اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ دہشت گردی کا غیر انسانی واقعہ تھا۔ داعش نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کر کے روسی حکومت کو مشتعل کر دیا۔
پیرس میں ہونے والے حالیہ واقعے میں کئی انسانی جانیں ضایع ہوئی ہیں۔ یہ نائن الیون کے بعد دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا بڑا واقعہ ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما جو بیس ممالک کی مشترکہ کانفرنس میں شرکت کرنے ترکی پہنچ گئے ہیں۔ اوباما کا کہنا ہے کہ ''داعش ناسور بن چکی ہے۔ پیرس حملے کے دہشت گردوں کو تلاش کر کے رہیں گے۔'' پیرس میں حملوں کے بعد کتنے راک بینڈز نے اپنے کنسرٹ ملتوی کر دیے ہیں۔
رنگوں، روشنیوں و خوشبوؤں کا شہر، جہاں زندگی رقص کرتی تھی، آج بے یقینی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے ظلم و جبر کا شکار فرانس نے تاریخ کی گہری کھائی سے عروج کی منزلوں کی طرف کا سفر حوصلے و ہمت سے طے کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس نے شام کی خانہ جنگی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا اور اس کے مخالفین کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کی تھی۔
جس کے مطابق فرانسیسی صدر اولاند نے یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ اس وقت شام کو ہتھیار فراہم کر رہے تھے، جب شام میں ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی عائد تھی۔ داعش کا ایک طرف شام میں رقعہ اور آسپاس کے علاقے پر قبضہ ہے تو دوسری طرف عراق میں وہ موصل، انبار اور رمادی فتح کر کے اپنا تسلط جما چکے ہیں۔ پیرس واقعے کے ردعمل میں فرانس کی حکومت شام میں موجود داعش کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی کر رہی ہے۔ رقعہ شہر پر گزشتہ رات حملے کیے گئے۔
حال ہی میں بیروت میں 43 لوگوں کی موت کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کر لی ہے۔ موجودہ صورتحال میں کہا جاتا ہے کہ داعش دنیا کے امن کے لیے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان، عراق اور لیبیا مغربی طاقتوں کے قہر کا نشانہ بنے تھے۔ ان ملکوں میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ امریکا میں واقع اقوام متحدہ جیسا موثر ادارہ بھی، معصوم انسانوں کی خون کی ہولی سے، اخلاقی قدروں کو رنگنے جیسا وحشی کھیل نہ روک سکے۔
مغربی ممالک نے جمہوری قدروں کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں مگر عرب حکمرانوں نے اس ضمن میں بے حس خاموشی اختیار کر لی۔ شاید کوئی لمحہ ایسا آئے کہ یہ حکمران آنکھیں کھول کر خودانحصاری کی طرف مائل ہو سکیں۔ مسلمان اور عرب ملکوں میں امریکا اور یورپ نے ملٹی نیشنل کمپنیز کا جال بچھا رکھا ہے۔
ایشیا، ساؤتھ ایشیا اور عرب ممالک مختلف مصنوعات درآمد کرتے ہیں اور امریکا و مغربی ممالک کو معاشی طور پر مستحکم کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمان اگر متحد ہو کے ان مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو کئی خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ان ممالک سے پر امن مذاکرات کیے جائیں جو دہشت گردی کا ساتھ دے رہے ہیں۔
مسلمان ملکوں کی حالت ابتری کا شکار ہے۔ خانہ جنگی، کرپشن اور غفلت نے بیرونی طاقتوں کو فائدہ اٹھانے پر آمادہ کر رکھا ہے۔ یہ ملک اگر چاہیں تو معیشت، صنعت اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اپنے ملک میں زراعت کو فروغ دے کر غذائی قلت میں خودکفیل ہو سکتے ہیں۔ مقامی مارکیٹ کو توجہ دے کر غیرملکی مصنوعات کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔
ان ملکوں میں علم اور سماجی شعور کے پھیلاؤ کو ترجیحی بنیادوں پر اولیت دی جائے تو حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔ مگر فی الوقت یہ حکمت عملی موثر نہیں ہو سکتی کیونکہ مادہ پرستی کی دوڑ اور لالچ کی منڈی میں انسانی قدریں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔
مشرق و مغرب میں تصادم صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ دنیا ہمیشہ سے مختلف حصوں میں منقسم رہی ہے۔ ان مسائل کا جائزہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب Reconciliation Islam, Democracy and West میں لیا ہے۔ یہ کتاب موضوع کا منطقی انداز میں احاطہ کرتی ہے۔ کتاب میں مصنفہ نے یورپ و امریکا کے دہرے معیار کا تذکرہ کیا ہے۔ جو مسلمانوں کے لیے تشویش اور خطرات میں گھرے رہنے کا باعث ہے۔ اس کتاب میں مشرق و مغرب کے تصادم کو اجاگر کرنے کے ساتھ اسلامی دنیا کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ تیسری دنیا کے غیر جمہوری رویوں، غربت، بدحالی اور کرپشن سے مغرب نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔
مغرب کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ''کھوکھلی جمہوریت کا نعرہ لگانے کے بجائے دنیا میں امن کی خاطر اپنے رویوں میں نظرثانی کی جائے تا کہ دنیا نفرت کا جہنم بننے سے بچ سکے۔'' بے نظیر صاحبہ بھی خودانحصاری اور منطقی انداز اپنانے پر زور دیتی رہی ہیں۔ ان کے خیال میں مشرقی و مغربی ممالک کو مصالحت آمیز رویہ اپنانا چاہیے۔ انھیں پرامن مذاکرات کے ذریعے حل ڈھونڈنا ہو گا تا کہ انسانی خوابوں کو تحفظ فراہم ہو۔ دنیا امن، مساوات اور برابری کے راستے پر چلتے ہوئے نجات کا ذریعہ ڈھونڈ نکالے۔
پیرس کے بہیمانہ واقعے کے بعد کہا جاتا ہے کہ امریکا شامی پناہ گزینوں کے لیے مشکلات پیدا کر دے گا۔ مشی گن، الاباما، ٹیکساس، ایروزونا، مسسپی، انڈیانا سمیت امریکا کی سترہ ریاستیں پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرنے کا ارادہ ترک کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ جب کہ کچھ عرصہ پہلے صدر اوباما نے دس ہزار شامی پناہ گزینوں کو سائبان فراہم کرنے کی حامی بھری تھی۔ شامی بچے کی ساحل سمندر پر تصویر نے مغربی ممالک کی بے حسی کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا اور مختلف ملکوں نے پے درپے اعلان کیا کہ وہ پناہ گزینوں کو پناہ دیں گے۔ تاہم پیرس میں ہونے والے دہشت گردی کے منظم واقعے کے بعد مغربی ممالک میں عدم تحفظ کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ اور وہ اس مسئلے کا پرامن تصفیہ ڈھونڈنے کے بجائے نئی جنگی حکمت عملی جوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
گزشتہ جنوری میں فرانسیسی رسالے کے آفس پر حملے میں بارہ لوگ لقمہ اجل بنے تھے اور موجودہ حملے اسی سلسلے کی کڑی بتائے جا رہے ہیں، جس کے مطابق یہ حملے رقعہ میں امریکی ڈرون حملے کے ردعمل کا نتیجہ ہیں۔ نفرت اس تعصب کے بھڑکتے ہوئے الاؤ کو مزید ہوا دے گی۔ جب کہ سمجھداری اور غیر جانبدارانہ حکمت عملی مشرق و مغربی اقوام کی دفاعی ضرورت بن چکی ہے۔ شام کے بچے دربدر ہیں۔ یہ شام پر بمباری میں گھروں کا سکون کھو چکے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے بیروت پر جنگی کارروائیوں کی وجہ سے انسان دوست قومیں آبدیدہ ہو کے رہ گئی تھیں۔ ان تمام تر جنگی متاثرین کو مالی و اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔
تفریق کا اندھیرا مکمل طور پر انسانیت کی محبت پر غالب نہیں آ سکتا۔ انسانی قدریں مذہب، رنگ، نسل و جنس کے فرق سے بالاتر ہیں یہی وجہ ہے کہ یورپی کمیشن کے سربراہ لیان کلاڈینکو کا بیان اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ دنیا انسانی حقوق کے علم برداروں سے خالی نہیں ہو سکتی۔ لیان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک پیرس حملوں کے ردعمل میں مہاجرین کی درخواستیں مسترد نہ کریں۔ یورپ آنے والے مختلف قسم کے لوگوں کو ایک ہی درجے میں نہیں رکھنا چاہیے، مہاجروں اور مجرموں میں تفریق کرنا ہو گی۔ ان خطرات سے بچنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
