بنوں جیل کے بعد دوسرا منظم حملہ شہر کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان

طویل آپریشن کے بعد صرف 2 دہشت گردوں کی لاشیں ملیں، ابتدا میں تعداد 5 سے8 بتائی گئی


ایکسپریس July 17, 2012
بنوںمیں آپریشن کے دوران ایک بکتربند گاڑی علاقے سے گزررہی ہے ۔ فوٹو/ایکسپریس

تھانہ سٹی کی پرانی عمارت پر شدت پسندوں کے منظم حملے نے ایک بار پھر شمالی و جنوبی وزیرستان کے ساتھ متصل ضلع بنوں کی سکیورٹی پر سوالیہ نشانات لگادئیے ہیں۔ ابتداء میں پولیس ذرائع کی جانب سے بتائی گئی حملہ آورں کی تعداد اور بعد میں طویل مقابلے کے بعد صرف دو حملہ آوروں کی لاشوں کا برآمد ہونا اپنی جگہ ایسا سوال ہے جو بنوں کے خاص و عام حلقوں میں پوچھا جارہا ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق بعض حملہ آوروں کو دو موٹر سائکلوں پر سوار ان کے ساتھیوں نے عمارت کے صدر دروازے کے سامنے اتارا اور چلتے بنے۔ بنوں، جو سنٹرل جیل پر سیکڑوں شدت پسندوں کے حملے سے ابھی پوری طرح سنبھلا نہیں تھا، کے شہری علاقے میں بازار کے بیچوں بیچ تھانے تک شدت پسندوں کا بھاری ہتھیاروں اور دستی بموں سمیت پہنچنا اپنی جگہ بڑا سوال ہے جس کا جواب سکیورٹی اداروں سے ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ بنوں، جہاں خواتین کا مردوں کے ہمراہ موٹرسائکل پر بیٹھنا معیوب سمجھا جاتا ہے کس طرح برقعہ پوش ''خواتین'' پولیس کی عقابی نگاہوں کو جل دیکر اپنے ساتھیوں سمیت ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں؟ بنوں جیل پر بڑے حملے کے بعد بنوں شہر کو اس قسم کی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر صرف پندرہ منٹ میں سیل کرنے کا پلان بنایا گیا تھا جس کی متعدد ریہرسلز بھی کروائی گئی تھی، پھر جب یہ بڑا حملہ ہوا تو اس پلان کا کیا بنا؟ اگر حملہ آوروں کی تعداد دو سے زیادہ تھی تو باقیوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ اور اگر حکام کی یہ بات مان لی جائے کہ حملہ آور صرف دو ہی تھے تو دونوں پر قابو پانے میں فورسز کے سینکڑوں جوانوں نے چار گھنٹے کیوں صرف کئے؟ سارا دن ٹی چینلز پر حملہ آوروں کی تعداد پانچ سے آٹھ تک بتائی جاتی رہی۔

کیا حملہ آوروں کے ساتھی شہر کے اندر ہی کہیں روپوش ہوگئے؟ کچھ حلقے مذکورہ کارروائی کو شمالی وزیرستان میں ممکنہ آپریشن سے بھی جوڑ رہے ہیں جہاں کے بارے میں سنی سنائی اطلاعات ہیں کہ ٹارگٹڈ آپریشن کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ ہوسکتا ہے شدت پسندوں نے ردعمل میں بنوں جیسے قریبی شہر میں بڑے پیمانے پر حملوں کا پیغام دیا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں