اظہر علی نے’’ڈمی کپتان‘‘ کا تاثر مسترد کر دیا

مینجمنٹ مل کر ٹیم منتخب کرتی اورمیری رائے بھی شامل ہوتی ہے، کسی کو اس حوالے سے شک نہیں ہونا چاہیے، ون ڈے قائد

آخری میچ جیت کرسیریز برابر کرنے کا اچھا موقع ہوگا،فتح کی پوری کوشش کریں گے، ٹیم میں تجربہ کار پلیئرزکی کمی ہے فوٹو : فائل

لاہور:
اظہر علی نے ''ڈمی کپتان'' کا تاثر مسترد کر دیا، ان کا کہنا ہے کہ مینجمنٹ مل کر ٹیم منتخب کرتی اور میری رائے بھی شامل ہوتی ہے، کسی کو اس حوالے سے شک نہیں ہونا چاہیے۔

تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم میں اسٹارز کی عدم موجودگی کے سبب کوچ وقار یونس کا مکمل کنٹرول ہے، ناقدین کے مطابق اظہر علی کی حیثیت محض ''ڈمی کپتان'' کی ہے تاہم وہ اپنے بے اختیار ہونے کے تاثر سے متفق نہیں، انھوں نے کہا کہ پلیئنگ الیون کا انتخاب مینجمنٹ مشاورت سے کرتی ہے، میں بھی اس عمل میں مکمل شریک ہوتا ہوں کسی کو شک کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ باہر بیٹھ کر کافی چیزیں آسان لگتی ہیں مگر ٹیم کمبی نیشن بنانا مشکل کام ہوتا ہے، ہمیں انجریز وغیرہ کے سبب کافی مشکلات ہوئیں،اب آگے دیکھنا ہے، آخری میچ جیت کرسیریز برابر کرنے کا اچھا موقع ہوگا، ہم اچھا کمبی نیشن بنا کر فتح کی پوری کوشش کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ تیسرے ون ڈے میں ٹیم کا آغاز بہت اچھا تھا مگر چند پلیئرز کے رن آؤٹ ہونے سے معاملہ خراب ہوگیا،رننگ کے حوالے سے یہ دن ہمارے لیے بدترین تھا اسی لیے 3 پلیئرز نے ایسے وکٹیں گنوا دیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم رننگ بھول گئے جیسے کمنٹس دیے جائیں، ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔


ایک سوال پر اظہر علی نے کہا کہ جدید ون ڈے کرکٹ میں سب ٹیمیں 300 کے قریب رنز بنانے کی کوشش کرتی ہیں، مگر یقیناً جو پلیئرز پچ پر کھیل رہے ہوں انھیں درست اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کتنا اسکور اچھا رہے گا، میں نہیں سمجھتا کہ گذشتہ میچ میں ہم بہت زیادہ رنز بنانے کی کوشش میں گھبراہٹ کا شکار ہوئے، پلیئرز مثبت کرکٹ کھیل رہے تھے مگر ایک سیٹ بیٹسمین سمیت 3 کھلاڑی رن آؤٹ ہو جائیں تو ٹیم کا پلان تو بگڑ ہی جاتا ہے،پچ بہت اچھی اور اس پر270،280 رنز آرام سے بن سکتے تھے، مگر10 اوورز میں 30،35 رنز کے دوران 6 وکٹیں گرنا ہمیں بھاری پڑ گیا،پلیئرز نے بعض خراب شاٹس بھی کھیلے، البتہ وہاب نے اچھے انداز سے اختتام کر کے اسکور نسبتاً بہتر مقام تک پہنچایا۔

ایک سوال پر کپتان نے کہا کہ ظفر گوہر کا پہلا میچ تھا اور انھوں نے اچھاآغاز کیا،15رنز بنائے جبکہ درست ایریا میں بولنگ سے وکٹیں بھی لیں، میں ان کی پرفارمنس سے بہت خوش ہوں، میچ میں اگر انگلینڈ کی2،4 وکٹیں مزید گر جاتیں تو ہمارے جیتنے کا امکان روشن ہوجاتا۔ کپتان نے کہا کہ ورلڈکپ کے بعد ٹیم میں تجربہ کار پلیئرز کی کمی ہے لیکن انہی باصلاحیت کھلاڑیوں نے پہلے بھی پرفارم کیا ہے،سری لنکا، زمبابوے اور ہوم سیریز یہی اچھا کھیل پیش کر رہے تھے، کھیلتے جائیں گے تو تجربہ بھی آئے گا، یقیناً مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مڈل آرڈر میں تجربے کی کمی تو ہوئی مگر انہی پلیئرز کی اگر حوصلہ افزائی ہوئی تو سال ڈیڑھ سال میں تجربہ کار ہو جائیں گے، ان کی صلاحیت پر کوئی شک نہیں ہے۔

انھوں نے تیسرے ون ڈے میں اہم وقت پر خود بولنگ کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس پچ پرگیند ٹرن ہو رہی تھی ، عرفان کو لانا تھا مگر چانس لینے کیلیے خود آیا کہ شاید ایک،دو وکٹیں مل جائیں مگر بدقسمتی سے یہ حربہ کام نہ آیا،پھر عرفان کو بھی پرانی بال سے نئی جیسی مدد نہ مل سکی۔
Load Next Story