دوسری جانب روسی صدر اور فرانسیسی صدر اولاند کے درمیان اس حوالے سے منعقدہ مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ دنیا کی نظریں اس جانب مبذول ہیں کہ آخر شام اور عراق کے پناہ گزینوں کا کیا ہو گا۔ صورتحال اس وقت مزیدگمبھیر ہو گئی تھی جب روسی جہاز چند ہفتے پہلے مصر میں گرکر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں 224 مسافر ہلاک ہوئے۔ اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ دہشت گردی کا غیر انسانی واقعہ تھا۔ داعش نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کر کے روسی حکومت کو مشتعل کر دیا۔
پیرس میں ہونے والے حالیہ واقعے میں کئی انسانی جانیں ضایع ہوئی ہیں۔ یہ نائن الیون کے بعد دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا بڑا واقعہ ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما جو بیس ممالک کی مشترکہ کانفرنس میں شرکت کرنے ترکی پہنچ گئے ہیں۔ اوباما کا کہنا ہے کہ ''داعش ناسور بن چکی ہے۔ پیرس حملے کے دہشت گردوں کو تلاش کر کے رہیں گے۔'' پیرس میں حملوں کے بعد کتنے راک بینڈز نے اپنے کنسرٹ ملتوی کر دیے ہیں۔
رنگوں، روشنیوں و خوشبوؤں کا شہر، جہاں زندگی رقص کرتی تھی، آج بے یقینی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے ظلم و جبر کا شکار فرانس نے تاریخ کی گہری کھائی سے عروج کی منزلوں کی طرف کا سفر حوصلے و ہمت سے طے کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس نے شام کی خانہ جنگی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا اور اس کے مخالفین کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کی تھی۔
جس کے مطابق فرانسیسی صدر اولاند نے یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ اس وقت شام کو ہتھیار فراہم کر رہے تھے، جب شام میں ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی عائد تھی۔ داعش کا ایک طرف شام میں رقعہ اور آسپاس کے علاقے پر قبضہ ہے تو دوسری طرف عراق میں وہ موصل، انبار اور رمادی فتح کر کے اپنا تسلط جما چکے ہیں۔ پیرس واقعے کے ردعمل میں فرانس کی حکومت شام میں موجود داعش کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی کر رہی ہے۔ رقعہ شہر پر گزشتہ رات حملے کیے گئے۔
حال ہی میں بیروت میں 43 لوگوں کی موت کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کر لی ہے۔ موجودہ صورتحال میں کہا جاتا ہے کہ داعش دنیا کے امن کے لیے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان، عراق اور لیبیا مغربی طاقتوں کے قہر کا نشانہ بنے تھے۔ ان ملکوں میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ امریکا میں واقع اقوام متحدہ جیسا موثر ادارہ بھی، معصوم انسانوں کی خون کی ہولی سے، اخلاقی قدروں کو رنگنے جیسا وحشی کھیل نہ روک سکے۔
مغربی ممالک نے جمہوری قدروں کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں مگر عرب حکمرانوں نے اس ضمن میں بے حس خاموشی اختیار کر لی۔ شاید کوئی لمحہ ایسا آئے کہ یہ حکمران آنکھیں کھول کر خودانحصاری کی طرف مائل ہو سکیں۔ مسلمان اور عرب ملکوں میں امریکا اور یورپ نے ملٹی نیشنل کمپنیز کا جال بچھا رکھا ہے۔
ایشیا، ساؤتھ ایشیا اور عرب ممالک مختلف مصنوعات درآمد کرتے ہیں اور امریکا و مغربی ممالک کو معاشی طور پر مستحکم کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمان اگر متحد ہو کے ان مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو کئی خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ان ممالک سے پر امن مذاکرات کیے جائیں جو دہشت گردی کا ساتھ دے رہے ہیں۔
مسلمان ملکوں کی حالت ابتری کا شکار ہے۔ خانہ جنگی، کرپشن اور غفلت نے بیرونی طاقتوں کو فائدہ اٹھانے پر آمادہ کر رکھا ہے۔ یہ ملک اگر چاہیں تو معیشت، صنعت اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اپنے ملک میں زراعت کو فروغ دے کر غذائی قلت میں خودکفیل ہو سکتے ہیں۔ مقامی مارکیٹ کو توجہ دے کر غیرملکی مصنوعات کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔
ان ملکوں میں علم اور سماجی شعور کے پھیلاؤ کو ترجیحی بنیادوں پر اولیت دی جائے تو حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔ مگر فی الوقت یہ حکمت عملی موثر نہیں ہو سکتی کیونکہ مادہ پرستی کی دوڑ اور لالچ کی منڈی میں انسانی قدریں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔
مشرق و مغرب میں تصادم صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ دنیا ہمیشہ سے مختلف حصوں میں منقسم رہی ہے۔ ان مسائل کا جائزہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب Reconciliation Islam, Democracy and West میں لیا ہے۔ یہ کتاب موضوع کا منطقی انداز میں احاطہ کرتی ہے۔ کتاب میں مصنفہ نے یورپ و امریکا کے دہرے معیار کا تذکرہ کیا ہے۔ جو مسلمانوں کے لیے تشویش اور خطرات میں گھرے رہنے کا باعث ہے۔ اس کتاب میں مشرق و مغرب کے تصادم کو اجاگر کرنے کے ساتھ اسلامی دنیا کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ تیسری دنیا کے غیر جمہوری رویوں، غربت، بدحالی اور کرپشن سے مغرب نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔
مغرب کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ''کھوکھلی جمہوریت کا نعرہ لگانے کے بجائے دنیا میں امن کی خاطر اپنے رویوں میں نظرثانی کی جائے تا کہ دنیا نفرت کا جہنم بننے سے بچ سکے۔'' بے نظیر صاحبہ بھی خودانحصاری اور منطقی انداز اپنانے پر زور دیتی رہی ہیں۔ ان کے خیال میں مشرقی و مغربی ممالک کو مصالحت آمیز رویہ اپنانا چاہیے۔ انھیں پرامن مذاکرات کے ذریعے حل ڈھونڈنا ہو گا تا کہ انسانی خوابوں کو تحفظ فراہم ہو۔ دنیا امن، مساوات اور برابری کے راستے پر چلتے ہوئے نجات کا ذریعہ ڈھونڈ نکالے۔
پیرس کے بہیمانہ واقعے کے بعد کہا جاتا ہے کہ امریکا شامی پناہ گزینوں کے لیے مشکلات پیدا کر دے گا۔ مشی گن، الاباما، ٹیکساس، ایروزونا، مسسپی، انڈیانا سمیت امریکا کی سترہ ریاستیں پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرنے کا ارادہ ترک کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ جب کہ کچھ عرصہ پہلے صدر اوباما نے دس ہزار شامی پناہ گزینوں کو سائبان فراہم کرنے کی حامی بھری تھی۔ شامی بچے کی ساحل سمندر پر تصویر نے مغربی ممالک کی بے حسی کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا اور مختلف ملکوں نے پے درپے اعلان کیا کہ وہ پناہ گزینوں کو پناہ دیں گے۔ تاہم پیرس میں ہونے والے دہشت گردی کے منظم واقعے کے بعد مغربی ممالک میں عدم تحفظ کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ اور وہ اس مسئلے کا پرامن تصفیہ ڈھونڈنے کے بجائے نئی جنگی حکمت عملی جوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
گزشتہ جنوری میں فرانسیسی رسالے کے آفس پر حملے میں بارہ لوگ لقمہ اجل بنے تھے اور موجودہ حملے اسی سلسلے کی کڑی بتائے جا رہے ہیں، جس کے مطابق یہ حملے رقعہ میں امریکی ڈرون حملے کے ردعمل کا نتیجہ ہیں۔ نفرت اس تعصب کے بھڑکتے ہوئے الاؤ کو مزید ہوا دے گی۔ جب کہ سمجھداری اور غیر جانبدارانہ حکمت عملی مشرق و مغربی اقوام کی دفاعی ضرورت بن چکی ہے۔ شام کے بچے دربدر ہیں۔ یہ شام پر بمباری میں گھروں کا سکون کھو چکے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے بیروت پر جنگی کارروائیوں کی وجہ سے انسان دوست قومیں آبدیدہ ہو کے رہ گئی تھیں۔ ان تمام تر جنگی متاثرین کو مالی و اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔
تفریق کا اندھیرا مکمل طور پر انسانیت کی محبت پر غالب نہیں آ سکتا۔ انسانی قدریں مذہب، رنگ، نسل و جنس کے فرق سے بالاتر ہیں یہی وجہ ہے کہ یورپی کمیشن کے سربراہ لیان کلاڈینکو کا بیان اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ دنیا انسانی حقوق کے علم برداروں سے خالی نہیں ہو سکتی۔ لیان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک پیرس حملوں کے ردعمل میں مہاجرین کی درخواستیں مسترد نہ کریں۔ یورپ آنے والے مختلف قسم کے لوگوں کو ایک ہی درجے میں نہیں رکھنا چاہیے، مہاجروں اور مجرموں میں تفریق کرنا ہو گی۔ ان خطرات سے بچنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